8
Wednesday 16 Dec 2020 20:11

عرب اسلامی دنیا میں اسرائیل کی فتوحات!؟

عرب اسلامی دنیا میں اسرائیل کی فتوحات!؟
تحریر: محمد سلمان مہدی

ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت کی چار سالہ مدت کی آخری ششماہی میں امریکی حکومت ایڑی چوٹی کا زور لگا کر جو ہدف حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے، اسے ایک جملے میں اسرائیل کی دھاک بٹھانے کی کوشش کہا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ سوال تا حال جواب طلب ہے کہ آیا امریکی زایونسٹ بلاک اس ہدف کے حصول میں کامیاب رہا یا بدستور ناکام و نامراد ہی ہے۔ آسان جواب کے لیے فقط ایک آسان سوال کہ کیا متحدہ عرب امارات، بحرین، مراکش سمیت جو ملک اسرائیل کے ساتھ تعلقات کا رسمی اعلان کر رہے ہیں، ان کے اسرائیل سے تعلقات پہلے سے قائم نہیں تھے!؟ مراکش اسرائیل تعلقات کی ساٹھ سالہ تاریخ خود اسرائیل نے بیان کی ہے۔ متحدہ عرب امارات کے تعلقات کی بھی کم سے کم پچیس سالہ تاریخ سے اب پردہ اٹھا ہے تو۔۔ ایک اور ضمنی سوال کر لیا جائے! کیا انہی ممالک پر اسرائیل کی دھاک بٹھانا مقصود تھا!؟ حتیٰ کہ سعودی عرب کے اسرائیل سے تعلقات بھی بہت پہلے سے استوار ہیں۔ اگر سعودی عرب بھی رسمی اعلان کر دے کہ قبول ہے، قبول ہے، قبول ہے، تب بھی میرے جیسے لوگوں کے لیے اس میں خبریت کا کوئی پہلو نہیں ہوگا۔

ہر وہ ملک جو زایونسٹ بلاک کا ماضی میں سہولت کار رہا ہے، اگر وہ اسرائیل کو تسلیم نہ کرے تو خبر ہے، ورنہ تو متوقع ہے کہ یہ اپنے تعلقات پر چڑھے غلاف کو خود ہی اتار دیں۔ یعنی اس میں حیرت و تعجب کی کوئی بات نہیں ہوگی۔ البتہ اس میں فلسطین دوست انسانوں اور خاص طور پر عربوں اور مسلمانوں کے لیے عبرت کے کئی پہلو ہیں۔ جون 1967ء کی جس جنگ میں اسرائیل نے مصر، اردن اور شام کو شکست دی اور اسی جنگ میں بیت المقدس پر بھی اسرائیل نے قبضہ کیا، اس میں بھی خائن عرب حکمرانوں کی اپنی خیانت کا بھی بہت زیادہ عمل دخل تھا۔ امریکی مغربی زایونسٹ بلاک تو کھل کر اسرائیل کا ساتھی رہا، لیکن خائن عرب حکمرانوں کی خیانت پر پردہ چڑھا رہا۔ ابھی ایک ملک مراکش کی خیانت کا پردہ چاک ہوا ہے۔ ان دنوں فلسطین کے غاصب اسرائیل کی حکومت متحدہ عرب امارات اور بحرین کے ساتھ تعلقات کا جشن منانے میں مصروف ہے۔ سابقہ اور موجودہ اسرائیلی اور اماراتی حکومتی شخصیات اپنے اپنے خفیہ کردار سے نقاب اٹھا رہے ہیں۔ البتہ تاحال یہ گفتگو آف دی ریکارڈ رہی ہے۔ حتیٰ کہ اسرائیلی میڈیا کو بھی ان عہدیداروں کے نام نہیں بتائے جا رہے ہیں۔

امارات اور بحرین سے نمائندگان نے یہودیوں کی دیوار گریہ پر حنوکا کا جشن یہودیوں کے ساتھ مل کر منایا ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جو محرم اور صفر میں عزاداری اور ربیع الاول میں عید میلاد النبیﷺ کے جلوسوں کے مخالف ہیں اور جشن حنوکا میں خوشی خوشی شریک ہوگئے، وہ بھی لاکھوں فلسطینیوں کے مجرم نسل پرست دہشت گرد یہودیوں کے ساتھ مقبوضہ یروشلم میں!؟  عالم اسلام و عرب کے مذہبی طبقے کے پاس اب کوئی بہانہ نہیں کہ وہ اس کھلی منافقت کے خلاف چپ رہیں، انہیں ان خائن و منافق فاسق حکمرانوں کے خلاف کھل کر علم بغاوت بلند کرنا ہوگا۔ اگر انہیں اسلام اور امت اسلام سے تھوڑی سی بھی ہمدردی ہے، تعلق ہے اور غیرت ہے تو اب سکوت حرام ہوچکا۔ سعودی عرب کے ولی عہد سلطنت محمد بن سلمان ایم بی ایس نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو سے سعودی شہر نیوم میں خفیہ ملاقات کی، اس کی خبر بھی اسرائیلی میڈیا نے لیک کی ہے۔ یمن پر جنگ مسلط کرنے والی بحرین کی سرپرست اور امارات کی دوست سعودی حکومت سرد جنگ کے دور سے ہی کمیونسٹ بلاک کے خلاف کیپیٹلسٹ بلاک کے فعال سہولت کار کا کردار ادا کرتی آرہی ہے اور اسی بلاک میں اسرائیل بھی شامل رہا ہے۔ اگر اس زاویئے سے دیکھیں تو باآسانی سمجھا جاسکتا ہے کہ امریکی مسلح افواج نے دنیا میں اپنی تعیناتی کے لیے جو مختلف کمان تشکیل دیں، ان میں فلسطین کے ارد گرد کے عرب ممالک تا خلیج فارس تا پاکستان سبھی سینٹرل کمانڈ میں شامل رکھے گئے۔ لیکن فلسطین پر قابض اسرائیل کو یورو کمانڈ میں شامل کیا۔

عرب اکثریتی فلسطین پر نسل پرست غیر مقامی یہودی قبضہ گروپ دہشت گردوں کی مسلط کردہ جعلی ریاست اسرائیل کے حوالے سے جب بھی جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت بھی ذہن میں رہے کہ یہ ایک ناکام ترین وجود ہے، جو اپنے ناجائز وجود کے آغاز سے بھکاری ہے۔ یونائٹڈ اسٹیٹس آف امریکا اسے اب تک 146 بلین ڈالر مالیت کی مدد فراہم کرچکا ہے اور اس کم و بیش ڈیڑھ سو بلین ڈالر میں سے بھی بہت بڑا حصہ اس جعلی وجود کے دفاع پر خرچ ہوئے ہیں۔ پوری دنیا کے ساہوکار یہودیوں کی خیرات برسنے کے باوجود اقتصادی لحاظ سے بھی اسرائیل ایک ناکام وجود ہے۔ اس کے حوالے سے اگر اقوام متحدہ کے اقدامات پر نگاہ کریں تو وہ اقدامات نمائشی اور کھوکھلے ہوتے ہیں۔ یعنی جنرل اسمبلی کی قراردادیں کہ جن پر عمل کرنا رکن ممالک پر لازم نہیں ہوتا۔ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کاؤنسل سے کوئی بھی ٹھوس عملی اقدام پر مبنی کوئی فیصلہ کبھی منظور نہیں ہوسکتا، کیونکہ امریکا اسے ویٹو کر دیتا ہے یعنی مسترد۔ اقتصادی کارکردگی یہ ہے کہ اس پر قومی قرضہ جی ڈی پی کا تقریباً ساٹھ فیصد ہے جبکہ آئی ایم ایف کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق بیرونی قرضہ جی ڈی پی کے تیس فیصد سے کچھ کم ہے۔ سی آئی اے اورلڈ فیکٹ بک کے ممالک سے متعلق اعداد و شمار میں اسرائیل پر سال 2017ء کے آخر تک بیرونی قرضہ 88 بلین 66 ملین ڈالر تھا۔ تب پاکستان پر بیرونی قرضہ 82 بلین 19 ملین ڈالر ہوا کرتا تھا۔  لو جی، کر لو گل!

رقبہ، آبادی اور مشکلات کا موازنہ کرلیں۔ پاکستان کو ہمیشہ امریکی زایونسٹ بلاک کی بلیک میلنگ کا سامنا کرنا پڑا۔ حد تو یہ ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ذریعے بھی اسرائیل نے پاکستان کو بلیک میل کیا۔ پاکستان میں دہشت گردی کروائی۔ قتل عام کیا۔ پاکستانی قوم کے روشن و شفاف امیج کو داغدار کیا۔ بیرونی سرمایہ کاری کی ایسی کی تیسی کی۔ آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کے ذریعے سیاسی شرائط پر قرضے دیئے گئے۔ اس کے بعد بھی پاکستان کی اقتصادی صورتحال، اسرائیل کی نسبت بہت زیادہ بہتر رہی ہے۔ پاکستان کو امریکا نے ڈیڑھ سو بلین ڈالر کی خیرات نہیں دی، لیکن اسرائیل کو دی۔ سولہ دسمبر کو سقوط پاکستان امریکی بحری بیڑے کی خلیج بنگال میں موجودگی کے باوجود ہوا، لیکن اسرائیل کو آئرن ڈوم سے لے کر رے تھیون کی مدد سے ڈیوڈ سلنگ تک میزائل سسٹم سے نوازا۔ لیکن اسرائیل کی اوقات یہ رہی کہ کبھی غزہ سے ہونے والے جوابی و دفاعی راکٹ حملوں کے آگے بے بس رہا تو کبھی سال 2006ء میں لبنان کی ایک چھوٹی سی مسلح مقاومتی تحریک حزب اللہ سے جنگ جیت نہ سکا۔

بات اقتصادی شعبے میں ناکامی سے فوجی شعبے میں ہارنے تک جاپہنچی۔ بات سے بات نکل رہی ہے اور آپ دیکھ رہے ہیں کہ بات بہت دور تک جا رہی ہے تو اسرائیل کا رعب و دبدبہ پاکستانیوں پر جمانے کی کوشش کرنے والے خود ہی بتا دیں کہ یونی پولر دنیا کی سب سے بڑی مادی طاقت کی کھلی سرپرستی کے بعد بھی پرفارمنس رپورٹ تو یہ ہے۔ روتھس چائلڈ جیسے متعدد ساہوکار یہودی خاندانوں کی جانب سے دولت کی موسلا دھار بارش کے بعد بھی قرضے!؟ سپر ہائی ٹیک اسلحے کے انبار کے باوجود حماس جیسی ایک چھوٹی سی فلسطینی مسلح مقاومتی تحریک کے آگے ڈھیر اسرائیل نہیں تو اور کون ہے۔ حزب اللہ، حماس، حزب جہاد اسلامی کے خلاف کس کس ملک سے اسرائیل نے مدد نہیں لی۔ سعودی عرب، امارات، بحرین، قطر، مصر، سبھی کو تو درمیان میں ڈالا۔ حماس کو سیزفائر پر راضی کرو۔ حزب اللہ کو سیز فائر پر راضی کرو۔ یہ زمینی حقائق ہیں اور اسرائیل کے گروگھنٹال امریکا کی حالت یہ ہے کہ ایران کے اندر سے جوابی میزائل فائر کرکے عراق کے عین الاسد اڈے پر امریکی فوجی تنصیبات کو کباڑخانے کے ملبے میں تبدیل کرکے ایران جیسے ایک چھوٹے سے ملک نے امریکی تکبر کی ناک زمین سے رگڑ دی۔

جب زمینی حقائق یہ ہوں تو کس کی دھاک کس پر بیٹھی ہوئی ہے!؟ کس کا رعب و دبدبہ کس پر ہے!؟ امریکا نے ایک ہی حملے کی رسمی ذمے داری قبول کی تھی تو ایران نے بھی اتنا زیادہ وقت نہیں لگایا جواب کی پہلی قسط میں اور یہ حقیقت بھی ٹائمز آف اسرائیل کے تجزیہ نگار ہاویو ریٹگ گر نے اپنے تازہ ترین مقالے میں دنیا کے سامنے ظاہر کر دی ہے کہ (خلیج فارس) خلیجی عرب ممالک کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات نارمل کرنے کا مقصد ایران کا خوف نہیں ہے بلکہ اسرائیل کو گلے لگانا مقصود ہے ایک طویل عرصے سے ایران اور اس کے حامیوں کی طرف سے تواتر کے ساتھ یہ کہا جاتا رہا کہ ایران کے پڑوسی ممالک کو ایران سے کوئی خطرہ محسوس نہیں کرنا چاہیئے، بلکہ ایران نے تو علاقائی ممالک کے ساتھ بہترین تعلقات کے لیے عادلانہ و منصفانہ اصولوں پر مبنی حل بھی تجویز کیے۔ اصل مسئلہ یہ خائن عرب حکام خود ہی ہیں۔

انہیں فلسطین جیسا مظلوم ترین عرب اور مسلمان وجود نظر نہیں آتا۔ حالانکہ انہی خلیجی ممالک کے چوہدری سعودی عرب نے 1969ء میں مسجد اقصیٰ کی آتشزدگی پر اسلامی ممالک کی حکومتوں پر مشتمل بین الاقوامی تنظیم او آئی سی قائم کی تھی۔ نہ تو فلسطین نامی ریاست قائم ہوئی اور نہ ہی بیت المقدس اس کا دارالحکومت بن سکا۔ یہ ناکامی تو خود سعودی عرب اور اس کے اتحادی عرب ممالک کی ہے۔ سعودی قیادت اور اس کے حامی جواب دیں کہ جس ہدف کا نام لے کر او آئی سی رکن ممالک اور دنیا کے سامنے پچاس برسوں سے خود کو امت اسلامی کا قائد پیش کرتے رہے، وہ سعودی حکمران تو سعودی عرب کے عوام کی قیادت کا حق ادا کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں، چہ جائیکہ امت اسلامی و عرب دنیا کی قیادت! فلسطین کی آزادی اور مسلمان و عرب سرزمین کے دفاع کی جنگ ابھی جاری ہے۔ لگتا ہے کہ یہی فائنل راؤنڈ ہے۔ تبھی تو خائن اور غدار بے نقاب یکے بعد دیگرے بے نقاب ہو رہے ہیں۔

بال اب عرب دنیا اور امت اسلامی کے کورٹ میں ہے۔ ہر کوئی اپنے آپ کو دیکھ لے۔ امریکی زایونسٹ و عربی غربی بلاک میں شامل سہولت کار ممالک کے آسرے پر سوائے سرنگونی کے کچھ ملنے والا نہیں ہے۔ پچھلی نصف صدی کی تاریخ کھلی کتاب کی مانند ہے۔ ایک اور مرتبہ دہرا دیں کہ امارات اور بحرین سے نمائندگان نے یہودیوں کی دیوار گریہ پر حنوکا کا جشن یہودیوں کے ساتھ مل کر منایا ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں، جو محرم اور صفر میں عزاداری اور ربیع الاول میں عید میلاد النبیﷺ کے جلوسوں کے مخالف ہیں اور جشن حنوکا میں خوشی خوشی شریک ہوگئے، وہ بھی لاکھوں فلسطینیوں کے مجرم نسل پرست دہشت گرد یہودیوں کے ساتھ مقبوضہ یروشلم میں!؟ عالم اسلام و عرب کے مذہبی طبقے کے پاس اب کوئی بہانہ نہیں کہ وہ اس کھلی منافقت کے خلاف چپ رہیں، انہیں ان خائن و منافق فاسق حکمرانوں کے خلاف کھل کر علم بغاوت بلند کرنا ہوگا۔ اگر انہیں اسلام اور امت اسلام سے تھوڑی سی بھی ہمدردی، تعلق اور غیرت ہے تو اب سکوت حرام ہوچکا۔
خبر کا کوڈ : 904167
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش