0
Thursday 7 Jan 2021 14:41

پاکستانی وزیراعظم کا اعتراف لیکن۔۔۔۔

پاکستانی وزیراعظم کا اعتراف لیکن۔۔۔۔
اداریہ
عمران خان نے اسلام آباد میں ترکی کے نجی چینل اے نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے بلوچستان میں ہزارہ برداری کے کان کنوں کی شہادت کو افسوس ناک واقعہ قرار دیا اور کہا کہ اس واقعے کی جڑیں اسّی کی دہائی سے ملتی ہیں، جب افغان جہاد شروع ہوا اور اس میں پاکستان بھی شریک ہوا اور نتیجے میں فرقہ وارانہ فسادات نے جنم لیا۔ انھوں نے کہا کہ مذہبی انتہاء پسند مسلح افراد اب دہشت گرد تنظیم داعش کا روپ دھار چکے ہیں۔ عمران خان نے کہا کہ پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کو یکساں حقوق حاصل ہیں جبکہ ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کے حقوق کا تحفظ کرے۔
 
پاکستانی وزیراعظم اس بات کا اعتراف تو کرتے ہیں کہ ہزارہ مسلمانوں کے موجودہ مسائل کی کڑیاں اسی 80 کے عشرے کی پاکستانی سیاست سے ملتی ہیں، لیکن اس سے یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ ان پالیسیوں کے ذمہ داروں کو کبھی کسی کٹہرے میں لایا گیا یا ڈالروں کی ریل پیل میں ان خطاوں کو ہمیشہ کے لئیے فراموش کر دیا گیا۔ وہ گروپس اور اس کے پیچھے فرقہ وارانہ مائنڈ سیٹ تو اب بھی سب کے سامنے ہیں اور خود پاکستان کے حکومتی ادارے اور سیاستدان خود اس بات کا اعتراف بھی کر رہے ہیں، لیکن کیا وزیراعظم پاکستان کوئی تجزیہ کار ہیں کہ ہزارہ قتل عام کی وجوہات بیان کرکے اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوگئے ہیں۔

ماضی میں پاکستان کے آرمی چیف جنرل باجوہ بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ ہم سے غلطیاں سرزد ہوئی ہیں، اب وزیراعظم بھی اس سے ملتی جلتی بات کر رہے ہیں۔ یہ سلسلہ کب تک چلے گا۔ غلطیاں کوئی کرے بھگتے کوئی اور۔ ریاست ماں کا درجہ رکھتی ہے۔ ماں کے لئے تمام اولاد یکساں ہوتی ہے، اسے اقلیت اور اکثریت میں تقسیم کرنا درست اقدام نہیں ہوتا، وہ بھی اس حکومت میں جو ریاست مدینہ کی آئیڈیالوجی کو رائج کرنے کا دعویٰ کرتی ہے۔ ہزارہ برادری کے مظلوم عوام ہوں یا پاکستان کے کسی بھی خطے میں ظلم کی چکی میں پسنے والے عام شہری، سب کے حقوق مساوی ہیں اور سب کو ان کے شہری اور سماجی حقوق ملنے چاہیئں۔
خبر کا کوڈ : 908647
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش