QR CodeQR Code

سانحہ مچھ، بے حسی، بے بسی اور کربلا

12 Jan 2021 07:55

اسلام ٹائمز: انکے مشیروں اور وزیروں نے بہت ہی غلط انداز سے منظر کشی کی اور شائد مشیروں کے مشورے پر چل کر ہی عمران خان نے وہ سب لمحوں میں گنوا دیا، جو بڑے عرصہ اور جدوجہد کے بعد اسے حاصل ہوا تھا۔ وگرنہ یاد ہوگا کہ اہل تشیع عمران خان کو طالبان خان کہتے تھے، تب اسے جی بی سے ایک سیٹ بھی نہیں ملی تھی اور اب اس شیعہ پاپولیشن والے ایریا میں اسکی حکومت ہے، یہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ اہل تشیع نے اس کیلئے اپنے در وا کر دیئے تھے، مگر اس سارے عمل کے بعد اگر کسی سے اعتماد اٹھا ہے تو سب سے اوپر عمران خان ہے، جسے لوگ ایک ضدی، ایک انا پرست، ایک ہٹ دھرم، ایک متکبر اور ایک احساس سے عاری شخص سمجھنے لگے ہیں جبکہ عمران خان کیساتھ ساتھ اسکے دو شیعہ وزیروں کے کردار کو بھی بہت زیادہ تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔


تحریر: ارشاد حسین ناصر
irshadhnasir@gmail.com

سانحہ مچھ بلوچستان میں دس بے گناہ مزدوروں کا سفاکانہ قتل عام ہر درد مند کو رلا گیا، جس نے بھی ان تصاویر کو دیکھا، بہ طور انسان شرم محسوس کر رہا تھا کہ وہ لوگ جو انتہائی نچلے درجے کی سخت مزدوری کرکے اپنے پیاروں کا پیٹ پالنے کیلئے اپنے گورے چٹے بدنوں اور روشن چمکتے چہروں کو سیاہ کوئلے میں رنگنے پر مجبور و لاچار تھے، ان سے ایسا کیا جرم سرزد ہوگیا تھا کہ ان کے ہاتھ پس پشت باندھ کے ان کے جسموں کو ٹکڑوں میں تقسیم کیا گیا، ان کے گلے کاٹے گئے اور انہیں بے کسی اور انتہائی لاچارگی میں خون میں لت پت کیا گیا۔ حیوانیت، سفاکیت اور درندگی کا یہ کھیل نجانے رات کے اندھیرے میں کتنے وقت تک جاری رہا مگر حالات و واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ دہشت گرد سفاک گروہ کو کسی بھی قسم کا کوئی خطرہ یا ڈر نہیں تھا۔ کسی بھی طرف مزاحمت یا کسی بھی طرح کی رکاوٹ یا دخالت کا ذرہ برابر بھی شک و شبہ نہیں تھا۔ جبھی تو اتنے آرام سے اتنی بڑی تعداد میں آنے والے دہشت گردوں نے بہت ہی سفاکانہ انداز میں اپنی کارروائی مکمل کی اور اپنی پناہ گاہ یا ٹھکانے پر چلے گئے۔

یہ سفاکیت اگرچہ ہمارے لئے نئی نہیں، ہمارے حافظے میں پاراچنار میں ان ٹرک ڈرائیورز کے کٹے ہوئے گلوں، ٹکڑے ٹکڑے جسموں، ہاتھ پائوں اور کان کے علیحدہ ٹکڑوں میں تقسیم لاشوں کا منظر محفوظ ہے، جنہیں ایف سی کے کرنل توصیف نے اپنی ذمہ داری پر کوہاٹ سے اپنی معیت میں روانہ کیا تھا اور اپنے سامنے ان کے ٹرکوں کو نذر آتش کرنے اور لاشوں کو جلانے کے دلدوز منظر میں ایف سی کی پاس سے گزرتی گاڑیوں سے سب کچھ واضح ہوگیا تھا۔ کوئٹہ میں اس سے قبل اس سے بھی بڑے سانحات رونما ہوچکے ہیں، جن پر دنیا بھر میں احتجاج و دھرنے ہوئے، پورا ملک غم و اندوہ میں ڈوب گیا ایک بار تو صوبائی حکومت بھی رخصت ہوئی، مگر جو اصل مسئلہ ہے وہ وہیں رہا۔ ہزارہ کو نہ تو امداد کی ضرورت تھی، نہ ان کو نوکری چاہیئے۔ ان کی اصل ضرورت تحفظ ہے، ان کا امن ہے، ان پر طاری موت کے خوف کا خاتمہ ہے، جو اسی صورت میں ممکن ہوسکتا ہے کہ دہشت گردوں کو بلا تمیز رنگ و نسل، مذہب و ملت نشان عبرت بنایا جائے۔ کم از کم ہزارہ کلنگ میں ملوث گروہوں کو کسی ایک فوجی یا ایف سی اہلکار پر حملے میں ملوث کسی علیحدگی پسند کے مترادف تو سزا دی جائے۔

مگر ہم دیکھتے ہیں کہ اتنے سانحات کے باوجود آج تک کسی ایک قاتل و دہشت گرد کو سزا نہیں ملی، بلکہ اگر کوئی گرفتار ہوگیا ہے تو اسے بلوچستان کی سب سے سخت جیل سے بڑے آرام سے فرار کروا دیا جاتا ہے۔ بس یہی وہ وجہ ہے جو بار بار ایسے سانحات رونما ہونے کا باعث بنتی ہے، اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ قاتل نامعلوم ہے تو دھرنوں میں گونجنے والے یہ نعرے انہوں نے سن لئے ہونگے کہ یہ جو نامعلوم ہے یہ سب معلوم ہیں۔ حقیقت بھی ایسے ہی ہے، جو لوگ چوکوں اور چوراہوں میں کھڑے ہو کر سینکڑوں کے مجمعے میں اس بات کا فخریہ اعلان کرے کہ اس نے اتنوں کو مارا ہے اور اسی طرح ایک مکتب کی توہین و تکفیر جو ریاست کے دیئے گئے نیشنل ایکشن پلان اور دہشت گردی کے خلاف دیئے گئے بیانیہ پیغام پاکستان کی سراسر خلاف ورزی ہو، اس کے بعد کس طرح قاتلوں کو نامعلوم کہا جا سکتا ہے۔؟

افسوس اسی بات کا ہے کہ ہمارے قاتل اور اس ملک کے سکیورٹی اداروں پر حملے کرنے والے اپنے جرائم کا ارتکاب کھلے عام کرتے ہیں، انہیں تسلیم بھی کرتے ہیں، اس کا فخریہ اعلان کرتے ہیں، مگر اس کے باوجود انہیں کوئی ہاتھ نہیں ڈالتا۔ کوئٹہ میں دھرنا شرکاء اور شہداء کے خانوادے اگر چھ دن بیٹھ کر وزیراعظم کو بلاتے رہے ہیں تو اس کی یہی وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ ہر کچھ عرصہ بعد ایک نیا سانحہ اور پھر خاموشی، وعدے وعید والے غائب، دہشت گرد آزاد، گویا قاتل کھلے عام آزادی سے پھرتے ہیں اور مقتول کا خانوادہ اپنی جان بچانے کیلئے کبھی کسی جگہ پناہ لیتا ہے اور کبھی کسی جگہ۔ ایسے میں وارثین شہداء ان وزراء پر کیسے اعتماد کر لیتے، جن کا اپنا کوئی اعتماد نہیں تھا کہ وہ کب تک وزارت میں ہیں، وزیراعظم عمران خان نے اس حوالے سے جتنا نقصان اٹھایا ہے، اس کا اندازہ شائد موصوف کو نہ ہو۔ ہم جو اس ملت و مکتب سے تعلق رکھتے ہیں اور دھرنوں میں شریک رہے ہیں، ان سے کوئی پوچھے تو اس کا اندازہ ہوسکتا ہے۔

شہداء کے خانوادوں کے سامنے ضد، انانیت اور ہٹ دھرمی کی بدترین مثال پیش کی گئی، جب پورا ملک دھرنوں کی شکل اختیار کرچکا تھا اور چھ دن سے اپنے پیاروں کی لاشیں رکھے غریب عمران خان سے توقعات رکھے، انہیں بلا رہے تھے تو ان کا چلے جانا ہی ان کے حق میں بہتر تھا مگر ایک تو گئے نہیں اوپر سے جو بیان دیا، اس نے پورے پاکستان کا دل دکھا دیا۔ بھلا ایک ملک کے وزیراعظم کو یہ دس لاشیں رکھے انتہائی مجبور و لاچار و بے بس ورثاء کس طرح بلیک میل کرسکتے تھے۔ حقیقت یہ تھی کہ ان کی امید سب سے ٹوٹ چکی تھی اور وہ اپنی آخری توقع اور امید کو پکار رہے تھے، یہ امید عمران خان کی شکل میں تھی، جس سے وہ دولت، پیسے، نوکری اور معاوضہ طلب نہیں کر رہے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کی اشک شوئی کیلئے وزیراعظم تشریف لے آئیں، وہ چاہتے تھے کہ انہیں اس گھر پاکستان کا موجودہ سربراہ دلاسہ دینے آئے تو وہ اپنے پیاروں کو دفن کر دیں گے۔

ہمارے ہاں یہ رسم و روایت ہے کہ میت والے اپنے قریبیوں اور بڑوں کا انتظار کرتے ہیں، تاکہ وہ منہ پہ پہنچ جائے، جنازے میں شریک ہو جائیں، لوگ اپنی میتوں کو سرد خانوں رکھوا کے بیرون ممالک میں رہنے والے ورثاء کا انتظار کرتے ہیں، مگر یہاں پر ان کے مشیروں اور وزیروں نے بہت ہی غلط انداز سے منظر کشی کی اور شائد مشیروں کے مشورے پر چل کر ہی عمران خان نے وہ سب لمحوں میں گنوا دیا، جو بڑے عرصہ اور جدوجہد کے بعد اسے حاصل ہوا تھا۔ وگرنہ یاد ہوگا کہ اہل تشیع عمران خان کو طالبان خان کہتے تھے، تب اسے جی بی ایک سیٹ بھی نہیں ملی تھی اور اب اس شیعہ پاپولیشن والے ایریا میں اس کی حکومت ہے، یہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ اہل تشیع نے اس کیلئے اپنے در وا کر دیئے تھے، مگر اس سارے  عمل کے بعد اگر کسی سے اعتماد اٹھا ہے تو سب سے اوپر عمران خان ہے، جسے لوگ ایک ضدی، ایک انا پرست، ایک ہٹ دھرم، ایک متکبر اور ایک احساس سے عاری شخص سمجھنے لگے ہیں جبکہ عمران خان کیساتھ ساتھ اس کے دو شیعہ وزیروں کے کردار کو بھی بہت زیادہ تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

ان کی ہوا بھی بہت گندی ہوئی ہے جبکہ ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی تو پہلے ہی سے لوگوں کی نظر میں بہت حقیر اور مفاد پرست ٹائوٹ قسم کی سمجھی جاتی ہے، اس کے عبد الخالق ہزارہ نے جس قسم کی پریس کانفرنس کی، اس کے بعد شہداء کے ورثاء نے ہی میڈیا اور مائیک پر آکر ان کی درگت بنائی اور جواب دیا کہ کہ یہ دھرنے کسی کے کہنے پر نہیں بلکہ اپنی مرضی سے دیئے گئے ہیں اور ہم خود اپنے شہداء کی لاشوں اور تابوتوں کو یہاں پر لائے ہیں، بلکہ ایک وارث شہید نے کہا کہ پہلے دن ہی ہمارے خلاف ہزارہ ڈیمو کریٹک پارٹی نے سازش کی تھی، ہم سے پوچھے بغیر جنازوں کا ٹائم دیا تھا اور قبریں بھی تیار کروا رہے تھے، شہداء کے ورثاء کے اس طرح سامنے آنے سے ان کی سیاست کا بھی بیڑہ غرق ہوا۔

ان مزدور، بے کس غریب اور لاچار شہداء کے لئے دیئے گئے دھرنوں اور احتجاج سے اگرچہ چھ دن تک پاکستان کے بہت سے شہری متاثر ہوئے، ٹریفک کے مسائل بھی پیش آئے، کئی دیگر مشکلات بھی سامنے آئیں، مگر اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ان شہداء کے پاک خون نے ہم سب کی زندگیوں پر بہت گہرا اثر بھی مرتب کیا۔ ہماری ملت میں ایک اتحاد، یکجہتی، اخوت، بھائی چارہ، ایثار، محبتیں اور اجتماعیت کا رنگ غالب آیا۔ علماء، تنظیموں، اجتماعی جدوجہد کرنے والوں پر قوم کے اعتماد میں بہتری آئی، سب ایک موقف، ایک فکر، ایک جگہ دکھائی دیئے اور دوسری طرف کیسے کیسے چہرے بے نقاب ہوئے، کس کس کا سحر ٹوٹا، کون کون سے بت تڑاک سے زمین بوس ہوئے۔ اس لئے کہ ایک طرف مظلومیت، لاچارگی، بے بسی و بے کسی اور مقتول تھے تو دوسری طرف ضد، انانیت، ہٹ دھرمی، سفاکیت، درندگی، دہشت، وحشت، قاتل اور ظالم تھے۔

ایسے ظالم جو اس پاک سرزمین کو کچھ عرصہ کے بعد اس کے فرزندان کے خون سے رنگین کرنے کے عادی ہوچکے ہیں، ایسے درندے جو جنگل کی بجائے شہری آبادیوں میں گھس آئے ہیں، ایسے بے حس جو میتوں کیساتھ اپنا مقابلہ کرنے سے نہیں کتراتے اور اور سخت سردی میں بیٹھے ہوئے یتیمان کو اپنے مقابل سمجھ بیٹھتے ہیں، ایسے بے حسوں کے بارے ہی کہا گیا ہے کہ
بے حسی ایسی کہ احساس کو رونا آیا
اور کسی نے کہا تھا کہ
کچھ ایسی بے حسی سے پیش آیا
کہ میری بے کسی شرما گئی تھی

اس سانحہ اور اس کے بعد پیدا ہونے والی تمام صورتحال پہ بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے، ان چھ دنوں کے لمحہ لمحہ کی کہانی، شہداء کے ورثاء کے قیمتی اور دل و دماغ کو ہلا دینے والے جملے، جن چھ بہنوں کا اکلوتا بھائی چلا گیا اور ان کا یہ کہنا کہ ان کے گھر میں اب کوئی مرد نہیں رہا، جو جنازوں کا اٹھائے، ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم خود جنازوں کو اٹھائیں گی۔

یہ جملے سن کر قیامت برپا ہو جاتی تو تعجب نہ ہوتا اور اس بوڑھے باپ کی آنکھوں میں بہتے ہوئے وہ خواب جو مسلسل اپنے جوان سال بیٹے کی لاش پر مسلسل بیٹھا دکھائی دیا، اس کے پاس الفاظ نہیں تھے اور اس نے ان چھ دنوں میں اتنے آنسو بہائے تھے کہ شائد سوکھ گئے تھے۔ مجھے تو ایسے لگا اس کی آنکھیں پتھرا گئی تھیں، ان کا مایوسی کے عالم میں میتوں کو دفن کرنے کا اعلان اور رات کے اندھیرے میں اپنے پیاروں کو اپنے گھروں میں لے کر جانا اور شب گریہ، شب جدائی، اگر یہ سب کربلائی نہ ہوتے، کربلا کے نمونے ہمارے پاس نہ ہوتے تو ممکن نہیں تھا کہ یہ سب ان صدمات کو سہہ پاتے۔ کربلا ہی ہمیں تقویت اور حوصلہ دیتی ہے اور کیا عجب ہے کہ ان کو اسی واسطے ذبح کیا گیا کہ ان کا تعلق کربلا سے تھا اور یہی بات تو ہمارے دشمن کو سمجھ نہیں آتی کہ ہم شہید ہو کر کربلا کا راستہ چھوڑتے نہیں بلکہ کربلا سے ہمارا رشتہ مزید مضبوط ہو جاتا ہے۔


خبر کا کوڈ: 909431

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/909431/سانحہ-مچھ-بے-حسی-بسی-اور-کربلا

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org