1
5
Friday 8 Jan 2021 23:30

سانحہ مچھ جبل کے شہید شیعہ ہزارہ کان کنان کا مقدمہ

سانحہ مچھ جبل کے شہید شیعہ ہزارہ کان کنان کا مقدمہ
تحریر: محمد سلمان مہدی
 
سانحہ مچھ کے بعد سے جو کچھ کہا سنا گیا، اس کے پیش نظر اب تک کی صورتحال کے تناظر میں چند حقائق کو ریکارڈ پر لانا ضروری ہے۔ سانحہ مچھ کے گیارہ کان کن شہداء کے ورثاء نے اتوار تین جنوری سے آٹھ جنوری کی شب تک اپنے مظلوم پیارے شہداء کے اجساد خاکی کو نہیں دفنایا۔ وہ کوئٹہ میں شہداء کے تابوت کے ساتھ دھرنا دیئے بیٹھے ہیں۔ اظہار یکجہتی کے لیے پاکستان کے شیعہ مسلمان شہری کراچی کی بندرگاہ سے پاراچنار تک، گلگت بلستان و آزاد کشمیر تک سڑکوں پر دھرنا دیئے بیٹھے ہیں۔ ہزارہ شیعہ برادری سے ان سبھی کا انسانی، اسلامی، ایمانی اور ولائی رشتہ ہے۔ صوبہ بلوچستان کے مچھ جبل میں چھ بہنوں کا اکلوتا مزدور بھائی بھی ان گیارہ شہداء میں شامل ہے، جو حدیث رسول اکرم خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیﷺ کی روشنی میں اللہ کے محبوب ہیں۔ البتہ رزق حلال کمانے کے لیے زمین دوز کوئلے کی کانوں میں مزدوری کرکے رزق حلال کمانے والے اللہ کے ان محبوب بندوں پر بھی بعض مسلمان نما، انسان نما درندوں کو رحم نہیں آتا اور اس المناک سانحہ پر بھی ورثاء کی دلجوئی کی بجائے آل سعود اور ایم آئی سکس، موساد اور سی آئی اے کی ڈکٹیشن پر عمل کر رہے ہیں۔
 
اگر کوئٹہ کی ہزارہ شیعہ برادری کے افغانی ہونے کی بات چل نکلی ہے تو یہ بہت دور تک جائے گی۔ اسی بلوچستان حکومت میں ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی اور انکے قائد عبدالخالق ہزارہ بھی شامل ہیں تو عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف بھی۔ اسی ہزارہ پارٹی کے احمد علی کوہ زاد نے 25 جولائی 2018ء کو حلقہ پی بی 26 سے جب انتخابی معرکہ جیتا تو ان کے مخالفین نے انہیں افغانستان کا شہری قرار دیا۔ نادرا انکا پاکستانی قومی شناختی کارڈ بلاک کرچکی تھی۔  پندرہ نومبر 2018ء کو الیکشن کمیشن نے انہیں نااہل قرار دے کر نشست خالی کرنے کا حکم جاری کر دیا تھا۔ دیوبندی مسلک جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنماء حافظ حمداللہ صبور پاکستانی سینیٹ کے رکن رہ چکے ہیں۔ پیمرا نے ٹی وی چینلز کو خط لکھا کہ نادرا کے ریکارڈ کے مطابق حافظ حمداللہ پاکستانی شہری نہیں۔ یاد رہے کہ حمد اللہ کے والد صوبہ بلوچستان کے سرکاری محکمہ تعلیم کے ملازم بحیثیت معلم خدمات انجام دے چکے،  جبکہ حافظ حمد اللہ کا بیٹا پاک فوج میں افسر ہے۔ یہ ہمارے ملک کا حال ہے۔ مفتی کفایت اللہ سے متعلق بھی اسی نوعیت کی خبریں سننے کو ملیں۔
 
مذکورہ حقائق کو مد ظر رکھ کر فیصلہ کر لیں کہ یہ الزام کسی بھی پشتو زبان پاکستانی پر بھی لگایا جاسکتا ہے کہ وہ افغانستان کا شہری ہے، بلکہ کسی پاکستانی بلوچ کو بھی ایرانی یا افغانی بلوچ قرار دیا جاسکتا ہے۔ پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل موسیٰ بھی ہزارہ شیعہ قبیلے سے تھے اور ہزارہ شیعہ قبیلہ بنیادی طور پر افغانستان ہی سے تعلق رکھتا ہے۔ جہاں تک معاملہ ہے ان کان کن شہید ہزارہ شیعہ مزدوروں کا تو ان سے متعلق افغانی حکومت کے خط سے متعلق بھی بات کر لی جائے۔ کوئٹہ کے افغان قونصلیٹ کے خط سے متعلق جو خبر آئی، اس کے مطابق اگر ہزارہ شیعہ شہید کان کنان میں سات افغانی ہیں تو جنازوں کی افغانستان میں تدفین کی درخواست محض تین شہداء کے لیے کیوں!؟ یعنی کوئی حتمی بات نہیں ہے، بس تکے پر دعوے کر دیئے گئے۔ فرض کر لیں کہ افغانی تھے، تب بھی انہیں قتل تو پاکستان کے اندر ہی کیا گیا ہے۔ جب ریاستی ادارے اور حکومت ان کان کنوں کو افغانی ہونے کے باوجود کام کرنے دے رہی تھی تو اب کیا پرابلم ہے!؟
 
اب پرابلم سے متعلق بھی جان لیں۔ یہ سانحہ دو اور تین جنوری 2021ء کی درمیانی شب میں رونما ہوا۔ شاید عین اسی وقت سال 2020ء میں امریکی ملٹری کے غیر قانونی حملے میں قدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی اور عراقی کمانڈر ابو مھدی مھندس کو ان کے رفقاء کے ہمراہ بغداد میں شہید کر دیا تھا۔ داعش کے آقا ایم آئی سکس و آل سعود و زایونسٹ امریکی بلاک نے تین جنوری 2021ء کا دن سانحہ مچھ جبل کے لیے کیوں چنا؟ کیونکہ اس دن دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی شہید بیت المقدس حاج قاسم کی پہلی برسی تزک و احتشام کے ساتھ منائی جانی تھی تو اس سانحے کے لیے ہزارہ شیعہ مسلمان مزدور ہی کیوں نشانہ بنائے گئے!؟  کیونکہ شہید بیت المقدس مدافع حرم بھی تھے اور داعش بزرگان دین کے مزارات کو بم دھماکوں اور خودکش بمباروں کے ذریعے تباہ و زمین بوس کرنے جیسی خبیث دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث ہے، جبکہ ہزارہ شیعہ مومنین کی فاطمیون نامی تنظیم بزرگان دین کے مزارات کو تکفیری ناصبی دہشت گردی سے بچانے کے لیے میدان عمل میں موجود ہے۔ داعش دہشت گرد ٹولے کے ان ڈرپوک و بزدل مگر سفاک وحشی درندوں کا بس نہتے اور بے یار و مددگار انسانوں ہی پر چلتا ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ سانحہ مچھ جبل کے شہداء، شہدائے مدافع حرم ہیں۔ ان کی تجلیل زایونسٹ امریکی سعودی برطانوی زایونسٹ اسرائیلی بلاک کی تذلیل شمار کی جا رہی ہے!
 
چونکہ اس مرتبہ زایونسٹ امریکی سعودی اسرائیلی برطانوی بلاک کا ہدف کچھ اور ہے، ورنہ معاملہ ماضی کے دھرنوں کی مانند اب تک اپنے روایتی انجام کو پہنچ چکا ہوتا۔ اگر یہ سارا کھیل ایک طے شدہ منصوبے کا حصہ نہ ہوتا تو وزیراعظم عمران خان کا فوری دورہ کوئٹہ ہوتا اور شہداء کے اجساد خاکی دفن کیے جاچکے ہوتے۔ لیکن یہاں ہر کسی کو اپنے آقاؤں کا مفاد پورا کرنے کی پڑی ہوئی ہے۔ پاکستان کے مذہبی شیعوں کا یہ دعویٰ ایک اور مرتبہ سچ ثابت ہوا کہ برطانوی ایجنسی ایم آئی سکس پاکستان میں مذہبی منافرت میں ملوث ہے۔ جن افراد پر ایم آئی سکس کے ایجنٹ ہونے کا الزام ہے، ان میں سے ایک نے سانحہ مچھ جبل کے بعد فیس بک پر شیعہ اسلامی مرجعیت کے خلاف ہرزہ سرائی کی۔ یہ وہی ٹولہ ہے، جس کا ایک حصہ آصف علوی ہے کہ جس کے خطاب پر شیعہ اسلامی علماء نے خود پابندی لگوائی تھی، لیکن حکومت نے اسے مجلس پڑھنے کی اجازت دی تھی اور اسکے بعد بجائے آصف علوی کو پکڑ کر قانونی کارروائی کرنے کے، اسے بحفاظت برطانیہ پہنچا دیا گیا اور پھر مفتی منیب، اشرف آصف جلالی، محمد تقی عثمانی، لدھیانوی، فاروقی سمیت کسی کے منہ سے آصف علوی کا نام نہ نکلا۔ مناظرے کے چیلنج کرنے والے پاکستان بھر میں اشتعال انگیزی تو کرتے رہے مگر آصف علوی کا قلعہ مضبوط ثابت ہوا اور پورا محرم اور صفر پاکستان کے حسینی شیعہ عزاداروں کے خلاف بکواس کی جاتی رہی، زہر اگلا جاتا رہا۔

قبل اس کے کہ بات آگے بڑھائیں، اس پورے قضیے میں یہ حقیقت یاد رہے کہ آصف علوی کا موجودہ عمران خانی انصافین حکومت میں کون مددگار بنا!؟ تب وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی سید ذوالفقار عباس المعروف ذلفی بخاری کے ساتھ آصف غلوی وفاقی وزیر مذہبی امور سے ملاقات ہوئی اور آصف غلوی نے ریاستی و حکومتی سرپرستی میں مجلس پڑھی اور پھر یہ جا وہ جا!۔ اب یہی زلفی بخاری کوئٹہ جا کر شہدائے سانحہ مچھ کے جنازوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے سوگواروں سے پوچھتے نظر آئے کہ اگر وزیراعظم عمران خان یہاں آجائیں تو آپ انہیں کیا فائدہ دیں گے!؟ جیرڈ کشنر اور ایوانکا ٹرمپ جیسوں کا دوست ہی ایسی گھٹیا بات کہہ سکتا ہے۔ رہ گئی بات سید ہونے کی تو جو فاطمی سادات ولی فقیہ کے خلاف خود بڑھ چڑھ کر سوشل میڈیا پر خبث باطن کا اظہار کریں اور جو ایسوں کی سرپرستی کریں، ایسوں کو پاکستانی معاشرہ جمعراتی شاہ کہتا ہے۔ نامحرم و نیم عریاں خواتین کے ساتھ فخر سے تصاویر کھنچوانا ایک اصلی سید کے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہوتا ہے، نہ کہ فخر کا۔ وہ ہزارہ شیعہ جو جناب سیدہ بی بی زینب سلام اللہ علیہا کے حرم کا دفاع کرنے گیا ہے، وہ جناب سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا قابل فخر روحانی بیٹا ہے۔ برطانیہ، امریکا، سعودیہ و امارات کے ایجاد کردہ تکفیری دہشت گردوں داعش کے ہاتھوں جو شیعہ ہزارہ راہ ولایت پر چلتے ہوئے شہید ہوا، وہ امام زادہ عشق ہے۔ یہ کربلائے عصر کا میدان ہے، یہاں جو حسینی ہے، وہ اگر جون جیسا حبشی بھی ہے تو بھی جمعراتی شاہوں سے افضل ہے۔
 
اب پاکستانیوں کو جان لینا چاہیئے کہ رزق حلال کمانے کے لیے زمین دوز کوئلے کی کانوں میں مزدوری کرکے رزق حلال کمانے والے اللہ کے ان محبوب بندوں پر بھی بعض مسلمان نما، انسان نما درندوں کو رحم کیوں نہیں آیا اور اس المناک سانحہ پر بھی ورثاء کی دلجوئی کی بجائے حکمران طبقہ اور تکفیری دہشت گرد ملا دونوں کے موقف میں ہم آہنگی اور یکسانیت کیوں ہے۔ کیونکہ قتل کی ذمے داری داعش نے قبول کی ہے، جو کہ القاعدہ کا تسلسل ہے۔ یہ سعودی محمد بن عبدالوہاب نجدی کے تکفیری ناصبی نظریات کے پیروکار ہیں اور انہی نظریات کے پیروکاروں نے مکہ و مدینہ کو تاراج کیا۔ مزارات مقدسہ یعنی اسلامی تاریخی و ثقافتی ورثے اور آثار قدیمہ کو مٹانے کے لیے منہدم اور مسمار کر دیا۔ یہی درگاہوں پر خودکش حملے کرتے ہیں اور اس منظم دہشت گردی کے لیے امریکا برطانیہ و سعودیہ کے حکومتی و ریاستی اداروں نے افغانستان میں القاعدہ کو بنایا۔ اس لیے پاکستان کے غیرت مند بیٹوں کو یہ جان لینا چاہیئے کہ آج زلفی بخاری اور لدھیانوی تکفیری دہشت گرد مولوی دونوں کا موقف یکساں کیوں ہے۔ کیونکہ آل سعود، ایم آئی سکس، موساد اور سی آئی اے جب سبھی ایک پیج پر ہوں تو معاویہ اعظم کا باپ اعظم طارق اور جھنگ کا فیصل صالح حیات پرویز مشرف کی جرنیلی چھتری تلے ایک ہی حکومت کا حصہ بن جاتے ہیں۔ اب بھی ایسا ہی ہے اور اگر پاکستانی قوم یونہی بے وقوف بنتی رہی تو آئندہ بھی ایسا ہی ہوگا۔ البتہ ایک پیغام ہمارا بھی ہے اور وہ یہ کہ یہ اللہ کی بنائی ہوئی کائنات ہے۔  ایک مکر تم نے کیا، تم جو اشرف آصف جلالی اور آصف غلوی کے مشترکہ آقاؤں کے وفادار ہو۔ ایک مکر اللہ کر رہا ہے، جو خیرالماکرین ہے۔ ان غیر ملکی آقاؤں کے نوکروں کو معلوم ہو کہ انکے ہاتھوں استعمال ہونے والوں کا انجام بھی اسامہ بن لادن اور ابوبکر بغدادی سے مختلف نہیں ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 908985
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

بٹ صاحب
Iran, Islamic Republic of
ما شاء اللہ سلمان بھائی۔۔ خدا قوت
ہماری پیشکش