QR CodeQR Code

ہزارہ کمیونٹی اور مسترد شدہ بیانیے

8 Jan 2021 14:19

اسلام ٹائمز: اہلِ تشیع کی مذہبی قیادت کے سر یہ سہرا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے ہاں دہشتگردی اور شدت پسندی کا راستہ ہموار نہیں ہونے دیا۔ حبّ الوطنی کی جو شاندار تاریخ ہزارہ کمیونٹی اور انکی دینی و سیاسی قیادت نے رقم کی ہے، وہ ناقابلِ فراموش ہے۔ چنانچہ یہ بات ایک مرتبہ پھر عرض کئے دیتا ہوں کہ بے شک شیعہ دینی قیادت ہزارہ کمیونٹی سے یکجہتی کیلئے اہم کردار ادا کرتی ہے لیکن اسکا یہ مطلب نہیں کہ ہزارہ کو شیعہ ہونے کیوجہ سے شہید کیا جاتا ہے۔ ہزارہ کو کسی اور وجہ سے ٹارگٹ نہیں کیا جاتا، انکے ٹارگٹ کی صرف ایک ہی وجہ ہے اور وہ وجہ کچھ لوگوں کی تجوریاں ہیں۔ وہ لوگ جب اور جہاں چاہتے ہیں، شیعہ و سنی فسادات کا نعرہ لگا کر، ایران و سعودی عرب کی پراکسی وار کا ڈھونگ رچا کر اور ہندوستان کی مداخلت کی ڈگڈگی بجا کر اپنی تجوریاں بھرتے ہیں۔


تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@gmail.com

بیانیہ دماغوں پر حکومت کرتا ہے، یہ سوچ کو جکڑ لیتا ہے، یہ عوام کو جدھر چاہتا ہے اُدھر لے جاتا ہے۔ آسان لفظوں میں یہ ایک غیر مرئی اور غیر محسوس نکیل ہے۔ اس نکیل کے ذریعے عوام کو کھینچ کر رائے عامہ بنائی جاتی ہے۔ بیانیے اور ذرائع ابلاغ کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اس ساتھ کو نبھانے کیلئے کنگ میکر قوتیں ذرائع ابلاغ کو خرید لیتی ہیں۔ یہی قوتیں اپنے مفادات اور ترجیحات کے مطابق ذرائع ابلاغ کو بیانیے لکھ کر دیتی ہیں۔ پھر یہی بیانیے عوام کی زبان پر جاری ہو کر رائے عامہ میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ اس وقت ہزارہ قوم کے حوالے سے بھی کچھ بیانیے زبانِ زدِ عام ہیں۔ آیئے ان میں سے چند ایک کا جائزہ لیتے ہیں۔
۱۔ ہزارہ ایک کمزور قوم ہیں
۲۔ ہزارہ کو اہلِ سُنت قتل کرتے ہیں
۳۔ ہزارہ ہٹ دھرم اور کمیونٹی پرست ہیں
۴۔ ہزارہ کمیونٹی کو شیعہ ہونے کی وجہ سے قتل کیا جاتا ہے
۵۔ ہزارہ کمیونٹی کا قتل سعودی عرب اور ایران کی پراکسی وار کا نتیجہ ہے
۶۔ سیاسی اور قبائلی اشرافیہ اپنے مفادات کیلئے ہزارہ کمیونٹی کو نشانہ بنواتا ہے
۷۔ ہزارہ کمیونٹی کو ہندوستان  قتل کروا رہا ہے۔

اب آیئے ان بیانیوں کا جائزہ لیتے ہیں:
۱۔ سب سے پہلے تو اس بیانیے پر کچھ دیر سوچئے۔ کتنی آسانی سے یہ کہا جاتا ہے کہ ہزارہ ایک کمزور قوم ہیں۔ حالانکہ ہزارہ کمزور نہیں بلکہ ہر لحاظ سے طاقتور قوم ہیں۔ کمزور تو ان کا وہ بزدِل دشمن ہے جو چھپ کر اِن پر حملہ آور ہوتا ہے۔ ہزارہ کمیونٹی کی طاقت یہ ہے کہ وہ نہ منہ چھپا کر حملہ کرتے ہیں اور نہ ہی حملہ کرکے منہ چھپاتے ہیں۔ یہی مضبوط اور غیرت مند قبائل کی شناخت ہے۔ ہزارہ اگر کمزور ہوتے تو وہ بھی اپنے دشمنوں کے تعاقب میں تخریبی راستوں پر چل پڑتے۔ آپ ان کا مقابلہ بلوچستان کے دیگر قبائل سے کرکے دیکھ لیجئے، یہ علمی، فکری، سیاسی اور اجتماعی شعور کے اعتبار سے اپنی مثال آپ ہیں۔ باقی داخلی اختلافات تو ہر جگہ ہوتے ہیں۔

۲۔ دوسرا بیانیہ یہ کہ اہلِ سُنت ہی ہزارہ کمیونٹی کے قاتل ہیں۔ یہ بیانیہ انتہائی مضحکہ خیز ہے۔ اس کا مقصد "لڑاو اور دبا کر رکھو" کے سوا کچھ نہیں۔ نفرتیں تقسیم کرکے جن کی دکانیں چلتی ہیں، یہ انہیں کا تیار کردہ بیانیہ ہے۔ اس کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں۔ جب زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں تو پھر خلائی مخلوق سے ہوسکتا ہے۔
۳۔ ایک بیانیہ یہ بھی ہے کہ ہزارہ ہٹ دھرم اور کمیونٹی پرست ہیں۔ یہ بیانیہ تیار کرنے والوں کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ کھسیانی بلی کھمبا نوچے۔ جب انکا کوئی اور بیانیہ نہیں چلا تو قبیلہ پرستی کا الزام لگا دیا۔ اگر ہزارہ قبیلہ پرست اور ضدی ہوتے تو اپنے حقوق کیلئے قبائلی جدوجہد کا طریقہ کار  ہی اختیار کرتے۔ دیگر قبائل کی طرح بلوچستان کے بلند و بالا پہاڑوں کو یہ بھی اپنا مورچہ بنا لیتے۔ لیکن حقائق اس کے برعکس ہیں۔ پاکستان کی قومی، اجتماعی، سیاسی، سائنسی اور سوشل ترقی میں ہزارہ برادری کا کردار اظہرمن الشّمس ہے۔ اس موضوع پر ہزاروں نہیں تو سینکڑوں کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔

۴۔ ہزارہ کمیونٹی کو شیعہ ہونے کی وجہ سے قتل کیا جاتا ہے۔ یہ بیانیہ بھی عمداً اختراع کیا گیا ہے۔ اگر شیعہ ہونے کی وجہ سے ہزارہ برادری کو قتل کیا جاتا ہے تو پھر بلوچستان کے دیگر قبائل میں موجود شیعہ حضرات کو اس طرح مسلسل نشانہ کیوں نہیں بنایا جاتا۔ ہزارہ شیعہ ضرور ہیں لیکن یہ ضروری نہیں کہ انہیں شیعہ ہونے کی وجہ سے ہی قتل کیا جائے۔ یہاں اصلی وجہ کو چھپانے کیلئے شیعہ ہونے کا ایشو  استعمال کیا جاتا ہے۔

۵۔ ہزارہ کمیونٹی کا قتل سعودی عرب اور ایران کی پراکسی وار کا نتیجہ ہے۔ یہ بھی ایک گھسا پٹا بیانیہ ہے۔ جو لوگ مطالعے اور تحقیق کے عادی نہیں ہوتے، یہ بیانیہ ان کیلئے تیار کیا گیا ہے۔ وہ آسانی سے اس بات کو مان جاتے ہیں کہ یہ سب پراکسی وار کا نتیجہ ہے۔ اگر یہ سعودی عرب اور ایران کی پراکسی وار ہے تو پھر ہزارہ کیوں سعودی عرب نواز مدارس و مساجد پر حملے نہیں کرتے؟ پھر ہزارہ برادران کیوں  سعودی مفادات کو نشانہ نہیں بناتے؟ اگر یہ پراکسی وار ہے تو پھر طالبان، القاعدہ، داعش، احسان اللہ احسان اور رمضان مینگل جیسے سفاک اور نامی گرامی درندے ہزارہ کمیونٹی میں کیوں پیدا نہیں ہوتے؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ پراکسی وار نہیں بلکہ  اسپیشل وار ہے۔

۶۔ سیاسی اور قبائلی اشرافیہ اپنے مفادات کیلئے ہزارہ کمیونٹی کو نشانہ بنواتا ہے۔ یہ چھٹا بیانیہ بھی خاص عزائم کی نشاندہی کرتا ہے۔ سیاسی اور قبائلی اشرافیے کی قباحتوں کا سب کو اعتراف ہے۔ لیکن اس اشرافیے کے ایسے کیا مفادات ہیں، جو صرف ہزارہ کمیونٹی کے قتل سے پورے ہوتے ہیں؟ یہ بیانیہ بھی حقیقت سے دور ہے۔
۷۔ ہزارہ کمیونٹی کو ہندوستان قتل کروا رہا ہے۔ یہ بیانیہ اصل میں سارے بیانیوں کا بے تاج بادشاہ ہے۔ بلوچستان میں ہندوستانی ایجنٹوں کی موجودگی کی بات کرکے ہزارہ کمیونٹی کے قتل کی ذمہ داری ہمسایہ ملک پر ڈال دینا یہ معمول بن گیا ہے۔ ہزارہ کمیونٹی کا مسلسل قتل کسی بھی طرح سے بھارت کی ترجیحات میں نہیں آتا۔ اس کمیونٹی کا کوئی ایسا مسلح لشکر یا جتھہ نہیں جو کہیں پر ہندوستانی مفادات کو زِک پہنچانے کا باعث بن رہا ہو۔ ہندوستان اتنا بیوقوف نہیں کہ وہ خواہ مخواہ اپنے خلاف دشمن تراشی کرتا پھرے۔

دوسری طرف شیعہ ہونے کی وجہ سے ایران کی ساری ہمدردیاں ہزارہ کمیونٹی کے ساتھ ہیں۔ اگر بھارت اس طرح مسلسل ہزارہ کمیونٹی پر شب خون مارتا ہے تو ایران بھی اتنا بھولا بھالا نہیں کہ وہ بھارت سے احتجاج نہ کرے۔ باخبر حضرات جانتے ہیں کہ ہزارہ قبیلے کی وجہ سے کوئٹہ کو منی قم بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں کی تہذیب و ثقافت پر ایرانی تہذیب کی گہری چھاپ ہے۔ ہزارہ کمیونٹی پر حملے د اصل ایک مضبوط ایران دوست قبیلے پر حملے ہیں۔ بھارت سفارتی و سیاسی دنیا میں ایران کے ساتھ چھیڑ خانی کا ہرگز متحمل نہیں ہے۔ چنانچہ یہ بیانیہ بھی سچ کے تابوت میں کیل ٹھونکنے کے مترادف ہے۔

اب آیئے یہ دیکھتے ہیں کہ حقیقت کیا ہے؟ حقیقت کو سمجھنے کیلئے ہمیں بلوچستان کی جغرافیائی حیثیت کو سمجھنا ہوگا، یہاں کی مقامی سیاسی و قبائلی قیادت کے اطوار سامنے رکھنے ہونگے، نیز یہاں کے قدرتی اور معدنی وسائل اور ان کے استعمال کا جائزہ لینا ہوگا۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ گوادر کی بندرگاہ سمیت بلوچستان کے قدرتی وسائل یہاں کے عوام کے کسی کام کے نہیں۔ ایک کم آبادی والے صوبے کے پاس سب سے زیادہ رقبہ ہے۔ یہ سارے کا سارا رقبہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ لیکن حالات کی ستم ظریفی دیکھئے کہ سب سے زیادہ پسماندگی یہیں پر ہے۔ بلوچستان کی سیاسی قیادت ہو یا قبائلی سردار ان سب کا یہی مطالبہ ہے کہ ہمارے وسائل سے ہمیں بھی فائدہ پہنچایا جائے۔ جن سیاسی و قبائلی لیڈروں کا یہ مطالبہ شدت اختیار کرتا ہے، انہیں ملک دشمن قرار دیدیا جاتا ہے۔

آپ ان سارے ملک دشمنوں کے مطالبات اٹھا کر دیکھ لیں، ان سب کا یہ مشترکہ مطالبہ ہے کہ بلوچستان کے وسائل کو اہلیانِ بلوچستان تک پہنچنے دیا جائے۔ چنانچہ  بعض افراد نے اپنے مطالبات کی منظوری کیلئے اسلحہ بھی اٹھا رکھا ہے۔ اسلحہ برداروں اور علیحدگی پسندوں کو یہاں کی بعض سیاسی اور قبائلی نیز بین الاقوامی شخصیات کی حمایت بھی حاصل ہے۔ یہ سیاسی، قبائلی اور عسکری عناصر مل کر جب عالمی برادری کی توجہ حاصل کرنے لگتے ہیں تو بیچ میں ہزارہ قتل و غارت شروع ہو جاتی ہے۔ یوں اس مسئلے کو چھپانے کیلئے ہزارہ کمیونٹی کو قربانی کا بکرا بنایا جاتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ہزارہ کمیونٹی یا زائرین کی بسوں کو ہی کیوں نشانہ بنایا جاتا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ عالمی برادری کو یہ بتانا مقصود ہوتا ہے کہ یہاں پر اور کوئی مسئلہ نہیں صرف شیعہ و  سُنی کا جھگڑا چل رہا ہے۔ زائرین کی بسیں، مسافر خانے اور ہزارہ کمیونٹی اس حوالے سے آسان ٹارگٹ ہیں۔ انہیں نشانہ بنانے سے شیعہ ہی نشانہ بنتے ہیں اور یوں شیعہ و سنی کی لڑائی کے بیانیے کو پُررنگ کیا جاتا ہے۔

جہاں تک بلوچستان میں را کے ایجنٹوں اور داعش و طالبان کی موجودگی کی بات ہے تو یہ حقیقت بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ را کے سائے تلے پرورش پانے والے سارے دینی مدارس اور داعش و القاعدہ کی تمام نرسریاں ہمارے سکیورٹی اداروں کے سامنے ہیں۔ ان کے نیٹ ورکس ہتھیلی پر سرسوں کی مانند ہیں۔ یاد رہے کہ یہ حقیقت بھی سب پر عیاں ہے کہ دہشتگردی سے متعلق جتنے لوگ بھی گرفتار ہوتے ہیں، انہیں سرکاری سہولتکاری فراہم کی جاتی ہے۔ بعض کو الیکشن لڑوائے جاتے ہیں اور بعض کو حساس اداروں کی حراست سے فرار کے محفوظ راستے فراہم کئے جاتے ہیں۔ اب یہاں پر ہزارہ برادری کے علماء اور پاکستان کی مذہبی قیادت کا ذکر بھی ضروری ہے۔ یہ شیعہ مذہبی قیادت کی بصیرت اور احساسِ ذمہ داری ہے کہ وہ اس کٹھن وقت میں میدان کو خالی نہیں چھوڑتی۔ زخم رسیدہ لوگوں کے دلوں کو  قرآن و سنت اور کربلا کے ذکر سے تسکین پہنچانا کمالِ دانشمندی ہے۔

اہلِ تشیع کی مذہبی قیادت کے سر یہ سہرا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے ہاں دہشت گردی اور شدت پسندی کا راستہ ہموار نہیں ہونے دیا۔ حبّ الوطنی کی جو شاندار تاریخ ہزارہ کمیونٹی اور ان کی دینی و سیاسی قیادت نے رقم کی ہے، وہ ناقابلِ فراموش ہے۔ چنانچہ یہ بات ایک مرتبہ پھر عرض کئے دیتا ہوں کہ بے شک شیعہ دینی قیادت ہزارہ کمیونٹی سے یکجہتی کیلئے اہم کردار ادا کرتی ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہزارہ کو شیعہ ہونے کی وجہ سے شہید کیا جاتا ہے۔ ہزارہ کو کسی اور وجہ سے ٹارگٹ نہیں کیا جاتا، ان کے ٹارگٹ کی صرف ایک ہی وجہ ہے اور وہ وجہ کچھ لوگوں کی تجوریاں ہیں۔ وہ لوگ جب اور جہاں چاہتے ہیں، شیعہ و سنی فسادات کا نعرہ لگا کر، ایران و سعودی عرب کی پراکسی وار کا ڈھونگ رچا کر اور ہندوستان کی مداخلت کی ڈگڈگی بجا کر اپنی تجوریاں بھرتے ہیں۔


خبر کا کوڈ: 908890

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/908890/ہزارہ-کمیونٹی-اور-مسترد-شدہ-بیانیے

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org