0
Saturday 2 Jan 2021 10:28

اسٹیبلشمنٹ کے اپوزیشن سے رابطوں پر وزیراعظم کا اضطراب

اسٹیبلشمنٹ کے اپوزیشن سے رابطوں پر وزیراعظم کا اضطراب
ترتیب و تنظیم: ٹی ایچ بلوچ

پاکستان میں سیاسی افراتفری کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے حکومت اور اپوزیشن دونوں کو سرپرستی کی تلاش ہے۔ ان کے دل چیر کے دیکھیں تو اسٹیبلشمنٹ اور پاک فوج کی محبتوں سے لبریز ہیں۔ قوم کو وطن عزیز کے رکھوالوں سے جو فطری محبت ہے، اس سے سوا یہ ایک الگ ماجرا ہے۔ پاکستان میں مسلح افواج نے سیاست میں مداخلت کا آغاز نہیں کیا بلکہ سکندر مرزا کے زمانے سے ہی سیاست دانوں نے ایک دوسرے کو مات دینے کیلئے فوج کی چھتری استعمال کرنے کا حربہ استعمال کیا۔ پھر کیا تھا کہ مقتدر قوتوں نے سیاستدانوں کی نرسری لگا لی، ایک حکومت میں لایا جاتا ہے تو دوسرے کو تھپکی ساتھ دے دی جاتی ہے، دونوں لڑتے ہی رہتے ہیں، بالآخر درانی فارمولا سامنے آنا شروع ہو جاتا ہے، موجودہ لڑائی میں یہ اسکا تازہ ترین ورژن ہے۔

پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے ایک ہی منہ سے فوج پر الزام بھی لگایا کہ ہے وہ عمران خان کو اقتدار تک لائے ہیں، ساتھ ہی انہوں نے آرمی چیف سے مذاکرات کی حامی اس شرط پر بھری ہے کہ آرمی چیف اکیلے نہ ہوں بلکہ ان کے ساتھ ڈی جی آئی ایس آئی اور تمام کور کمانڈرز بھی موجود ہوں۔ اس کا مطلب ہے کہ سیاستدانوں کے نزدیک کسی ایک افسر کی سیاسی کاوش کافی نہیں، نہ کوئی ایک شعبہ ہے، جس کے ذریعے فوج سیاست میں عمل دخل جاری رکھے ہو، اس لیے مولانا سمجھتے ہیں کہ پاکستانی فوج کی ساری قیادت جس طرح بھارت کی طرف سے پاکستانی سلامتی کیلئے پیدا کردہ چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی تدابیر بنانے اور ان پر عمل کروانے کیلئے پوری فوج کو ہدایات دیتی ہے، اسی طرح مولانا شیرانی اور حافظ حسین احمد کو بھی فوج ہی چلا رہی ہے۔

دوسری طرف عمران خان بھی پیچھے نہیں ہیں، وزیراعظم عمران خان نے اپوزیشن کو چیلنج کیا ہے کہ وہ ثبوت دیں کہ فوج کیسے ہماری حکومت کی پشت پناہی کر رہی ہے، حیرت ہو رہی ہے کہ یہ کیا چاہتے ہیں کہ فوج کیا کرے؟، پاک فوج قربانیاں دے رہی ہے، یہ اس کیخلاف بیانات دے رہے ہیں، کس جمہوریت میں آرمی چیف کو کہا جاتا ہے کہ موجودہ حکومت کو ہٹائیں، نواز شریف نے آرمی چیف اور آئی ایس آئی کے سربراہ پر تنقید کی۔ دھاندلی کا ثبوت نہیں دیا گیا اور کہا گیا کہ فوج نے دھاندلی کرائی۔ ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن مجھے فوج کا کٹھ پتلی کہتی ہے، فوج ریاستی ادارہ ہے اور میں ریاست کا منتخب وزیراعظم ہوں، اپوزیشن مجھے کٹھ پتلی بھی کہتی ہے اور فاشسٹ بھی، اپوزیشن فیصلہ کر لے کہ میں کٹھ پتلی ہوں یا فاشسٹ؟، فوج کو پتہ ہے کہ عمران خان کرپشن نہیں کر رہا بلکہ پاکستان کیلئے کام کر رہا ہے، فوج ہر اس وزیراعظم کا ساتھ دے گی جو ملک کیلئے کام کرے گا۔

اسی طرح سیاستدانوں نے آئینی اور قانونی تقاضے پورے کرکے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے اسٹیبلشمنٹ کو نیب جیسا ادارہ بھی بنا کر دیا ہے۔ اپوزیشن رہنما آئے روز کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے اپنے دور حکومت میں نیب قوانین میں ترمیم نہ کرکے غلطی کی ہے۔ دوسرا وزیراعظم کہتے ہیں کہ میں سب کو الٹا لٹکاوں گا، ان سے لوٹا ہوا مال واپس لونگا اور جب اسی دوران نیب اپوزیشن رہنماوں ہی کو گرفتار کرتی ہے تو عمران خان ساتھ یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ حکومت اداروں کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتی، 95 فیصد نیب کیسز ہم نے ان کے خلاف نہیں بنائے، انہوں نے اپنے اپنے ادوار میں ایک دوسرے پر کیس بنائے، کیا نیب نے میرے کہنے پر عبدالعلیم خان اور سبطین خان کو جیل میں ڈالا؟، نیب کے کاموں میں مداخلت کرتے ہیں نہ ججز کو فون کرتے ہیں۔
 
فرض کریں عمران خان سچ کہتے ہیں کہ وہ اداروں کے کام میں مداخلت نہیں کرتے، تو وہ یہ کیوں کہہ رہے ہیں کہ وفاقی کابینہ میں خواجہ آصف کےخلاف تحقیقات کرنے کا کہا، ہم جانتے تھے کہ اقامہ منی لانڈرنگ کا طریقہ ہے، خواجہ آصف کو دبئی سے کیش کی صورت میں رقم آرہی تھی، ہم نے نہیں اے این ایف نے یہ کیس بنایا، کابینہ اجلاس میں ڈی جی اے این ایف سے پوچھا کیس میرٹ پر ہے؟، اداروں کے کاموں میں مداخلت نہیں کرتا، اے این ایف اب بھی کہہ رہی ہے کہ کیس ٹھیک ہے۔ اسی طرح جب بھی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے اپوزیشن جماعتوں سے رابطوں کی خبریں آتی ہیں تو فوری ردعمل وزیراعظم یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ این آر او کیلئے دباؤ ڈالنے کی پوری کوشش کی جا رہی ہے، اپوزیشن جو مرضی کرے، این آر او نہیں دوں گا، پہلے دن کہا تھا کہ تمام اپوزیشن اکٹھی ہو جائے گی۔ اپوزیشن کی سیاست اقتدار میں آکر مال بنانا ہے، اپوزیشن کے ہاتھوں بلیک میل نہیں ہوسکتا۔
 
اس کا مطلب یہ ہے کہ اپوزیشن اور حکومت اس پوزیشن میں نہیں کہ پاکستان کو درپیش مسائل اور ان کا حل سمجھتے ہوں اور پاکستان کو مشکلات سے نکال سکتے ہوں۔ اس کا وہ اعتراف بھی کرتے ہیں، جیسا کہ حالیہ انٹرویو میں بھی وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ کوئی بے وقوف ہی ہوگا جسے پتہ نہ ہو کہ ملک کے کیا مسائل ہیں، میں نے وزیراعظم بننے سے پہلے کئی انٹرویوز میں کہہ چکا تھا کہ پاکستان کو مسائل سے نکالنے کا کوئی آسان حل نہیں ہے، ان مسائل سے نکالنے کیلئے جو حل ہیں، وہ تکلیف دہ ہیں۔ اسی طرح اپوزیشن نے آج تک جتنی تنقید کی ہے اس میں کہیں بھی یہ نہیں بتایا کہ ملک کے مسائل کیا کیا ہیں اور انکا حل کیا ہے، جس طرح حکومت مہنگائی، بے روزگاری سمیت ہر مسئلے کا ذمہ دار سابقہ حکمرانوں کو قرار دے رہی ہے۔

حکومتی ناکامیوں اور اپوزیشن کی بے سر باتوں اور الزامات در الزامات کی سیاست نے میدان مکمل طور پر اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں دے دیا ہے۔ یہ کہا گیا سچ محسوس ہوتا ہے کہ قائداعظم محمد علی جناح اور ذوالفقار علی بھٹو کے بعد پاکستان میں کوئی سیاسی لیڈر ایسا نہیں آیا، جو آزادانہ طور پر سوچتا ہو، فیصلے کرتا ہو اور اس کے مطابق ہدایات دے سکتا ہو۔ پی ڈی ایم کسی طرح بھی ایک سیدھ میں نہیں چل سکتی، کیونکہ جہاں آصف زرداری، نواز شریف کی بیٹی اور مولانا اکٹھے ہوں، وہاں کیسے سیاسی مفادات قربان ہونگے، یہ قربانی کون دیگا، جب کوئی اصول اور اخلاقی مقصد بھی ایسا نہیں، جس کی خاطر وہ جمع ہوئے ہوں، دوسری طرف حکومت جن اتحادیوں کے سہارے کھڑی ہے، ان سے متعلق خود عمران خان کہہ رہے ہیں کہ مقصد کی خاطر کمپرومائز کے طور پر ایم کیو ایم اور چوہدری برادران کو ساتھ رکھا ہوا ہے، شاید جہانگیر ترین پہ زبان بند رکھنے کی بھی یہی وجہ ہے۔ اسکا مطلب ہے کہ علامہ راجہ ناصر عباس کی یہ رائے درست ہے کہ پاک فوج ہی ایک ایسا ادارہ ہے، جس نے پاکستان کو عراق اور شام بننے سے بچا رکھا ہے۔
خبر کا کوڈ : 907464
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش