0
Wednesday 16 Dec 2020 00:04

اقتصادی دہشتگردی

اقتصادی دہشتگردی
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس

آج امریکہ نے اسی بات کے ردعمل میں ایران کے خلاف مختلف طرح کی اور پیچیدہ جنگ شروع کر رکھی ہے، چین کی سرکاری نیوز ایجنسی شین ہوا نے اپنے ایک تجزیئے میں لکھا ہے کہ امریکہ اقتصادی پابندیوں اور معاشی دبائو کے تحت مشرق وسطیٰ میں ایران کے اثر و رسوخ کو روکنا چاہتا ہے۔ امریکہ نے ایران کو اقتصادی راستے سے روکنے کی کوشیشں تیز کر رکھی ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے لاکھوں شہداء کی قربانیاں دے کر اور ہر طرح کی پابندیاں اور دبائو برداشت کرکے اسلامی انقلاب کے نظریات کو زندہ رکھتے ہوئے ملک کی ترقی و پیشرفت کے لیے قدم آگے بڑھائے ہیں اور دشمن کی ہر سازش کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے۔

بعض ماہرین تو اس بات کو بھی نہیں مانتے کہ اقتصادی پابندیوں نے ایران پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں، کیونکہ یہ پابندیاں کئی میدانوں اور شعبوں میں ایران کی خود کفالت کا باعث بنی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران میں سیاسی استحکام ہر طرح کے دبائو کو برداشت کرنے میں کامیاب رہے گا۔یہ وہ حقائق ہیں، جن کا اظہار جنگ مخالف امریکی اسکالر اور ورجینا ڈیفنزڑ نامی میگزین کے انچارج فیل ویلانتو نے ایک انٹرویو میں کیا ہے۔ یہ ایک زندہ حقیقت ہے کہ امریکہ نے ایران کے اسلامی انقلاب سے پہلے اور بعد میں ایران کے خلاف مختلف سازشیں رچائی ہیں۔

امریکہ گذشتہ نصف صدی سے ایران کے داخلی معاملات میں مداخلت کا مرتکب ہو رہا ہے اور آج وہ پابندیوں، دھمکیوں اور دیگر ذرائع سے ایران کی قوم اور حکومت کو ڈرانا چاہ رہا ہے۔ امریکہ ایرانی عوام کے عزم و حوصلے کو کمزور کرکے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنا چاہ رہا ہے۔ امریکی حکام نے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے فوراً بعد انقلابی حکومت کو سرنگوں کرنے کا موضوع اپنے ایجنڈے میں شامل کر لیا تھا، ان کی یہ اسٹریٹجی تھی کہ اس نئے نظام کی بنیادوں کو مضبوط نہیں ہونے دینا۔ 2000ء سے لے کر اب تک امریکہ نے خطے میں ناامنی کا جو بازار گرم کر رکھا ہے، اس میں لاکھوں افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں، یہ سب امریکہ کی خطے پر قبضے کی سازشیں ہیں۔ امریکہ کی ان جارحانہ پالیسیوں کا قتل عام، ناامنی، غارت گری اور تباہی و بربادی کے علاوہ کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔

صدام کی حمایت، گیارہ ستمبر کے مشکوک حملے کے بعد افغانستان پر حملہ اور 2001ء میں دہشت گردی کَے خلاف جنگ کے نام پر خطے میں بدمعاشی امریکہ کے چند اقدامات میں القاعدہ کی تشکیل اور القاعدہ کے مقابلے کا ڈرامہ کرکے عراق پر قبضہ کی کارروائی، امریکی ایجنڈے کا حصہ تھی۔ صدام کو کیمیائی ہتھیاروں کے بہانے اقتدار سے محروم کیا اور دیگر عرب ممالک کو دھمکی دی کہ جو امریکہ کی بات نہیں مانے گا، اس کا حشر صدام جیسا ہوگا۔ امریکہ کی جنگ پسندانہ پالیسیاں جاری رہیں اور ایران کو بھی اس دوران مسلسل دھمکیاں دی جاتی رہیں۔ ایران کا محاصرہ کرنے کے لیے افغانستان، عراق اور پاکستان کے بعض علاقوں کو ایران کے خلاف استعمال کرنے کی پالیسی جاری رہی۔ اسی دوران داعش کے نام پر ایک اور مسئلے کو خطے میں ابھارا گیا۔

شام اور عراق میں امریکی مقاصد کے حصول کے لیے داعش نامی دہشت گرد گروہ کو تشکیل دیا گیا۔ ان علاقوں پر قابضہ کرنے کے لیے امریکی سازشوں اور سعودی عرب اور بعض دیگر عرب ممالک کو استعمال کیا گیا۔ شام میں بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے اور عراق میں سنی نشین علاقے کو عراق سے جدا کرکے داعش کی خلاقت قائم کرنے کے لیے تمام امکانات و وسائل فراہم کیے گئے۔ امریکہ کی ان پالیسیوں کے تناظر میں ہی رہبر انقلاب اسلامی نے امریکی پالیسیوں کو جنگ پسندانہ اور ظالموں کی حمایت سے تعبیر کیا ہے۔ یہ وہ حقائق ہیں، جنہیں امریکہ کی سیاسی تاریخ سے ہرگز جدا نہیں کیا جا سکتا۔ امریکہ نے گذشتہ نصف صدی میں بالخصوص دنیا میں جنگوں، قتل عام اور تباہی و بربادی کے ایجنڈے پر عمل کیا ہے۔

امریکی بحریہ کے ایک سابق افسر اولمن کا کہنا ہے کہ یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ امریکہ نے بہت سے ممالک میں مداخلت کرکے جنگوں کا آغاز کیا ہے۔ امریکہ نے جن دلائل کی بنیاد پر دوسرے ممالک پر جنگیں مسلط کیں، بعد مین وہ دلائل جھوٹ ثابت ہوئے۔ امریکہ کو اب بیسویں صدی کی منفی سوچ کو بدلنا ہوگا، تاکہ آئندہ جنگوں کو روکا جا سکے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے اس مسئلے کو سمجھانے کی لیے بار بار متوجہ کیا ہے کہ امریکی حکومت کی ماہیت وہی ماہیت ہے، جو ریگن کے زمانے میں تھی اور امریکی ڈیموکریٹس اور ری پبلیکنز میں کوئی فرق نہیں۔ رہبر انقلاب اسلامی کے یہ بیانات خطے میں امریکہ کے علاقائی اور عالمی اہداف کو واضح کر رہے ہیں۔ اس وقت علاقائی اور عالمی سطح پر امن و آتشی کا اصل دشمن امریکہ ہے اور اس کی تمام تر پالیسیاں امریکہ کے جارحانہ اہداف کی تکمیل کا ذریعہ ہیں۔
خبر کا کوڈ : 903993
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش