0
Friday 25 Dec 2020 19:44

غیر اللہ سے مدد مانگنا (3)

غیر اللہ سے مدد مانگنا (3)
تحریر: انجنئیر سید حسین موسوی

خلق کرنا:
ہر چیز کے خلق کرنے کی نسبت اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی طرف دیتا ہے "اللَّهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ" (الزمر/62) ہر چیز کا خالق اللہ ہے۔ پھر فرمایا، "يَا أَيُّهَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوا لَهُ إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ لَن يَخْلُقُوا ذُبَابًا وَلَوِ اجْتَمَعُوا لَهُ وَ إِن يَسْلُبْهُمُ الذُّبَابُ شَيْئًا لَّا يَسْتَنقِذُوهُ مِنْهُ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوبُ" (الحج/73) اے لوگو! ایک مثال بیان کی جا رہی ہے سو تم اس کو کان لگا کر سنو (وہ یہ کہ ) جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ ایک مکھی بھی پیدا نہیں کر سکتے اگرچہ وہ اس کے لئے سب کے سب جمع ہو جائیں اور اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین لے جائے تو یہ اس سے واپس بھی نہیں لے سکتے۔ طالب و مطلوب (عابد و معبود) دونوں ہی کمزور ہیں۔ پھر فرمایا، "يَا أَيُّهَا النَّاسُ اذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ هَلْ مِنْ خَالِقٍ غَيْرُ اللَّهِ يَرْزُقُكُم مِّنَ السَّمَاء وَالْأَرْضِ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ فَأَنَّى تُؤْفَكُونَ" (فاطر/3) اے لوگو! تم پر جو اللہ کے انعامات ہیں ان کو یاد کرو۔ کیا اللہ کے سوا اور بھی کوئی خالق ہے جو تمہیں آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہو اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ پھر تم کہاں بہکے جا رہے ہو۔

پھر فرمایا، "أأَنتُمْ تَخْلُقُونَهُ أَمْ نَحْنُ الْخَالِقُونَ" (الواقعة/59) کیا تم خلق کرتے ہو یا ہم خالق ہیں؟ لیکن اللہ تعالیٰ کے فعل خلق کے بھی وسیلے ہیں۔ انسان ماں اور باپ سے وجود میں آتا ہے، اگر اللہ تعالی چاہے تو بغیر ماں اور باپ کے خلق کر سکتا ہے لیکن اس کی مشیت یہ ہے کہ یہ نظام اسی علت و معلول کی بنیاد پر چلے۔ اسی بنیاد پر قرآن مجید میں حضرت عیسیٰ کی طرف خلق کے فعل کی نسبت دی گئی ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں، "أَنِّي أَخْلُقُ لَكُم مِّنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ فَأَنفُخُ فِيهِ فَيَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِ اللّهِ" (آل عمران/49) میں تمہارے لئے گارے سے پرندے کی شکل کی ایک مورت بنا کر اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ اللہ تعالیٰ کی قوت سے اڑنے لگتا ہے۔ حضرت عیسیٰ کے متعلق خود خدا فرماتا ہے، "إِذْ قَالَ اللّهُ يَا عِيسى ابْنَ مَرْيَمَ اذْكُرْ نِعْمَتِي عَلَيْكَ وَ عَلَى وَالِدَتِكَ إِذْ أَيَّدتُّكَ بِرُوحِ الْقُدُسِ تُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلاً وَ إِذْ عَلَّمْتُكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَالتَّوْرَاةَ وَالإِنجِيلَ وَإِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ بِإِذْنِي فَتَنفُخُ فِيهَا فَتَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِي وَ تُبْرِىءُ الأَكْمَهَ وَالأَبْرَصَ بِإِذْنِي وَ إِذْ تُخْرِجُ الْمَوتَى بِإِذْنِي وَ إِذْ كَفَفْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَنكَ إِذْ جِئْتَهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ فَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُواْ مِنْهُمْ إِنْ هَذَا إِلاَّ سِحْرٌ مُّبِينٌ" (المائدة/110)

ترجمعہ: جب اللہ تعالیٰ حضرت مریم کے بیٹے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے فرمائے گا کہ تم میرے اس احسان کو یاد کرو جو میں نے تم پر اور تمہاری ماں پر کیا تھا (اور) جب میں نے روح القدس سے تمہاری مدد کی تو تم لوگوں سے (ماں کی) گود میں بھی کلام کرتے تھے اور بڑی عمر میں بھی اور جب میں نے تمہیں کتاب و حکمت اور توریت و انجیل سکھائی اور جب تم میرے حکم سے، مٹی سے پرندے کی سی صورت بناتے تھے، پھر تم اس میں پھونک مارتے تو وہ میرے حکم سے پرندہ ہو جاتا تھا اور تم مادر زادہ اندھے اور کوڑھی کو میرے حکم سے اچھا کر دیتے تھے اور جبکہ تم میرے حکم سے مردوں کو قبروں سے نکال کر کھڑا کر دیتے تھے۔ اور جب میں نے بنی اسرائیل کو تم سے روکا، جب تم ان کے پاس کھلی نشانیاں لے کر آئے تھے اور ان میں سے منکروں نے کہہ دیا تھا کہ یہ تو محض صریح جادو ہے۔

اِذن کی اقسام:
یاد رہے کہ اذن دو قسم کے ہوتے ہیں، تشریعی اور تکوینی۔ تشریعی اذن کی مثال یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے گائے کا گوشت کھانے کا اذن دیا ہے یعنی اجازت دی ہے یعنی جائز قرار دیا ہے، یہ اذن تشریعی ہے۔ لیکن انسان جب گائے کا گوشت کھائے گا تو جس قوت سے کھائے گا وہ قوت بھی اللہ نے اسے دی ہے، یہ قوت انسان کے پاس اللہ تبارک وتعالیٰ کی جانب سے اذن تکوینی کے تحت ہے۔ "قُلْ أَرَأَيْتُم مَّا أَنزَلَ اللّهُ لَكُم مِّن رِّزْقٍ فَجَعَلْتُم مِّنْهُ حَرَامًا وَ حَلاَلاً قُلْ آللّهُ أَذِنَ لَكُمْ أَمْ عَلَى اللّهِ تَفْتَرُونَ" (يونس/59) ان سے پوچھو جو رزق اللہ نے تمہارے لیے نازل کیا ہے اور تم نے ان میں سے کسی کو حرام اور کسی کو حلال قرار دے لیا ہے، پوچھو! کیا اللہ نے تمہیں اذن دیا ہے؟ یا اللہ پر جھوٹ باندھتے ہو؟ یہ اذن تشریعی ہے۔ لیکن جب فرمایا گیا کہ "وَاللّهُ يَدْعُوَ إِلَى الْجَنَّةِ وَالْمَغْفِرَةِ بِإِذْنِهِ ...."(البقرة/221) اللہ جنت اور مغفرت کی طرف بلاتا ہے اپنے اذن سے۔

یہاں اذن سے مراد تشریعی اذن نہیں ہے ورنہ معنیٰ یہ ہوگا کہ اللہ پہلے اپنے آپ سے اجازت لیتا ہے پھر بلاتا ہے۔ ایسا سمجھنا بے عقلی ہوگی۔ یہاں مطلب یہ ہے کہ اللہ ہمیں دعوت دیتا ہے اپنی قوت سے جبکہ بندے دعوت دیتے ہیں اللہ کی دی ہوئی قوت سے۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام جب کہتے ہیں کہ میں اللہ کے اذن سے پرندہ بناؤں گا تو اس سے مراد اذن تکوینی ہے یعنی اللہ کی دی ہوئی قوت سے پرندہ بناؤں گا۔ اللہ تعالیٰ نے جھوٹ کو خلق کرنے کی نسبت انسانوں کی طرف دی ہے، "إِنَّمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ أَوْثَانًا وَ تَخْلُقُونَ إِفْكًا ۔۔۔" (العنكبوت/17) یقیناً تم اللہ کو چھوڑ کر بتوں کو پوجتے ہو اور جھوٹی باتیں خلق کرتے ہو۔ اسلیے قرآن مجید میں خلق کرنے کے فعل کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف بھی ہے اور مخلوق کی طرف بھی ہے۔ اسی بنیاد پر اگر ہم کہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے پرندہ خلق کیا تو یہ کسی بھی طرح شرک نہیں ہوگا۔

4. ہدایت:
قرآن مجید کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہدایت کا کام اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے ذمہ لیا ہے، "إِنَّ عَلَيْنَا لَلْهُدَى" (الليل/12) ہدایت ہمارے ذمہ ہے۔ ہدایت حقیقی معنیٰ میں اللہ تعالیٰ ہی کا فعل ہے، "قَالَ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطَى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدَى" (طه/50) میرا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو خلق کیا پھر ہدایت دی۔ پھر فرمایا، "وَ كَفَى بِرَبِّكَ هَادِيًا ۔۔۔۔۔" (الفرقان/31) اور تیرا رب ہی ہادی اور کافی ہے۔ اس مقام پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات بھی ہادی نہیں ہے کیوںکہ یہ فاعل حقیقی کا مقام ہے، "إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَن يَشَاء" (القصص/56) آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے لیکن اللہ جسے چاہے ہدایت دے۔ لیکن پھر اپنی ہدایت کے وسیلے بھی بیان کرتا ہے، "وَ إِنَّكَ لَتَهْدِي إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ" (الشورى/52) اور (اے نبی) بیشک آپ صراط مستقیم کی ہدایت کرنے والے ہیں۔

نبی اکرم حقیقی ہادی نہیں ہیں لیکن اللہ کی ہدایت کا وسیلہ ہیں۔ قرآن مجید بھی ہدایت کرتا ہے، "إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ يِهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ " (الإسراء/9) بے شک یہ قرآن ہدایت کرتا ہے سب سے پختہ راستے کی طرف۔ پھر اللہ تعالیٰ ہر قوم کے لیے ایک ہادی کو بیان کرتا ہے، "أَنتَ مُنذِرٌ وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ" (الرعد/7) آپ خبردار کرنے والے ہیں اور ہر قوم کے لیے ہادی ہے۔ اسلیے ہدایت کرنے کے فعل کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف بھی ہے اور مخلوق کی طرف بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ حقیقی ہادی ہے جبکہ باقی وسیلہ کے طور پر ہادی ہیں۔ اسی بنیاد پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یا قرآن مجید کو ہادی کہنا کسی بھی صورت میں شرک نہیں ہوگا۔

عذاب:
عذاب دینے والا اللہ تبارک و تعالیٰ ہے لیکن اس کے اس فعل کے جاری ہونے کے لیے بھی وسیلے ہیں، وَ يُعَذِّبُ مَن يَشَاء وَاللّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ" (البقرة/284) اللہ جسے چاہے عذاب دے وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ عذاب کے ذریعے بتاتے ہوئے قرآن مجید فرماتا ہے، "قَاتِلُوهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللّهُ بِأَيْدِيكُمْ" (التوبة/14) انکو قتل کرو اللہ تمہارے ہاتھوں انہیں عذاب دیتا ہے۔ پھر فرمایا، "فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيحًا صَرْصَرًا فِي أَيَّامٍ نَّحِسَاتٍ لِّنُذِيقَهُمْ عَذَابَ الْخِزْيِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا" (فصلت/16) پھر منحوس دنوں میں ہم نے ان پر ایک زور کی ہوا بھیج دی تاکہ دنیا میں انہیں ذلت کے عذاب کا مزہ چکھا دیں. اسلیے عذاب دینے کے فعل کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف بھی ہے تو مخلوق کی طرف بھی ہے۔ اسی بنیاد پر اگر ہم کہیں ہوا نے انہیں برباد کیا تو یہ کسی بھی طرح شرک نہیں ہوگا۔

6. حکم:
جیسے حمد اللہ کے لیے ہے، اسی طرح حکم بھی اسی سے مخصوص ہے، "إِنِ الْحُكْمُ إِلاَّ لِلّهِ يَقُصُّ الْحَقَّ وَهُوَ خَيْرُ الْفَاصِلِينَ" (الأنعام/57) حکم اللہ کے علاوہ کسی کا نہیں ہے وہ حق بیان کرتا ہے اور اچھا فیصلہ کرنے والا ہے۔ پھر فرمایا: "أَفَغَيْرَ اللّهِ أَبْتَغِي حَكَمًا" (الأنعام/114) کیا غیر اللہ کو منصف بناتے ہو؟ لیکن پھر خود ہی حکم دیتا ہے، "وَ إِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُواْ حَكَمًا مِّنْ أَهْلِهِ وَ حَكَمًا مِّنْ أَهْلِهَا إِن يُرِيدَا إِصْلاَحًا يُوَفِّقِ اللّهُ بَيْنَهُمَا إِنَّ اللّهَ كَانَ عَلِيمًا خَبِيرًا"(النساء/35) اگر تمہیں میاں بیوی کے مابین عداوت کا اندیشہ ہو تو ایک منصف، مرد کے کنبہ سے اور ایک منصف، بیوی کے کنبہ سے مقرر کر دو۔ اگر یہ دونوں منصف صلح کرانا چاہیں گے تو اللہ تعالیٰ بھی میاں بیوی میں موافقت کرا دے گا۔ بیشک اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا (اور ) خبر رکھنے والا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کی منصفی کے فعل کے جاری ہونے کے بھی ذرائع ہیں۔ اور منصفی کے فعل کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف بھی ہے تو مخلوق کی طرف سے بھی ہے۔

بلکہ جو اللہ کے بنائے ہوئے منصف رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دل سے منصف نہ مانے وہ مؤمن ہوہی نہیں سکتا،"فَلاَ وَ رَبِّكَ لاَ يُؤْمِنُونَ حَتَّىَ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لاَ يَجِدُواْ فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَ يُسَلِّمُواْ تَسْلِيمًا (النساء /65) پھر (اے نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) آپ کے رب کی قسم وہ ہرگز مومن نہ ہوں گے جب تک وہ آپس کے جھگڑوں میں آپ کو حکم (منصف) نہ بنائیں۔ پھر جو فیصلہ آپ کر دیں اس سے کسی طرح اپنے دلوں میں تنگی نہ پائیں اور اسے خوشی سے قبول کر لیں۔ اسی بنیاد پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو منصف کہنا کسی بھی طرح شرک نہیں ہوگا بلکہ عین ایمان ہوگا۔ اسی جگہ خوارج نے ٹھوکر کھائی تھی وہ اللہ کو منصف ماننے کے بعد کسی اور کو منصف ماننے کے لیے تیار نہیں تھے اور اسے شرک سمجھتے تھے اور نعرے لگاتے تھے "یا علی منصف اللہ ہے اے علی تم نہیں ہو"۔

الامر:
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں امر کی نسبت اپنے ساتھ دیتا ہے، "لِلَّهِ الْأَمْرُ" (الروم/4) امر تو اللہ ہی کے لیے ہے۔ پھر فرمایا، "أَلاَ لَهُ الْخَلْقُ وَالأَمْرُ تَبَارَكَ اللّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ"(الأعراف/54) جان لو! خلق اور امر اسی کے لیے ہے۔ لیکن پھر خود ہی اولی الامر کا تعارف کرواتا ہے،"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَ أَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَ أُوْلِي الأَمْرِ مِنكُمْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلاً" (النساء/59) اے ایمان والو! اطاعت کرو اللہ کی اور اچعت کرو رسول اور اولی الامر کی جو تم میں سے ہے۔ پھر اگر کسی بات میں تنازعہ کرو تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پلٹاؤ اگر تم اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو، نتیجہ کے حوالے سے یہی بہتر ہے۔ اسلیے امر کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف بھی ہے تو مخلوق کی طرف بھی ہے۔ اسی بنیاد پر امام مہدی کو اولامر ماننا شرک نہیں ہوگا۔

عزت:
اللہ تبارک و تعالیٰ عزت کو کامل طور پر اپنی ملکیت بتاتا ہے۔ فرمایا، إِنَّ الْعِزَّةَ لِلّهِ جَمِيعًا هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ" (يونس/65) عزت تو ساری اللہ ہی کے پاس ہے وہ سننے والا علم والا ہے۔ پھر فرمایا، "مَن كَانَ يُرِيدُ الْعِزَّةَ فَلِلَّهِ الْعِزَّةُ جَمِيعًا" (فاطر/10) جو عزت چاہتا ہے وہ جان لے کہ ساری عزت اللہ کے پاس ہے لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے بندوں کو عزت دی ہے۔ فرمایا، "وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَعْلَمُونَ" (المنافقون/8) اور عزت اللہ کے لیے ہے اور اسکے رسول کے لیے اور مؤمنین کے لیے لیکن منافق نہیں جانتے۔ اسی بنیاد پر اگر میں کہوں کہ میں فلان مومن کے گھر گیا اور اس نے مجھے عزت دی تو یہ کسی بھی طرح سے شرک نہیں ہوگا۔

شفاعت:
اللہ تبارک و تعالیٰ شفاعت کو اپنے ساتھ مخصوص کرتا ہے، "قُل لِّلهِ الشَّفَاعَةُ جَمِيعًا" (الزمر/44) کہہ دو کل شفاعت اللہ کے لیے ہے۔ لیکن پھر اذن خدا سے شفاعت کی خبر بھی خود دیتا ہے، "مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلاَّ بِإِذْنِهِ" (البقرة/255) کون ہے جو شفاعت کرے سواء اس کی اجازت کے۔ اسلئے شفاعت کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف بھی ہے تو مخلوق کی طرف بھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی شفاعت کے بھی وسیلے ہیں جو اس کی بارگاہ میں شفاعت کریں گے۔ اسی بنیاد پر اگر میں کہوں کہ دنیا اور آخرت میں میری شفاعت کرنے والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں تو یہ کسی بھی طرح سے شرک نہیں ہوگا۔ نہ ہی اگر میں رسول اللہ سے شفاعت طلب کروں تو یہ شرک ہوگا کیونکہ انکو شفیع خود اللہ تعالی نے بنایا ہے۔

10۔ شفاء:
امراض سے شفاء دینے والا اللہ تبارک و تعالیٰ ہی ہے، "وَ إِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ"(الشعراء/80) میں جب مریض ہوتا ہوں تو مجھے وہی شفا دیتا ہے۔ اسی لیے "ہو الشافی" کا جملہ زبان زد عام و خاص ہے لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ کے اس فعل کے بھی ذریعے ہیں۔ قرآن مجید میں شہد کو شفا کا ذریعہ بتایا گیا ہے، "ثُمَّ كُلِي مِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ فَاسْلُكِي سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلاً يَخْرُجُ مِن بُطُونِهَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ أَلْوَانُهُ فِيهِ شِفَاء لِلنَّاسِ إِنَّ فِي ذَلِكَ لآيَةً لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ" (النحل/69) پھر ہر قسم کے پھلوں میں سے کھائے اور اپنے رب کے راستوں میں چلے جو آسان ہیں۔ ان کے پیٹوں میں سے ایک ایسا شربت نکلتا ہے جس کے مختلف رنگ ہیں۔ اس (مشروب) میں لوگوں کے لئے شفا ہے۔ بیشک اس میں بھی غور کرنے والوں کے لئے ایک بڑی نشانی ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے اس فعل کے بھی وسیلے ہیں بلکہ تعجب تو یہ ہے کہ صحیح بخاری میں مکھی کے پر میں شفاء کا پورا باب موجود ہے۔

كتاب بدء الخلق بَابُ: "إِذَا وَقَعَ الذُّبَابُ فِي شَرَابِ أَحَدِكُمْ فَلْيَغْمِسْهُ، فَإِنَّ فِي إِحْدَى جَنَاحَيْهِ دَاءً وَ فِي الأُخْرَى شِفَاءً" باب، اس کا بیان کہ جب مکھی پانی یا کھانے میں گر جائے تو اس کو ڈبو دے کیونکہ اس کے ایک پر میں بیماری ہوتی ہے اور دوسرے میں شفاء ہوتی ہے۔ معلوم ہوا کہ شفاء کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف بھی ہے تو مخلوق کی طرف بھی ہے۔ شفاء کی نسبت اللہ کی طرف ہونے کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہوگا کہ اگر میں مریض ہوں تو ڈاکٹر کے پاس علاج کے لیے نہ جاؤں کیونکہ شفاء دینے والا خدا ہے، یہ توحید نہیں بلکہ بیوقوفی ہوگی کیونکہ جس طرح مرض خدا کی طرف سے ہی مرض کی دوا کا خالق بھی خدا ہی ہے۔

11. ہواؤں کا چلنا:
اس کائنات میں واقع ہونے والے دوسرے افعال کی طرح ہواؤں کا چلنا بھی اللہ تبارک و تعالیٰ کے امر سے ہے، "أَمَّن يَهْدِيكُمْ فِي ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَن يُرْسِلُ الرِّيَاحَ بُشْرًا بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهِ أَإِلَهٌ مَّعَ اللَّهِ تَعَالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ" (النمل/63) وہ کون ہے جو تمہیں خشکی اور دریا کی تاریکیوں میں راہ دکھاتا ہے اور کون اپنی رحمت (بارش) سے پہلے خوشخبری (دینے والی) ہوائیں بھیجتا ہے۔ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے۔ اللہ بہت بلند ہے اس شرک سے جو وہ کرتے ہیں۔ لیکن پھر حضرت سلیمان علیہ السلام کے لیے فرمایا، "قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِي وَهَبْ لِي مُلْكًا لَّا يَنبَغِي لِأَحَدٍ مِّنْ بَعْدِي إِنَّكَ أَنتَ الْوَهَّابُ (ص/35) فَسَخَّرْنَا لَهُ الرِّيحَ تَجْرِي بِأَمْرِهِ رُخَاء حَيْثُ أَصَابَ" (ص/36) (سلیمان نے) دعا کی، میرے رب! میری مغفرت فرما! مجھے ایسا ملک عطا فرما جیسا میرے بعد کسی کو نہ ملے، بے شک تو عطا کرنے والا ہے۔ پھر ہم نے ہوا کو اسکے تابع کر دیا اسکے حکم سے چلتی تھی، جہاں وہ چاہتے اسے نرمی سے پہنچا دیا کرتی تھی۔ واضح ہے کہ ان دونوں آیات میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ اس لیے کہ ہوا جو حضرت سلیمان علیہ السلام کے تابع تھی وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے امر سے ہی تھی۔ اس بنیاد پر ہم اگر کہیں کہ ہوا حضرت سلیمان کے حکم سے چلتی تھی تو یہ شرک نہیں ہوگا۔

12. نزول قرآن:
اللہ تبارک و تعالیٰ کہتا ہے کہ اس کتاب (قرآن) کو ہم نے نازل کیا ہے، "إِنَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ" (النساء/105) ہم نے یہ کتاب آپ کی طرف نازل کی ہے۔ پھر خود ہی قرآن مجید کے نزول کے وسیلے کی خبر دیتا ہے، "وَ إِنَّهُ لَتَنزِيلُ رَبِّ الْعَالَمِينَ"(الشعراء /192) "نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ" (الشعراء/193) "عَلَى قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنذِرِينَ" (الشعراء/194) اور یہ قرآن تو رب العالمین کا نازل کیا ہوا ہے۔ اس کو روح الامین لے کر اترا ہے۔ آپ کے دل پر تا کہ آپ ڈرانے والوں میں سے ہو جائیں۔ دوسری جگہ جبرئیل کا نام لیتا ہے: "قُلْ مَن كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيلَ فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَى قَلْبِكَ بِإِذْنِ اللّهِ" (البقرة/97)
آپ کہہ دیجئے کہ جو شخص جبرائیل کا دشمن ہو (ہوا کرے) اس نے تو اس قرآن کو اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپ کے دل پر اتارا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کتاب (قرآن) نازل کرنے والا اللہ تبارک و تعالیٰ ہی ہے لیکن یہ نزول حضرت جبرائیل کے وسیلے سے ہوا ہے۔ اسی بنیاد پر اگر کوئی کہے کہ قرآن جبریل نے نبی اکرم پر نازل کیا ہے تو یہ کسی بھی طرح سے شرک نہیں ہوگا۔ جبریل بھی اسے بلاواسطہ اللہ تبارک و تعالیٰ سے نہیں لیتا۔

"الَر كِتَابٌ أُحْكِمَتْ آيَاتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِن لَّدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ"(هود/1) الف لام راء یہ کتاب ہے جس کی آیات کو ہم نے پہلے محکم بنایا پھر اسے حکیم و خبیر کی طرف سے تفصیل دی گئی۔ "حم (الزخرف/1) وَالْكِتَابِ الْمُبِينِ (الزخرف/2) إِنَّا جَعَلْنَاهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ (الزخرف/3) وَإِنَّهُ فِي أُمِّ الْكِتَابِ لَدَيْنَا لَعَلِيٌّ حَكِيمٌ" (الزخرف/4) اس ام الکتاب کو پھر لوح محفوظ بھی کہا گیا ہے، "بَلْ هُوَ قُرْآنٌ مَّجِيدٌ" (البروج/21) "فِي لَوْحٍ مَّحْفُوظٍ" (البروج/22) بلکہ یہ قرآن مجید ہے جو لوح محفوظ میں ہے۔ اسے کتاب مکنون بھی کہا گیا ہے، إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ (الواقعة/77) فِي كِتَابٍ مَّكْنُونٍ (الواقعة/78) لَّا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (الواقعة/79) بیشک یہ قرآن کریم ہے جو پوشیدہ کتاب میں ہے اسے پاک افراد کے علاوہ کوئی چھو نہیں سکتا۔ کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بلاواسطہ اپنے روح القدس کے ذریعہ اللہ تبارک و تعالیٰ سے لیتے تھے:
"قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ مِن رَّبِّكَ بِالْحَقِّ لِيُثَبِّتَ الَّذِينَ آمَنُواْ وَ هُدًى وَ بُشْرَى لِلْمُسْلِمِينَ" (النحل/102) اسے روح القدس نے تیرے رب کی طرف سے حق کے ساتھ نازل کیا ہے ۔۔۔۔۔۔ روح القدس کے متعلق بحث آگے آئے گی۔ فی الوقت صرف اتنا سمجھنا ضروری ہے کہ یہ روح کے درجات میں سے ایک درجہ ہے۔

امام قرطبی کہتے ہیں: لاَ خِلَافَ أَنَّ الْقُرْآنَ أُنْزِلَ مِنَ اللَّوْحِ الْمَحْفُوْظِ لَیْلَۃَ الْقَدْرِ عَلَی مَا بَیَّنَّاہُ جُمْلَۃً وَاحِدَۃً، فَوَضَعَ فِی بَیْتِ الْعِزَّۃِ فِیْ سَمَائِ الدُّنْیَا، ثُمَّ کَانَ جِبْرِیْلُ یَنْزِلُ بِہٖ نَجْماً نَجْماً فِی الْأَوَامِرِ وَالنَّوَاہِیْ وَالْأسْبَابِ، وَ ذَلِکَ فِیْ عِشْرِیْنَ سَنَۃٍ۔ قال ابن عباس، أنزل القرآن من اللوح المحفوظ جملة واحدة إلى الكتبة في سماء الدنيا، ثم نزل به جبريل عليه السلام نجوما- يعني الآية و الآيتين- في أوقات مختلفة في إحدى و- عشرين سنة (الجامع لأحكام القرآن تفسیر القرطبی ۲؍۲۹۷)
کوئی اختلاف نہیں ( یعنی اجماع )ہے کہ قرآن کریم لوح محفوظ سے شب قدر میں یک بارگی اتارا گیا۔ جیسا کے ہم نے پہلے بیان کیا ہے۔ پھر اسے آسمان دنیا کے بیت العزت میں رکھا گیا بعد میں جبریل امین اس سے تھوڑا تھوڑا کرکے اوامر و نواہی اور اسباب لے کر نازل ہوا کرتے تھے اور یہ بیس سال میں سب کچھ ہوا۔ ابن عباس کا قول ہے کہ قرآن لوح محفوظ سے مکمل صورت میں یکبارگی دنیا کے آسمان پر نازل ہوا۔ پھر وہاں سے جبرئیل تھوڑا تھوڑا لے کر نازل ہوتے رہے یعنی ایک آیت یا دو آیتیں مختلف اوقات میں اکیس برس کے عرصے میں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بھی چیز جب اللہ تبارک و تعالیٰ کے پاس سے نازل ہوتی ہے تو اسکا پورا ایک نظام ہے۔

13۔ ولایت:
قرآن مجید میں ولایت کو اللہ تبارک و تعالیٰ سے ہی مخصوص کیا گیا ہے۔ فرمایا:
"أَمِ اتَّخَذُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاء فَاللَّهُ هُوَ الْوَلِيُّ ۔۔"(الشورى/9) کیا تم اللہ کے علاوہ کسی اور کو ولی بناتے ہو؟ جبکہ ولی تو صرف اللہ ہی ہے۔ پھر فرمایا، "وَاللّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ" (آل عمران/68) اور اللہ ہی مؤمنین کا ولی ہے۔ پھر فرمایا، "وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُتَّقِينَ" (الجاثية/19) اور اللہ ہی متقین کا ولی ہے۔ اور متنبہ کرتے ہوئے فرمایا:
"قُلْ أَفَاتَّخَذْتُم مِّن دُونِهِ أَوْلِيَاء لاَ يَمْلِكُونَ لِأَنفُسِهِمْ نَفْعًا وَلاَ ضَرًّا ..."(الرعد/16)
پوچھو! اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو ولی بناتے ہو جو اپنے نفع اور نقصان کے مالک نہیں ہیں۔ قرآن مجید بتاتا ہے کہ اللہ کو چھوڑ کرکسی اور کو ولی بنانا کسی کام نہیں آئے گا اس کی مثال مکڑی کے جالے کی سی ہے، "مَثَلُ الَّذِينَ اتَّخَذُوا مِن دُونِ اللَّهِ أَوْلِيَاء كَمَثَلِ الْعَنكَبُوتِ اتَّخَذَتْ بَيْتًا وَإِنَّ أَوْهَنَ الْبُيُوتِ لَبَيْتُ الْعَنكَبُوتِ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ" (العنكبوت/41) جو اللہ کے علاوہ کیس کو اولیاء بناتے ہیں ان کی مثال مکڑی کے جالے سی ہے سب سے کمزور گھر مکڑی کا ہے اگر وہ جانتے۔

لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ کے فعل ولایت کے جاری ہونے کے بھی وسیلے ہیں۔ اس لیے اللہ تبارک و تعالیٰ ہر طرح کی ولایت کو اپنے ساتھ مخصوص کرنے کے بعد اپنی ولایت کے جاری ہونے کے وسیلے بھی بیان کرتا ہے۔ فرمایا، "إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُواْ الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَ يُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ" (المائدة/55)
تمہارا ولی تو صرف اللہ ہے اور اسکا رسول اور مؤمنین جو نماز قائم کرتے ہیں اور زکوات دیتے ہیں جبکہ رکوع میں ہوتے ہیں۔ خود ملائکہ کو مؤمنین کے ولی کے طور پر پیش کرتا ہے، "إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ (فصلت/30) نَحْنُ أَوْلِيَاؤُكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ" (فصلت/31) جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے پھر اسی پر قائم رہے تو ان پر فرشتے اترتے ہیں اور (کہتے ہیں کہ) تم کچھ اندیشہ اور غم نہ کرو بلکہ جنت کی بشارت سن لو جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔ دنیاوی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی ہم تمہارے ولی ہیں اور تمہارے لئے وہاں وہ سب موجود ہے جو تمہارا جی چاہے اور تمہارے لئے وہ سب بھی جو مانگو گے۔

اور اولیاء اللہ کی تعریف ان الفاظ میں بیان کرتا ہے، "أَلا إِنَّ أَوْلِيَاء اللّهِ لاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ" (يونس/62) بے شک اولیاء اللہ پر نہ خوف ہوتا ہے نہ وہ حزن میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اسلیے "أَمِ اتَّخَذُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاء" کیا اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو ولی بناتے ہو؟ اور "قُلْ أَفَاتَّخَذْتُم مِّن دُونِهِ أَوْلِيَاء" ان سے پوچھو کیا اللہ کو چھوڑ کر تم نے دوسروں کو ولی بناتے ہو؟ جیسی تنبیہات بھی اس بات کا باعث نہیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ولایت کے جاری ہونے کے وسیلے نہ ہوں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جیسی شخصیات کو ولی ماننا شرک ہو۔ کیونکہ یہ "من دونہ" "اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو ولی بنانا" نہیں ہے بلکہ "من عندہ" یا "باذنہ" جس کو اللہ نے ولی بنایا ہے ان ہی کو ولی بنانا ہے اس لیے یہ من دونہ کے مصداق نہیں ہونگے۔ بالکل اسی طرح کے الفاظ قرآن مجید نے مدد مانگنے کے متعلق بیان کیے ہیں، "وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِهِ لاَ يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَكُمْ وَلآ أَنفُسَهُمْ يَنْصُرُونَ"(الأعراف/197) جو اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو پکارتے ہیں وہ انکی مدد پر قادر نہیں ہیں اور نہ ہی اپنی مدد کر سکتے ہیں۔ اسلیے مِن دُونِهِ سے مراد ہونگے وہ مددگار جن کو اللہ نے مددگار نہیں قرار دیا۔ لیکن جن کو اللہ نے خلق کے مددگار بنایا ہو وہ مِن دُونِ اللہ نہیں بلکہ مِن َ اللہ ہیں۔ اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیں اور یاد بھی رکھیں۔

امام ابن تیمیہ کیا کہتا ہے، یہی بات سلفی مذہب کے بانی ابن تیمیہ نے بھی اصول کے طور پر بیان کی ہے۔ مجموع فتاویٰ میں کہتے ہیں کہ خوارج اور معتزلہ نے شفاعت کی منفی آیات کو دلیل قرار دے کر یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ اہل کبائر اور کافر کی شفاعت نہیں ہوگی جبکہ ان منفی آیات کا مطلب یہ ہے کہ بغیر اذن اللہ نہیں ہوگی۔ کہتے ہیں:
فَيُقَالُ: "الشَّفَاعَةُ الْمَنْفِيَّةُ هِيَ الشَّفَاعَةُ الْمَعْرُوفَةُ عِنْدَ النَّاسِ عِنْدَ الْإِطْلَاقِ وَ هِيَ أَنْ يَشْفَعَ الشَّفِيعُ إلَى غَيْرِهِ ابْتِدَاءً فَيَقْبَلُ شَفَاعَتَهُ فَأَمَّا إذَا أَذِنَ لَهُ فِي أَنْ يَشْفَعَ فَشَفَعَ؛ لَمْ يَكُنْ مُسْتَقِلًّا بِالشَّفَاعَةِ بَلْ يَكُونُ مُطِيعًا لَهُ أَيْ تَابِعًا لَهُ فِي الشَّفَاعَةِ"۔ (خوارج اور معتزلہ کے جواب میں) کہا جائے گا، جس شفاعت کی نفی کی گئی ہے وہ وہی ہے جو عام طور پر عوام میں رائج ہے اور وہ یہ ہے کہ ابتدا میں ہی شفاعت کرنے والا کسی کے لیے شفاعت کرے اور اس کی قبول ہو۔ لیکن اگر پہلے اذن ملے شفاعت کرنے والے کو پھر وہ شفاعت کرے تو یہ شفاعت میں خودمختار نہیں ہے بلکہ یہ تو اطاعت گذار ہے یعنی شفاعت میں (اللہ کے) تابع ہے۔ پھر آگے اصول بیان کرتے ہوئے کہتے ہیںِ۔ "وَ أَمَّا نَفْيُ الشَّفَاعَةِ بِدُونِ إذْنِهِ: فَإِنَّ الشَّفَاعَةَ إذَا كَانَتْ بِإِذْنِهِ لَمْ تَكُنْ مِنْ دُونِهِ كَمَا أَنَّ الْوِلَايَةَ الَّتِي بِإِذْنِهِ لَيْسَتْ مِنْ دُونِهِ؛ كَمَا قَالَ تَعَالَى: (إنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا فَإِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْغَالِبُونَ)"

جس شفاعت کی نفی ہے وہ بِدُونِ إذْنِهِ بغیر اذن والی ہے۔ لیکن جب شفاعت بِإِذْنِهِ ہو تو وہ مِنْ دُونِهِ نہیں ہوگی بالکل اسی طرح جس طرح ولایت بِإِذْنِهِ ہوگی تو وہ مِنْ دُونِهِ نہیں ہوگی، جس طرح اللہ کا فرمان ہے،"إنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا فَإِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْغَالِبُونَ"۔ (مجموع فتاویٰ ج:1: ص:118) لیکن یہی ابن تیمیہ جب مدد مانگنے کے موضوع پر آتا ہے تو بِإِذْنِهِ کا اپنا بنایا ہوا اصول ترک کر دیتا ہے اور شرک کا فتویٰ دیکر فساد کا ایسا راستہ کھولتا ہے جس سے اب تک لاکھوں مسلمان قتل کردیئے گیے اور یہ کام اب بھی جاری ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اوپر بیان کی گئی متعدد مثالیں قرآن مجید کی توحید افعالی کو سمجھنے کے لیے کافی ہیں کہ حقیقی مارنے والا، زندہ کرنے والا، ۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ ہے لیکن اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کا ہر فعل وسیلے سے وجود میں آتا ہے۔ یہ وسیلہ مادی بھی ہو سکتا ہے اور معنوی بھی۔ بے ارادہ بھی ہو سکتا ہے جیسے ہو اور صاحب ارادہ بھی جیسے ملائکہ اور انسان۔
(جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 905125
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش