1
0
Sunday 10 Jan 2021 10:00

یہ 35 سے 40 دہشتگرد اور ریاستی رٹ

یہ 35 سے 40 دہشتگرد اور ریاستی رٹ
تحریر: تصور حسین شہزاد

وزیراعظم پاکستان عمران خان آخر کار کوئٹہ پہنچ ہی گئے۔ مچھ سانحہ کے متاثرین کا اصرار تھا کہ وزیراعظم آئیں اور ان کا موقف اور مطالبات سنیں۔ کیونکہ پہلی حکومتوں میں بھی وزراء نے مذاکرات کئے مگر وہ اسلام آباد جا کر بھول جاتے کہ کوئٹہ میں کیا وعدے وعید کرکے آئے ہیں۔ اس بار متاثرین کا مطالبہ منفرد تھا، منفرد اس لئے کہ ہزارہ برادری نے عمران خان کو ووٹ دیئے تھے۔ وہ انہیں اپنا وزیراعظم سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی ضد تھی کہ عمران خان خود آئیں۔ عمران خان نے "پیرنی صاحبہ" کے حکم پر کہ "میت والی جگہ پر نہیں جانا" پر ڈٹ گئے۔ اِس توہم پرستی کے باعث وہ پہلے کوئٹہ نہیں گئے۔ جب تدفین ہوگئی تو فوری طور پر کوئٹہ پہنچ گئے۔ اس بار وزیراعظم نے متاثرین دہشتگردی کو پہلی بار تحریری یقین دہانی کروائی ہے کہ ہزارہ کو تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ اس موقع پر وزیراعظم نے بڑے فخر سے کہا کہ ہم آپ کو تحریری یقین دہانی کروا رہے ہیں، دہشت گردوں کیخلاف سخت ایکشن ہوگا اور آپ کو مکمل تحفظ دیں گے۔

وزیراعظم صاحب، یہاں یہ سوال بنتا ہے کہ یقین دہانی زبانی ہو یا تحریری، اہمیت اُس وقت ہوتی ہے جب عملدرآمد کرنا ہو یا کیا جائے۔ ورنہ انسان تو وہی ہوتا ہے جس کی زبان ہو، جو اپنی زبان پر ہی قائم نہ رہے، وہ سونے کے پانی سے بھی تحریر لکھ کر دیدے، اس کی اہمیت سوائے کاغذ کے ٹکڑے کے اور کچھ نہیں ہوتی۔ وزیراعظم عمران خان نے وہاں یہ بھی فرمایا کہ بھارت پاکستان میں انتشار پھیلانا چاہتا ہے، تاہم واقعے میں ملوث افراد کا پیچھا کریں گے، 35 سے 40 افراد دہشتگردی میں ملوث ہیں، ہم نے مل کر اس سازش کو ناکام بنانا ہے۔ عمران خان نے کہا کہ کچھ دہشتگرد گروہوں اور داعش کا اتحاد ہوچکا ہے، داعش کو بھارت کی سپورٹ حاصل ہے۔ حیرت ہے وزیراعظم سب کچھ جانتے ہیں، بلکہ پہلے سے جانتے ہیں، مگر ایکشن نہیں لیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ اس ایکشن اور سخت کارروائی کیلئے 11 لاشوں کا انتظار ہی کیوں کیا گیا۔؟ یہ ایکشن پہلے بھی تو ہوسکتا تھا؟ اب بھی دہشتگردی کی اطلاعات ہونے کے باوجود کارروائی نہیں ہوتی، اس کی ایک ہی وجہ لگتی ہے کہ سکیورٹی اداروں میں دہشتگردوں کے سہولت کار اور ساتھی موجود ہیں، جو انہیں موقع فراہم کرتے ہیں اور سانپ گزر جانے کے بعد لکیر پیٹی جاتی ہے۔
 
وزیراعظم نے یہ بھی انکشاف کیا کہ انہوں نے مارچ میں ہی کابینہ کو بھارت کی پاکستان میں فرقہ وارانہ تصادم کی کوششوں سے آگاہ کر دیا تھا۔ جب ایک سال قبل ہی پتہ تھا تو اس کا سدباب کیوں نہیں کیا گیا؟؟ وزیراعظم نے کہا کہ بھارت نے پاکستان میں شیعہ سنی فسادات کرانے کی کوشش کی، کراچی میں مولانا عادل کا قتل بھی فرقہ وارانہ تصادم کو ہوا دینے کی کوشش تھی، تاہم ہمارے اداروں نے مسلکی تصادم کو روکنے کیلئے بہترین کام کیا اور ہماری ایجنسیز نے بھارتی عزائم کو ناکام بنایا۔ حضور یہ کریڈٹ اداروں اور ایجنسیز کو نہ دیں، افسوس ان فسادات کو فروغ دینے میں تو آپ کے اپنے وزیر، مشیر سہولت کار بنے ہوئے تھے، اسلام آباد میں ایک ایسے خطیب سے پابندی ہٹوا کر سٹیج اس کے حوالے کیا گیا جو آگ سلگا کر خود برطانیہ فرار ہوگیا۔ حضور، علماء کی دُور اندیشی نے ان فسادات کو روکا ہے۔ شیعہ علماء نے محرم کے آغاز سے قبل ہی اہلسنت علماء سے رابطے کئے اور انہیں اس سازش سے آگاہ کیا۔ لاہور کے ایک شیعہ مدرسے میں اس حوالے سے باقاعدہ کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں شیعہ علماء کی جانب سے اہلسنت کے مقدسات کی توہین کی سازش کو بے نقاب کیا گیا۔
 
اس موقع پر شیعہ علماء نے اپنے اہلسنت بھائیوں کو یقین دلایا کہ ہمارے مجتہدین کے فتاویٰ کی روشنی میں اہلسنت بھائیوں کے مقدسات کی توہین حرام ہے، اس لئے ہماری طرف سے ایسا کوئی فعل سرانجام نہیں پائے گا، البتہ سازشی عناصر فرقہ واریت کو ہوا دیں گے، ان کا تعلق شیعہ مکتب فکر سے نہیں۔ اس موقع پر اہلسنت علماء نے بھی سازش کا ادراک کیا اور اہل تشیع بھائیوں کے موقف سے اتفاق کیا اور یوں محرم الحرام کے دوران دشمن کی ناپاک سازش ناکام ہوئی۔ وزیراعظم عمران خان سے ملاقات میں رہنماء شہداء کمیٹی سید آغا رضا اور ایک ہزارہ خاتون نے بلیک میلنگ والے جملہ پر احتجاج کیا تو وزیراعظم نے فوری یوٹرن لے لیا، بولے بلیک میلنگ والا جملہ پی ڈی ایم کے قائدین سے متعلق کہا تھا، ہزارہ والوں کیلئے نہیں۔ حیرت ہے وزیراعظم صاحب، آپ قوم کو بیوقوف سمجھتے ہیں، آپ کے اسی جملے نے تو پورے ملک میں اشتعال کو فروغ دیا اور نماز جمعہ کے بعد شیعہ سنی مل کر سڑکوں پر نکل آئے، دھرنوں میں شدت آگئی، لوگوں نے اسی جملے پر اپنے شدید غم و غصے کا اظہار کیا اور آپ اب کہہ رہے ہیں کہ وہ جملہ پی ڈی ایم والوں کیلئے تھا۔؟ خیر اب ہم آپ کی اس وضاحت کو بھی تسلیم کر ہی لیتے ہیں۔
 
جہاں تک بھارتی مداخلت کی بات ہے تو اس حوالے سے ضرور تحقیقات کروائی جائیں کہ سکیورٹی اداروں میں ایسے کون سے عناصر چھپے ہوئے ہیں، جو دہشتگردی کی اطلاع ہونے کے باوجود کارروائی سے گریزاں ہیں۔ کیا یہ صرف 35 سے 40 دہشت گرد ہماری ساڑھے 5 لاکھ زمینی فوج، 70 ہزار ایئر فورس اور چار لاکھ 82 ہزار پیرا ملٹری فورسز سے زیادہ طاقتور ہیں؟؟ حیرت ہے اتنے دہشتگردوں کو عام پولیس فورس کا ایک اہلکار ہی کافی ہے، مگر افسوس کہ دنیا میں مثالی فوج رکھنے والا ملک ان 35 سے 40 دہشتگردوں کیخلاف کچھ نہیں کرسکتا۔؟ رمضان مینگل سمیت دیگر متعدد دہشتگرد آج بھی سرعام کافر کافر کے نعرے لگاتے اور دھمکیاں دیتے نظر آتے ہیں، سوال یہ ہے کہ کہاں ہے ریاست کی رٹ؟؟ یہ 35 سے 40 دہشتگرد اتنے تو مضبوط ہیں کہ ملک میں جہاں چاہتے ہیں واردات کرتے ہیں، ذمہ داری قبول کرتے ہیں، میڈیا کو بیانات بھی دیتے ہیں اور ہمارے سکیورٹی اداروں سے پکڑے نہیں جاتے۔؟
 
وزیراعظم صاحب، آپ نے فرمایا، مظاہرین کے تمام مطالبات تسلیم کر لئے گئے ہیں، لیکن لاپتہ افراد کا معاملہ تو مطالبات کی فہرست سے لاپتہ افراد کی طرح لاپتہ کر دیا گیا۔ اس پر کیوں عمل نہیں ہوا؟ وزیراعظم صاحب، گذشتہ حکومتیں اس لئے راندہ درگاہ ٹھہریں کہ وہ بھی جھوٹ کی سیاست کرتی تھی اور نجانے کیوں ایسا لگتا ہے کہ آپ بھی اسی ڈگر پر چل رہے ہیں۔ حالیہ معاہدہ آپ کا ٹیسٹ کیس ہے، وعدے پورے ہوگئے تو دنیا آپ کو سلام کرے گی اور اگر یہ بھی گزشتگان کی طرح محض زبانی کلامی کے دعوے اور وعدے نکلے تو پھر دنیا اپنا فیصلہ سنانے میں تاخیر نہیں کرتی اور یاد رکھیں آواز خلق، نقارہ خدا ہوتی ہے اور جب فیصلے اوپر والا کرتا ہے تو اسے پھر اسے کوئی تعویز، کوئی چلہ تبدیل نہیں کرسکتا، کیونکہ قدرت کے فیصلے مظلوموں کے آہوں سے بدلتے ہیں۔

ریاست اپنی رٹ قائم کرے، دہشت گردوں کا صفایا کرے، بلوچستان اور جنوبی پنجاب میں دہشتگردوں کے ٹھکانوں کیخلاف آپریشن کیا جائے، بلوچستان میں وسائل سرداروں کے بجائے عام عوام تک پہنچائیں جائیں۔ وزیراعظم صاحب، آپ کے بقول پورے بلوچستان کی آبادی صرف فیصل آباد ڈویژن کے برابر ہے، تو اتنی سی آبادی کو سنبھالنا حکومت کیلئے مشکل نہیں، ان کے مسائل حل کریں۔ لاپتہ افراد کو رہا کریں، اگر وہ مجرم ہیں تو عدالتی کارروائی سے انہیں سزائیں دیں، اگر عدالتوں پر اعتماد نہیں تو انہیں بند کر دیں، ایسی عدلیہ کا کیا فائدہ جو انصاف دینے میں بانجھ ہو۔ ریاستی رٹ ہوگی تو امن ہوگا، ورنہ لاشیں گرتی رہیں گے، بھارت مداخلت کرتا رہے گا اور اقتدار کے ایوانوں کے مکین تبدیل ہوتے رہیں گے۔ ثابت کریں 35 سے 40 دہشت گرد ریاستی رٹ پر بھاری نہیں۔
خبر کا کوڈ : 909226
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

تنویر بلوچ
Pakistan
ما شاء اللہ نہایت خوبصورتی سے مطلب بیان کیا ہے۔
ہماری پیشکش