QR CodeQR Code

غير الله سے مدد مانگنا، قرآن اور سنت کی روشنی میں(7)

12 Jan 2021 19:33

اسلام ٹائمز: ایک دن مروان آیا تو دیکھا کہ ایک آدمی قبر (رسول اللہ پر) اپنا چہرا رکھے ہوئے تھا۔ مروان نے کہا: تجھے پتا ہے تو کیا کر رہا ہے؟ اس نے جب مروان کی طرف چہرا کیا تو وہ حضرت ابو ایوب انصاری تھے اور کہنے لگے ہاں مجھے پتا کہ میں رسول اللہ کے پاس آیا ہوں کسی پتھر کے پاس نہیں آیا۔ میں نے رسول اللہ سے سنا آپ نے فرمایا: جب اہل کی حکومت ہو تو دین پر نہ رونا لیکن جب نا اہل کی حکومت ہو پھر دین پر رونا۔


تحریر: انجنئیر سید حسین موسوی

اس وسیلہ کی حیثیت سے مدد مانگنے پر کچھ بنیادی سوال اٹھائے جاتے ہیں۔ ضرورت ہے کی ان کی وضاحت کردی جائے۔
سوال1: جب اللہ نے فرمایا ہے کہ مجھ سے مانگو! میں دونگا۔ "وَ قَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ" (غافر/60) تمہارا رب کہتا ہے کہ مجھ سے مانگو میں قبول کرونگا۔
تو پھر کسی اور سے مدد کیوں مانگیں؟
وضاحت:
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اصل مدد اللہ کی ہی ہے۔ ہر چیز عطا کرنے والا وہی ہے۔ لیکن وسیلے کا راستہ بھی اللہ نے دکھایا ہے:
"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّهَ وَابْتَغُواْ إِلَيهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُواْ فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ" (المائدة/35) اے ایمان لانے والو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور اس تک پہنچنے کے لیے وسیلہ پکڑو اور اللہ کی راہ میں جہاد کرو تاکہ کامیاب ہو سکو۔ سوره غافر میں حکم ہے کہ مجھ سے مانگو لیکن مانگنے کا طریقہ اور شرائط بیان نہیں ہوئی ہیں۔ آیت وسیلہ میں طریقہ بیان کیا گیا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے وسیلے سے وسیلہ کے طور پر مانگنا بھی اللہ سے ہی مانگنا ہے۔ کم از کم اللہ کے پاکیزہ بندوں کی دعا کے وسیلے کو تو سب مسلمان مانتے ہیں۔

سوال 2: جب اللہ تعالٰی ہماری شہ رگ سے بھی قریب ہے اور ہماری ہر پکار سنتا ہے تو پھر اپنی بات اس تک پہنچانے کے لیے وسیلے کی کیا ضرورت ہے؟
وضاحت:
حقیقت یہ ہے کہ اپنی حاجت اللہ تبارک و تعالٰی تک پہنچانے کے لیے وسیلے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ قبولیت کے لیے وسیلے کی ضرورت ہے۔ اگر نبی بھی تمہارے لیے استغفار کریں، "وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلاَّ لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللّهِ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُواْ أَنفُسَهُمْ جَآؤُوكَ فَاسْتَغْفَرُواْ اللّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُواْ اللّهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا" (النساء/64) ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا لیکن اس لیے کہ اللہ کے اذن سے اس کی اطاعت کی جائے۔ جن لوگوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے (اے نبی) تیرے پاس آئیں اور اللہ سے بخشش چاہیں اور انکے لیے رسول بھی استغفار کرے تو اللہ کو مہربان توبہ قبول کرنے والا پائیں گے۔

حضرت یوسف (ع) کے بھائیوں کی اپنے والد بزرگوار سے دعا کی استدعا:
جب سارے راز کھل گئے اور حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی قصوروار ٹھہرے تو انہوں نے اپنے والد بزرگوار حضرت یعقوب سے عرض کی، "قَالُواْ يَا أَبَانَا اسْتَغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا إِنَّا كُنَّا خَاطِئِينَ"۔ (يوسف/97) "قَالَ سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّيَ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ" (يوسف/98) (یوسف کے بھائیوں نے) عرض کیا اباجان! ہم نے خطا کی ہے ہماری بخشش کی دعا کریں۔ (یعقوب) نے کہا: میں جلد ہی تمہارے لیے اپنے رب سے بخشش طلب کرونگا بے شک وہ مہربان بخشنے والا ہے۔

حکم رسول اللہ (ص) سے حضرت عمر کا اویس قرنی سے استغفار کروانا:
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، - قَالَ إِسْحَاقُ أَخْبَرَنَا، وقَالَ الْآخَرَانِ: حَدَّثَنَا وَاللَّفْظُ لِابْنِ الْمُثَنَّى - حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى، عَنْ أُسَيْرِ بْنِ جَابِرٍ، قَالَ: كَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ إِذَا أَتَى عَلَيْهِ أَمْدَادُ أَهْلِ الْيَمَنِ، سَأَلَهُمْ: أَفِيكُمْ أُوَيْسُ بْنُ عَامِرٍ؟ حَتَّى أَتَى عَلَى أُوَيْسٍ فَقَالَ: أَنْتَ أُوَيْسُ بْنُ عَامِرٍ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: مِنْ مُرَادٍ ثُمَّ مِنْ قَرَنٍ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَكَانَ بِكَ بَرَصٌ فَبَرَأْتَ مِنْهُ إِلَّا مَوْضِعَ دِرْهَمٍ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: لَكَ وَالِدَةٌ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «يَأْتِي عَلَيْكُمْ أُوَيْسُ بْنُ عَامِرٍ مَعَ أَمْدَادِ أَهْلِ الْيَمَنِ، مِنْ مُرَادٍ، ثُمَّ مِنْ قَرَنٍ، كَانَ بِهِ بَرَصٌ فَبَرَأَ مِنْهُ إِلَّا مَوْضِعَ دِرْهَمٍ، لَهُ وَالِدَةٌ هُوَ بِهَا بَرٌّ، لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللهِ لَأَبَرَّهُ، فَإِنِ اسْتَطَعْتَ أَنْ يَسْتَغْفِرَ لَكَ فَافْعَلْ» فَاسْتَغْفِرْ لِي، فَاسْتَغْفَرَ لَهُ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: أَيْنَ تُرِيدُ؟ قَالَ: الْكُوفَةَ، قَالَ: أَلَا أَكْتُبُ لَكَ إِلَى عَامِلِهَا؟ قَالَ: أَكُونُ فِي غَبْرَاءِ النَّاسِ أَحَبُّ إِلَيَّ. قَالَ: فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْعَامِ الْمُقْبِلِ

زرارہ بن اوفیٰ نے اُسیر بن جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی، کہا کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس جب یمن سے مدد کے لوگ آتے (یعنی وہ لوگ جو ہر ملک سے اسلام کے لشکر کی مدد کے لئے جہاد کرنے کو آتے ہیں) تو وہ ان سے پوچھتے کہ تم میں اویس بن عامر بھی کوئی شخص ہے؟ یہاں تک کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ خود اویس کے پاس آئے اور پوچھا کہ تمہارا نام اویس بن عامر ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم مراد قبیلہ کی شاخ قرن سے ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ انہوں نے پوچھا کہ تمہیں برص تھا وہ اچھا ہو گیا مگر درہم برابر باقی ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تمہاری ماں ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ تب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ تمہارے پاس اویس بن عامر یمن والوں کی کمکی فوج کے ساتھ آئے گا، وہ قبیلہ مراد سے ہے جو قرن کی شاخ ہے۔ اس کو برص تھا وہ اچھا ہو گیا مگر درہم باقی ہے۔ اس کی ایک ماں ہے۔ اس کا یہ حال ہے کہ اگر اللہ کے بھروسے پر قسم کھا بیٹھے تو اللہ تعالیٰ اس کو سچا کرے۔ پھر اگر تجھ سے ہو سکے تو اس سے اپنے لئے دعا کرانا۔ تو تم میرے لئے دعا کرو۔ پس اویس نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے لئے بخشش کی دعا کی۔ تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم کہاں جانا چاہتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ کوفہ میں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں تمہیں کوفہ کے حاکم کے نام ایک خط لکھ دوں؟ انہوں نے کہا کہ مجھے خاکساروں میں رہنا اچھا معلوم ہوتا ہے۔

حَجَّ رَجُلٌ مِنْ أَشْرَافِهِمْ، فَوَافَقَ عُمَرَ، فَسَأَلَهُ عَنْ أُوَيْسٍ، قَالَ: تَرَكْتُهُ رَثَّ الْبَيْتِ، قَلِيلَ الْمَتَاعِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «يَأْتِي عَلَيْكُمْ أُوَيْسُ بْنُ عَامِرٍ مَعَ أَمْدَادِ أَهْلِ الْيَمَنِ مِنْ مُرَادٍ، ثُمَّ مِنْ قَرَنٍ، كَانَ بِهِ بَرَصٌ فَبَرَأَ مِنْهُ، إِلَّا مَوْضِعَ دِرْهَمٍ لَهُ وَالِدَةٌ هُوَ بِهَا بَرٌّ، لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللهِ لَأَبَرَّهُ، فَإِنِ اسْتَطَعْتَ أَنْ يَسْتَغْفِرَ لَكَ فَافْعَلْ» فَأَتَى أُوَيْسًا فَقَالَ: اسْتَغْفِرْ لِي، قَالَ: أَنْتَ أَحْدَثُ عَهْدًا بِسَفَرٍ صَالِحٍ، فَاسْتَغْفِرْ لِي، قَالَ: اسْتَغْفِرْ لِي، قَالَ: أَنْتَ أَحْدَثُ عَهْدًا بِسَفَرٍ صَالِحٍ، فَاسْتَغْفِرْ لِي، قَالَ: لَقِيتَ عُمَرَ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَاسْتَغْفَرَ لَهُ، فَفَطِنَ لَهُ النَّاسُ، فَانْطَلَقَ عَلَى وَجْهِهِ، قَالَ أُسَيْرٌ: وَكَسَوْتُهُ بُرْدَةً، فَكَانَ كُلَّمَا رَآهُ إِنْسَانٌ قَالَ: مِنْ أَيْنَ لِأُوَيْسٍ هَذِهِ الْبُرْدَةُ۔

جب دوسرا سال آیا تو ایک شخص نے کوفہ کے رئیسوں میں سے حج کیا۔ وہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ملا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے اویس کا حال پوچھا تو وہ بولا کہ میں نے اویس کو اس حال میں چھوڑا کہ ان کے گھر میں اسباب کم تھا اور (خرچ سے) تنگ تھے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اویس بن عامر تمہارے پاس یمن والوں کے امدادی لشکر کے ساتھ آئے گا، وہ مراد قبیلہ کی شاخ قرن میں سے ہے۔ اس کو برص تھا وہ اچھا ہو گیا صرف درہم کے برابر باقی ہے۔ اس کی ایک ماں ہے جس کے ساتھ وہ نیکی کرتا ہے ۔ اگر وہ اللہ پر قسم کھا بیٹھے تو اللہ تعالیٰ اس کو سچا کرے۔ پھر اگر تجھ سے ہو سکے کہ وہ تیرے لئے دعا کرے تو اس سے دعا کرانا۔ وہ شخص یہ سن کر اویس کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میرے لئے دعا کرو۔ اویس نے کہا کہ تو ابھی نیک سفر کر کے آ رہا ہے ( یعنی حج سے ) میرے لئے دعا کر۔ پھر وہ شخص بولا کہ میرے لئے دعا کر۔ اویس نے یہی جواب دیا پھر پوچھا کہ تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ملا؟ وہ شخص بولا کہ ہاں ملا۔ اویس نے اس کے لئے دعا کی۔ اس وقت لوگ اویس کا درجہ سمجھے ۔ وہ وہاں سے سیدھے چلے ۔ اسیر نے کہا کہ میں نے ان کو انکا لباس ایک چادر پہنائی جب کوئی آدمی ان کو دیکھتا تو کہتا کہ اویس کے پاس یہ چادر کہاں سے آئی ہے؟ ( وہ ایسے تھے کہ ایک مناسب چادر بھی ان کے پاس ہونا باعث تعجب تھا۔) (صحیح مسلم: حدیث: ٦۴۹۲)

اللہ تبارک و تعالیٰ کے سامنے انبیاء سے استغاثہ:
وَ قَالَ: ‏‏‏‏"إِنَّ الشَّمْسَ تَدْنُو يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَتَّى يَبْلُغَ الْعَرَقُ نِصْفَ الْأُذُنِ فَبَيْنَا هُمْ كَذَلِكَ اسْتَغَاثُوا بِآدَمَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ بِمُوسَى، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ بِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"، ‏‏‏‏‏‏وَزَادَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي جَعْفَرٍ ، ‏‏‏‏‏‏فَيَشْفَعُ لِيُقْضَى بَيْنَ الْخَلْقِ فَيَمْشِي حَتَّى يَأْخُذَ بِحَلْقَةِ الْبَابِ، ‏‏‏‏‏‏فَيَوْمَئِذٍ يَبْعَثُهُ اللَّهُ مَقَامًا مَحْمُودًا يَحْمَدُهُ أَهْلُ الْجَمْعِ كُلُّهُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ مُعَلًّى ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ رَاشِدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُسْلِمٍ أَخِي الزُّهْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ حَمْزَةَ، ‏‏‏‏‏‏سَمِعَ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْأَلَةِ۔ (صحیح بخاری: كتاب الزكاة 52- بَابُ مَنْ سَأَلَ النَّاسَ تَكَثُّرًا: حدیث نمبر: 1475)۔

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن سورج اتنا قریب ہو جائے گا کہ پسینہ آدھے کان تک پہنچ جائے گا۔ لوگ اسی حال میں اپنی مخلصی کے لیے آدم علیہ السلام سے فریاد کریں گے۔ پھر موسیٰ علیہ السلام سے۔ اور پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے۔ عبداللہ نے اپنی روایت میں یہ زیادتی کی ہے کہ مجھ سے لیث نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابن ابی جعفر نے بیان کیا  کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم شفاعت کریں گے کہ مخلوق کا فیصلہ کیا جائے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بڑھیں گے اور جنت کے دروازے کا حلقہ تھام لیں گے۔ اور اسی دن اللہ تعالیٰ آپ کو مقام محمود عطا فرمائے گا۔ جس کی تمام اہل محشر تعریف کریں گے۔ اور معلی بن اسد نے کہا کہ ہم سے وہیب نے نعمان بن راشد سے بیان کیا، ان سے زہری کے بھائی عبداللہ بن مسلم نے ان سے حمزہ بن عبداللہ نے اور انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پھر اتنی ہی حدیث بیان کی جو سوال کے باب میں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ وسیلہ اپنی دعا اللہ تبارک و تعالیٰ تک پہنچانے کے لیے نہیں ہے بلکہ اپنی طلب کو اللہ تبارک و تعالیٰ سے قبول کرانے کے لیے ہے۔

سوال 3: وسیلہ صرف نیک اعمال ہیں کوئی انسان وسیلہ نہیں ہے۔
وضاحت: اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ نیک اعمال وسیلہ ہیں۔ لیکن یہ نظریہ کہ وسیلہ صرف نیک اعمال تک محدود ہے اور نیک اعمال کے علاوہ کوئی انسان وسیلہ نہیں ہے!! اس کے لیے کوئی دلیل نہیں ہے۔ آیت میں بھی تقویٰ کے بعد وسیلہ کا ذکر ہے پھر جہاد کا جدا ذکر ہے۔ تقویٰ میں تمام نیک اعمال شامل ہو جاتے ہیں پھر وسیلہ کا حکم ہے جس کا مطلب ہے کہ نیک اعمال کے علاوہ بھی وسیلہ ہو سکتا ہے۔ آیات و احادیث اسی مطلب پر گواہ ہیں:

1۔ نبی کے وسیلے سے نابینا کو آنکھیں ملنا:
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنْصُورِ بْنِ سَيَّارٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ الْمَدَنِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُمَارَةَ بْنِ خُزَيْمَةَ بْنِ ثَابِتٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُثْمَانَ بْنِ حُنَيْفٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَجُلًا ضَرِيرَ الْبَصَرِ، ‏‏‏‏‏‏أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ ادْعُ اللَّهَ لِي أَنْ يُعَافِيَنِي، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "إِنْ شِئْتَ أَخَّرْتُ لَكَ وَهُوَ خَيْرٌ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ شِئْتَ دَعَوْتُ"، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ ادْعُهْ، ‏‏‏‏‏‏"فَأَمَرَهُ أَنْ يَتَوَضَّأَ فَيُحْسِنَ وُضُوءَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَيُصَلِّيَ رَكْعَتَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏وَيَدْعُوَ بِهَذَا الدُّعَاءِ:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْكَ بِمُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ، ‏‏‏‏‏‏يَا مُحَمَّدُ، ‏‏‏‏‏‏إِنِّي قَدْ تَوَجَّهْتُ بِكَ إِلَى رَبِّي فِي حَاجَتِي هَذِهِ لِتُقْضَى اللَّهُمَّ شَفِّعْهُ فِيَّ"، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو إِسْحَاق:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ۔
عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک نابینا نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کیا: آپ میرے لیے اللہ تعالیٰ سے صحت و عافیت کی دعا فرما دیجیئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر تم چاہو تو میں تمہارے لیے آخرت کی بھلائی چاہوں جو بہتر ہے، اور اگر تم چاہو تو میں تمہارے لیے دعا کروں، اس شخص نے کہا: آپ دعا کر دیجئیے، تب آپ نے اس کو حکم دیا کہ وہ اچھی طرح وضو کرے، اور دو رکعت نماز پڑھے، اس کے بعد یہ دعا کرے: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْكَ بِمُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ، ‏‏‏‏‏‏يَا مُحَمَّدُ، ‏‏‏‏‏‏إِنِّي قَدْ تَوَجَّهْتُ بِكَ إِلَى رَبِّي فِي حَاجَتِي هَذِهِ لِتُقْضَى اللَّهُمَّ شَفِّعْهُ فِيَّ ۔ اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں، اور تیری طرف توجہ کرتا ہوں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو نبی رحمت ہیں، اے محمد! میں نے آپ کے ذریعہ سے اپنے رب کی جانب اس کام میں توجہ کی تاکہ پورا ہو جائے، اے اللہ! تو میرے حق میں ان کی شفاعت قبول فرما"۔ ابواسحاق نے کہا: یہ حدیث صحیح ہے۔ (سنن ابن ماجه حدیث نمبر: 138) تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الدعوات ۱۱۹ (۳۵۷۸)، (تحفة الأشراف: ۹۷۶۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۱۳۸) (صحیح)

المستدرک الحاکم میں یہ جملہ بھی ہے کہ "قال عثمان فوالله ما تفرقنا ولا طال بنا حتى دخل الرجل وكانه لم يكن به ضر قطعثمان بن حنیف" کہتا ہے پھر اللہ کی قسم ہم ابھی وہیں بیٹھے ہی تھے زیادہ وقت نہیں گذرا کہ وہ شخص ہمارے پاس آیا اور جیسے اس میں کوئی نابینا پن نہیں تھا۔ (مستدرک:ج:۱: حدیث:۱۱۸۰)۔ عثمان بن حنیف کے الفاظ "وہ شخص ہمارے پاس آیا" سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ شخص وہاں سے چلا گیا تھا اور نبی اکرم کی غیر موجودگی میں اس نے وہ نماز پڑھی اور دعا مانگی۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موجودگی میں یا ان کی غیبت میں بھی جائز ہے۔ امام ابن تیمیہ نے اپنی کتاب قاعدہ جلیلہ میں ابوبکر بن خیثمہ کی تاریخ سے نقل کیا ہے کہ نبی اکرم نے اس نابینا کو یہ جملہ بھی فرمایا تھا، "و إن كانت حاجة فافعل مثل ذلك" تمہیں جب حاجت پیش آئے تو اسی طرح کرنا۔ (کتاب قاعدہ جلیلہ فی التوسل والوسیلہ:ص:۱۰٦) جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عمل رسول اللہ کے سامنے یا انکی غیبت میں، انکی زندگی میں یا ان کی وفات کے بعد بھی یہ عمل کیا جا سکتا ہے۔

یاد رہے کہ الفاظ "وَ أَتَوَجَّهُ إِلَيْكَ بِمُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ "یا اللہ میں محمد رحمت والے نبی کے وسیلے سے تیری بارگاہ میں متوجہ ہوتا ہوں" سے واضح ہے کی نبی اکرم کی ذات کو وسیلہ بنایا جا رہا ہے نہ کہ صرف ان کی دعا کو۔ جو روایات اس واقعہ کو بیان کرنے والی ہیں ان میں سے کسی میں بھی اس چیز کا ذکر نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اس کے لیے دعا کی ہو۔ علامہ البانی کو بھی یہ تسلیم کرنا پڑا کہ یہاں شخصیت کو وسیلہ بنایا جا رہا ہے لیکن پھر کہتے ہیں کہ یہ صرف نبی اکرم کے لیے مخصوص ہے کوئی اور نہیں بن سکتا۔

حضرت عمر، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بلکہ حضرت عباس بن عبد المطلب کو وسیلہ جانتے تھے:
‏‏‏‏‏أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ كَانَ إِذَا قَحَطُوا اسْتَسْقَى بِالْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "اللَّهُمَّ إِنَّا كُنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَسْقِينَا،‏‏‏‏ وَ إِنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِعَمِّ نَبِيِّنَا فَاسْقِنَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَيُسْقَوْنَ".(صحیح بخاری:کتاب المناقب: مناقب عباس بن عبد المطلب: حدیث نمبر: 3710)۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ قحط کے زمانے میں عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کو آگے بڑھا کر بارش کی دعا کراتے اور کہتے کہ اے اللہ! پہلے ہم اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے توسل کرتے تھے تو ہمیں سیرابی عطا کرتا تھا اور اب ہم اپنے نبی کے چچا کے توسل کرتے ہیں۔ اس لیے ہمیں سیرابی عطا فرما۔ راوی نے بیان کیا کہ اس کے بعد خوب بارش ہوئی۔ "نبی کے چچا" کے جملے سے واضح ہے کہ توسل پھر بھی نبی سے ہی ہوا، کیونکہ اگر حضرت عباس رسول اللہ کے چچا نہ ہوتے تو حضرت عمر ان سے توسل نہ کرتے۔

سوال 4: جب وہ زندہ تھے تو وسیلہ تھے اب انکی وفات ہو چکی ہے اب وہ وسیلہ نہیں رہے۔
وضاحت:
وفات کے بعد اب وہ وسیلہ نہیں رہے، اس کے لیے کوئی دلیل نہیں ہے۔ بلکہ صحیح احادیث اس کے خلاف موجود ہے:
1. حدیث عثمان بن حنیف:
وَ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ حُنَيْفٍ أَنَّ رَجُلًا كَانَ يَخْتَلِفُ إِلَى عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ فِي حَاجَةٍ لَهُ فَكَانَ عُثْمَانُ لَا يَلْتَفِتُ إِلَيْهِ وَلَا يَنْظُرُ فِي حَاجَتِهِ فَلَقِيَ عُثْمَانَ بْنَ حُنَيْفٍ فَشَكَا ذَلِكَ إِلَيْهِ فَقَالَ لَهُ عُثْمَانُ بْنُ حُنَيْفٍ: ائْتِ الْمِيضَأَةَ فَتَوَضَّأْ ثُمَّ ائْتِ الْمَسْجِدَ فَصَلِّ فِيهِ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ قُلِ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ وَ أَتَوَجَّهُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّنَا مُحَمَّدٍ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - نَبِيِّ الرَّحْمَةِ، يَا مُحَمَّدُ إِنِّي أَتَوَجَّهُ بِكَ إِلَى رَبِّي فَيَقْضِي لِي حَاجَتِي، وَتَذْكُرُ حَاجَتَكَ، وَ رُوحْ إِلَيَّ حِينَ أَرُوحُ مَعَكَ فَانْطَلَقَ الرَّجُلُ فَصَنَعَ مَا قَالَ لَهُ ثُمَّ أَتَى بَابَ عُثْمَانَ فَجَاءَ الْبَوَّابُ حَتَّى أَخَذَ بِيَدِهِ فَأَدْخَلَهُ عَلَى عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ فَأَجْلَسَهُ مَعَهُ عَلَى الطِّنْفِسَةِ وَ قَالَ حَاجَتُكَ؟ فَذَكَرَ حَاجَتَهُ فَقَضَاهَا لَهُ ثُمَّ قَالَ لَهُ: مَا ذَكَرْتَ حَاجَتَكَ حَتَّى كَانَتْ هَذِهِ السَّاعَةُ، وَقَالَ: مَا كَانَتْ لَكَ مِنْ حَاجَةٍ فَائْتِنَا، ثُمَّ إِنَّ الرَّجُلَ خَرَجَ مِنْ عِنْدِهِ فَلَقِيَ عُثْمَانَ بْنَ حُنَيْفٍ فَقَالَ لَهُ: جَزَاكَ اللَّهُ خَيْرًا مَا كَانَ يَنْظُرُ فِي حَاجَتِي وَلَا يَلْتَفِتُ إِلَيَّ حَتَّى كَلَّمْتَهُ فِيَّ، فَقَالَ عُثْمَانُ بْنُ حُنَيْفٍ: وَاللَّهِ مَا كَلَّمْتُهُ وَلَكِنْ «شَهِدْتُ رَسُولَ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - وَأَتَاهُ رَجُلٌ ضَرِيرٌ فَشَكَا إِلَيْهِ ذَهَابَ بَصَرِهِ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: " أَوَ تَصْبِرُ؟ " فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّهُ لَيْسَ لِي قَائِدٌ وَقَدْ شَقَّ عَلَيَّ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: " ائْتِ الْمِيضَأَةَ فَتَوَضَّأْ ثُمَّ صَلِّ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ ادْعُ بِهَذِهِ الْكَلِمَاتِ» فَقَالَ عُثْمَانُ بْنُ حُنَيْفٍ: فَوَاللَّهِ مَا تَفَرَّقْنَا وَطَالَ بِنَا الْحَدِيثُ حَتَّى دَخَلَ عَلَيْهِ الرَّجُلُ كَأَنَّهُ لَمْ يَكُنْ بِهِ ضَرَرٌ قَطُّ۔ ( مسند أحمد بن حنبل ج 17، ص 42 ،ح: 23476) امام طبرانی نے فرمایا ہے کہ: والحديث صحيح (الطبراني - المعجم الصغير - الجزء : ( 1 ) – حدیث 508 رقم الصفحة:306)۔

ایک آدمی اپنی حاجت کے لیے حضرت عثمان کے پاس آتا رہتا تھا لیکن وہ ان کی طرف توجہ نہیں کرتے تھے اور اس کی حاجت پوری نہیں کرتے تھے۔ اس نے عثمان بن حنیف سے اس چیز کی شکایت کی۔ عثمان بن حنیف نے اسے کہا: وضو کرو اور مسجد میں آ کر دو رکعت نماز پڑھو۔ پھر کہو: میرے معبود! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں ہمارے نبی محمد کے ذریعہ سے جو نبی رحمت ہیں۔ اے محمد! میں آپ کے ذریعے سے آپکے رب جو میرا بھی رب ہے کی بارگاہ میں متوجہ ہوں کی میری حاجت پوری فرمائے۔۔۔۔۔۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے یہ توسل انکی وفات کے بعد ہوا ہے۔

2۔ صحیح سند کے ساتھ امام احمد بن حنبل روایت کرتے ہیں:
أَقْبَلَ مَرْوَانُ يَوْماً فَوَجَدَ رَجُلاً وَاضِعاً وَجْهَهُ على الْقَبْرِ فقال أتدري ما تَصْنَعُ فَأَقْبَلَ عليه فإذا هو أبو أَيُّوبَ فقال نعم جِئْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ولم آتِ الْحَجَرَ سمعت رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يقول لاَ تَبْكُوا على الدِّينِ إذا وَلِيَهُ أَهْلُهُ وَلَكِنِ ابْكُوا عليه إذا وَلِيَهُ غَيْرُ أَهْلِهِ۔ ایک دن مروان آیا تو دیکھا کہ ایک آدمی قبر (رسول اللہ پر) اپنا چہرا رکھے ہوئے تھا۔ مروان نے کہا: تجھے پتا ہے تو کیا کر رہا ہے؟ اس نے جب مروان کی طرف چہرا کیا تو وہ حضرت ابو ایوب انصاری تھے اور کہنے لگے ہاں مجھے پتا کہ میں رسول اللہ کے پاس آیا ہوں کسی پتھر کے پاس نہیں آیا۔ میں نے رسول اللہ سے سنا آپ نے فرمایا: جب اہل کی حکومت ہو تو دین پر نہ رونا لیکن جب نا اہل کی حکومت ہو پھر دین پر رونا۔ إسناده حسن، و صححه الحاكم والذهبي و حسنه السّبكي والسمهودي والصالحي الدمشقي، والمناوي. اس کی سند حسن ہے، حاکم اور ذہبی نے اسکو صحیح کہا ہے جبکہ سمہودی، صاکحی دمشقی اور مناوی نے اسے حسن کہا ہے۔ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابو ایوب انصاری قبر اطہر رسول اللہ کے پاس آنے کو خود رسول اللہ کے پاس آنا قرار دیتے تھے۔ اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ توسل کے خلاف یہ باتیں نبی امیہ کی طرف سے بنائی گئیں ہیں۔

3۔ وفات رسول اللہ کے بعد صحابی حضرت بلال بن سلیمان کا استغاثہ:
امام ابن ابی شیبہ روایت کرتے ہیں:
حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ مَالِكِ الدَّارِ، قَالَ: وَكَانَ خَازِنَ عُمَرَ عَلَى الطَّعَامِ، قَالَ: أَصَابَ النَّاسَ قَحْطٌ فِي زَمَنِ عُمَرَ، فَجَاءَ رَجُلٌ إلَى قَبْرِ النَّبِيّ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اسْتَسْقِ لِأُمَّتِكَ فَإِنَّهُمْ قَدْ هَلَكُوا، فَأَتَى الرَّجُلَ فِي الْمَنَامِ، فَقِيلَ لَهُ: ائْتِ عُمَرَ فَأَقْرِئْهُ السَّلَامَ، وَأَخْبِرْهُ أَنَّكُمْ مَسْقِيُّونَ وَقُلْ لَهُ: عَلَيْكَ الْكَيْسُ، عَلَيْكَ الْكَيْسُ "، فَأَتَى عُمَرَ فَأَخْبَرَهُ، فَبَكَى عُمَرُ، ثُمَّ قَالَ: يَا رَبِّ، لَا آلو إلَّا مَا عَجَزْتُ عَنْهُ۔ عمر کے دور میں لوگ قحط میں گرفتار ہوئے ایک آدمی قبر نبی کی طرف آیا اور کہنے لگا: یا رسول اللہ اپنی امت کے لیے بارش طلب کیجیے قریب ہے کہ (آپ کی امت) ہلاک ہو جائے۔ رسول اللہ اس کے خواب میں آئے اور کہا: عمر کے پاس جاؤ اس کو میرا سلام پہنچاؤ اور اس کو بتاؤ کہ تم سیراب ہوگے اور اسے کہو: تم پر بخشش لازم ہے تم پر بخشش لازم ہے۔ وہ عمر کے پاس آیا اور اسے خبر دی۔ عمر نے گریہ کیا اور کہا: اے میرے رب! میں اس سلام کے قابل نہیں۔ مجھ سے لوگوں کی جو خدمت ہوگی وہ کرونگا۔ (المصنف في الأحاديث والآثار، ج 6، ص356 ، ح32002 ) امام ابن کثیر دمشقی نے کہا ہے: وهذا اسناد صحيح. یہ سند صحیح ہے( البداية والنهاية، ج 7، ص 92) امام ابن حجر عسقلانی نے کہا ہے: وقد روى سيف في الفتوح أن الذي رأى المنام المذكور هو بلال بن الحارث المزني أحد الصحابة۔ سیف نے فتوح میں روایت کی ہے کہ: جس نے خواب دیکھا تھا وہ بلال بن حارث المزنی تھا جو صحابہ میں سے ہے۔
(فتح الباري شرح ج 2، ص495 تحقيق: محب الدين الخطيب، ناشر: دار المعرفة - بيروت. طبق برنامه الجامع الكبير)۔

سلفی مذہب کے بانی ابن تیمیہ کا موقف:
اس روایت پر سلفی مذہب کا بانی ابن تیمیہ کیا کہتا ہے؟ اس روایت پر وہابی فکر کے بانی ابن تیمیہ کی باتیں سننے کے قابل ہیں۔ ابن تیمیہ اپنی کتاب اقتضاء الصراط المستقيم لمخالفة أصحاب الجحيم باب: الدعاء بعد تحية النبي عند القبر میں۔ پہلے تو وہ انبیاء (ع) کے قبور پر سجدہ کا ذکر کرتا ہے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر مطہر کا ذکر کرتے ہوئے اس پر عمارت کا ذکر کرتا ہے: ثم بنى عمر بن عبد العزيز على ذلك هذا البناء الظاهر و عمر بن عبد العزيز زواه لئلا يتخذه الناس قبلة تخص فيه الصلاة من بين مسجد النبي و ذلك أن رسول الله قال كما حدثني عبد العزيز بن محمد عن شريك بن عبد الله بن أبي نمر عن أبي سلمة بن عبد الرحمن قاتل الله اليهود اتخذوا قبور أنبيائهم مساجد وحدثني مالك بن أنس عن زيد بن أسلم عن عطاء بن يسار أن رسول الله قال اللهم لا تجعل قبري وثنا يعبد اشتد غضب الله على قوم اتخذوا قبور أنبيائهم مساجد۔ فهذه الآثار إذا ضمت إلى ما قدمنا من الآثار علم كيف كان حال السلف في هذا الباب وأن ما عليه كثير من الخلف في ذلك هو من المنكرات عندهم۔

پھر عمر بن عبد العزیز نے (قبر نبی پر) اس بلند عمارت کی بنیاد رکھی۔ عمر بن عبد العزیز نے اس (قبر) کو ایک کونے میں کر دیا تاکہ لوگ اسے مسجد میں قبلہ قرار نہ دیں۔ جیسے کہ رسول اللہ نے فرمایا ہے، بیشک رسول اللہ نے فرمایا: خدایا! میری قبر کو بت نہ بنانا کہ اس کی عبادت کی جائے۔ اللہ کا غضب اس قوم پر سخت ہوتا ہے جنہوں نے انبیاء کی قبور کو سجدہ کی جگہ (مسجد) بنا دیا۔ ان روایات کو اگر ان روایات سے ملایا جائے جو ہم نے پہلے بیان کی ہیں تو سلف اور جس پر کثیر خلف ہیں ان کا حال واضح ہو جاتا ہے کہ ان کی نظر میں ایسے کام منکرات میں سے ہیں۔ پھر جب دیکھتا ہے کہ اگر یہ روایات صحیح ہوں تو نعوذ باللہ اصحاب رسول اللہ میں سے کئی مشرک قرار پائینگے۔ جنہوں نے قبر رسول اللہ سے توسل کیا ہے اور آنحضرت سے اپنی حاجت طلب کی ہے۔ تو اس قانون کلی سے استثنا کرتے ہوئے کہتا ہے کہ:
قبر نبی سے صحابہ کا توسل اور مسلمانوں کا صالحین و مؤمنین کی قبور سے توسل قبر پرستی اور بت پرستی نہیں ہے۔ بلکہ اگر پیامبران اور صالحین زائرین کی حاجت پوری کرتے ہیں تو اس کا سبب یہ ہے کہ حاجت پوری نہ ہونے کی بنا پر زائرین کا ایمان خطرے میں پڑجاتا۔

کہتا ہے: ولا يدخل في هذا الباب ما يروى من أن قوما سمعوا رد السلام من قبر النبي صلى الله عليه وسلم أو قبور غيره من الصالحين و أن سعيد بن المسيب كان يسمع الأذان من القبر ليالي الحرة ونحو ذلك۔ فهذا كله حق ليس مما نحن فيه والأمر أجل من ذلك و أعظم۔ اس باب (قبر پرستی) میں وہ روایات شامل نہیں ہیں کہ جن میں کہا گیا ہے کہ لوگوں نے قبر نبی یا دوسرے صالحین کی قبور سے سلام کا جواب سنا ہے۔ اور یہ کہ سعید بن مسیب واقعہ حرہ کی راتوں میں قبر مبارک سے اذان سنتے تھے۔ اور اسی طرح کی اور باتیں (قبر پرستی میں شامل نہیں ہیں)۔ یہ سب حق ہے ہم اس کے انکار کا ارادہ نہیں رکھتے۔ بلکہ معاملہ اس سے بالاتر اور عظیم ہے۔ نوٹ: اس کتاب کا اردو ترجمہ عبدالرزاق ملیح آبادی نے کیا ہے جو دارالسلام سعودی عرب سے چھپا ہے۔ مترجم نے فهذا كله حق کا ترجمہ کیا ہے "ممکن ہے اپنی جگہ پر صحیح ہوں"۔ کیا اسے ترجمہ کہا جائے گا یا اپنی رائے؟ مترجم نے کئی جملوں کا ترجمہ ہی نہیں کیا کیونکہ وہ مترجم کے عقیدے سے ٹکراتے تھے۔

ابن تیمہ پھر لکھتا ہے، و كذلك أيضا ما يروى أن رجلا جاء إلى قبر النبي صلى الله عليه وسلم فشكا إليه الجدب عام الرمادة فرآه وهو يأمره أن يأتي عمر فيأمره أن يخرج فيستسقي الناس فإن هذا ليس من هذا الباب ومثل هذا يقع كثيرا لمن هو دون النبي صلى الله عليه وسلم وأعرف من هذه الوقائع كثيرا۔ اور اسی طرح جو روایت کیا گیا ہے کہ ایک آدمی رمادہ کے سال قبر نبی کے پاس آیا اور قحط کی شکایت کی۔ پھر اس نے خواب میں آپصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دیکھا اور اسے حکم دیا کہ عمر کے پاس جاؤ اور اسے کہو کہ لوگون کے لیے طلب باران کے لیے باہر نکلے۔ یہ اس باب (قبر پرستی) میں داخل نہیں ہیں۔ اس جیسے واقعات نبی سے کمتر حیثیت والوں سے بھی بہت زیادہ واقع ہوئے ہیں میں ان کثیر واقعات کو جانتا ہوں۔ وكذلك سؤال بعضهم للنبي صلي الله عليه وسلم أو لغيره من أمته حاجته فتقضى له فإن هذا قد وقع كثيرا وليس هو مما نحن فيه۔ اسی طرح حاجت کی درخواست امت کے بعض لوگوں کی نبی اکرم یا دوسروں سے اور ان کی حاجات کا پورا ہونا ایسے واقعات بہت زیادہ ہوئے ہیں اور ہم جس باب (قبر پرستی) میں بات کر رہے ہیں، یہ اس میں داخل نہیں ہیں۔

و عليك أن تعلم أن إجابة النبي صلي الله عليه وسلم أو غيره لهؤلاء السائلين ليس مما يدل على استحباب السؤال فإنه هو القائل صلي الله عليه وسلم إن أحدكم ليسألني مسألة فأعطيه إياها فيخرج بها يتأبطها نارا فقالوا يا رسول الله فلم تعطيهم قال يأبون إلا أن يسألوني ويأبى الله لي البخل۔ اور تمہیں معلوم ہونا چاہیئے کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یا دیگران نے حاجب طلب کرنے والوں کی حاجت روائی کی ہے یہ ان سے حاجت طلب کرنے کے مستحب ہونے کی دلیل نہیں ہے۔ کیوںکہ خود رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ: اگر تم میں سے کوئی مجھ سے حاجت طلب کرے اور میں اس کی حاجت پوری کروں اور وہ باہر جائے تو اس نے اپنے بغل میں آگ اٹھائی۔ لوگوں نے پوچھا پھر آپ نے کیوں عطا کیا یا رسول اللہ؟ فرمایا: وہ جب مجھ سے حاجت طلب کرنے سے نہیں رکتے تو اللہ نے بھی مجھے بخیل قرار نہیں دیا ہے۔

و أكثر هؤلاء السائلين الملحين لما هم فيه من الحال لو لم يجابوا لاضطرب إيمانهم كما أن السائلين له في الحياة كانوا كذلك و فيهم من أجيب وأمر بالخروج من المدينة۔ کئی حاجت مند بہت زیادہ اصرار اور زاری کرتے تھے پھر اگر رسول اللہ ان کی حاجت پوری نہ کرتے تو انکا ایمان متزلزل ہو جاتا۔ جیسے ان کی زندگی میں بھی حاجت مانگنے والے ایسے ہی تھے۔ فهذا القدر إذا وقع يكون كرامة لصاحب القبر، أما أن يدل على حسن حال السائل، فلا فرق بين هذا وهذا. اتنی مقدار اگر واقع ہو تو یہ صاحب قبر کی کرامت ہوگی لیکن یہ سائل کی اچھائی پر دلیل بنے اس میں اور اس میں فرق ہے۔ فإن الخلق لم ينهوا عن الصلاة عند القبور ( ٥) و اتخاذها مساجد استهانة بأهلها، بل لما يخاف عليهم من الفتنة، وإنما تكون الفتنة إذا انعقد سببها، فلولا أنه قد يحصل عند القبور ما يخاف الافتتان به لما ﻧﻬي الناس عن ذلك۔ پھر لوگوں کو قبر کے پاس نماز پڑھنے اور اسے مساجد بنانے سے روکنا اہل قبور کی تحقیر کے سبب نہیں ہے۔ بلکہ یہ لوگوں کے فتنہ میں پڑنے کے سبب ہے۔ اور فتنہ تو اس وقت ہوگا جب اسکا سبب موجود ہو۔ قبر کے پاس جس فتنہ کے خوف سے لوگوں کو روکا گیا ہے اگر وہ اس میں نہ پڑتے تو لوگوں کو اس سے روکا نہیں جاتا۔

و كذلك ما يذكر من الكرامات، و خوارق العادات، التي توجد عند قبور الأنبياء والصالحين مثل نزول الأنوار والملائكة عندها و توقي الشياطين والبهائم لها، واندفاع النار عنها وعمن جاورها، و شفاعة بعضهم في جيرانه من الموتى، واستحباب الاندفان عند بعضهم، و حصول الأنس والسكينة عندها، ونزول العذاب بمن استهاﻧﻬا - فجنس هذاحق، ليس مما نحن فيه۔ اسی طرح جو کرامات اور غیرمعمولی واقعات بیان ہوئے ہیں جو انبیاء اور صالحین کی قبور پاس ہوتے ہیں مثال: (قبر کے) پاس انوار اور ملائکہ کا نزول، شیاطین اور حیوانات سے انکی حفاظت، ان سے اور مجاورین سے آگ کا دور ہونا، قبر والے کی طرف سے بعض پڑوس والوں کی شفاعت، ان باتوں کا بعض لوگوں سے بیان کرنے کا مستحب ہونا، ان (قبور) کے پاس انسیت اور سکون کا حاصل ہونا اور انکی توہیں کرنے والوں پر عذاب کا نزول اور اس طرح کی چیزیں حق ہیں۔ اور یہ (قبر پرستی) میں شامل نہیں ہیں۔ و ما في قبور الأنبياء والصالحين، من كرامة الله ورحمته، وما لها عند الله من الحرمة والكرامة فوق ما يتوهمه أكثر الخلق، لكن ليس هذا موضع تفصيل ذلك. وكل هذا لا يقتضي استحباب الصلاة، أو قصد الدعاء أو النسك عندها، لما في قصد العبادات عندها من المفاسد التي علمها الشارع ( ٦) كما تقدم. فذكرت هذه الأمور لأﻧﻬا مما يتوهم معارضته لما قدمناه، وليس كذلك.

انبیاء اور صالحین کی قبور پر جو اللہ کی کرامتیں اور رحمتیں ہیں اور جو اللہ کے پاس انکا احترام اور عزت ہے وہ اکثر لوگوں کے وہم سے بھی اوپر ہے یہ اسکی تفصیل کا موقعہ نہیں ہے۔ لیکن یہ سب اسکا سبب نہیں بنتا کہ ان (قبور) کے پاس نماز، دعا اور عبادت مستحب ہو کیونکہ ان (قبور) کے قریب عبادات سے جو مفاسد پیدا ہوتے ہیں ان کو شارع نے بیان کیا ہے جسکا ذکر پہلے ہو چکا ہے۔ ان امور کا میں نے اس لیے ذکر کیا ہے کہ جو ہم نے پیش کیا ہے اس سے تضاد کا خیال نہ ہو، ایسا نہیں ہے۔ نوٹ: اردو مترجم نے وكل هذا لا يقتضي استحباب الصلاة، أو قصد الدعاء أو النسك عندها کا ترجمہ کیا ہے: "اسکے باوجود کسی حال میں بھی انکی قبروں کے پاس نماز دعا اور عبادات کے التزام و خصوصیت کو جائز نہیں قرار دیا جا سکتا"۔ اسکو کہتے ہیں آش (سوپ) سے زیادہ پیالہ گرم۔ اللہ تبارک و تعالی ہدایت دے ایسوں کو۔

ابن تیمیہ کہتا ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سلام کرنا ہو تو انکو سلام کرتے وقت کس طرح منہ کرنا چاہیئے اس میں اختلاف ہے لیکن: فقال مالك و أحمد و غيرهما: يستقبل قبره ويسلم عليه امام مالک اور امام احمد بن حنبل وغیرہ کہتے ہیں کہ ان کی قبر کی طرف منہ کرکے سلام کرنا چاہیئے۔ کہتے ہیں: فأما استماع الميت للأصوات، من القراءة أو غيرها - فحق۔ البتہ میت کا قرات قرآن یا دوسری آوازیں سننا یہ حق ہے۔ اردو مترجم نے اسکا ترجمہ یوں کیا ہے: "میت کا کچھ آوازوں کو سن لینا ثابت ہو سکتا ہے" کیا یہ مترجم کی امانتداری ہے؟ (ابن تيميه الحراني الحنبلي، ابوالعباس أحمد عبد الحليم (متوفاى 728 هـ)، اقتضاء الصراط المستقيم مخالفة أصحاب الجحيم، ج 1، ص 373، تحقيق: محمد حامد الفقي، دار النشر: مطبعة السنة المحمدية – القاهرة،‌ الطبعة: الثانية1369)

ابن تیمیہ کے اس کلام سے کچھ باتیں واضح ہوتی ہیں:
1۔ قبر نبی پر بلند و بالا عمارت عمر بن عبد العزیز نے بنائی ہے۔ اگر قبور پر عمارت بنانا شرک، بدعت اور حرام ہے تو پھر عمر بن عبد العزیز جسے اہلسنت خلفاء راشدین میں شامل کرتے ہیں مشرک اور بدعتی ثابت ہوگا۔
2۔ انبیاء علیہم السلام بلکہ صالحین بھی موت کے بعد حاجتمندوں کی آواز سنتے ہیں اور انکی حاجت پوری کرتے ہیں اور اس طرح کے واقعات بہت ہوئے ہیں اور خود ابن تیمیہ اس کی حق ہونے سے واقف ہے۔
3۔ قبور سے توسل اور صاحب قبر سے حاجت طلب کرنا قبر پرستی اور بت پرستی نہیں ہے بلکہ جائز ہے البتہ مستحب نہیں ہے۔
4۔ اگر انبیاء یا صالحین زائریں کی حاجت روائی کرتے ہیں وہ اس وجہ سے ہے کہ حاجت مند بہت زیادہ اصرار کرتے ہیں اگر اگر ان کی حاجت پوری نہ ہو تو ایمان گنوا بیٹھیں گے۔
5۔ انبیاء اور صالحین کی قبروں سے کرامات کا ظہور حق ہے۔
6۔ انبیاء علیہم السلام اور اولیاء کے قبور کے قریب نماز و دعا بذات خود حرام نہیں ہے۔ لیکن حرام میں مبتلا ہونے کے امکان کے سبب منع ہے۔
7۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر مبارک کی طرف منہ کرکے سلام (زیارت) پڑھنا ثابت ہے۔
8۔ اہل قبور تلاوت قرآن اور دوسری آوازین سنتے ہیں۔

قبرستان جاکر مردوں کو سلام کرنے کے متعلق سلفی مفسر ابن کثیر کہتا ہے: و قد شرع السلام علي الموتى و السلام علي من لم يشعرو لا يعلم بالمسلم محال و قد علم النبي أمته إذا رأوا القبور أن يقولوا: سلام عليکم أهل الديار من المؤمنين و إنا إن شاء الله بکم لاحقون يرحم الله المستقدمين منا و منکم و المستأخرين نسأل الله لنا و لکم العافية فهذا السلام و الخطاب و النداء لموجود يسمع و يخاطب و يعقل و يرد و إن يسمع المسلم۔ (تفسير ابن کثير، ج ٣، ص ٤) مردوں کو سلام کرنا ایک امر شرعی ہے اور جو سلام کو نہ سمجھے یا اسے پتا نہ لگے اس پر سلام محال ہے جبکہ نبی نے اپنی امت کو یہ سکھایا ہے کہ جب قبور دیکھو تو کہو: "اے اس بستی کے مؤمنو! تم پر سلام ہو ہم بھی ان شاء اللہ تم سے ملنے والے ہیں ہم اور تم میں سے جو پہلے چلے گئے ان پر اللہ کی رحمت ہو اور جو پیچھے رہ گئے ہیں انکے لیے اور آپ کے لیے اللہ سے عافیت طلب کرتے ہیں۔" جبکہ سلام، خطاب اور نداء ایسے موجود کے لیے ہے جو حاضر ہو، سنتا ہے، متوجہ ہوتا ہے اور جواب بھی دیتا ہے اگر چہ مسلمان اس کو سن نہ سکے۔

اسی طرح سلفی امام ، ابن قیم جوزی نے روح کے موضوع پر دو جلدوں میں کتاب لکھی ہے، کہتا ہے: فلولا ان المخاطب يسمع لکان ذلک بمنزلة الخطاب للتراب و الخشب و الحجر و المعدوم و هذا و ان استحسنه واحد فالعلماء قاطبة على استقباحه و استهجانه اگر مخاطب نہ سنے تو پھر اس سے خطاب تو مٹی، لکڑی، پتھر اور معدوم سے خطاب ہوگا اگر کوئی اسے اچھا تصور کرے تو علماء اسے قطعی طور پر قبیح اور معیوب قرار دیں گے۔ پھر کہتے ہیں: و قد صح عن النبي أن الميت يسمع قرع نعالهم إذا ولوا منصرفين. نبی اکرم سے ثابت ہے کہ میت لوگوں کی جوتیوں کی آواز سنتا ہے جب وہ لوٹتے ہیں۔
(الروح، ج: 1 ص: 14)


خبر کا کوڈ: 909748

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/909748/غير-الله-سے-مدد-مانگنا-قرآن-اور-سنت-کی-روشنی-میں-7

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org