0
Monday 14 Dec 2020 15:43

قربت کی راہوں کی تلاش

قربت کی راہوں کی تلاش
رپورٹ: میاں سبطین انصاری

دنیا ایک حساس دور میں داخل ہوچکی ہے۔ ایک طرف  باشعور قومیں ترقی کے مراحل طے کر رہی ہیں، جبکہ دوسری طرف کچھ اقوام تنزلی کی طرف گامزن ہیں۔ کہیں طاقتور کمزوروں کو نگلنے اور ان کے استحصال میں مصروف ہیں اور کہیں آزادی کے متوالے ان غاصب اور طاقتور قوتوں کے خلاف علم مزاحمت بلند کیے ہوئے ہیں۔ اس وقت مسلمان قوم کا شمار موخرالذکر اقوام میں ہوتا ہے۔ دشمن قوتیں مسلم ممالک کو آپس میں الجھا کر اپنے مفادات حاصل کر رہی ہیں۔ ہمارے ناعاقبت اندیش حکمران بھی ان دشمن قوتوں کے زیر اثر ہیں۔ ان کے اندر مسلم امہ کا کوئی درد نہیں رہا۔ آپس میں ہم ایک دوسرے کے اس طرح دشمن بن گئے ہیں کہ کوئی ہماری مادر دھرتی پر  حملہ کرتا ہے تو  اف تک کی بھی آواز نہیں نکلتی۔ کوئی درد کا احساس بیدار نہیں ہوتا، نہ ہی ضمیر ملامت کرتا ہے۔ ہمارے مفادات الگ الگ ہوگئے ہیں  کشمیر، فلسطین اور یمن سمیت ہر مسئلے پر ہم تقسیم ہیں۔ ہمارا نفع و نقصان الگ ہوچکے ہیں۔

 ان مسائل پر بحث اور کسی مجوزہ راہِ حل کا ایک سلسلہ جاری ہے، کشمیر انٹرنیشنل فورم کا چوتھا آنلائن سیشن دس دسمبر کو ہوا۔ جس میں میزبان نذر حافی صاحب نے اپنے ابتدائیے میں مسلم امہ کے مسائل کی طرف توجہ دلائی، انہوں نے مسلم دنیا میں پائی جانے والی بے حسی کا ذکر کیا اور ان مسائل کی طرف اشارہ کیا، جو کمزوری کا باعث بنے۔ جن میں سب سے بڑا مسئلہ باہمی دوریوں کا ہے اور کہا کہ ہر فرقے کی ویب سائٹ پر دیکھ سکتے ہیں کہ ہر فرقہ دوسروں کو فرقہ ضالہ لکھتا ہے۔ ہم ایک دوسرے کی جان کے دشمن ہیں۔ ہم میں اسلاف کی کوئی بات ہی نہیں۔ ہم پدرم سلطان بود تو کہتے ہیں لیکن ہم میں ان کے کردار کی کوئی جھلک نہیں۔ ہم قائداعظم، علامہ اقبال، مولانا مودودی، امام خمینی، عارف حسینی یا قاضی حسین احمد اور دیگر اکابرین کا نام تو لیتے ہیں، لیکن عملاً ان سے ضد کر رہے ہیں۔ آج ضرورت ہے کہ ان کمزوریوں کو دور کرکے اتحاد کا دامن تھاما جائے۔ اس کے ساتھ انہوں نے پہلے سیشن کے مقرر جناب ڈاکٹر ندیم بلوچ صاحب کو خطاب کی دعوت دی۔

ڈاکٹر ندیم صاحب نے قلیل وقت میں بہت پرمغز گفتگو کی، ڈاکٹر صاحب نے حافی صاحب کے ابتدائی بیان کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ اگر اسلامی دنیا کے مسائل حل کرنے ہیں تو طاقت حاصل کرنا ہوگی۔ اگر مسلہ کشمیر یا فلسطین حل کروانا چاہتے ہیں تو اس کے لیے طاقت کا ہونا ضروری ہے۔ چاہے وہ فوجی ہو یا اقتصادی طاقت ہو۔ فقط لیڈرشپ سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ اسی طرح دعاؤں سے بھی کام نہیں چلے گا۔ ہمیں وسیع پیمانے پر جدوجہد، سعی اور کوشش کرنا ہوگی۔ جب آپ طاقت میں ہوں گے تو اپنے مفادات کے خلاف کوئی قانون نہیں بننے دیں گے۔ ایک تاریخی واقعے کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب 1948ء میں ہیومن رائٹس کا قانون بنا تھا۔ اس وقت ہیومن سے مراد گورے تھے، کیونکہ وہ طاقت میں تھے۔ انہوں نے اپنی مرضی کا قانون بنایا، اگرچہ بعد میں اس پہ واویلا ہوا اور باقی قومیتیں بھی شامل ہوئیں۔

یہی وجہ ہے کہ آج بھی اگر کہیں ایک آدھ گورا امریکی مارا جائے تو شور مچ جاتا ہے، لیکن دس افریقی مارے جائیں تو کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا۔ انہوں نے کہا کہ  اس کے ساتھ ساتھ سفارتکاری پہ بہت توجہ دینا ہوگی، لیکن سفارتکار ی بھی اس وقت متاثر کن ہوگی، جب آپ قوت میں ہونے کے ساتھ ساتھ مخلص اور محب وطن ہوں گے۔ آغا شاہی کہ جن کے نام پر اسلام آباد میں ایک روڈ بھی ہے، اتنے منجھے ہوئے سفارتکار تھے کہ ایٹمی مسئلے پر جب پاکستان پر پابندیاں لگانے کی کوششیں ہو رہی تھیں تو انہوں نے اپنی بے مثال سفارتکاری اور ذہانت سے یہ کوششیں ناکام بنا دیں۔ اس طرح کے چند اور مخلص لوگ پاکستان اور باقی اسلامی دنیا میں ہوتے تو ابھی تک کافی حد تک یہ مسائل حل ہوچکے ہوتے۔ لیکن ہم یہاں عرب و عجم کی بنا پر تقسیم ہیں۔ عرب و عجم ایک دوسرے کا دکھ محسوس نہیں کرتے۔ جن لوگوں کو مسائل حل کرنے چاہیئے، وہ لا تعلق ہوگئے ہیں۔

اس کے ساتھ جب سے انڈیا میں مودی حکومت آئی ہے، سب ہمسایوں کے ساتھ مسائل میں الجھی ہوئی ہے۔ مسئلہ کشمیر کے پس پشت جانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سارک ممالک مل کر اس مسئلے پر انڈیا پر دباؤ نہیں ڈال سکے۔ اس مسئلے پر انہوں نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی بھی حکمتِ عملی سے عاری تھے۔ جب یہودی ان کی زمینیں دھڑا دھڑ خرید رہے تھے تو یہ لوگ یہ کہہ کر زمینیں بیچ رہے تھے کہ ہم دوبارہ اپنی زمینیں واپس لے لیں گے، لیکن دشمن چالاک تھے، جس کی وجہ سے وہ چھا گئے۔ اس کے ساتھ شاہ فیصل سے لے کر ابھی تک جتنے بھی بادشاہ اور حکمران تھے، وہ بھی مخلص نہیں تھے۔ جس کی وجہ سے یہ مسئلہ حل نہ ہوسکا۔ ابھی امارات اور باقی حکومتوں نے طے کر لیا ہے کہ جن جگہوں پر اسرائیل نے قبضہ لر لیا ہے، اس کو تسلیم کر لیا جائے۔ اب راہ حل صرف مزاحمت کا راستہ ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ جب تک ہم کوئی بڑی طاقت حاصل نہیں کرتے اور اس کے ساتھ ان غداروں سے بھی نجات حاصل نہیں کرتے، اس وقت تک مسائل حل نہیں ہوں گے۔ جس طرح حزب اللہ نے اسرائیل کو نکیل ڈالی ہے۔ ایسے ہی مزاحمت کا رستہ اپنانا ہوگا، یہی اس کا بہت آبرو مندانہ راہ حل ہے۔

سیشن کے دوسرے مقرر ڈاکٹر عامر خاکوانی صاحب نے ڈاکٹر ندیم صاحب کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ قرآن نے جس طرح کہا کہ یاایھالذین آمنو کتب علیکم الصیام تم پر روزے فرض کیے ہے۔ اسی طرح کی دوسری آیت بھی ہے۔ یا ایھا الذین آمنو کتب علیکم القتال۔ جس طرح روزہ واجب ہے، اسی طرح جہاد بھی واجب ہے۔ قتال ایک خالص اصطلاح ہے، جو صرف میدان جنگ میں ہی لڑائی کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ پانچ فرایض ہیں، چار میں کچھ نہ کچھ گنجائش موجود ہے۔ نماز اور روزے کی قضا کی ادا ہوسکتی ہے۔ زاکوۃ اور حج صرف خاص لوگوں پر واجب ہے، لیکن قتال عورت مرد چھوٹے بڑے سب پر فرض ہے، جیسا کہ مدینے میں جب حکم جہاد ہوا تو سب تیار ہوگئے تھے۔ آج دنیا کے اکثر وسائل مسلم دنیا میں ہیں، لیکن ان پر قبضہ اغیار کا ہے۔ ان کا کیا تک بنتا ہے کہ وہ کسی دوسری جگہ سے اٹھ کر آئیں اور ان پر قبضہ کریں۔ ہم اس وقت تک دنیا سے بھیک مانگتے رہیں گے،جب تک ہم اپنے آپ کو کو طاقتور نہیں بنائیں گے۔

اقوام متحدہ نے 90 یا 100 کے لگ بھگ اسرائیل کے خلاف قراردادیں منظور کی ہیں، لیکن کسی پر بھی عمل نہیں ہوا۔ وہ ان کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھتا ہے۔ باقی 38  قرادادیں ہیں، جو اسلامی ممالک کے بارے میں ہیں۔ ان پر بہت قلیل مدت میں عمل درآمد ہوا۔ عراق کے خلاف صرف چند گھنٹوں میں قرارداد منظور ہوئی اور اس پر عمل بھی ہوا۔ ایسٹ تیمور میں دو عیسائی مارے گئے اور صرف تیس دنوں میں ایسٹ تیمور کو آزاد کرکے اپنی رکنیت دے دی گئی۔ اس وقت تک اقوام متحدہ کی قراردادوں کا کوئی بھی اثر نہیں ہوگا، جب تک ڈنڈا نہیں اٹھائیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ دوسری بات یہ ہے امت مسلمہ کے پاس کسی چیز کی کمی نہیں ہے۔ پڑھے لکھے لوگ ہیں اور کویی بھی دہشت گردی نہیں۔ اقوام متحدہ میں ابھی تک دہشتگردی کی تعریف نہیں طے ہوسکی۔ کیونکہ کہ بڑے بڑے ممالک خود اس میں ملوث ہیں۔

ان سارے مسائل کا ایک حل ایک سیاسی قیادت بھی ہے۔ جس کی کمی ہے، خلافت اسلامیہ  کے قیام سے پوری ہوسکتی ہے، ملت میں خلیفہ کا وجود بدن میں سر کی طرح ہے۔ اس وقت ہمارے پاس قیادت کی کمی ہے، ایک دو کو چھوڑ کر سب اغیار کے  غلام ہیں۔ وہ لوگ ہمارے سیاسی لیڈر ہیں، جو غرب سے اس حد تک متاثر ہیں کہ غرب کی اصطلاحات ہی گفتگو میں استعمال کرتے ہیں۔ مغرب ان کا قبلہ و کعبہ ہے، مغرب کے سامنے کوئی رکوع، کوئی قیام، کوئی سجدے کی حالت میں ایک دوسرے  کے پیچھے کھڑا ہے۔ آخر میں میزبان محترم نے اختتامی گفتگو کے ساتھ اس سیشن  کو سمیٹا اور کہا کہ طاقت کے حصول اور سیاسی قیادت پر اتفاق کے لئے باہمی دوریوں اور نفاق و اختلافات سے نجات ضروری ہے۔
خبر کا کوڈ : 903666
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش