1
Saturday 9 Jan 2021 07:34

شہید سلیمانی ایک مکتب

شہید سلیمانی ایک مکتب
تحریر: ابو فاطمہ

شہید کو ہم سے بچھڑے ایک سال گزر چکا ہے۔ گذشتہ سال ایام فاطمیہ کی بات ہے، جب شہید نے آئندہ سال ایام فاطمیہ میں نہ ہونے کا اعلان فرمایا تھا اور مقام ابدی کی طرف تیزی کے ساتھ قدم بڑھاتے ہوئے اپنے مولا اور مقتدیٰ حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی طرح وقت کے ابن ملجموں کے ہاتھوں جام شہادت نوش فرمایا، اپنے مولا و آقا حضرت ابوالفضل علیہ السلام کی طرح اپنے مولا و مقتداء پر جان نثار کر دی اور شہادت کے بعد کاظمین، کربلا، نجف، مشہد مقدس اور حرم کریمہ اہلبیت  علیہم السلام کا طواف کرتے ہوئے شہیدوں کے ساتھ ہمیشہ کے لئے ابدی نیند سو گئے۔ شہید سے اظہار عقیدت کے لئے دست بقلم ہوں اور شہید سے متوسل ہو کر شہید کی زندگی کے سب اہم پہلو جن کی طرف رہبر بصیر نے توجہ دلائی، انہیں آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں۔ رہبر معظم انقلاب نے شہید راہ ولایت قاسم سلیمانی کے بارے میں مختصر الفاظ میں ایک ایسی جامع اور مانع تعبیر کو استعمال کیا، جو اس شہید فدا کار کی زندگی کے تمام ابعاد کو احاطہ کئے ہوئے ہے۔

آپ نے فرمایا شہید ایک مکتب، ایک مدرسے اور راہ کا نام ہے، کسی بھی شخصیت کے تعارف کروانے میں دو نکتوں کی طرف توجہ از حد ضروری ہے۔
1۔ احساس اور عواطف کے زیر سایہ کسی بھی شخصیت کے روپ سے پردہ نہیں اٹھایا جا سکتا، احساس اور عواطف کے تحت کی جانے والی تعریف، احساس اور عواطف کی سرحد پر دم توڑ جاتی ہے، اس سے آگے نہیں بڑھ پاتی اور بالخصوص جب ایسی شخصیت جو آئیڈیل اور اسوہ ہو تو پھر اسوہ و تأسی کا باب بند ہو جاتا ہے۔
2۔ شخصیت جتنی بلند ہوگی اور خصوصیت کے ساتھ جب ایسی شخصیت کا تعارف ہو، جو ذو ابعاد ہو، یعنی اس شخصیت کے کئی پہلو ہوں تو پھر ان تمام پہلووں پر دقیق نگاہ ہونی چاہیئے، وگرنہ ممکن ہے کہ شخصیت کی شناخت میں آپ کی نظر ایک خاص پہلو پہ رک جائے اور آگے نہ بڑھ سکے۔ جیسے اندھیرے میں ہاتھی کی شناخت کرنے والوں کے ساتھ ہوا، جس بھی شخص کا ہاتھ ہاتھی کے بدن کے جس حصے پر جا کر رک گیا، اس نے اس حصے کو ہاتھی کی حقیقت سمجھ لیا۔

رہبر معظم نے جو اس شہید فقید کی شناخت کروائی، یہ احساس اور عواطف کی سرحدوں سے گزرتے ہوئے منطق و عقل اور استدلال اور اپنے شعور کو خاطر میں  لاتے ہوئے تعریف فرمائی ہے اور آپ کو بعنوان مکتب معرفی کروایا ہے، آپ کی زندگی کے تمام ابعاد اور پہلوؤں کو سامنے رکھ کر آپ کی شخصیت کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر کو ایک کوزے میں بند کر دیا ہے۔ اس تعبیر کے استعمال کے دو عمومی پہلو آپ کے سامنے  رکھنا چاہوں گا:
1۔ آپ نے شہید کی شناخت میں  ایجاز سے کام لیا، جو کہ کلام کی بلاغت کی عکاسی کرتا ہے۔ ایجاز سے مراد جہاں الفاظ کم اور مطالب زیادہ ہوتے ہیں، آپ نے مکتب و مدرسہ کا لفظ استعمال کیا، یہ بظاہر ایک لفظ لیکن حقیقت میں شہید کی تمام زندگی اور اس کے مختلف پہلووں کو اپنے اندر لئے ہوئے ہے۔

2۔ دوسرا اس تعبیر کو استعمال کرکے دشمن کو ایک پیغام دیا ہےکہ تم شہید قاسم سلیمانی کو ایک جنرل کے حوالے سے دیکھ رہے تھے، جس نے عراق، فلسطین، شام اور یمن میں تمام تر مادی ترقی کے ساتھ مادی ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی سے لیس دنیا کی سب سے بڑی سپرپاور اور اس کے اتحادی عرب ہوں یا اہل مغرب کی ناک کو زمین پر رگڑا اور گریٹر اسرائیل کے تابوت میں ایسا کیل ٹھوکا ہے، جسے تم نکالنا چاہو تو بھی نہیں نکال سکتے اور جس نے تمہاری پیشرفت کے نشے کو اتارا ہے۔ تم سمجھ رہے تھے کہ تم نے اس کو مار کر اپنی شکست کا بدلا لے لیا، تو یہ تمہاری بھول ہے۔ شہید قاسم ایک فرد نہیں، ایک مکتب کا نام ہے اور شہید کا مکتب زندہ مکتب ہے۔ تم شہید کی فکر اور اندیشہ کو کبھی شکست نہیں دے سکتے بلکہ خداوند متعال سورہ صف کی آٹھویں آیہ میں ارشاد فرماتا ہے: یریدون ان یطفؤا نور اللہ بافواھھم واللہ متم نورہ ولو کرہ الکافرون "وہ اس نور خدا کو اپنی پھونکوں  کے ذریعے خاموش کرنا چاہتے تھے۔" بقول شاعر:
نور خدا ہے کفر کی حالت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا


شہید قاسم ایک مرد الہیٰ تھے، اپنے رب کے وعدوں پہ یقین اور اس کو طاقت کا سرچشمہ سمجھتے تھے۔ خدا نے اپنے ایسے بندوں کے ساتھ  وعدہ کر رکھا ہے کہ ان کو ہمیشہ زندہ رکھے گا۔
فانوس بن کے جس کی حفاظت ہوا کرے
وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے

واپس آتے ہیں رہبر معظم کی تعبیر کی طرف (شہید قاسم ایک مکتب کا نام ہے)۔ آپ نے مکتب کی تعبیر کو استعمال کرکے شہید کو فرد شخص کے تناظر سے نکل کر دیکھنے کی طرف رہنمائی فرمائی، کیونکہ جہاں شخص اور فرد کی بات آتی ہے، وہاں  افراد کا شناسنامہ مورد نظر ہوتا ہے کہ وہ شخص کون تھا، کہاں پیدا ہوا، قبیلہ کا نام، باپ کا نام اور فردی مشخصات مورد نظر ہوتے ہیں۔ آپ نے فرمایا حاشاوکلا شہید کو فرد نہیں دیکھنا اگر چاہتے ہو تو پھر مکتب کی نگاہ سے دیکھو، شہید تمہیں سمجھ بھی آئے گا اور تمہاری راہنمائی کرتا نظر آئے گا۔

اب آئیں ایک قدم اور آگے بڑھ کر دیکھتے ہیں کہ مکتب کسے کہتے ہیں: شہید مرتضیٰ مطہری اپنی کتاب (مقدمہ ای بر جھان بینی اسلامی) میں فرماتے ہیں: "مکتب ایک تھیوری" اور ایک ایسا جامع و منظم منصوبہ ہے، جس کا اصلی ہدف انسان کو کمال اور سعادت مہیا کرنا ہے، جس کے اصلی خطوط، راہ بایدھا و نبایدھا(کیا کرنا چاہیئے اور کیا نہیں کرنا چاہیئے)، اچھا اور بُرا، ہدف اور وسیلہ، تکلیف اس کا علاج اور مسئولیت اور ہر ایک کی تکلیف معین ہے۔ شہید نے اپنے عمل اور اپنی پاکیزہ فکر کے ذریعے اس مکتب کی بنیاد رکھی ہے اور مادیت ظلمات سے نکل کر نور تک کے سفر کا راستہ اپنے عمل و فکر سے ترسیم فرمایا ہے۔ اس تعریف کی روشنی میں مکتب کو سمجھنے کے لئے چند نکات کی طرف توجہ ضروری ہے۔

1۔ جب شہید ایک مکتب کا نام ہے تو پھر اس مکتب کو معلّم و مفسّر کی ضرورت ہے، جو اس مکتب کے پیغام و محتوا اور اس کے نظری و فکری پہلو کی تفسیر کرسکے۔ ان اسکولز آف تھاٹ سے کون پردہ کشائی کرسکتا ہے، اس فہرست میں سب سے اول  شہید کے مولا اور مقتدا رہبر معظم، آپ کے ہم رزم و ہم بزم وفادار ساتھی اور بابصیرت علماء و اہل قلم اس مکتب کی تفسیر احسن انداز میں کرسکتے ہیں، اگر نااہل اور ناشناس افراد آکر اس مکتب کی تفسیر کریں گے تو پھر یہ مکتب انزوا کا شکار ہو جائے گا۔
2۔ جب مکتب کا نام آتا ہے تو پھر افکار و اندیشہ، مدام عقیدت، اجتماعی نفوذ اور تأثیر گزاری کا میزان سامنے آتا ہے۔ اس مکتب میں کتنا دم ہے، اس کا افکار و اندیشہ کتنا ناب ہے۔ جب شہید کو اس نگاہ سے دیکھتے ہیں تو شہید اپنے افکار اور طرز عمل سے استکباری آنکھ کا کانٹا بن چکے تھے اور شہید کے افکار و قوم و قبیلہ ملک اور جغرافیائی حدود سے نکل کر عرب یا عجم، ترک ہو یا ترکمن، افغان ہو یا اہل یمن،  الغرض پوری دنیا میں بیدار ذہنیتوں کو اپنی طرف متوجہ کرواتے نظر آتے ہیں۔

3۔ جب مکتب کا نام آتا ہے تو پھر پیغام اور محتوا کی بات آتی ہے۔ شہید قاسم سلیمانی جب داعش کے خون آشام بھیڑیئے اور عصمت دری کے خوگر اور آزادی کی خواہش رکھنے والے، آزادی خواہوں کے قاتل، بے دین اور بے مرام کرائے کے قاتل شام اور عراق میں انسانیت کی راہ میں رکاوٹ، اور مسلم خواتین کی عصمت دری کا سنتے ہیں تو بدن لرز جاتا ہے اور یہ سوچتے ہیں کہ کل اپنے خدا کے حضور کس منہ کے ساتھ حاضر ہوں گے، جب علقمیں محفوظ نہیں، جانوں کو خطرہ ہے، آپ انسانیت کا درد لیکر جہاں جہاں بھی جاتے ہیں، اپنے پیغام و محتوا کے ذریعے اسے اپنا پیغام قبول کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ روس کے سفر کے دوران روسی صدر پوتین اور ان کے جنرل کے ساتھ دو گھنٹے کی گفتگو کے نتیجے میں انہیں داعش کے خلاف حملے کے لئے آمادہ کر لیتے ہیں۔ انسانی حقوق کو شعار کے طور پر پیش کرنے والوں کو میدان عمل میں لیتے ہیں، یہ وہی آئیڈیالوجی ہے، جس نے انسان کو کمال اور سعادت کا راستہ مہیا کرنا ہے۔ یہ وہ ناب اور خالص آئیڈیالوجی ہے، جو ہر بیدار ضمیر انسان کو اپنی طرف جلب کرلیتی ہے۔

4۔ جب مکتب کی بات ہوتی ہے تو پھر فرہنگ اور اندیشہ سامنے ہوتا ہے، جس کو افراد کے تنگ حصار یا پھر سیاسی پارٹیوں کو اور احزاب سے  بالا تر ہوکر دیکھنے کی ضرورت ہے بلکہ فرہنگ انقلاب (تبدیلی) فرہنگ ایثار و شہادت، فرہنگ عشق و محبت، عرفان اور معنویت، فرہنگ اتحاد و ایک رنگی سے ہے اور یہ جذبۂ ایثار جو آپ کے دل میں تمام مسلمانوں کے لئے رنگ و مذہب سے بالاتر مورد نظر اس کی نظیر نہیں ملتی۔ جان ہتھیلی پر رکھ کر مسلمانوں کی جان و مال و ناموس کے لئے عراق، شام،  فلسطین و یمن میں سربکف نظر آتے ہیں۔ آپ اپنے عرفانی عمل کے ذریعے دلوں کو گرویدہ بنا لیتے ہیں۔ اس گرویدگی اور نفوذ کی مثال کوئی شام و فلسطین و عراق و یمن میں جاکر لوگوں سے پوچھے اور اتحاد اور وحدت چاہے ملک کے اندر پارٹیوں اور احزاب  کے حوالے سے ہو یا دیگر مسلم ممالک کے ساتھ، آپ کی خدمات سے آسانی سے نہیں گزرا جا سکتا ہے اور اس کی عمدہ مثال آپ کا آخری سفر تھا عراق کے لئے، جس کا ہدف ایران اور سعودی عرب کے درمیان چیلنج کو کم کرنا تھا اور اس راہ میں آپ نے جام شہادت نوش فرمایا۔

5۔ جب مکتب کی بات آتی ہے تو یہ ایک عارضی اور ٹمپریری امر نہیں کہ اپنے صاحب کے جانے کے بعد زوال آشکار ہو جائے بلکہ یہ ایک ایسا عقیدہ و پیمان ہے، جو پوری دنیا میں آزادی کے چاہنے والوں کے درمیان خون کے ذریعے لکھا جاچکا ہے۔
6۔ جب مکتب کا تعلق فرہنگ کے قبیلے سے ہے تو پھر اس کو جغرافیہ اور ملک کی حدوں میں محدود نہیں کیا جاسکتا بلکہ یہ ایران کی سرحدوں سے نکل کر آزادی  دوست، حق طلب، شہادت کے خوگر بیدار اور بابصیرت نفوس کے دلوں میں گھر کرچکا ہے۔ زینبیون ہوں یا حیدریون یا پھر فاطمیون، کتائب حزب اللہ ہوں یا حشد الشعبی، انصار اللہ یمن ہوں یا نائیجیریا کے نوجوان بلکہ اس سے بڑھ کر آزادی خواہوں کے دل کی آواز بن چکے ہیں۔ بقول شاعر:
تم نے جس خون کو مقتل میں دبانا چاہا
آج وہ کوچہ و بازار میں آ نکلا ہے


7۔ جب مکتب کی بات ہے تو پھر مکتب روش مند اور ہدف مند ہوتا ہے، اس کا نکتۂ آغاز بھی ہے اور نکتۂ انجام بھی، ایرانیوں کے بقول اس میں رویش (۔۔۔) بھی ہے اور زایش بھی (۔۔۔۔) خود سازی سے شروع ہو کر معاشرہ سازی اور وحدت سے کثرت کی طرف جاری و ساری ہے۔
8۔ جب مکتب ہے تو پھر اپنے اندر اسرار و پیغام رکھتا ہے، دانشمندوں اور تحقیق کا ذوق رکھنے والوں کے لئے ایک وسیع وادی ہے، جنگی مہارت ہو یا پھر دشمن کے خلاف جنگ نرم، عرفان و معنویت کی بات ہو یا پھر اخلاص و عقیدت، ٹیبل ٹاک کی بات ہو یا دشمن کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کرنے کی۔ جذبۂ شہادت ہو یا جذبۂ فداکاری، ناموس کی حفاظت کا معاملہ ہو یا انسانی جانوں کو خونخواروں سے نجات دلانے کی بات، خدا ہو یا دشمن، بے رعب و دبدبہ، یتیموں سے محبت ہو یا مصیبت زدہ افراد کی مدد، اہل تحقیق کے لئے ایک وسیع میدان ہے، یہ بابصیرت علماء اور اہل قلم کی ذمہ داری ہے کہ اس مکتب کو شفاف انداز میں آئندہ نسلوں تک پہنچائیں اور اس مکتب کو تحریف سے بچائیں۔

9۔ جب شہید ایک مکتب اور مدرسہ ہے تو پھر جس طرح ایک مدرسہ اور مکتب میں مختلف علوم ہوتے ہیں، شہید قاسم سلیمانی کا مکتب بھی اپنے طالب کے لئے  نصاب رکھتا ہے، جہاں اخلاق و معنویت، خدا کے ساتھ ارتباط ، اخلاص، یقین کامل، عزم راسخ، سعہ صدر، بردباری، عشق و محبت، شناخت دشمن، بصیرت، مقاومت، جس کی تفسیر علمی معاشرے میں رہتے پاکیزہ اور بابصیرت افراد میدان جنگ میں موجود مجاہدین اور اس کی علمی تفسیر بابصریت علماء کا وظیفہ ہے۔
10۔ آخری بات ہے جب یہ مکتب ہے تو "اصلہ ثابت و فرعھا فی السماء" کے تحت ایسا شجرہ طیبہ ہے۔ تؤتی اکلھا کل حین اس کے ثمرات اور پھل صرف ایک موسم کے لئے نہیں بلکہ ہر موسم میں پھلوں سے لدا ہوا ہے۔ باذن ربّھا اپنے رب کے اذن کے ساتھ ہر ایک کے لئے ہے، جب اس مکتب عشق کے ساتھ تعلق قائم کرتا ہے تو پھر یاد رکھتا ہوگا:
مکتب عشق کا دستور نرالا دیکھا
اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا


جی ہاں مکتب شہید قاسم سلیمانی ایک تھیوری اور ایک ایسا جامع اور منظم منصوبہ ہے، جس کا ہدف اصلی انسان کے لئے کمال اور سعادت کو مہیا کرنا ہے، جس کے باید و نباید مشخص ہیں، جس کا ہدف اور وسیلہ واضح اور روشن ہے۔ جس میں تکلیف اور اس کا علاج مہیا ہے، جس میں ہر فرد کی مسئولیت اور ہر ایک کے لئے وظیفہ اور شرعی ذمہ داری معین ہے، الفاظ بدل کر کہوں تو مکتب شہید قاسم سلیمانی سعادتِ ابدی کا کامل روڈ میپ ہے۔
و الحمدللہ رب العالمین
خبر کا کوڈ : 909044
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش