0
Monday 14 Dec 2020 23:29

لاہوریوں کا پی ڈی ایم سے اظہار بیزاری، آخر کیوں؟

لاہوریوں کا پی ڈی ایم سے اظہار بیزاری، آخر کیوں؟
تحریر: عمران خان

مینار پاکستان پر اوسط درجے کے جلسے (عوامی شرکت کے لحاظ سے) کے بعد توقع کے برعکس پی ڈی ایم کے موقف اور مطالبات میں نرمی کے بجائے زیادہ سختی در آئی ہے اور پی ڈی ایم رہنماؤں نے حکومت کو مستعفی ہونے کے لیے 31 جنوری تک کی ڈیڈ لائن دی ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز کے ساتھ جاتی امرا میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 31 دسمبر تک پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں کے منتخب اراکین اسمبلی اپنے اپنے استعفے اپنی اپنی قیادت کو جمع کروا دیں گے۔ حکومت 31 جنوری تک مستعفی ہو جائے۔ اگر حکومت نے دی گئی مہلت تک استعفیٰ نہیں دیا تو یکم فروری کو پی ڈی ایم کا سربراہی اجلاس ہوگا، جو لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان کرے گا۔ مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ہم تمام جماعتیں ایسے کوئی اقدامات نہیں کریں گی، جس سے جمہوریت کو کوئی نقصان ہو۔ اگر موجودہ حکمران استعفے دے دیں اور اسمبلیاں تحلیل کر دیتے ہیں، تو پھر پی ڈی ایم کی مشاورت سے مذاکرات کا فیصلہ ہوسکتا ہے۔ اس موقع پہ مریم نواز کا کہنا تھا کہ نون لیگ کے اجلاس میں جلسے کی ناکامی پر ناراضی کی غلط خبریں چلائی گئیں، جس کی ہم تردید کرتے ہیں۔ میں نے جلسہ گاہ چھوٹا رکھنے کی بات ضرور کی، کیونکہ بہت سے لوگ رش کی وجہ سے اندر ہی نہیں آسکے تھے۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہم سب ایک ہیں اور پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے فیصلے کریں گے۔ اب مذاکرات نہیں بلکہ عمران خان کے استعفے کا وقت ہے۔ استعفوں کے حوالے سے حتمی فیصلہ پارٹی قیادت کرے گی۔ یاد رہے کہ مینار پاکستان جلسے کے بعد اعلان لاہور کے نام سے پی ڈی ایم نے اعلامیہ جاری کیا تھا، جس میں حکومت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا گیا اور عمل نہ ہونے کی صورت میں نظام کو نہ چلنے دینے کا عہد کیا گیا تھا۔ کثیر الجماعتی اتحاد پی ڈی ایم نے مینار پاکستان کے جس جلسے کے بعد اعلان لاہور کے نام سے مشترکہ اعلامیہ جاری کیا، اسی جلسے اور اعلان کو اہلیان لاہور نے اس طرح مسترد کیا کہ عوامی شرکت توقع سے بھی نہایت کم رہی، حالانکہ یہ وہی میدان تھا کہ جہاں کچھ عرصہ قبل تن تنہا جمعیت علماء اسلام نے کئی گنا زیادہ افرادی قوت کا اظہار کیا تھا اور حکمران جماعت تحریک انصاف اسے 4 مرتبہ بھر چکی ہے۔

اب کی بار یہ جلسہ گیارہ بڑی جماعتوں کا شو آف پاور تھا اور اسی جلسے میں عوامی شرکت نے ہی پی ڈی ایم کا مستقبل طے کرنا تھا جبکہ عوامی اجتماع میں لوگوں کی زیادہ سے زیادہ شرکت کی ذمہ داری بھی نون لیگ کے سپرد تھی۔ لیگی قیادت کی عوام سے وابستہ امیدوں کا پیمانہ یہ تھا کہ میاں نواز شریف اس جلسے میں علامہ خادم رضوی کے جنازے سے بھی بڑے عوامی اجتماع کے خواہشمند تھے، تاہم ان کی خواہش کے مقابلے میں عوامی شرکت آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں تھی، جو کہ یقیناً نون لیگ کیلئے پریشان کن ہے اور ہونی بھی چاہیئے کیونکہ گذشتہ پندرہ دنوں سے لیگی رہنماء اس جلسے کو زیادہ سے زیادہ کامیاب بنانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے تھے۔ اب نون لیگ کا قلعہ سمجھے جانے والے لاہور کے قلب میں گیارہ جماعتوں کے اس درمیانے درجے کے جلسے نے جہاں پی ڈی ایم کے مقابلے میں پی ٹی آئی حکومت کو مضبوط کیا ہے، وہاں پی ڈی ایم کے اندر نون لیگ کے وزن کو بھی نہایت کم کیا ہے۔

مینار پاکستان جلسے میں لوگوں کی کم تعداد کو لیکر مریم نواز نے سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی اجلاس میں شدید برہمی کا اظہار کیا تھا۔ مریم نواز کا کہنا تھا کہ ہماری کوشش تھی کہ جلسے میں پانچ لاکھ افراد شریک ہوں، جو کہ نہیں آسکے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اب پارٹی میں جزا اور سزا کا عمل ہوگا۔ اس بات سے قطع نظر کہ مریم نواز لیگی رہنماؤں اور عوامی رابطہ مہم کے ذمہ داران کو کیا سزا دیتی ہیں، سوال یہ ہے کہ اس جلسے میں لاہوریوں نے اپنے مزاج کے برخلاف زیادہ شرکت کیوں نہیں کی۔؟ تو اس کے جواب نہایت سادہ سے ہیں۔ اول یہ ہے کہ پاکستان کے عوام موجودہ حکومت سے شاکی ہونے کے باوجود بھی کسی حد تک اپنے مسائل کی وجہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کو سمجھتے ہیں اور اس بات کا ادراک بھی رکھتے ہیں کہ نظریاتی اور فکری اختلاف رکھنے والی سیاسی جماعتوں کا یہ مرکب، عوامی مسائل کے حل کیلئے نہیں بلکہ ذاتی مفادات کے تحفظ اور اپنے مستقبل کو محفوظ رکھنے کیلئے ہے۔

دوئم۔ پی ڈی ایم میں شامل سیاسی جماعتیں جو الزامات حکومت پہ عائد کرکے استعفے کی طلبگار ہیں، یہی الزام وہ ماضی میں ایک دوسرے پہ عائد کرتی رہی ہیں اور انہی الزامات کی موجودگی میں بھی ایک دوسرے کو برداشت بھی کرتی رہی ہیں، چنانچہ عوام کم از کم اتنا تو سمجھتے ہیں کہ ماضی میں ایک دوسرے کی تضحیک و تذلیل کرنے والے یہی افراد اگر حصہ ملنے پہ ایک دوسرے کو برداشت کرسکتے ہیں تو موجودہ حکومت بھی ان کیلئے قابل برداشت ہونی چاہیئے۔ سوئم۔ پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کے ووٹرز، سپورٹرز، کارکن جہاں اپنی جماعتوں کیلئے وفاداری اور اخلاص کا جذبہ رکھتے ہیں، اس سے کہیں زیادہ ماضی کی مخالف جماعتوں کیلئے نفرت کی حد تک بغض، عناد اور مخالفت رکھتے ہیں۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ جیسے ضیائی پالیسیوں کا دم بھرنے والے لیگی آخر کیوں بلاول کی تقریر سننے جائیں کہ جس کے نانا ذوالفقار علی بھٹو پر یہ خود الزام عائد کرتے رہے کہ انہوں نے ملک کو توڑا۔ اسی طرح پاک فوج سے محبت اور الفت کا دم بھرنے والے لاہوری (چاہے وہ نون لیگ کے سپورٹر ہی کیوں نہ ہوں) نواز شریف کی تقریر کیونکر سنیں کہ جو پاک فوج کے خلاف مسلسل زہر اگل رہے ہیں۔

چہارم۔ یہی کلیہ قوم پرست جماعتوں پہ بھی صادق آتا ہے۔ وہی قوم پرست جو اپنی سرزمین پہ پنجاب اور اس کے باسیوں کو ہر خرابی کا ذمہ دار گردانتے ہیں اور یہاں تک کہ پاک فوج کو بھی پنجاب فوج قرار دیکر لوگوں کو نفرت پر اکساتے ہیں، وہ قوم پرست انہی پنجابیوں کیلئے کیونکر قابل قبول ہوسکتے ہیں۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے لیگی ووٹر اور سپورٹر کے اوپر یہ ظلم کے ہی مترادف ہے کہ اسے محمود خان اچکزئی کی تقریر سننے پہ مجبور کیا جائے اور تقریر بھی ایسی کہ جس میں اچکزئی لاہوریوں کو انگریز کا ایجنٹ قرار دے اور پاک فوج کے خلاف زہر بھی اگلے۔ پنجم۔ پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں ایک دوسرے سے مخلص نہیں ہیں اور سیاسی میدان میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جاتیں، شائد یہی وجہ تھی کہ لاہور جلسے کیلئے پیپلز پارٹی اور جے یو آئی نے اپنے کارکنوں کو جلسے میں شرکت کیلئے جاندار کال نہیں دی۔ اگر مولانا فضل الرحمان یا بلاول بھٹو چاہتے تو ایک طرف پی پی پی کے جیالے مینار پاکستان گراؤنڈ کو بھرنے کی استعداد رکھتے تھے تو دوسری جانب مولانا کے زیر اثر دینی مدارس کے طلباء ہی حالیہ جلسے سے بڑا عوامی اجتماع پیش کرسکتے تھے، تاہم دونوں رہنماؤں کی سنجیدگی کا اندازہ یہیں سے لگائیں کہ مولانا کے آبائی حلقے ڈی آئی خان سے جے یو آئی کے فقط چار عہدیدران نے جلسے میں شرکت کی اور یہی حال پی پی پی کا تھا۔

القصہ مختصر کثیر الجماعتی پی ڈی ایم ''حکومت مستعفی ہو'' کے مطالبے کے ساتھ میدان میں موجود ہے، مگر دلائل یا الزامات میں کوئی ایک بھی ایک ایسی معقول وجہ پیش کرنے میں ناکام ہے کہ جو حکومت کے استعفی کیلئے کافی ہو اور عوام کیلئے بھی قابل قبول ہو۔ ممکن ہے کہ اسی مطالبے کو لیکر کوئی نئی سیاسی جماعت میدان میں نکلتی تو شائد وہ یوتھ کو بھی اپنی جانب راغب کر لیتی اور عوامی ہمدردیاں بھی سمیٹ لیتی، چونکہ یہ مطالبہ نون لیگ، پی پی پی اور جے یو آئی کا ہے تو عوام کیلئے یہ ہرگز پرکشش نہیں، کیونکہ مرکز، سندھ، بلوچستان، پنجاب، خیبر پختونخوا میں انہی جماعتوں نے ماضی میں اپنے اپنے ادوار حکومت کے اندر جو جو گل کھلائے ہیں، وہ بھی عوام ابھی بھولے تو نہیں۔

یوں تو اہلیان لاہور پہ کئی طرح کے الزامات ہیں کہ بریانی، نہاری اور قورمے میں خبر نہیں کونسا گوشت استعمال کر جاتے ہیں، مگر پی ڈی ایم جلسے کو سنجیدہ نہ لیکر لاہوریوں نے اپنے سنجیدہ اور باشعور ہونے کا ثبوت پیش کیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ حکومت کو مستعفی ہونے کیلئے 31 جنوری تک کی ڈیڈ لائن دینے والی پی ڈی ایم مقررہ تاریخ کے بعد خود اپنے استعفوں کا استعمال کس طرح کرتی ہے اور احتساب کے تیز عمل سے کیسے خود کو بچائے رکھتی ہے۔ یاد رہے مولانا فضل الرحمان کا یہ جملہ بھی سوشل میڈیا پر آج بھی بہت مقبول ہے ''کیا ہم اس وقت اکٹھے ہوں گے، جب ہم سب جیلوں میں ہوں گے۔'' پی ڈی ایم کے حکومت پہ بعض الزامات کی مثال کچھ یوں ہے کہ ’’چھلنی نے لوٹے کو طعنہ دیا تھا کہ تم میں تو سوراخ ہے۔‘‘
خبر کا کوڈ : 903742
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش