0
Wednesday 6 Jan 2021 15:47

کیا داعش آج بھی بلوچستان میں موجود ہے؟

کیا داعش آج بھی بلوچستان میں موجود ہے؟
رپورٹ: ایم رضا

بلوچستان میں شیعہ ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے 11 کان کنوں کی شہادت کی ذمہ داری دولت اسلامیہ فی عراق والشام (داعش) نے قبول کی ہے، جس سے صوبے میں اس دہشت گرد تنظیم کی موجودگی کے حوالے سے بہت سے خدشات اور سوالات نے جنم لیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق 3 جنوری کو نامعلوم مسلح افراد ضلع کچھی کے علاقے مچھ میں کان کنی کرنے والے مزدوروں میں سے صرف شیعہ ہزارہ برادری کے لوگوں کو شناخت کرکے ساتھ لے گئے اور انہیں فائرنگ کرکے شہید کر دیا۔ اس واقعے کے ایک روز بعد داعش کی اعماق نامی خبر رساں ایجنسی کے شائع کردہ ایک بیان میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ یہ کارروائی داعش کے جنگجوؤں نے کی ہے۔ پاکستان میں داعش کی کارروائیوں کا آغاز سن 2015ء میں ہوا، جب اس نے پاکستان اور افغانستان پر مشتمل خطے میں "داعش خراسان" کے نام سے اپنی شاخ قائم کرنے کا اعلان کیا۔ اس کے بعد سے اب تک پاکستان بھر خصوصاً بلوچستان میں دہشت گردی کے بہت سے واقعات میں اس بین الاقوامی دہشت گرد تنظیم کا نام سامنے آچکا ہے۔

سن 2016ء میں پاکستان بھر میں پیش آنے والے ایسے 9 واقعات کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی، جن میں 129 افراد شہید اور 112 زخمی ہوئے۔ اسی سال حکومت نے تسلیم کیا کہ پاکستان میں داعش کا وجود ایک حقیقت ہے۔ اس دوران بلوچستان میں دہشت گردی کے چھوٹے بڑے متعدد ایسے واقعات پیش آئے، جن میں سے بعض کی ذمہ داری تو داعش نے خود قبول کی اور دیگر میں اس کا ہاتھ ہونے کے شواہد پائے گئے۔ ان میں سے ایک اہم واقعہ ستمبر 2017ء میں پیش آیا، جب بلوچستان کے علاقے مستونگ سے دو چینی باشندوں کی لاشیں ملیں۔ ان کی ہلاکت کی ذمہ داری داعش نے اعلانیہ قبول کی۔ اس واقعے کے بعد سکیورٹی فورسز نے صوبے میں داعش کے خلاف آپریشن شروع کیا، جس کے دوران داعش کے بہت سے جنگجوؤں اور کمانڈروں کو ہلاک کیا گیا۔ ان میں سلیمان بادینی نامی جنگجو بھی شامل تھا، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے 100 سے زائد افراد کے قتل میں ملوث تھا۔

سن 2018ء میں مستونگ میں بلوچستان عوامی پارٹی کے انتخابی جلسے میں خودکش دھماکہ بھی داعش کی ایک بڑی کارروائی تھی۔ اس واقعے میں کم از کم 150 افراد جاں بحق ہوئے، جن میں اس پارٹی کے رہنماء سراج رئیسانی بھی شامل تھے۔ اسی سال بلوچستان میں دہشت گردی کے 3 دیگر بڑے واقعات میں بھی داعش ملوث پائی گئی۔ مئی 2019ء میں داعش نے پاکستان کے لئے اپنی الگ شاخ کے قیام کا اعلان کیا، جس کا نام "دولت اسلامیہ ولایت پاکستان" رکھا گیا۔ اس اعلان کے بعد داعش نے مستونگ میں ایک پولیس افسر کو ہلاک کرنے اور کوئٹہ میں پاکستانی طالبان سے تعلق رکھنے والے ایک شدت پسند کو قتل کرنے کی ذمہ داری بھی قبول کی۔ سن 2019ء اور اس کے بعد بلوچستان میں داعش کے خلاف سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں مزید تیزی آئی اور اس کی جانب سے کی جانے والی دہشت گردی کے واقعات کی تعداد بھی کم ہوگئی۔ تاہم ہزارہ مزدوروں کی شہادت سے یہ تاثر ملتا ہے کہ بلوچستان میں داعش اور اس کے زیر اثر جنگجو گروہوں کی مؤثر موجودگی برقرار ہے۔

دفاعی امور کے ماہر اور اسلام آباد میں قائم پاکستان انسٹیٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز کے ڈائریکٹر عامر رانا نے ذرائع ابلاغ کو بتایا ہے کہ اگرچہ پاکستان میں داعش تنظیمی سطح پر باقاعدہ وجود رکھتی ہے، تاہم ابھی یہ دیکھنا ہوگا کہ آیا یہ کارروائی واقعی داعش نے کی ہے یا اس میں کوئی اور گروہ ملوث ہے۔ ان کے مطابق بلوچستان میں ایسے عسکریت پسند گروہ بھی موجود ہیں، جو داعش سے بالواسطہ وابستگی رکھتے ہیں۔ عامر رانا کے مطابق یہ گروہ نہ صرف اپنے طور پر بلکہ داعش کی سرپرستی میں بھی کارروائیاں کرتے رہتے ہیں اور پچھلے چند برسوں میں ہونے والی سکیورٹی کارروائیوں کے نتیجے میں اگرچہ یہ گروہ کسی حد تک کمزور ضرور ہوئے ہیں، لیکن مکمل طور پر ختم نہیں ہوئے۔ عامر رانا کے مطابق کسی چھوٹے دہشت گرد گروہ کے لئے ایسی بڑی کارروائی کرنا اور اس کے بعد خود کو سکیورٹی اداروں سے محفوظ رکھنا آسان کام نہیں ہوتا۔

انسدادِ دہشت گردی کے قومی ادارے نیکٹا کے سابق سربراہ احسان غنی کے مطابق دہشت گرد تنظیموں نے اپنا طریقہ کار تبدیل کر لیا ہے۔ برطانوی خبر رساں ادارے بی بی سی کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ موجودہ دور میں داعش جیسی تنظیموں کی موجودگی کو واضح طور پر محسوس نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ ماضی کے برعکس اب اس کے باقاعدہ دفاتر، بھرتی مراکز یا ٹریننگ سنٹر موجود نہیں، لیکن جو لوگ ایسی تنظیموں کی فکر اور تشدد کے فلسفے سے متاثر ہوتے ہیں اور اس کو درست سمجھتے ہیں، وہ مختلف نیٹ ورکس کے ذریعے ان تنظیموں سے رابطے میں آجاتے ہیں، جس کے بعد وہ تنظیمی سطح پر یا اپنے طور پر دہشت گردی کی کارروائیوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 908502
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش