0
Tuesday 29 Dec 2020 03:42

راہ شہادت کا راہی، ابو مھدی مہندس(1)

راہ شہادت کا راہی، ابو مھدی مہندس(1)
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس

ابو مھدی مہندس کی زندگی کا سرسری مطالعہ انسان کو اس جانب متوجہ کرتا ہے کہ کامیاب انسان وہی ہے جو اپنی زندگی کسی بڑے ہدف کے لیے مخصوص کر دے۔ کیا شہادت ہی مطلوب و مقصود مومن ہوتا ہے یا ہدف کچھ اور ہوتا ہے اور اس کا صلہ اور ہدیہ شہادت کی صورت میں ملتا ہے۔ شہید ابو مہدی مہندس کے انٹرویو، ان پر بنائی جانے والے دستاویزی پروگرام اور ان کا رہن سہن اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ شہادت کے لیے بے چین تھے۔ وہ اس ابدی سعادت کی تلاش میں رہتے تھے۔ ہم شہید ابو مھدی کی زندگی پر کچھ لکھنے کی بجائے شہادت کے بارے میں ان کے افکار و نظریات پر مختصر روشنی ڈالتے ہیں۔ شہید ابو مہدی مہندس ایک جگہ شہادت سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں۔

شہادت خداوند عالم کے ہاں سب سے عظیم درجہ ہے، یہی وجہ ہے کہ حق و صداقت اور توحید و قرآن و ایمان لانے والے شہادت کے متمنی رہتے ہیں۔ قرآن پاک کی سورہ آل عمران کی آیت 169 سے 171 میں ارشاد ہوتا ہے "جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوگئے، انہیں مردہ مت کہو بلکہ وہ زندہ ہیں اور خدا کے ہاں رزق پاتے ہیں۔ وہ خدا کی طرف سے ملنے والے فضل و کرم سے خوش ہیں اور جو ابھی تک ان سے ملحق نہیں ہوسکے ہیں، ان کے بارے میں یہ خوش خبری رکھتے ہیں کہ ان کے واسطے بھی نہ کوئی خوف ہے اور نہ حزن۔ وہ اپنے پروردگار کی نعمت، اس کے فضل اور اس کے وعدے سے خوش ہیں کہ وہ صاحبان ایمان کے اجر کو ضائع نہِیں کرتا۔"

معروف ایرانی مجتھد آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی ان آیات کی تفسیر کے ذیل میں لکھتے ہیں کہ اس آیت میں موت و حیات کے مفہوم اس برزخی موت و حیات سے ہیں جو ہر مرنے والے کو درپیش رہے گا۔ برزخی زندگی میں جسمانی و مادی زندگی ہوگی اور اس میں شہداء کو استثناء حاصل نہیں ہے اور بہت سے دوسرے انسان بھی برزخی زندگی گزاریں گے، لیکن شہداء کی اس زندگی میں بے شمار نعمتیں ہوں گی، ان معنوی و روحانی نعمات کا ادرارک ممکن نہیں۔ قرآن شہداء کی ان نعمات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ شہداء خدا کے ہاں سے رزق پاتے ہیں۔ شہید کے بڑے عمیق اور گہرے معانی ہیں۔ شہید لفظ کا مطلب حاضر، ناظر، گواہ، گواہی دینے والا اور سچی اور صداقت پر مبنی خبر دینے والا بھی ہے۔ کہیں کہیں شہید کا مطلب آئیڈیل اور مثالی نمونے کے طور پر بھی آیا ہے۔ شہید اپنی قربانی اور فداکاری کی وجہ سے زندہ و جاوید ہو جاتا ہے۔

زندہ قومیں اپنے شہداء اور ان لوگوں کو جنہوں نے حریت و آزادی کے لیے ایثار و قربانی کا مظاہرہ کیا ہے، ہمیشہ یاد رکھتی ہے۔ اسلام کی نگاہ میں ہر مرنے والا شہید نہِیں ہوتا بلکہ اس کو شہید کا مرتبہ عطا ہوتا ہے، جو کسی مقدس اور پاکیزہ ہدف کو حاصل کرنے کے لیے اپنی جان کی قربانی پیش کرتا ہے۔ مفکر اسلام شہید مطہری فرماتے ہیں کہ شہید تین خصوصیات کا حامل ہوتا ہے۔ نمبر ایک، وہ ایک مقدس اور پاکیزہ ہدف کے لیے جان قربان کرتا ہے۔ نمبر دو، وہ شہادت کے ذریعے زندہ و جاوید ہو جاتا ہے۔ نمبر تین، وہ اپنے ماحول کو پاک و پاکیزہ کرتا ہے۔ ایک متقی مومن جب شہادت کے مرتبے پر فائز ہوتا ہے تو وہ لوگوں کے دلوں کو خدا کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ شہید کی شہادت کی روشنی سے دل منور ہوتے ہیں اور یہ روشنی اردگرد کے ماحول کو پاکیزہ اور مقدس بنا دیتی ہے۔ شہید مردہ دلوں کو زندہ کرتا ہے اور انہیں خدا کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ وہ برزخیوں کے لیے بھی آرام و ریحاں کا باعث بنتا ہے۔

شہید عزیز دشت بزرگ اپنے وصیت نامے میں لکھتے ہیں کہ کیا وہ وقت نہیں آن پہنچا ہے کہ انسان ماضی کے واقعات اور گذشتہ دور کے افراد کی زندگیوں کا ماحصل دیکھ کر عبرت حاصل کرے اور کیا یہ عبرت انسان کو خدا پر ایمان لانے کی دعوت نہیں دیتی۔ کیا خداوند عالم نے قرآن پاک میں نہیں فرمایا ہے کہ قرآن کو نصحیت حاصل کرنے کے لیے آسان بنا دیا گیا ہے اور کیا تم نصحیت قبول کرنے والے نہِیں ہو۔ قرآن کے احکامات کی روشنی میں سابقہ امتوں کی تاریخ کا مطالعہ ضروری ہے، تاکہ انسان اس سے عبرت حاصل کرسکے۔ وہ خامیاں اور ناکامیاں جو سابقہ امتوں کے حصہ میں آئیں، ان سے محفوظ رہنے کے لیے بھی تاریخ کا مطالعہ ضروری ہے۔ ابدی سعادت اور ہمیشہ رہنے والی خوش قسمتی کے حصول کے لیے حق و صداقت کی راہ پر چلنا اشد ضروری ہے۔ دنیا کا یہ تمام مال و اسباب یہیں رہ جائے گا۔ انسان اچھے اعمال لے کر اس دنیا سے جائے گا۔ انسان کا بدن فانی ہے، اس فانی شے کو راہ خدا میں قربان کر دینا چاہیئے۔ اگر عدل و انصاف اور حقیقت کے حصول کے لیے جان قربان ہو جائے تو اس کا صلہ نہایت خوبصورت اور قیمتی ہے۔

شہید قلب تاریخ ہے، جس طرح خون خشک اور مردہ رگوں کو زندگی اور حیات بخشتا ہے، شہید بھی تاریخ کی رگوں میں خون بن کر دوڑتا ہے۔ شہید کے خون کا سب سے بڑا معجزہ یہ ہے کہ وہ تاریخ کی خشک رگوں میں ایمان و معرفت کی موج پیدا کرتا ہے۔ اسلامی روایات میں شہید کے بارے مِیں متعدد اور منفرد روایات موجود ہیں، جس سے شہید کی عظمت اور بزرگی کا احساس ہوتا ہے۔ رسول اکرم سے حدیث ہے "ہر نیکی سے بڑھ کر ایک دوسری نیکی موجود ہے لیکن جو راہ خدا میں شہادت پا لیتا ہے، اس سے بڑھ کر کسی نیکی کا تصور بھی نہیں ہے۔" ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ مجاہدین راہ خدا بہشت والوں کے لیے رہبر و رہنماء ہیں۔ اگر ہم تاریخ اسلام کے اوراق کی ورق گردانی کریں تو پتہ چلتا ہے کہ اسلام کے عظیم کارنامے انجام دینے والے شہداء ہیں اور خدا اور خلق خدا کے عظیم قربانیاں دینے والے شہداء ہیں۔

شہید ابو مہدی مہندس کا شمار عالمی اسلامی تحریکوں کے ان نمایاں ان تھک مجاہدوں میں ہوتا ہے، جن کی زندگی جدوجہد اور کوشش و محنت سے آراستہ ہے۔ عراق کے شہر بصرہ کے قدیمی علاقے میں آنکھ کھولنے والے اس مرد مجاہد نے زندگی کے بہت سے نشیب و فراز کو اپنی ہمت، کوشش، بصیرت اور خلوص سے عبور کیا۔ شہید ابو مہدی مہندس کا اصل نام بقول ان کے جمال جعفر محمد علی آل ابراہیم تھا۔ بصرہ کالج سے سول انجیئرنگ میں ڈگری حاصل کی اور اسٹیل ملز کے کارخانے میں ملازمت کرکے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا، لیکن یہاں تک پہنچنے سے پہلے وہ اپنے علاقے اور تعلیمی ادارے میں ایک متحرک، مخلص، دیندار اور منصوبہ ساز نوجوان کی حیثیت سے معروف ہوچکے تھے۔ شہید ابو مہدی مہندس نے آمریت کے خلاف جدوجہد کا آغاز ثقافتی میدان سے کیا، لیکن شہید کی زندگی میں عسکریت، سیاست اور تربیتی شعبوں میں کام کرنے کے کئی مرحلے بھی آئے۔ شہید نے ہر شعبہ میں انتہائی خلوص سے اپنی ذمہ داری ادا کی۔

تعلیمی میدان میں ڈاکٹریٹ کی سطح تک پہنچے، سیاسی میدان میں ٘مختلف سیاسی الائنس کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کیا اور پارلیمنٹ کے فعال ممبر کی حیثیت سے بھی اپنے انتخابی حلقے کی نمائندگی کا بھی اعزار حاصل کیا۔ عسکری میدان میں جہاں صدام کے خلاف البدر بریگیڈ کی کمانڈ کی، وہاں داعش اور امریکی فورسز کے خلاف وہ کارہائے نمایاں انجام دیئے کہ نہ صرف داعش کو عراق سے اپنا بوریا بستر گول کرنا پڑا بلکہ امریکہ بھی آپ کے وجود سے اس قدر خوفزدہ تھا کہ اس نے آپ کو امریکہ کے مطلوب ترین دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کر رکھا تھا۔ شہید ابو مہدی مہندس کی سیاسی زندگی پر اگر نگاہ ڈالی جائے تو ان کی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز "حزب دعوت اسلامی" سے ہوتا ہے، بعد میں آپ اپنے دور کے عظیم مرجع آیت اللہ محسن الحکیم کے بصرہ شاخ کے ساتھ مربوط ہو جاتے ہیں۔ حزب دعوت اسلامی 1957ء میں شہید باقر الصدر کے ذریعے سے تاسیس ہوئی اور جب اس تنظیم نے آمریت اور سیکولرازم کے خلاف سرگرمیوں کا آغاز کیا تو عراق پر مسلط بعثت حکومت نے اس جماعت کو ختم کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا تو یہ جماعت آیک انقلابی جماعت بن کر عراقی معاشرے میں ابھر کر سامنے آئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 906851
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش