0
Friday 8 Jan 2021 17:33

کوثر اور تکاثر سے اقتباس (2)

کوثر اور تکاثر سے اقتباس (2)
تحریر: ترتیب و تنظیم سعید علی پٹھان
علامہ زکی باقری صاحب قبلہ دوسری مجلس سے اقتباس

ایام فاطمیہ سلام اللہ علیہا ۲۰۲۰۔ علی پور ( ۲):
میرے لئے ایک ایک لمحہ کٹھن گذر رہا ہے میں اپنے وطن کو یاد کر رہا ہوں۔ میرے لئے ایک ایک فرد عزیز ہے۔ مجھے یاد ہے جب میں گھر سے باہر نکل رہا تھا تو میرے والد نے کہا تھا کہ کہیں بھی رہو مجالس شہزادی کونین سلام اللہ علیہا میں ضرور آنا لیکن حالات کچھ اس طرح ہو گئے ہیں کہ اس سال میں حاضر نہ ہو سکا لیکن ٹیکنالوجی نے ان دوریوں کو قریب کردیا ہے۔ واقعا دنیا چھوٹی ہوگئی ہے۔ ہماری مجالس کا موضوع کوثر اور تکاثر ہے۔ ان دونوں میں ایک اور فرق یہ ہے کہ صرف آج کا سوچنا تکاثر اور ہمیشہ کا سوچنا کوثر ہے۔ اپنی زندگی کے بارے میں سوچیں اس کو سیریس لیں۔

ہماری کل کی مجلس کو ایک مومن نے سن کر اس کا خلاصہ بنا کر دوسرے مومنین کو شئیر کیا ہے۔ یہ دیکھ کر میری آنکھوں سے آنسو نکل پڑے کہ جو علم حاصل کرنا چاہتا ہے وہ جگہ نہیں دیکھتا بلکہ یہ دیکھتا ہے کہ اسے کہاں سے کیا مل رہا ہے۔ جس موضوع پر ہم گفتگو کر رہے ہیں یہ کوئی آسان موضوع نہیں ہے۔ یہ لوگوں کو خوش کرنے اور بہلانے والا موضوع نہیں ہے بلکہ ان کی مشکلات کو حل کرنے والا ہے۔
یہ مجالس درسگاہیں ہیں۔ لہذا میں میرے جوانوں سے گزارش کرتا ہوں کہ جب مجلس میں آئیں کاغذ اور قلم لے کر آئیں اور اہم نکات کو نوٹ کریں۔ خصوصی طور پر قرآن مجید کے پیغامات کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں۔ کیونکہ قرآن کتاب نور اور زندگی ہے۔ قرآن سے دور ہو جانا یعنی نور اور زندگی سے دور ہو جانا ہے۔ اس میں غور و فکر کریں
سورہ محمد 24 میں ہے کہ "أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْءَانَ" کیا تم قرآن میں تدبر اور غور نہیں کرتے۔

٭ کوثر اور تکاثر میں دوسرا فرق یہ کہ کوثر ایک بہتا ہوا دریا ہے:

جس سے ہر کوئی فائدہ اٹھا سکتا ہے جبکہ تکاثر ایسا کنواں یا کھڈا ہے جہاں ساری گندگی جمع ہو رہی ہو۔کوثر کی مکمل تصویر کو سمجھنا ہو تو سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۱۷۷ کی ایک جھلک دیکھ لیں۔ "لَّيْسَ الْبِرَّ أَن تُوَلُّوا۟ وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ ءَامَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْءَاخِرِ وَالْمَلَٰٓئِكَةِ وَالْكِتَٰبِ وَالنَّبِيِّۦنَ وَءَاتَي الْمَالَ عَلَيٰ حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَيٰ وَالْيَتَٰمَيٰ وَالْمَسَٰكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّآئِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلَوٰةَ وَءَاتَي الزَّكَوٰةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَٰهَدُوا۟ وَالصَّٰبِرِينَ فِي الْبَأْسَآءِ وَالضَّرَّآءِ وَحِينَ الْبَأْسِ أُو۟لَٰٓئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا۟ وَأُو۟لَٰٓئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ"۔ (177)

نیکی یہ نہیں ہے کہ اپنا رخ مشرق اور مغرب کی طرف کرلو بلکہ نیکی اس شخص کا حصّہ ہے جو اللہ اور آخرت ملائکہ اور کتاب پر ایمان لے آئے اور محبت خدا میں قرابتداروں، یتیموں، مسکینوں، غربت زدہ مسافروں، سوال کرنے والوں اور غلاموں کی آزادی کے لئے مال دے اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ ادا کرے اور جو بھی عہد کرے اسے پوراکرے اور فقر و فاقہ میں، پریشانیوں اور بیماریوں میں اور میدانِ جنگ کے حالات میں صبر کرنے والے ہوں تو یہی لوگ اپنے دعوائے ایمان و احسان میں سچے ہیں اور یہی صاحبان تقویٰ اور پرہیزگار ہیں۔ مال کمانا اسلام میں برا نہیں ہے بلکہ اسلام نے مال سے محبت کو روکا ہے۔ اس سے ہر مومن کو فائدہ پہنچے یہی درحقیقت کوثر کا جلوہ ہے۔

٭ اور یہ بھی یاد رہے کہ ذاتی فائدہ اور قوم کا فائدہ دو الگ الگ چیزیں ہیں۔
کوثر یعنی وہ آگے بڑھے اور مومنین کی خدمت کرے۔ رہبر وہ ہے جو علی پور کے مومنین کی خدمت کرے۔ علی پور کے مومنین کو بانٹنے والا کوثری نہیں بلکہ تکاثری ہے۔ دین تکاثر کی اجازت نہیں دیتا ہے۔ یہ باتیں میری نہیں ہیں۔ آیت اللہ جوادی آملی کے بقول "علما مائیک کا کام کرتے ہیں"۔ میں قرآن اور اہلبیت کی طرف سے بول رہا ہوں میرا کچھ بھی نہیں ہے۔ آیت اللہ نے فرمایا اس کا مطلب اہلبیت اور قرآن نے فرمایا ہے۔ لہذا ان باتوں کو غور سے سنیں اور ان پر عمل کریں۔ کیونکہ امام علی نے فرمایا کہ "اسلام کچھ نہیں ہے مگر عمل، عمل نہیں ہے تو اسلام نہیں ہے"۔

٭ اور قیام کریں۔ قیام کیا ہے اور اس کا مفہوم کیا ہے؟
سورہ حدید کی آیت نمبر 25 میں ہے کہ "لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ۖ وَأَنْزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ وَرُسُلَهُ بِالْغَيْبِ ۚ إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ" بیشک ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل کے ساتھ بھیجا ہے اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان کو نازل کیا ہے تاکہ لوگ انصاف کے ساتھ قیام کریں اور ہم نے لوہے کو بھی نازل کیا ہے جس میں شدید جنگ کا سامان اور بہت سے دوسرے منافع بھی ہیں اور اس لئے کہ خدا یہ دیکھے کہ کون ہے جو بغیر دیکھے اس کی اور اس کے رسول کی مدد کرتا ہے اور یقینا اللہ بڑا صاحبِ قوت اور صاحبِ عزت ہے۔ قیام یعنی لوگوں میں عدالت کا شعور جگانا ہے۔

مثال کے طور پر میرے پاس 1000 روپے ہیں اور 10 محتاج ہیں اور مجھے سب کو ایک سو دینا ہے یہ ہے عدالت۔ مگر ان میں سے دو چار آ کر کہیں کہ یہ ہمارا حق نہیں ہے تو یہ ہے عدالت میں قیام۔ اس کے لئے سسٹم بنانے کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ سسٹم قرآن مجید کے سایہ میں بنے گا۔ اسی لئے سرکار نے فرمایا ہے کہ جو شخص 10 آیتیں پڑھے گا وہ غافل نہیں رہے گا۔ مسلمانوں کی دولت اس لئے لٹ رہی ہے کہ وہ غفلت میں ہیں۔ جب کوئی ایک قوم بیدار ہوتی ہے تو اس کی بیداری سے دنیا پریشان ہو جاتی ہے کیونکہ اس طرح کی بیداری سے ان کی دکانیں بند ہو جائیں گی۔

اس سلسلہ میں سورہ حشر کی آیت 7 آیت بھی ملاحظہ فرمالیں، "مَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَىٰ فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنْكُمْ ۚ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ" تو کچھ بھی اللہ نے اہل قریہ کی طرف سے اپنے رسول کو دلوایا ہے وہ سب اللہ، رسول اور رسول کے قرابتدار، ایتام، مساکین اور مسافران غربت زدہ کے لئے ہے تاکہ سارا مال صرف مالداروں کے درمیان گھوم پھر کر نہ رہ جائے اور جو کچھ بھی رسول تمہیں دیدے اسے لے لو اور جس چیز سے منع کر دے اس سے رک جاؤ اور اللہ سے ڈرو کہ اللہ سخت عذاب کرنے والا ہے۔  اللہ تبارک و تعالی تقسیم مال کا کتنا خوبصورت نظام اس آیت میں بتا رہا ہے۔ ہمارے نوجوان اکنامسٹ اس پر کام کریں۔ ایسا نہ ہو جائے کہ ساری دولت ایک فرد یا چند لوگوں میں جمع ہو کر رہ جائے۔

جیسا کہ ہندوستان میں صرف 100 بڑے دولتمند ہیں، پاکستان میں 45 بڑے دولتمند خاندان ہیں۔ امریکا میں 1 فیصد کے پاس 99 فیصد کے برابر مال موجود ہے۔ توازن بگڑ چکا ہے۔ اور بگڑتا جا رہا ہے اور ہم ابھی سو رہے ہیں۔ جبکہ معاشرہ کا چیلنج یہ ہے کہ دولت صحیح طریقہ سے تقسیم ہو۔ ہم کو سرمایہ داروں کے نظام کو توڑ کر اس کی جگہ قرض الحسنہ کا نظام مسجدوں اور امام بارگاہوں سے شروع کرنا ہوگا۔ اپنے قبیلہ، اپنے علاقے اور اپنے مومنین کو آباد کریں۔ عزیزو یہی نظام کوثر ہے یا دوسرے لفظوں میں یہی فاطمی نظام ہے۔ جن کے گھر سے ہر طرح کا رزق ملتا ہے۔ اللہ ہم سب کو بی بی کے در سے آشنا کرے۔ اور اس بات کو درک کرنے کی کوشش کریں کہ بی بی نے اتنی مصیبتوں کو کیوں برداشت کیا اور کیوں آپ پر اتنی مصیبتیں ڈالی گئیں !!!!!

امام رضا (ع) کو ہم غریب الغرباء کہتے ہیں کیونکہ وہ اپنے وطن اور عزیزوں سے دور تھے مگر سیدہ شہزادی اپنے وطن میں بھی غریب ہیں۔ کیوں؟ سوچنے کا مقام ہے۔ آپ نے وہ غم سے بھرا مرثیہ کیوں پڑھا کہ اے بابا آپ کے بعد جو مصائب پڑے ہیں اگر روشن دنوں پر پڑتے تو تاریک ہو جاتے۔ شھزادی کا گریہ فدک چھننے کا نہیں، اپنے پہلو پر دروازے گرنے کا نہیں۔ بلکہ شھزادی کا گریہ علی جیسے عادل کے حق سے محروم کیے جانے کا ہے۔ جو درحقیقت عدالت بلکہ ساری انسانیت پر ظلم ہے۔ امام حسین کی زیارت میں ایک جملہ ہے کہ امام کو سب سے بڑا رنج و غم تب ہوا جب آپ کو آپ کے مقام سے ہٹایا گیا۔ اور دنیا آپ کے مقام کو سمجھ نہیں سکی۔ اسی لئے شھزادی حق کی خاطر مدینہ کے ہر دروازے پر گئیں اور لوگوں کو غدیر یاد دلایا۔ اس وقت اگر لوگ بیدار ہو جاتے تو آج دنیا یوں بربادی کے دہانے پر نہ ہوتی۔ آج بھی ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم شہزادی کے درد کو سمجھیں۔ ولایت کی اسی طرح اطاعت کریں جس طرح حسن نصر اللہ کرتے ہیں۔
 
خبر کا کوڈ : 908063
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش