0
Sunday 20 Dec 2020 07:08

افغان امن عمل اور خطے میں بھارت کا منفی کردار

افغان امن عمل اور خطے میں بھارت کا منفی کردار
رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ

پاکستان کا شروع سے ہی یہ موقف ہے کہ افغانستان میں قیام امن پورے خطے کے امن و استحکام کے لیے لازم و ملزوم ہے۔ اسی تناظر میں متعدد بار باور کروایا جا چکا ہے کہ پاکستان افغانستان کے ساتھ کثیرالجہتی برادرانہ مراسم کا فروغ چاہتا ہے۔ دوطرفہ کوششیں بھی جاری ہیں، جیسا کہ رواں سال عبداللہ عبداللہ، گلبدین حکمت یار اور افغان جرگہ کے اراکین نے بھی پاکستان کا دورہ کیا، وزیراعظم عمران خان افغانستان گئے تھے اور وہاں بھی پاکستان نے یہی پیغام دیا کہ پاکستان افغانستان میں دیرپا اور مستقل امن کا خواہاں ہے۔ پاک افغان تعلقات اور تعاون نئی بات نہیں۔ افغانستان اور پاکستان کے مابین یکساں مذہبی، تہذیبی اور معاشرتی اقدار ہیں، ہمیں ان اقدار کو پیش نظر رکھتے ہوئے خطے میں بہتری کے لیے مشترکہ کاوشیں بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔

افغانستان کیساتھ مختلف شعبوں میں پاکستان کا تعاون:
پاکستان اور افغانستان کے درمیان معاشرتی، تجارتی، تعلیمی اور سکیورٹی کے امور میں تعاون جاری ہے۔ مختصر طور اگر ان امور کا احاطہ کیا جائے تو درج ذیل نکات واضح ہیں۔
1۔ پاکستان گذشتہ کئی دہائیوں سے افغان مہاجرین کی میزبانی کر رہا ہے، ہم ان مہاجرین کی باوقار وطن واپسی کے متمنی ہیں، جس کے لیے ہم عالمی برادری سے تعاون کی درخواست کر رہے ہیں۔
2۔ ہنرمند افغان طلبہ کیلئے پاکستانی یونیورسٹیز میں 1000 نئے وظائف کا اعلان کیا ہے، تاکہ یہ طلبہ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد افغانستان کی تعمیر و ترقی میں معاون ثابت ہوسکیں۔
3۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان گہرے تجارتی مراسم ہیں، گوادر پورٹ اس حوالے سے معاون ثابت ہوسکتی ہے، پاکستان، چین کے ساتھ اقتصادی راہداری کے منصوبوں پر کام کر رہا ہے یہ راہداری افغانستان اور پاکستان کے درمیان دو طرفہ تجارت کے فروغ کا اچھا ذریعہ ثابت ہوسکتی ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان دو طرفہ تجارت کے فروغ کے لیے تجارتی معاہدوں کو مزید فعال بنانے کی ضرورت ہے۔
4۔ پاکستان چاہتا ہے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہو، کیونکہ بھارت پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے اپنے وسائل بروئے کار لاتا رہتا ہے، اس حوالے سے پاکستان نے گذشتہ دنوں ٹھوس شواہد اور ثبوتوں پر مبنی ڈوزئیر بھی عالمی برادری کے سامنے بھی پیش کیا ہے۔

امریکہ اور افغان طالبان کے مذاکرات میں پاکستان کا کردار:
جنرل مشرف کی طرف سے امریکی افواج کا ساتھ دینے کی وجہ سے سامنے آنیوالے بدترین حالات کی بدولت پاکستان کا موقف ہے کہ افغانستان کے تنازع کا فوجی حل نہیں۔ افغانستان میں قیام امن کا واحد راستہ نتیجہ خیز اور جامع مذاکرات کا انعقاد ہے، پاکستان افغانستان میں دیرپا اور مستقل قیام امن کا متمنی ہے۔ پاکستان نے وقتاً فوقتاً مختلف ممالک سے مذاکرات کے دوران افغان امن عمل اور افغانستان کی تعمیر نو کے لیے عالمی برادری کے کردار کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ اسی لیے دوحہ میں امریکا طالبان کے درمیان طے پانے والے امن معاہدے میں، پاکستان نے اپنا ممکنہ مصالحانہ کردار ادا کیا۔

بین الافغان مذاکرات کیلئے پاکستانی کوششیں:
بین الافغان مذاکرات کے حوالے سے قواعد و ضوابط پر اتفاق انتہائی خوش آئند ہے، کیونکہ افغانستان میں امن و استحکام معاشی ترقی، علاقائی سالمیت اور رابطوں کے لیے اہم ثابت ہوگا، جو کہ نہ صرف افغانستان بلکہ پورے خطے کے لیے فائدہ مند ہوگا۔ پاکستان کو توقع ہے کہ افغانستان کی جماعتیں بین الافغان بات چیت کے حالیہ مثبت عمل کو جاری رکھیں گی۔ پاکستان کو افغانستان میں تشدد میں اضافے پر تشویش ہے، تمام فریقین کو سیز فائر کے لیے تشدد میں کمی لانا ہوگی۔ بین الافغان بات چیت افغانستان کی قیادت کو افغانستان کے اپنے امن عمل کے ذریعے پرامن اور پائیدار حل کے لیے تاریخی موقع فراہم کر رہی ہے۔

پاکستان خطے اور افغانستان کے تمام اسٹیک ہولڈرز کیساتھ گفت و شنید اور روابط کے تسلسل اور ہم آہنگی کیلئے کوشاں ہے۔ افغان طالبان وفد کا حالیہ دورہ پاکستان بھی اسی کا غماز ہے۔ اس دورے اور وزیراعظم و وزیر خارجہ سمیت حکام سے ملاقاتوں سے پہلے بھی افغان طالبان کی ہونے والی گذشتہ نشستیں انتہائی سود مند رہی تھیں۔ طالبان کے سیاسی کمیشن کے وفد نے ملا عبدالغنی برادر کی سربراہی میں وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی ہے۔ جس کے بعد امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ ان ملاقاتوں سے دونوں ملکوں کے تعلقات کو بہتر بنانے سمیت افغانستان کے اندر بھی فضا سازگار بنانے میں مدد ملے گی۔

خطے میں پاکستان کیخلاف انڈیا کا منفی کردار:
بھارت پاکستان کا ازلی دشمن ہے اور افغانستان کے ذریعے خطے کے امن کو تہہ و بالا کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ بھی گذشتہ تین چار ماہ سے بھارتی امن دشمن اقدامات کھل کر دنیا کے سامنے آرہے ہین۔ ان کا اجمالی جائزہ حسب ذیل ہے:
1۔ داعش کے ذریعے دہشت گردی کا جال: دنیا بھر میں دہشت گردی، خصوصاً دہشت گرد تنظیم داعش کی کارروائیوں کے سلسلے میں اہم انکشافات سامنے آچکے ہیں۔ بھارت کے داعش سے ایشیا سمیت دنیا بھر کے ممالک میں روابط اور حملوں میں ملوث ہونے کے ثبوت بھی موجود ہیں۔ امریکی ادارے فارن پالیسی نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ داعش کی کارروائیوں میں حصہ لینے والے شدت پسندوں میں سے اکثریت کا تعلق بھارت اور وسطی ایشیاء سے ہے۔ افغان امن عمل کے حوالے سے یہ بات قابل غور ہے کہ افغانستان میں طالبان ان دنوں حکومت کے ساتھ امن مذاکرات میں مصروف ہیں، لیکن دوسری جانب داعش کی شدت پسند کارروائیاں ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہیں۔

جریدے نے دعویٰ کیا ہے کہ بھارت نے داعش کو استعمال کرکے مذہبی گروپس خاص طور پر نوجوانوں کو استعمال کرکے دوسرے ممالک اور بین الاقوامی مذہبی تحریکوں کے ذریعے انتہاء پسندی اور دہشت گرد نظریات کو فروغ دیا ہے اور شام کی لڑائی میں بھارتی دہشت گردوں کے ملوث ہونے کے واضح ثبوت ملے ہیں۔ بھارتی دہشت گردوں کے افغانستان میں داعش کے ساتھ مل کر لڑنے کے واضح ثبوت ہیں۔ داعش اور بھارتی گٹھ جوڑ کے نتیجے میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں واضح اضافہ ہوا ہے، پھر چاہے 2016ء میں اتاترک ائیرپورٹ پر حملہ ہو یا زیر زمین پیٹرزبرگ پر حملہ ہو، ان بھارتی دہشت گردوں نے خاص طور پر افغانستان اور شام کو اڈہ بنا کر دہشت گردانہ کارروائیوں میں حصہ لیا۔

مسئلہ کشمیر پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ گذشتہ سال داعش نے باضابطہ طور پر بھارت میں اپنی ایک شاخ کھولنے کا اعلان کیا تھا اور اس وقت سے وہ کشمیر میں نوجوانوں کی ہلاکت پر مسلسل بھارتی فوج سے بدلہ لینے کا اعلان کر رہے ہیں، حالانکہ مقامی سطح پر اب بھی وہ عوام میں زیادہ مقبول نہیں، کیونکہ کشمیری عوام کا ماننا ہے کہ داعش کی وجہ سے ان کی بھارتی ریاست کے خلاف دہائیوں پرانی جدوجہد پیچیدگیوں کا شکار ہو رہی ہے۔

2۔ پاکستان کی جانب سے افغانستان میں جامع سیاسی اور وسیع البنیاد حل کے لیے مسلسل تعاون جاری ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں ایسے لوگوں سے ہوشیار رہنا ہوگا، جو امن عمل کو متاثر اور ڈی ریل کرنے کے لیے تسلسل کے ساتھ کوششیں کر رہے ہیں۔ اس س سلسلے میں بھارت کا کردار ہمیشہ سے منفی رہا ہے۔
3۔ ای یو ڈس انفو لیب نے حال ہی میں ایک رپورٹ میں بھارت کے جھوٹ اور بدنیتی پر مبنی کردار کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔ بھارت کی جانب سے بنائی گئی جعلی ویب سائٹس، جعلی انٹرویوز، غیر رسمی پارلیمانی گروپس کو نقاب کر دیا، جن کا واحد مقصد پاکستان کو بدنام کرنا تھا۔

4۔ پاکستان نے گذشتہ ماہ ڈوزیئر کے ذریعے بھارت کے منصوبوں کو بے نقاب کر دیا تھا، اس ڈوزیئر کو میڈیا اور بین الاقوامی برادری سے اس سال 14 نومبر کو شیئر کر دیا گیا، جس میں پاکستان میں بھارتی دہشت گردی کے ناقابل تردید ثبوتوں کی نشاندہی کی گئی ہے کہ کس طرح وہ اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہے ہیں، کس طرح سے وہ پڑوسی ملک افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردی کے لیے منصوبہ بندی، مالی مدد سمیت معاونت فراہم کر رہے ہیں۔

5۔ کل ہی یہ انکشاف ہوا ہے کہ بھارت، پاکستان کے خلاف سرجیکل اسٹرائیک کی منصوبہ بندی کر رہا ہے، لیکن کوئی فکر کی بات نہیں، پاکستان اس منصوبے سے آگاہ اور جواب دینے کے لیے مکمل طور پر تیار ہے۔ یہ انکشاف بھی سامنے آیا ہے کہ بھارت نے اس سلسلے میں خطے میں موجود اپنے ساتھی اور اہم کھلاڑیوں سے اس کی منظوری لینے کے لیے رابطہ بھی کیا ہے، جنہیں وہ اپنا پارٹنر تصور کرتے ہیں۔

یوں تو ان بھارتی اقدامات کی کئی وجوہات ہیں لیکن اس وقت افغان امن عمل کو منفی طور پر متاثر کرنیکے لیے بھارتی منصوبہ ساز خطے کی صورت حال کو بگاڑ کر رکھنا چاہتے ہیں، تاکہ کشمیر اور سی پیک سے توجہ ہٹا کر ترقی کے عمل کو روکا جا سکے۔ سرجیکل اسٹرائیک کا منصوبہ انتہائی اہم اندرونی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے کر رہا ہے، جو بھارت میں تیزی سے بڑھتے جا رہے ہیں۔ اسی طرح مقبوضہ کشمیر میں صورتحال کبھی بھی اچھی نہیں رہی بلکہ مستقل خراب ہوتی جا رہی ہے، جبکہ بھارت میں موجودہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے ملک بھر میں کسان احتجاج کر رہے ہیں۔ پھر بھارتی حکام کورونا وائرس سے نمٹنے میں ناکام رہے، جو سب کو معلوم ہے، اس سے بھارت کی معیشت پر پڑنے والے اثرات میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے عوام کے ہر طبقے میں بے چینی بڑھ رہی ہے۔

بھارت میں اپوزیشن، وکلا، سول سوسائٹی اور ٹریڈ یونینز نے کسانوں سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے مکمل سپورٹ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اقلیتیں بھارت میں مستقل بے چینی کا شکار ہیں، آسام میں این آر سی کی وجہ سے آپ نے جو صورتحال دیکھی، وہ ابھی ختم نہیں ہوئی، وہ مسئلہ ابھی موجود ہے جبکہ مسلم، دلت اور سکھ سمیت متعدد اقلیتیں انتہائی پریشانی سے دوچار ہیں۔ اس بات کو دیکھتے ہوئے وہ توجہ ہٹانا چاہتے ہیں اور ان کی نظر میں پاکستان کو نشانہ بنا کر ایک تقسیم شدہ ملک کو متحد کرنے کا ایک اچھا طریقہ ہے۔ اب افغانستان کی حکومت، افغان طالبان، خطے کے پڑوسی ممالک کو صورت حال کی نزاکت کو سامنے رکھتے ہوئے افغان امن عمل کو آگے بڑھانے کیلئے سنجیدگی دکھانا ہوگی، ورنہ امریکی ایما پر بھارتی اسرائیلی گٹھ جوڑ سے خطے کا مستقبل غیر یقنی صورت حال کا شکار ہا جائیگا اور باہمی دوریوں سے تعاون کے خاتمے سے مشکلات میں اضافہ ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 904703
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش