1
Thursday 31 Dec 2020 20:57

حساس اور اہم موقع پر فلسطینی مجاہدین کی الرکن الشدید جنگی مشقیں

حساس اور اہم موقع پر فلسطینی مجاہدین کی الرکن الشدید جنگی مشقیں
تحریر: اسراء البحیصی
 
ان دنوں غزہ کی پٹی میں فلسطینی مجاہدین کی جنگی مشقوں نے خبروں کی دنیا میں تہلکہ مچا رکھا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ مسئلہ فلسطین کی تاریخ میں اسلامی مزاحمتی گروہوں کی پہلی اعلانیہ جنگی مشقیں ہیں۔ یہ جنگی مشقیں ایک انتہائی اہم اور حساس موقع پر انجام پائی ہیں۔ یہ جنگی مشقیں اپنے اندر بہت سے اہم پیغام لئے ہوئے ہیں جو دوستوں اور دشمنوں کو پہنچائے گئے ہیں۔ پہلا پیغام اس متفقہ موقف پر استوار ہے کہ موجودہ حالات میں تمام اسلامی مزاحمتی گروہوں کی نظر میں واحد حکمت عملی اور ایجنڈا غاصب صہیونی رژیم کے خلاف مسلح جدوجہد پر مبنی ہے۔ دوسرا اہم پیغام تمام فلسطینی گروہوں کا اتحاد ہے۔ حالیہ جنگی مشقوں کیلئے تمام مزاحمتی گروہوں نے ایک مشترکہ ہیڈکوارٹر تشکیل دیا اور اس کے تحت جنگی مشقیں انجام پائیں۔
 
فلسطین میں اسلامی مزاحمتی گروہوں کی ان جنگی مشقوں کا تیسرا پیغام اپنے موقف اور اصول پر ثابت قدم اور پائیدار رہنے پر مشتمل ہے۔ ایسے وقت جب کئی عرب ممالک اعلانیہ طور پر اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم سے دوستانہ تعلقات استوار کر چکے ہیں اور دیگر کئی اسلامی ممالک ایسے تعلقات استوار کرنے کیلئے پر تول رہے ہیں، فلسطین کے اسلامی مزاحمتی گروہ جہاد پر مشتمل اسٹریٹجی پر زور دے رہے ہیں۔ انہوں نے حالیہ جنگی مشقوں سے اس بات پر تاکید کی ہے کہ غاصب صہیونی رژیم کے خلاف مسلح جدوجہد ہی واحد درست راستہ ہے اور وہ ہر گز اس راستے کو ترک نہیں کریں گے۔ اسی طرح ان جنگی مشقوں سے اس امید کا اظہار بھی ہوتا ہے کہ قدس شریف کی آزادی بہت قریب ہے لہذا عرب اقوام غدار حکمرانوں کا ساتھ دینے کی بجائے اسلامی مزاحمتی بلاک میں شامل ہو جائیں۔
 
غزہ کی پٹی میں فلسطینی مجاہد گروہوں کی جنگی مشقوں کا چوتھا پیغام اسلامی مزاحمت کی طاقت میں اضافے پر مبنی ہے۔ ایسے وقت جب اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم اندرونی طور پر شدید سیاسی بحران اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور اندرونی اختلافات شدت اختیار کر چکے ہیں، اسلامی مزاحمتی گروہ باہمی اتحاد کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ یہ جنگی مشقیں بذات خود بنجمن نیتن یاہو کی شکست کا واضح ثبوت ہیں جس نے اسلامی مزاحمت کو کمزور کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رکھا تھا۔ فلسطینی مزاحمتی گروہوں کی ان جنگی مشقوں کا پانچواں پیغام اپنے دوستوں کیلئے ہے اور وہ یہ کہ آپ اس بارے میں مطمئن رہیں کہ ہم جارح دشمن کا مقابلہ کرنے کیلئے ہمہ وقت تیار اور آمادہ ہیں۔
 
فلسطینی مجاہدین کی جنگی مشقوں کا چھٹا پیغام اس حقیقت پر مبنی ہے کہ امریکہ، اسرائیل اور خطے میں ان کے کٹھ پتلی حکمرانوں کی جانب سے اسلامی مزاحمتی بلاک میں شامل ممالک کے خلاف اقتصادی اور نفسیاتی جنگ شکست کا شکار ہو چکی ہے اور ان ممالک سے فلسطینی مجاہدین کو ملنے والی مدد روک نہیں پائی۔ اس بات کا واضح ثبوت "الرکن الشدید" جنگی مشقوں میں استعمال ہونے والے ہتھیار ہیں جو زیادہ تر ایران، شام اور لبنان سے حاصل کئے گئے ہیں۔ اسی طرح ان جنگی مشقوں میں شامل مجاہدین کی فوجی تربیت فلسطینی سرزمین کے علاوہ دیگر اسلامی ممالک میں بھی انجام پائی ہے۔ لہذا امریکہ، اسرائیل اور ان کی پٹھو حکومتوں سمیت تمام دشمنوں کو جان لینا چاہئے کہ فلسطین میں اسلامی مزاحمت روز بروز طاقتور ہوتی جا رہی ہے۔
 
سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ یہ جنگی مشقیں ایک اہم اور اسٹریٹجک عمل ہے جو فوجی میدان میں اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کے منہ پر طمانچے کی مانند ہے۔ ان جنگی مشقوں نے ثابت کر دیا ہے کہ غاصب صہیونی رژیم کی جانب سے غزہ کے شدید محاصرے اور اس کے نتیجے میں جنم لینے والی غربت اور بھوک نیز کرونا وائرس کے باعث پیدا ہونے والی مشکلات کے باوجود غیور فلسطینی جوان اپنی قوم اور سرزمین کا دفاع کرنے کیلئے پوری طاقت سے دشمنوں کے خلاف ڈٹے ہوئے ہیں۔ ان جنگی مشقوں کی اہمیت اس وقت زیادہ ابھر کر سامنے آتی ہے جب ہم خطے کی غدار حکومتوں کو دیکھتے ہیں جنہوں نے اپنا تاج و تخت بچانے کی خاطر غاصب صہیونی رژیم سے دوستانہ تعلقات استوار کرنے کی دوڑ لگا رکھی ہے۔
 
اس میں کوئی شک نہیں کہ فلسطینی مزاحمتی گروہوں کی یہ مشترکہ جنگی مشقیں خطے میں ایک بنیادی اور گہری تبدیلی کا آغاز ہے۔ جب ان جنگی مشقوں کیلئے ایک مشترکہ ہیڈکوارٹر تشکیل دیا جاتا ہے اور تمام اسلامی مزاحمتی گروہ اپنے ماضی اور حال کے تجربات بروئے کار لاتے ہیں اور جنگی مشقوں میں ہر قسم کے بری، بحری اور فضائی ہتھیاروں کا استعمال کیا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ فوجی شعبے میں فلسطینی مزاحمتی گروہ پختگی کی اعلی سطح تک پہنچ چکے ہیں۔ یہ ایسی حقیقت ہے جس نے غاصب صہیونی رژیم اور دیگر اسلام دشمن قوتوں کو شدید ہراساں کر ڈالا ہے۔ آج غزہ اسلحہ اور فوجی سازوسامان کے لحاظ سے اپنے پاوں پر کھڑا ہو چکا ہے اور یہ شہید قاسم سلیمانی کی اس خاص توجہ کا نتیجہ ہے جو انہوں نے غزہ میں سرگرم اسلامی مزاحمتی گروہوں پر مرکوز کر رکھی تھی۔
خبر کا کوڈ : 907246
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش