0
Friday 25 Dec 2020 08:41

غیر اللہ سے مدد طلب کرنا(5)

غیر اللہ سے مدد طلب کرنا(5)
تحریر: انجنئیر سید حسین موسوی

جائز وسیلہ کے لیے دلیل:
وسیلہ کے بحث ‏کے اندر یہ ایک اہم روایت ہے جس کو متعدد محدثین نے روایت کیا ہے مثال: صحيح ابن خزيمه، ج ٢، ص ٢٢٥ ، ح ١٢١٩ ؛ سنن ترمذي ج ٥، ص ٥٦٩ ،ح ٣٥٧٨ ؛ سنن ابن ماجه، ج ١، ص ٤٤١ ح ١٣٨٥؛ سنن کبرى، نسائى ج ٦، ص ١٦٨ ص ١٦٩، ح ١٠٤٩٦ ح ١٠٤٩٤؛ مسند احمد، ج ٤ص ١٣٨؛ علل ابي حاتم، ج ٢، ص ١٩٠، ح ٢٠٦٤ ؛ تاريخ کبير بخارى، ج ٩، ص ٢٠٩ ؛ مستدرک حاکم ج ١ص ٤٥٨ ص ٧٠٠ ص ٧٠٧ ح ١١٨٠ ح ٩٠٩ ،ح ١٩٢٩ ، ح ١٩٣٠ ، نے چار اسناد سے اسے روایت کیا ہے۔
ہم سنن ابن ماجہ کے الفاظ نقل کر رہے ہیں:
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنْصُورِ بْنِ سَيَّارٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ الْمَدَنِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُمَارَةَ بْنِ خُزَيْمَةَ بْنِ ثَابِتٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُثْمَانَ بْنِ حُنَيْفٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَجُلًا ضَرِيرَ الْبَصَرِ، ‏‏‏‏‏‏أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ ادْعُ اللَّهَ لِي أَنْ يُعَافِيَنِي، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "إِنْ شِئْتَ أَخَّرْتُ لَكَ وَهُوَ خَيْرٌ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ شِئْتَ دَعَوْتُ"، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ ادْعُهْ، ‏‏‏‏‏‏"فَأَمَرَهُ أَنْ يَتَوَضَّأَ فَيُحْسِنَ وُضُوءَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَ يُصَلِّيَ رَكْعَتَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏وَيَدْعُوَ بِهَذَا الدُّعَاءِ:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ وَ أَتَوَجَّهُ إِلَيْكَ بِمُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ، ‏‏‏‏‏‏يَا مُحَمَّدُ، ‏‏‏‏‏‏إِنِّي قَدْ تَوَجَّهْتُ بِكَ إِلَى رَبِّي فِي حَاجَتِي هَذِهِ لِتُقْضَى اللَّهُمَّ شَفِّعْهُ فِيَّ"، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو إِسْحَاق:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ۔

عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک نابینا نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کی، آپ میرے لیے اللہ تعالیٰ سے صحت و عافیت کی دعا فرما دیجئیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر تم چاہو تو میں تمہارے لیے آخرت کی بھلائی چاہوں جو بہتر ہے، اور اگر تم چاہو تو میں تمہارے لیے دعا کروں، اس شخص نے کہا: آپ دعا کر دیجئیے، تب آپ نے اس کو حکم دیا کہ وہ اچھی طرح وضو کرے، اور دو رکعت نماز پڑھے، اس کے بعد یہ دعا کرے: "اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ وَ أَتَوَجَّهُ إِلَيْكَ بِمُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ، ‏‏‏‏‏‏يَا مُحَمَّدُ، ‏‏‏‏‏‏إِنِّي قَدْ تَوَجَّهْتُ بِكَ إِلَى رَبِّي فِي حَاجَتِي هَذِهِ لِتُقْضَى اللَّهُمَّ شَفِّعْهُ فِيَّ"۔ اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں، اور تیری طرف توجہ کرتا ہوں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو نبی رحمت ہیں، اے محمد! میں نے آپ کے ذریعہ سے اپنے رب کی جانب اس کام میں توجہ کی تاکہ پورا ہو جائے، اے اللہ! تو میرے حق میں ان کی شفاعت قبول فرما"۔ ابو اسحاق نے کہا: یہ حدیث صحیح ہے۔ (سنن ابن ماجه حدیث نمبر: 138) تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الدعوات ۱۱۹ (۳۵۷۸)، (تحفة الأشراف: ۹۷۶۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۱۳۸) (صحیح)۔

• المستدرک الحاکم میں یہ جملہ بھی ہے کہ: قال عثمان فوالله ما تفرقنا ولا طال بنا حتى دخل الرجل وكانه لم يكن به ضر قطعثمان بن حنیف کہتا ہے:پھر اللہ کی قسم ہم ابھی وہیں بیٹھے ہی تھے زیادہ وقت نہیں گذرا کہ وہ شخص ہمارے پاس آیا اور ایسا تھا کہ جیسے اس میں کوئی نابینا پن تھا ہی نہیں۔(مستدرک:ج:۱: حدیث:۱۱۸۰) ۔ عثمان بن حنیف کے الفاظ "وہ شخص ہمارے پاس آیا" سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ شخص وہاں سے چلا گیا تھا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی غیر موجودگی میں اس نے وہ نماز پڑھی اور دعا مانگی اور جملہ، ‏‏‏‏‏‏يَا مُحَمَّدُ، ‏‏‏‏‏‏إِنِّي قَدْ تَوَجَّهْتُ بِكَ إِلَى رَبِّي "اے محمد میں آپ کے وسیلے سے اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتا ہوں" کہا۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ عمل جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موجودگی میں جائز ہے اسی طرح ان کی غیبت میں بھی جائز ہے۔

• خود سلفی امام ابن تیمیہ نے اپنی کتاب قاعدہ جلیلہ میں ابوبکر بن خیثمہ کی تاریخ سے نقل کیا ہے کہ نبی اکرم نے اس نابینا کو یہ جملہ بھی فرمایا تھا: "و إن كانت حاجة فافعل مثل ذلك" تمہیں جب حاجت پیش آئے تو اسی طرح کرنا۔ (کتاب قاعدہ جلیلہ فی التوسل والوسیلہ:ص:۱۰٦) جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عمل رسول اللہ کے سامنے یا انکی غیبت میں، انکی زندگی میں یا ان کی وفات کے بعد بھی انجام دیا جا سکتا ہے۔
• صحابی رسول حضرت عثمان بن حنیف کو تو یقین تھا کہ یہ عمل رسول اللہ کی زندگی کے بعد بھی انجام دیا جائے گا۔ اس لیے انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد ایک شخص کو اس پر عمل کرنے کا حکم دیا تھا:

وَعَنْ عُثْمَانَ بْنِ حُنَيْفٍ أَنَّ رَجُلًا كَانَ يَخْتَلِفُ إِلَى عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ فِي حَاجَةٍ لَهُ فَكَانَ عُثْمَانُ لَا يَلْتَفِتُ إِلَيْهِ وَلَا يَنْظُرُ فِي حَاجَتِهِ فَلَقِيَ عُثْمَانَ بْنَ حُنَيْفٍ فَشَكَا ذَلِكَ إِلَيْهِ فَقَالَ لَهُ عُثْمَانُ بْنُ حُنَيْفٍ: ائْتِ الْمِيضَأَةَ فَتَوَضَّأْ ثُمَّ ائْتِ الْمَسْجِدَ فَصَلِّ فِيهِ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ قُلِ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ وَ أَتَوَجَّهُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّنَا مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - نَبِيِّ الرَّحْمَةِ، يَا مُحَمَّدُ إِنِّي أَتَوَجَّهُ بِكَ إِلَى رَبِّي فَيَقْضِي لِي حَاجَتِي، وَتَذْكُرُ حَاجَتَكَ، وَرُحْ إِلَيَّ حِينَ أَرُوحُ مَعَكَ فَانْطَلَقَ الرَّجُلُ فَصَنَعَ مَا قَالَ لَهُ ثُمَّ أَتَى بَابَ عُثْمَانَ فَجَاءَ الْبَوَّابُ حَتَّى أَخَذَ بِيَدِهِ فَأَدْخَلَهُ عَلَى عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ فَأَجْلَسَهُ مَعَهُ عَلَى الطِّنْفِسَةِ وَقَالَ: حَاجَتُكَ؟ فَذَكَرَ حَاجَتَهُ فَقَضَاهَا لَهُ ثُمَّ قَالَ لَهُ: مَا ذَكَرْتَ حَاجَتَكَ حَتَّى كَانَتْ هَذِهِ السَّاعَةُ،

وَقَالَ: مَا كَانَتْ لَكَ مِنْ حَاجَةٍ فَائْتِنَا، ثُمَّ إِنَّ الرَّجُلَ خَرَجَ مِنْ عِنْدِهِ فَلَقِيَ عُثْمَانَ بْنَ حُنَيْفٍ فَقَالَ لَهُ: جَزَاكَ اللَّهُ خَيْرًا مَا كَانَ يَنْظُرُ فِي حَاجَتِي وَلَا يَلْتَفِتُ إِلَيَّ حَتَّى كَلَّمْتَهُ فِيَّ، فَقَالَ عُثْمَانُ بْنُ حُنَيْفٍ: وَاللَّهِ مَا كَلَّمْتُهُ وَلَكِنْ «شَهِدْتُ رَسُولَ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - وَ أَتَاهُ رَجُلٌ ضَرِيرٌ فَشَكَا إِلَيْهِ ذَهَابَ بَصَرِهِ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: " أَوَ تَصْبِرُ؟ " فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّهُ لَيْسَ لِي قَائِدٌ وَقَدْ شَقَّ عَلَيَّ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: " ائْتِ الْمِيضَأَةَ فَتَوَضَّأْ ثُمَّ صَلِّ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ ادْعُ بِهَذِهِ الْكَلِمَاتِ» فَقَالَ عُثْمَانُ بْنُ حُنَيْفٍ: فَوَاللَّهِ مَا تَفَرَّقْنَا وَطَالَ بِنَا الْحَدِيثُ حَتَّى دَخَلَ عَلَيْهِ الرَّجُلُ كَأَنَّهُ لَمْ يَكُنْ بِهِ ضَرَرٌ قَطُّ.( مسند أحمد بن حنبل ج 17، ص 42 ،ح: 23476) امام طبرانی نے فرمایا ہے کہ:
والحديث صحيح (الطبراني - المعجم الصغير - الجزء : ( 1 ) – حدیث 508 رقم الصفحة:306)

ایک آدمی اپنی حاجت کے لیےحضرت عثمان کے پاس آتا رہتا تھا لیکن وہ ان کی طرف توجہ نہیں کرتے تھے اور اس کی حاجت پوری نہیں کرتے تھے۔ اس نے عثمان بن حنیف سے اس چیز کی شکایت کی۔ اسے نے کہا وضو خانہ میں جا وضو کرو اور مسجد میں آکر دو رکعت نماز پڑھو۔ پھر کہو: میرے معبود! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں ہمارے نبی محمد کے ذریعہ سے جو نبی رحمت ہیں۔ اے محمد! میں آپ کے ذریعے سے آپکے رب جو میرا بھی رب ہے کی بارگاہ میں متوجہ ہوتا ہوں کہ میری حاجت پوری فرمائے۔ پھر اپنی حاجت طلب کرو۔ پھر میرے پاس آ ؤ میں تمہارے ساتھ چلتا ہوں۔ وہ آدمی گیا اور جیسے اسے ابن حنیف نے کہا تھا ویسے کیا۔ پھر عثمان (خلیفہ) کے دروازے پر آیا۔ تو دربان آیا اور اسے عثمان بن عفان کے پاس لے گیا اور اس کے ساتھ ایک دری پر بٹھا دیا۔ اس نے پوچھا: کیا حاجت ہے؟ اس نے حاجت بتائی اور اس نے وہ پوری کردی اور کہا کہ: مجھے تیری حاجت یاد نہیں تھی ابھی یاد آئی ہے۔ اور کہا: تمہیں جب بھی حاجت ہو میرے پاس آو۔

وہ آدمی وہاں سے نکلا اور عثمان بن حنیف کے پاس آیا اور کہا: اللہ آپ کو جزائے خیر دے وہ (خلیفہ) میری طرف متوجہ نہیں ہوتے تھے یہاں تک کہ آپ نے میرے متعلق ان سے بات کی۔ عثمان بن حنیف نے کہا: اللہ کی قسم میں نے ان سے کوئی بات نہیں کی۔ میں نے تو ایک مشاہدہ کیا تھا کہ ایک نابینا آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آیا اور نظر کے جانے کی شکایت کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: صبر کرے گا؟ اس نے کہا کہ میں راہ دکھانے والے کی مدد سے چلتا ہوں یہ میرے لئے سخت ہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا: وضوء خانہ جاؤ وضو کرو اور دو رکعت نماز پڑھو پھر یہ دعا پڑھو۔ عثمان بن حنیف نے کہا: ہم ابھی وہیں بیٹھے تھےاور تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ وہ (نابینا) ہمارے پاس (وضو، نماز اور دعا کے بعد) آیا وہ ایسے تھا جیسے اسے کوئی نابیناپن تھا ہی نہیں۔


• یاد رہے کہ اس نابینا نے تو دعاء کے لیے گذارش کی تھی لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو الفاظ اس کو سکھائے وہ یہ ہیں: "يَا مُحَمَّدُ إِنِّي أَتَوَجَّهُ بِكَ إِلَى رَبِّي" اے محمد میں آپ کو اپنے رب کی بارگاہ میں وسیلہ بنا کر متوجہ ہوتا ہوں، سے واضح ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسم نے اسے نبی اکرم کی ذات کو وسیلہ بنانے کا حکم دیا صرف ان کی دعا کو نہیں۔ جو روایات اس واقعہ کو بیان کرنے والی ہیں ان میں سے کسی میں بھی اس چیز کا ذکر نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اس کے لیے دعا کی ہو۔ ان دو روایات سے جائز اقسام کے تمام وسیلے جائز ثابت ہوئے۔ علامہ البانی کو بھی بین السطور یہ تسلیم کرنا پڑا کہ یہاں شخصیت کو وسیلہ بنایا جا رہا ہے لیکن پھر کہتے ہیں کہ یہ صرف نبی اکرم کے لیے مخصوص ہے کوئی اور نہیں بن سکتا:

لو صح أن الأعمى إنما توسل بذاته، فيكون حكماً خاصاً به، لا يشاركه فيه غيره من الأنبياء والصالحين، وإلحاقهم به مما لا يقبله النظر الصحيح، لأنه سيدهم و أفضلهم جميعاً، فيمكن أن يكون هذا مما خصه الله به عليهم ككثير مما صح به الخبر، وباب الخصوصيات لا تدخل فيه القياسات، فمن رأى أن توسل الأعمى كان بذاته لله، فعليه أن يقف عنده، ولا يزيد عليه كما نقل عن الإمام أحمد والشيخ العز بن عبد السلام رحمهما الله تعالى. هذا هو الذي يقتضيه البحث العلمي مع الإنصاف، والله الموفق للصواب. (التوسل أنواعه وأحكامه؛ علامة الباني) اگر یہ صحیح ہو کہ نابینا نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کو ہی وسیلہ بنایا تھا تو یہ حکم خاص ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اس میں ان کے ساتھ انبیاء اور صالحین داخل نہیں اور ان کو آپ کے ساتھ ملانا صحیح نظریہ نہیں ہے کیونکہ وہ ان کے سردار ہیں ان سب سے افضل ہیں۔ ممکن ہے اللہ نے ان کو یہ خصوصیت عطا کی ہو جیسے صحیح احادیث میں ان کی خصوصیات بیان ہوئی ہیں۔ خصوصیات کے باب میں قیاس سے کسی کو داخل نہیں کیا جاتا۔ تو جس کا یہ نظریہ ہے کہ نابینا کا اللہ کی بارگاہ میں توسل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے تھا تو اس کو اس پر لازم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک رک جائے کسی اور کو اس میں شامل نہ کرے۔ جیسے امام احمد بن حنبل اور شیخ عزبن عبد السلام رحمہما اللہ سے روایت کیا گیا ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو علمی بحث کا تقاضا ہے انصاف کے ساتھ۔ اللہ ہی حقیقت کو جاننے والا ہے۔


امام حاکم اور ابن حجر عسقللانی نے یہ روایت بیان کرکے علامہ البانی کا یہ بہانہ بھی ختم کردیا ہے کہ یہ نبی اکرم تک محدود ہے: "حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِاللهِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ الشَّيْبَانِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ، حَدَّثَنَا مُحَاضِرُ بْنُ الْمُوَرِّعِ ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ قَارِئًا يَقْرَأُ (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ، وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ قَالَ: الْقُرْبَةَ، ثُمَّ قَالَ لَقَدْ عَلِمَ الْمَحْفُوظُونَ مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ ابْنَ أُمِّ عَبْدٍ مِنْ أَقْرَبِهِمْ إِلَى اللهِ وَسِيلَةً"
حذیفہ یمانی نے کسی کو یہ آیت پڑھتے ہوئے سنا: "اے ایمان والو اللہ کی نافرمانی سے بچو اور اس تک پہنچنے کے لیے وسیلہ اختیار کرو" تو کہا کہ مقصد قرب حاصل کرنا ہے۔ جو اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے صاحب مقام و منزلت ہیں وہ جانتے ہیں کہ عبد اللہ ابن مسعود نزدیک ترین وسیلہ ہیں اللہ تک۔ (مستدرک حاکم، ج ٢،ص ٣٤١ ،ح ٣٢١٦ ؛ فتح البارى،ج ٧، ص ٨٠) جب ذیلی طور پر علامہ البانی نے یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ امام احمد بن حنبل اور عز بن عبد السلام جیسی شخصیات بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات کو وسیلہ بنانے کا عقیدہ رکھتی تھیں تو پھر آج مسلمانوں کے خلاف شرک و کفر کے فتاویٰ ان کی جان، مال، عزت و آبرو پر حملے، قتل و غارت کیوں ہے؟

خود ابن تیمیہ نے تسلیم کیا ہے کہ اس طرح کے توسل کا عمل سلف میں رائج رہا ہے۔ کہتا ہے: "ورُوي في ذلك أثر عن بعض السلف، مثل ما رواه ابن أبي الدنيا في كتاب مجابي الدعاء، قال: حدثنا أبو هاشم، سمعت كثيرابن محمد ابن كثير بن رفاعة يقول: جاء رجل إلى عبد الملك بن سعيد ابن أبجر، فجس بطنه فقال: بك داء لا يبرأ. قال: ماهو؟ قال: الدُّبَيْلة. قال: فتحول الرجل فقال: الله الله، الله ربي، لا أشرك به شيئاً، اللهم إني أتوجه إليك بنبيك محمد نبي الرحمة e تسليماً، يا محمد إني أتوجه بك إلى ربك و ربي يرحمني مما بي. قال فجس بطنه فقال: قد برئت ما بك علة۔ قلت: فهذا الدعاء و نحوه قد روي أنه دعا به السلف، و نقل عن أحمد بن حنبل في منسك المروذي التوسل بالنبي في الدعاء، و نهى به آخرون۔" (قاعــدة جليلــة في التوسل والوسيلة: ابن تیمیہ)۔ اس طرح کا عمل بعض سلف سے مروی ہے۔ جیسے ابن ابی الدنیا نے اپنی دعاء کی کتاب مجابی الدعاء میں کہا ہے کہ:

ہم سے ابو ہاشم نے بیان کیاکہ اس نے کثیربن محمد سے سنا وہ کہہ رہے تھے، ایک آدمی عبدالملک بن سعید بن ابجر کے پاس آیا۔ اس نے اسکے پیٹ کا معائنہ کیا اور کہا تجھے جو مرض ہے اس کی کوئی دوا نہیں ہے۔ اس نے پوچھا کونسا مرض ہے؟ کہا: دُبیلہ۔ تو وہ بہت پریشان ہوا اور کہنے لگا:،اللہ اللہ اللہ میرا رب ہے، میں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا۔ اللهم إني أتوجه إليك بنبيك محمد نبي الرحمة تسليماً، يا محمد إني أتوجه بك إلى ربك وربي يرحمني مما بي۔ یا اللہ میں تیرے اس نبی کے وسیلے سے تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں جو نبی رحمت ہیں۔ یا محمد ! میں آپ کے وسیلے سے آپ کے رب کی طرف متوجہ ہوتا ہوں جو میرا بھی رب ہے کہ جس مرض میں ہوں مجھ پر رحم فرمائے۔ (جب اس نے یہ دعا پڑھی) تو اس نے دوبارہ اس کا معاینہ کیا اور کہا تو مرض سے شفایاب ہو گیا ہے۔ میں (ابن تیمیہ) کہتا ہوں، یہ دعا اور اس جیسی دعائیں سلف نے کی ہیں۔ مروذی نے منسک میں امام احمد بن حنبل سے دعا میں نبی سے توسل نقل کیا ہے۔ جبکہ دوسروں نے اس سے روکا ہے۔ اب روکا کس نے ہے؟ ابن تیمیہ نے اس کی نسبت امام ابوحنیفہ کی طرف دی ہے جسے حنفی علماء نے رد کردیا ہے۔

حضرت ابوطالب کا شعر:
امام بخاری نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے نماز استسقاء پڑھنے اور صحابہ کی طرف سے حضرت ابوطالب کا ایک شعر مسلسل دو روایات میں بیان کیا ہے، "حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو قُتَيْبَةَ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ يَتَمَثَّلُ بِشِعْرِ أَبِي طَالِبٍ:
وَ أَبْيَضَ يُسْتَسْقَى الْغَمَامُ بِوَجْهِهِ
ثِمَالُ الْيَتَامَى عِصْمَةٌ لِلْأَرَامِلِ۔

راوی نے کہا کہ میں نے عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کو ابوطالب کا یہ شعر پڑھتے سنا تھا: (ترجمہ) گورا ان کا رنگ ان کے منہ کے واسطہ سے بارش کی (اللہ سے) دعا کی جاتی ہے۔

یتیموں کی پناہ اور بیواؤں کے سہارے:
وَ قَالَ عُمَرُ بْنُ حَمْزَةَ حَدَّثَنَا سَالِمٌ عَنْ أَبِيهِ رُبَّمَا ذَكَرْتُ قَوْلَ الشَّاعِرِ وَ أَنَا أَنْظُرُ إِلَى وَجْهِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَسْقِي فَمَا يَنْزِلُ حَتَّى يَجِيشَ كُلُّ مِيزَابٍ وَأَبْيَضَ يُسْتَسْقَى الْغَمَامُ بِوَجْهِهِ * ثِمَالُ الْيَتَامَى عِصْمَةٌ لِلْأَرَامِلِ وَ هُوَ قَوْلُ أَبِي طَالِبٍ"۔ سالم (بن عبداللہ بن عمر) نے اپنے والد (عبداللہ بن عمر) سے بیان کیا وہ کہا کرتے تھے کہ اکثر مجھے شاعر (ابوطالب) کا شعر یاد آ جاتا ہے۔ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ کو دیکھ رہا تھا کہ آپ دعا استسقاء (منبر پر) کر رہے تھے اور ابھی (دعا سے فارغ ہو کر) اترے بھی نہیں تھے کہ تمام نالے لبریز ہو گئے۔ "وأبيض يستسقى الغمام بوجهه ثمال اليتامى عصمة للأرامل" (ترجمہ) گورا رنگ ان کا، وہ حامی یتیموں، بیواؤں کے لوگ ان کے منہ کے صدقے سے پانی مانگتے ہیں۔ (صحیح بخاری: كتاب: الاستسقاء،بَابُ:3: سُؤَالِ النَّاسِ الإِمَامَ الاِسْتِسْقَاءَ إِذَا قَحَطُوا: حدیث:1008 و 1009) اس شعر میں یہ نہیں کہا گیا کہ لوگ ان صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بارش کی دعا کی طلب کرتے ہیں بلکہ کہا گیا ہے کہ لوگ ان کے سفید چہرے کے وسیلہ سے بادل سے بارش طلب کرتے ہیں۔ یہ شعر دلیل ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کو وسیلہ بنانا جائز ہے بلکہ اس دور میں رائج تھا۔

نور محمدی واسطہ فیض خدا ہے:
محققین مکتب اہلبیت، تمام مسلمان عرفاء اور حکماء کا یہ نظریہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے سب سے پہلے نور محمدی کو وجود کے زیور سے آراستہ فرمایا۔
ثقه الاسلام کلینی روایت کرتے ہیں، "أَحْمَدُ بْنُ إِدْرِيسَ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى وَ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ‏عَنْ عَلِيِّ بْنِ حَدِيدٍ عَنْ مُرَازِمٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: قَالَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى يَا مُحَمَّدُ إِنِّي خَلَقْتُكَ وَ عَلِيّاً نُوراً يَعْنِي رُوحاً بِلَا بَدَنٍ قَبْلَ أَنْ أَخْلُقَ سَمَاوَاتِي وَ أَرْضِي وَ عَرْشِي وَ بَحْرِي فَلَمْ تَزَلْ تُهَلِّلُنِي وَ تُمَجِّدُنِي ثُمَّ جَمَعْتُ رُوحَيْكُمَا فَجَعَلْتُهُمَا وَاحِدَةً فَكَانَتْ تُمَجِّدُنِي وَ تُقَدِّسُنِي وَ تُهَلِّلُنِي ثُمَّ قَسَمْتُهَا ثِنْتَيْنِ وَ قَسَمْتُ الثِّنْتَيْنِ ثِنْتَيْنِ فَصَارَتْ أَرْبَعَةً مُحَمَّدٌ وَاحِدٌ وَ عَلِيٌّ وَاحِدٌ وَ الْحَسَنُ وَ الْحُسَيْنُ ثِنْتَانِ ثُمَّ خَلَقَ اللَّهُ فَاطِمَةَ مِنْ نُورٍ ابْتَدَأَهَا رُوحاً بِلَا بَدَنٍ ثُمَّ مَسَحَنَا بِيَمِينِهِ فَأَفْضَى نُورَهُ فِينَا"۔ (الاصول کافی: کتاب: الحجه: باب باب مَوْلِدِ النَّبِيِّ ( صلى الله عليه وآله ) وَ وَفَاتِهِ: حدیث:10)۔

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا، اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے، اے محمد میں نے آپ کو خلق کیا اور علی کو بصورت نور یعنی روح بغیر بدن کے، قبل اس کے کہ میں خلق کرتا اپنے آسمان، زمین، عرش اور بحر کو ۔ پھر آپ میری تہلیل اور تمجید کرتے رہے۔ پھر میں نے آپ دونوں کے روح کو جمع کیا اور دونوں کو ایک بنایا۔ وہ میری تمجید، تقدیس اور تہلیل کرتا رہا۔ پھر میں نے اسے دو حصہ کیا پھر ان دونوں کو بھی دو دو حصہ کیا تو چار بنے ایک حصہ محمد، ایک حصہ علی اور باقی دو حسن و حسین بنے۔ پھر اللہ نے فاطمہ کو ایک نئے نور سے خلق کیا بغیر بدن کے۔ پھر اس نے اپنے دست قدرت سے ہمیں مسح کیا تو وہ نور ہمارے اندر آ گیا۔ ثقه الاسلام کلینی روایت کرتے ہیں: "الْحُسَيْنُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِنَانٍ عَنِ الْمُفَضَّلِ عَنْ جَابِرِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ قَالَ لِي أَبُو جَعْفَرٍ ( عليه السلام ) يَا جَابِرُ إِنَّ اللَّهَ أَوَّلَ مَا خَلَقَ خَلَقَ مُحَمَّداً ( صلى الله عليه وآله ) وَ عِتْرَتَهُ الْهُدَاةَ الْمُهْتَدِينَ فَكَانُوا أَشْبَاحَ نُورٍ بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ۔۔۔۔" امام محمد باقر علہ السلام فرماتے ہیں، اے جابر! اللہ تبارک و تعالیٰ نے سب سے پہلے محمد کو خلق فرمایا اور اس کی عترت کو جو ہدایت یافتہ ہادی ہیں۔ وہ اللہ کی بارگاہ میں نوری اشباح تھے۔

اس مضمون کی روایات اسقدر ہیں کہ حد تواتر تک پہنچ جاتی ہیں۔ پھر دوسرے مرحلہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اسی نور سے عرش و کرسی اور ملائکہ کے عالم کو وجود بخشا: علامہ مجلسیؒ نے اپنی کتاب بحارالانوار میں کنز جامع الفوائد سے دو روایات نقل کی ہیں جو اصل میں السيد شرف الدين علي الحسيني الاسترابادي النجفي (دسوین صدی ہجری کے فقیہ اور مفسر ہیں) کی کتاب تاویل الآیات سے ہیں جس میں سے ایک کا راوی حضرت عباس (رسول اللہ کا چچا) ہیں جبکہ دوسری روایت عبد اللہ بن مسعود سے ہے۔ ان دونوں روایات میں عرش و کرسی اور باقی جہان کے تخلیق کا ذکر ہے۔ حدیث طویل ہے ہم اپنے موضوع کے حوالے سے اس کا ایک حصہ بیان کرتے ہیں:

"۔۔۔۔ فَلَمَّا أَرَادَ اللَّهُ تَعَالَى أَنْ يُنْشِئَ الصَّنْعَةَ فَتَقَ نُورِي فَخَلَقَ مِنْهُ الْعَرْشَ فَالْعَرْشُ مِنْ نُورِي وَ نُورِي مِنْ نُورِ اللَّهِ وَ نُورِي أَفْضَلُ مِنَ الْعَرْشِ ثُمَّ فَتَقَ نُورَ أَخِي عَلِيٍّ فَخَلَقَ مِنْهُ الْمَلَائِكَةَ فَالْمَلَائِكَةُ مِنْ نُورِ عَلِيٍّ وَ نُورُ عَلِيٍّ مِنْ نُورِ اللَّهِ وَ عَلِيٌّ أَفْضَلُ مِنَ الْمَلَائِكَةِ ثُمَّ فَتَقَ نُورَ ابْنَتِي فَاطِمَةَ فَخَلَقَ مِنْهُ السَّمَاوَاتِ وَ الْأَرْضَ فَالسَّمَاوَاتُ وَ الْأَرْضُ مِنْ نُورِ ابْنَتِي فَاطِمَةَ وَ نُورُ ابْنَتِي فَاطِمَةَ مِنْ نُورِ اللَّهِ وَ ابْنَتِي فَاطِمَةُ أَفْضَلُ مِنَ السَّمَاوَاتِ وَ الْأَرْضِ ثُمَّ فَتَقَ نُورَ وَلَدِي الْحَسَنِ وَ خَلَقَ مِنْهُ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ فَالشَّمْسُ وَ الْقَمَرُ مِنْ نُورِ وَلَدِيَ الْحَسَنِ وَ نُورُ الْحَسَنِ مِنْ نُورِ اللَّهِ وَ الْحَسَنُ أَفْضَلُ مِنَ الشَّمْسِ وَ الْقَمَرِ ثُمَّ فَتَقَ نُورَ وَلَدِيَ الْحُسَيْنِ فَخَلَقَ مِنْهُ الْجَنَّةَ وَ الْحُورَ الْعِينَ فَالْجَنَّةُ وَ الْحُورُ الْعِينُ مِنْ نُورِ وَلَدِيَ الْحُسَيْنِ وَ نُورُ وَلَدِيَ الْحُسَيْنِ مِنْ نُورِ اللَّهِ وَ وَلَدِيَ الْحُسَيْنُ أَفْضَلُ مِنَ الْجَنَّةِ وَ الْحُورِ الْعِينِ"۔

۔۔۔۔پھر جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے مخلوق کو بنانے کا ارادہ کیا تو میرے نور کو توڑا اور اس میں سے عرش کو بنایا اسلیے عرش میرے نور سے ہے اور میرا نور اللہ کے نور سے ہے اور میرا نور عرش سے افضل ہے۔ پھر میرے بھائی علی کے نور کو توڑا اور اس میں سے ملائکہ کا نور بنایا اسلیے ملائکہ علی کے نور سے ہیں اور علی کا نور اللہ کے نور سے ہے اور علی ملائکہ سے افضل ہیں۔ پھر میری بیٹی فاطمہ کے نور کو توڑا اور اس میں سے آسمان اور زمین بنائی اسلیے آسمان و زمین میری بیٹی فاطمہ کے نور سے ہیں اور فاطمہ کا نور اللہ کے نور سے ہے اور فاطمہ آسمانوں اور زمین سے افضل ہیں۔ پھر میرے بیٹے حسن کے نور کو توڑا اس میں سے سورج اور چاند بنائے اسلیے سورج اور چاند میرے بیٹے حسن کے نور سے ہیں اور حسن کا نور اللہ کے نور سے ہے اور حسن افضل ہیں سورج اور چاند سے۔ پھر میرے بیٹے حسین کے نور کو توڑا اور اس سے جنت اور حورالعین کو بنایا اسلیے جنت اور حورالعین میرے بیٹے حسین کے نور سے ہیں اور میرے بیٹے حسین کا نور اللہ کے نور سے ہےاور حسین افضل ہیں جنت اور حورالعین سے۔۔۔۔ (تأويل الآيات الظاهرة في فضائل العترة الطاهرة ص: 145)۔

اسلیے اللہ تبارک و تعالیٰ کا فیض سب سے پہلے نور محمدی پر آتا ہے اور وہاں سے نازل ہو کر عرش و کرسی اور زمین اور آسمان پر آتا ہے۔ اسلئے ان کا یہ "مقام نور" عالمین کے لئے وسیلہ فیض ہے۔ علامہ مجلسیؒ اپنی کتاب مرآ‌‌ة العقول فی شرح اخبار آل الرسول جو کہ الکافی الکلینی کی شرح ہے کی جلد 12 ص:87، 88 اور 89 پر الکافی کی کتاب الدعا: بَابُ الصَّلَاةِ عَلَى النَّبِيِّ مُحَمَّدٍ وَ أَهْلِ بَيْتِهِ عَلَيْهِمُ السَّلَامُ، کی پہلی حدیث کی شرح میں سب سے پہلے آل محمد کی تصریح فرماتے ہوئے کہتے ہیں: "و آل النبي‏ عند الإمامية عترته الطاهرة و أصحاب العصمة" امامیہ کے نزدیک آل النبی سے مراد عترت طاہرہ اور معصومین علیہم السلام ہیں۔ اہلسنت کے متعلق فرماتے ہیں: "و للعامة فيه اختلاف كثير، فقيل: آله أمته، و قيل: عشيرته، و قيل: من حرم عليه أخذ الزكاة من بني هاشم و بني عبد المطلب" اہلسنت کے نزدیک بہت اختلاف ہے کچھ کہتے ہیں کہ آل سے مراد انکی امت ہے، کچھ کہتے ہیں کہ انکے رشتے دار ہیں، کچھ کہتے ہیں بنی ہاشم اور بنی عبد المطلب میں سے جن پر زکات حرام ہے۔

اسکے بعد حدیث کہ "دعا تب تک حجاب میں رہتی ہے جب تک محمد و آل محمد پر صلوات نہ پڑھی جائے" کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "الخامس: أن المقصود من إيجاد الثقلين و سائر الموجودات و القابل من فيوض الفائضة من بدو الإيجاد إلى ما لا يتناهى من الأزمنة و الأوقات هو رسول الله و أهل بيته عليهم أفضل الصلوات، فلهم الشفاعة الكبرى في هذه النشأة و النشأة الأخرى و بواسطتهم تفيض الرحمات على جميع الورى"۔ پانچواں سبب: جن و انس اور سب موجودات اور فیض پانے کے قابل مخلوقات، کی ایجاد کا مقصد، جب سے وہ ایجاد ہوئے ہیں اور لا متناہی زمانے تک، رسول اللہ اور انکے اہلبیت علیہم افضل الصلوات والسلام ہیں۔ ان ہی کے لیے شفاعت کبریٰ کا مقام ہے اور انہی کے واسطہ سے تمام مخلوقات پر رحمتیں برستی ہیں۔

پھر چھٹے نکتے میں اس کی تفصیل بیان فرماتے ہوئے لکھتے ہیں: 'السادس: أنهم صلوات الله عليهم وسائط بيننا و بين ربنا تقدس و تعالى في إيصال الحكم و الأحكام منه إلينا لعدم ارتباطنا بساحة جبروته و بعدنا عن حريم ملكوته فلا بد أن يكون بيننا و بين ربنا سفراء و حجب ذوو جهات قدسية و حالات بشرية يكون لهم بالجهات الأول ارتباط بالجناب الأعلى يأخذون عنه و يكون لهم بالجهات الثانية مناسبة للخلق يلقون إليهم ما أخذوا من ربهم.و لذا جعل الله سفراءه و أنبياءه و ظاهرا من نوع البشر و باطنا مباينين عنهم في أطوارهم و أخلاقهم و نفوسهم و قابلياتهم فهم مقدسون روحانيون قائلون:" إِنَّما أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ*" لئلا ينفر عنهم أمتهم و ليقبلوا منهم و يأنسوا بهم. فكذلك في إفاضة سائر الفيوض و الكمالات هم وسائط بين ربهم و بين سائر الموجودات فكل فيض وجود يبتدأ بهم صلوات الله عليهم ثم ينقسم على سائر الخلق، فالصلوات عليهم استجلاب للرحمة من معدنها و للفيوض إلى مقسمها لتنقسم على سائر البرايا بحسب استعداداتها و قابلياتها'.

چھٹا نکتہ: یہ (محمد و آل محمد) پر اللہ کی رحمت ہو، ہمارے اور ہمارے رب مقدس کے درمیان واسطہ ہیں اس سے حکم اور احکام لے کر ہم تک پہنچانے ہیں کیونکہ ہمارا اس ذات باری تعالیٰ سے کوئی رابطہ نہیں ہے اور ہم اس کی ملکوتی بارگاہ سے بہت دور ہیں، اسلیے لازم ہے کہ ہمارے اور ہمارے رب کے درمیان نمائندے اور حجاب ہوں، جن کے مختلف پہلو ہوں قدسی بھی اور بشری بھی، تاکہ پہلے رخ سے اس بارگاہ اعلیٰ سے مربوط ہوں اور اس سے حاصل کریں اور دوسرے رخ سے مخلوق سے مناسبت رکھتے ہوں تاکہ جو اپنے رب سے لیا ہے وہ ان تک پہنچائیں۔ اسلئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے نمائندے اور انبیاء کو ظاہری طور پر نوع انسانی سے بنایا اور باطنی طور پر وہ اطوار، اخلاق، نفوس اور قابلیت میں ان سے جدا ہیں وہ مقدس روحانی کہتے ہیں کہ: إِنَّما أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ ہم تو تم جیسے ہی انسان ہیں، تاکہ انکی امت ان سے اجنبیت محسوس نہ کرے، مانوس ہو اور ان سے قبول کرے۔ اسی طرح سے تمام فیوضات اور کمالات میں یہ حضرات اپنے رب اور باقی تمام موجودات کے درمیان واسطہ ہیں اسلیے وجود کا فیض سب سے پہلے ان صلوات اللہ علیہم کے پاس آتا ہے پھر تمام مخلوقات میں تقسیم ہوتا ہے۔ اسلئے ان حضرات پر صلوات پڑھنا فیض کے سرچشمہ سے مقام تقسیم پر رحمت کی کشش کا سبب بنتا ہے تاکہ پھر مخلوقات میں سے ان کی استعداد اور قابلیت کے مطابق تقسیم ہو"۔ (مرآة العقول في شرح أخبار آل الرسول، ج‏12، ص:87، 88،89)

ہمیں صلوات پڑھنے کا حکم اس لیے دیا گیا ہے تاکہ ہم ان کے اس مرتبہ کو جانیں۔ صلوات میں دعا ہم اصل میں مانگتے اپنے لیے ہیں لیکن چونکہ خدائی فیض کا واسط یہ حضرات ہیں وہاں رحمت نازل ہوگی تو ہم تک بھی پہنچے گی۔ شیخ کلینی روایت کرتے ہیں: "ابْنُ مَحْبُوبٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سِنَانٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ( عليه السلام ) قَالَ سَمِعْتُهُ يَقُولُ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ صَفِيِّكَ وَ خَلِيلِكَ وَ نَجِيِّكَ الْمُدَبِّرِ لِأَمْرِكَ"۔
(الاصول الکافی: کتاب الحجة: باب: باب مَوْلِدِ النَّبِيِّ ( صلى الله عليه وآله ) وَ وَفَاتِهِ حديث:40) عبداللہ بن سنان کہتا ہے میں نے سنا امام جعفرصادق علیہ السلام فرما رہے تھے، میرے معبود! محمد (ص) پر رحمت فرما جو تیرےخالص، تيرے دوست، تیرے رازدان تیرے اوامر کی تدبیر کرنے والے ہیں۔ علامہ مجلسی اسکی شرح میں فرماتے ہیں، "الحديث الأربعون‏: صحيح على الظاهر"، سند کے لحاظ سے یہ ظاہر کی بنا پر صحیح ہیں، پھر فرماتے ہیں، "و كأنه ترك تتمة الدعاء۔۔۔۔۔۔" اس دعا کو پورا روایت نہیں کیا گیا جس حد تک اس میں رسول اللہ کے فضائل تھے وہ بیان ہوئے۔ شیخ کلینیؒ نے باقی حصہ چھوڑ دیا ہے اسلئے یہ گمان نہ ہو کہ بغیر آل محمد کے رسول اللہ پر درود پڑھنا جائز ہے۔

پھر فرماتے ہیں: "المدبر لأمرك، يدل على أن له صلى الله عليه و آله مدخلا في تدبير أمور العالم، و أن الملائكة الموكلين بذلك مأمورين بأمره" المدبر لامرک دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تدبیر امور عالم میں دخل ہے اور ملائکہ جو اس کام پر موکل ہیں وہ آپ کے حکم کے تابع ہیں۔ پھر فرماتے ہیں، "و يمكن أن يراد به أمر الدين كما مر في باب التفويض، أو المراد إجراء أوامر الله بين الخلق"
ہو سکتا ہے کہ اس سے مراد دینی امور ہوں جیسے تفویض کے باب میں ذکر ہو چکا یا ہو سکتا ہے مراد اللہ کے اوامر کو مخلوق میں جاری کرنا ہو۔ (مرآة العقول في شرح أخبار آل الرسول، ج‏5، ص: 272)۔ حقیقت یہ ہے کہ الفاظ چونکہ مطلق ہیں اسلیے یہ سب مراد ہیں۔ اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اس تمام کائنات کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس نوری مقام کے ذریعہ خلق بھی فرماتا ہے اور تدبیر بھی فرماتا ہے۔ اسلیے اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف تدبیر عالم کی نسبت حقیقی ہے جبکہ نور محمدی کی طرف یہی نسبت وسیلہ کی حیثیت سے ہے۔

یاد رہے کہ یہ انکا وہ مقام ہے جو ان کی زمینی ولادت سے پہلے کا ہے۔ ان کی زمینی ولادت کے بعد یہ حضرات جب چاہیں اپنے اس مقام کے ذریعہ کائنات میں تصرف کر سکتے ہیں البتہ انکا ارادہ ہمیشہ ان کے رب کے ارادہ کے تابع رہتا ہے۔ ان حضرات کی زمینی وفات کے بعد ان کے اختیارات کم نہیں ہوتے ویسے ہی رہتے ہیں۔ اس لیے جب ہم ان سے مدد طلب کرتے ہیں تو اسی مقام کے سبب طلب کرتے ہیں جو ان کو اپنے رب کی طرف سے عطا ہوا ہے۔ ہو سکتا ہے ہم کچھ افراد کے لیے حضرات محمد و آل محمد علیہم السلام کے اس مقام وسیلہ اور نور اول کو ثابت نہ کر سکیں کیونکہ ہمارے پاس آئمہ اہلبیت علیہم السلام سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایسی احادیث کا عظیم ذخیرہ موجود ہے، جو برادران اہلسنت یا سلفی حضرات کے پاس موجود نہیں ہے۔ لیکن یہ یاد رہے کہ پھر بھی ہم پر کسی بھی طرح سے شرک کا فتوی نہیں لگ سکتا کیونکہ ہم ان حضرات کو اپنے رب کے ساتھ کسی بھی چیز میں شریک قرار نہیں دیتے۔ اگر سلفی حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ ان حضرات علیہم السلام کو یہ مرتبہ حاصل نہیں ہے تو بھی یہ اسی طرح ہے کہ کوئی انسان کسی بیماری کے دفع کرنے کی خاطر کوئی ایسی دوا کھالے جو بے اثر ہو۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ اس کی بیماری ختم نہیں ہو گی لیکن اسکو کوئی بھی شرک نہیں کہے گا کہ جس چیز کو تم علاج سمجھ کر استعمال کر رہے ہو اس میں یہ اثر نہیں ہے اسلیے تم مشرک ہو۔

تنبیہ:
البتہ ایک موحد انسان کی نظر وسائط میں آکر رک جانا نہیں چاہیئے بلکہ آخری کنارے یعنی خدا تک پہنچنا چاہیئے۔ اسلئے ہر نیک عمل کی نسبت اللہ تبارک و تعالیٰ سے دینا چاہیئے۔ اگر نبی یا اس کے ولی کو پکارے تب بھی اس کی نظر وسیلے سے آگے پرواز کرتی ہوئی اپنے رب تک پہنچنی چاہیئے۔ جب انسان یا علی مدد کہے تو اسکا ایمان ہونا چاہیئے کہ مدد عطا کرنے والا اللہ تبارک و تعالیٰ ہے اور حضرت علی علیہ السلام ہمارا رابطہ اللہ سے جوڑ دیتے ہیں۔ جیسے ہم زندگی میں کسی سے کہتے ہیں کہ بلب جلا دے اور جب وہ بٹن آن کرتا ہے اور بلب جلتا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ فلان نے بلب جلایا ہے۔ جبکہ حقیقت میں اس نے بلب نہیں جلایا بلکہ صرف بلب کا رابطہ بجلی گھر سے جوڑ دیا ہے۔ اسی طرح حقیقی مددگار اللہ تبارک و تعالیٰ ہے اور اولیاء اللہ ہمارا رابطہ اس سے جوڑ دیتے ہیں۔ جب ہماری مدد ہوتی ہے تو ہم کہتے ہیں کہ ہماری مدد ولی اللہ نے کی ہے۔
(جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 903650
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش