0
Friday 15 Jan 2021 20:30

بلتستان میں متنازعہ نعرہ، پس پردہ سازشیں، وجوہات، حقائق اور ریاست سے اُمیدیں

بلتستان میں متنازعہ نعرہ، پس پردہ سازشیں، وجوہات، حقائق اور ریاست سے اُمیدیں
تحریر: شیر علی انجم

گذشتہ ہفتے سانحہ مچھ بلوچستان کے خلاف سکردو میں جو احتجاجی مظاہرہ ہوا، اس مظاہرے میں بلتستان کے چاروں اضلاع سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ شریک تھے۔ ٹھاٹھیں مارتے اس عوامی سمندر میں جہاں حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی کی گئی، وہیں درمیان میں بیس سکینڈ کے دورانیے پر مبنی ایک نعرہ بھی سنائی دیا، جو افواج پاکستان کے خلاف تھا۔ اس قسم کے نعرے بلتستان جیسی حساس سرزمین پر لگنا کئی حوالے سے افسوسناک ہونے کے ساتھ خطرناک بھی ہیں۔ لیکن اس کی وجوہات کو تلاش کرنا ریاست کی اہم  ذمہ داری ہے۔ کیونکہ یقیناً یہ نعرہ نفرت سے نہیں بلکہ غصے میں کسی نے لگایا ہوگا اور اس نعرے کی عوامی سطح پر بھرپور مذمت بھی کی گئی ہے۔ انجمن امامیہ بلتستان کے صدر سید باقر الحسینی نے سکردو میں شہید آغا ضیاء الدین کی برسی کے موقع پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اس نعرے سے لاتعلقی کا اظہار کر دیا اور بتایا کہ انجمن امامیہ افواج پاکستان کی قدر کرتی ہے۔

ساتھ ہی انہوں نے شکوہ بھی کیا کہ بعض فوجی ذمہ داران کی جانب سے دہشت گرد اور شدت پسند عناصر کو شیلڈ دینا اور سانحہ مچھ کو چھے دن گزرنے کے باوجود بھی فوج کی جانب سے مذمتی بیان نہ آنا سوالیہ نشان ہے اور ہم سوال کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ اسی طرح انجمن تاجران سکردو کے سیکرٹری جنرل احمد چو شگری نے بھی سوشل میڈیا پر لکھا کہ سکردو میں نکالی گئی تاریخی احتجاجی ریلی میں کچھ نعرے ایسے لگے، جنہوں نے سکردو انتظامیہ کے اعلیٰ عہدیداران سمیت اسٹبلشمینٹ کے در و دیوار ہلا کر رکھ دیئے ہیں۔ اس روز سے لیکر آج تک انتظامیہ کے اعلیٰ عہدیداروں سمیت تمام ریاستی ادارے آئندہ آنے والے وقتوں میں ایسے نعروں کی روک تھام کے لئے نہ صرف عوام پر دباو بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں بلکہ علمائے کرام کو بھی پریشرائز کرنے کی بھرپور کوشش کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔

بلتستان پورے پاکستان کا وہ واحد خطہ ہے، جہاں کے عوام اور علماء پاکستان آرمی کو پورے ملک کے عوام کے مقابلے میں زیادہ قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ یہاں کی ہر مجلس و محافل میں سب سے پہلے ریاست پاکستان کے استحکام اور پاکستان آرمی کی کامیابی کے لئے خصوصی دعائیں کی جاتی ہیں۔ ریاستی اداروں اور انتظامیہ کے اعلیٰ عہدیداروں کو چاہیئے کہ پاکستان اور پاک آرمی کے لئے ہر وقت دعائیں کرنے والے عوام کی زبان سے ایسے نعرے لگانے کے بنیادی محرکات پر نہ صرف توجہ دیں بلکہ ایسے محرکات کے سدباب کے لئے کوشش کریں۔ اگر آپ نے ان محرکات پر توجہ دیئے بغیر عوام اور علماء کو دباؤ میں لانے کی کوشش کی تو آئندہ آنے والے وقتوں میں اس سے بھی سنگین نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ انہوں نے مزید لکھا کہ بلتستان وہ واحد خطہ ہے، جہاں انتظامیہ اور ریاستی اداروں نے ملکر عوام کو محکوم بنا کر رکھا ہوا ہے۔

اول تو بلتستان کے عوام کو وہ حقوق نہیں ملتے، جو ملک یا گلگت بلتستان کے دیگر علاقوں کو ملا کرتے ہیں۔ جو حقوق بمشکل ملتے ہیں، وہ انتظامیہ کے چند اعلیٰ افراد اور ریاستی اداروں کی ملی بھگت سے عوام تک صحیح مراعات کے ساتھ نہیں پہنچتے۔ بلتستان کی نئی نسل ہر طرح سے محرومیت کا شکار دکھائی دے رہے ہے۔ انہوں نے بلتستان کی نسل نو کی محرومیت کے سات اسباب کا ذکر کیا ہے، جو سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔ اس نعرے کو مختلف زاویوں سے دیکھتے ہوئے وجوہات تلاش کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ جن میں سے کچھ وجوہات کا تذکرہ انجمن امامیہ اور انجمن تاجران کے ذمہ داران نے کیا ہے۔ لیکن جو سب سے بڑی وجہ ہے، اس طرف شاید کسی نے توجہ نہیں دی۔ یہ بات ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان میں اہل تشیع کے خلاف کفر کے فتووں کا سلسلہ ضیاء الحق کے دور میں طوفان کی طرح آیا اور باقاعدہ طور شیعہ کافر ہونے کا فتویٰ جاری کیا گیا، جس کے نتیجے میں سانحہ 1988ء، سانحہ بابو سر، سانحہ چلاس جیسے واقعات رونما ہوئے۔

لیکن متاثرین آج بھی انصاف کے منتظر ہیں، جبکہ شدت پسند عناصر سرکاری پروٹوکول میں دندناتے اہل تشیع مکتب فکر کو للکارتے رہے، جس کے نتیجے میں کراچی سے لیکر گلگت بلتستان اب تک ہزاروں لوگ صرف شیعہ ہونے کی وجہ سے قتل ہوئے اور قاتلوں کا کچھ علم نہیں بلکہ آج وہ پنجاب میں تحریک انصاف کے سیاسی اتحادی ہیں۔ اس مذہبی شدت پسندی میں کوئٹہ میں آباد ہزارہ شیعہ سب سے زیادہ متاثر ہوئے، لیکن نیشنل ایکشن پلان جو گلگت بلتستان میں بنیادی حقوق کا سیاسی مطالبہ کرنے والوں پر بروقت نافذ ہوتا ہے، لیکن یہ قانون یہاں مکمل طور پر غیر فعال یا ناکام نظر آتا ہے۔ گذشتہ ہفتے جس طرح سے بلوچستان کے علاقہ مچھ میں جن محنت کشوں کو عقیدے کی بنیاد پر ذبح کرکے ایک بار پھر کربلا کے واقعے کی یاد تازہ کر دی۔ اس المناک واقعے کے بعد پاکستان بھر میں دھرنے شروع ہوئے اور لواحقین نے وزیراعظم عمران خان سے مطالبہ کیا کہ وہ ریاست کے سربراہ کی حیثیت سے ان کے سر پر ہاتھ رکھنے اور زخموں پر مرہم رکھنے آجائیں۔

لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا بلکہ زلفی بخاری اور علی زیدی کو اپنا نمائندہ بنا کر وہاں بھیجا۔ زلفی بخاری کے غیر سنجیدہ سوالات نے عوام کو مزید مشتعل کر دیا اور وزیراعظم کوئٹہ آو کے مطالبے میں تیزی آگئی اور دھرنوں میں اضافہ ہوا اور ٹیوئٹر پر یہ مطالبہ مسلسل ٹاپ ٹرینڈ پر رہا۔ لیکن وزیراعظم نے اس وقت دنیا کو حیران کر دیا، جب کسی تقریب میں انہوں نے کہا کہ مجھے بلیک میل کرنے کی کوشش نہ کرو اور پہلے میتوں کو دفناو، پھر میں کوئٹہ آوں گا۔ یوں اس اعلان نے جہاں پر زخموں پر نمک چھڑک دیا، وہیں ریاست مدینہ کا نعرہ جھوٹ کا پلندہ ثابت ہوگیا اور عوام نے ریاست کے اوپر غم اور غصے کا اظہار شروع کر دیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹیوئٹر اور فیس بک پر وزیراعظم عمران خان کے ماضی میں دہشت گردوں کے خلاف وہ تمام ٹیوئٹس اور ویڈیوز مسلسل وائرل ہونا شروع ہوگئیں، جن میں انہوں کالعدم لشکر جھنگوی کو شیعہ نسل کشی کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔

کئی ایسے ویڈیوز بھی منظر عام پر آئے، جن میں وزیراعظم عمران خان اور وزیر داخلہ شیخ رشید کو ریاستی اداروں اور اسٹیبلشمنٹ پر سخت تنقید کرتے ہوئے دہشتگردی کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔ یوں یقیناً سکردو میں بھی کچھ جذباتی نوجوانوں نے بیس سیکنڈ کیلئے غم اور غصے کا اظہار کیا تو یقیناً وہ عمران خان، شیخ رشید احمد، مولانا فضل الرحمن، پی ٹی ایم، پی ڈی ایم کے نعروں، تقاریر اور ٹیوئٹس سوشل میڈیا پر دیکھ کر اور ان سے متاثر ہوکر کیا ہوگا، جو کہ قابل مذمت ہے۔ سانحہ مچھ کے لواحقین کی آواز پر وزیراعظم عمران خان نے لبیک نہیں کہا، البتہ آرمی چیف جنرل قمر باجوہ ہزارہ شیعوں کے سر پر دست شفقت رکھنے پہنچ گئے، جس کی خوب پذیرائی ہوئی، عوامی سطح پر اور سوشل میڈیا پر خوب سراہا گیا۔ گذشتہ روز سکردو امامیہ جامع مسجد میں خطبہ جمعہ سے خطاب کرتے ہوئے امام جمعہ سید باقر الحسینی نے اس بات کو پھر سے دہرایا اور اس قسم کے نعروں کے سدباب کیلئے مُلکی سطح پر جامع حکمت عملی تیار کرنے زور دیا ہے۔

لہذا ان کے ذہنوں میں جو غلط فہمی اس قسم کی تقاریر اور انٹرویوز کی ویڈیو کلپس دیکھ کر پیدا ہوئی ہے، اس ختم کرنے کیلئے دست شفت رکھنے کی ضرورت ہے، کیونکہ کسی بھی جرم کے اوپر مٹی ڈالنے سے جرم ختم نہیں ہوتے بلکہ مٹی کے اندر دب کر پروان چڑھتے ہیں، جو لاوے کی شکل میں کسی وقت پھٹ گئے تو انجام تباہی ہوگا۔ لہذا دست شفقت رکھنا وقت کا تقاضا ہے، کیونکہ ریاست ماں کی طرح ہوتی ہے اور گلگت بلتستان کی متنازعہ حیثیت کے باوجود گلگت بلتستان کے عوام کی پاکستان سے محبت دنیا کیلئے ایک مثال ہے۔ بلتستان میں خدمات انجام دینے والے بیوروکریٹس بھی اس علاقے کے وائسرے نہیں بلکہ عوامی خدمت گار ہیں، انہیں اس بات کا احساس ہونا ضروری ہے۔ اب اس آڑ میں بلتستان دشمن عناصر کی جانب سے خبث باطن کا اظہار کرنے والوں کا ذکر کریں تو سب سے پہلا نام سابق قوم پرست علیحدگی پسند اور سابق ترجمان حکومت گلگت بلتستان فیض اللہ فراق کا نام آتا ہے، جو بلتستان کے خلاف کچھ لکھنے کیلئے کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔

اُنہوں نے ظاہری طور پر جمہوریت اور دانشوری کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے، لیکن کراچی یونیورسٹی میں طالب علمی کے دوران لیاقت لائبریری میں اہل تشیع کے خلاف جارحانہ تقریر کرتے کرتے  انکا بے ہوش ہو جانا تاریخ کا حصہ ہے اور لوگ گواہ ہیں۔ اسی طرح وہ کراچی جس قسم کے مذہبی انتہاء پسندوں کے ساتھ میل جول رکھتے تھے، اس بات سے بھی لوگ اچھی طرح آگاہ ہیں۔ یہ تو بھلا ہو عبد الحمید خان کا کہ جس نے ان کو جمہوری اور قوم پرستی کا راستہ دکھایا اور بقول عبدالحمید خان ان کو پیسہ دیکر تعلیم حاصل کروائی، ورنہ آج وہ بھی کسی کالعدم شدت پسند جماعت کے رہنماء ہوتے۔ ایسے لوگ جب کسی کو فوج سے محبت اور امن و بھائی چارگی کی درس دیں تو دنیا والوں کیلئے مذاق ہے۔ عبد الحمید خان کے حوالے سے عام طور یہی کہا جاتا ہے اور انکا اپنا بیان بھی ریکارڈ کا حصہ ہے، جس کے مطابق انہوں نے اقرار کیا ہے کہ انہوں نے "را" سے پیسے لیے، لیکن پاکستان میں دہشتگردی نہیں کی، یعنی فیض اللہ فراق کی پرورش "را" ہی کے پیسوں سے ہوئی ہے۔ وہ بلتستان اور بلتستان کے عوام کے بارے میں کیا لکھے گا، جس کے اپنے وجود میں "را" موجود ہو۔

اب اگر مذہبی انتہاء پسند مولوی فردوس جمال کی بات کرتے ہیں تو وہ لڑکپن سے لیکر آج تک اہل تشیع کے خلاف بولنے لکھنے کیلئے ہی سعودی عرب سے تنخواہ لیتے رہے ہیں۔ وصال ٹی وی سے لیکر سوشل میڈیا اور مختلف واٹس ایپ گروپس میں وہ مکمل طور پر ایکسیوز ہوچکے ہیں۔ ایسا لگتا ہے سعودی عرب میں طالب علمی کے دوران ان کو ٹاسک ملا ہوا تھا کہ اہل حدیث اور اہل تشیع کے درمیان اور امامیہ نوربخشی اور صوفیہ نوربخشی کے درمیان نفرتوں کو ہوا دیکر سعودی ماڈل کے اسلام کا پرچار کریں، جو اب سعودی عرب میں بھی سرکاری سطح پر منع ہوچُکا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بلتستان امن گہوارا اور بھائی چارگی و فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے حوالے سے دنیا کیلئے مثال ہے۔ بلتستان وہ خطہ ہے، جہاں تمام فرقوں کے درمیان رشتہ داریاں ہیں، ایک دوسرے سے شادیاں کرتے ہیں، یہاں تک کہ تمام فرقوں کے لوگ بغیر کسی خوف اور خطر کے ایک دوسرے کی مساجد میں نماز پڑھتے ہیں۔

لیکن اس جیسے شرپسندوں کی ہمیشہ سے یہی کوشش رہتی ہے کہ بلتستان میں بھائی چارگی کی فضاء کو خراب کریں، بلتی قوم کو آپس میں لڑائیں اور موقع ملتے ہی بلتستان کو بدنام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ جس کیلئے اُنہوں نے وصال ٹی وی اور مدینہ یونیورسٹی کا پلیٹ فارم بھی استعمال کیا، لیکن ناکام رہے۔ یہ وہ شخص ہے، جو اہل تشیع کو اسلام اور پاکستان کا دشمن سمجھتا ہے۔ اس نے دعویٰ کیا ہے کہ بلتستان میں غیر ملکی ایجنسیوں کیلئے کام کرنے والے لوگ موجود ہیں۔ یہ بہت بڑا دعویٰ ہے، ریاستی اداروں کو اس شخص سے پوچھ گچھ کرنے کی ضرورت ہے کہ آیا وہ کون لوگ ہیں، جن کے بارے میں ریاستی اداروں کو علم نہیں، لیکن ایک شدت پسند مذہبی انتہاء پسند شخص کو سب پتہ ہے۔ اگر واقعی اس قسم کے عناصر بلتستان میں موجود ہیں تو انہیں کیفر کردار تک پہنچانا ضروری ہے۔

بلتستان سے تعلق رکھنے والی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں اور سول سوسائٹی کے ارکان پر بھی فرض ہے کہ ریاستی اداروں سے تحقیقات کا مطالبہ کریں، کیونکہ یہ معمولی الزام نہیں ہے۔ اگر اس بندے نے صرف بلتستان کو بدنام کرنے کیلئے اس طرح کا الزام لگایا ہے تو اس کو کڑی سزا دینا ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے۔ ورنہ بلتستان تو وہ سرزمینِ ہے، جس کے جسم کے 1948ء سے لیکر 1999ء کئی بار ٹکرے ہوئے، ہر محلے میں ایک شہید کی قبر نظر آئے گی۔ ہر قبرستان میں کئی پاکستانی جھنڈے لہراتے ہوئے دکھائی دیں گے۔ مہاجرین کرگل اور متاثرین کارگل جنگ آج بھی معاوضوں سے محروم ہیں، لیکن ہر بار پاکستان کا پرچم اٹھا کر احتجاج کیا اور کبھی کوئی ایسا نعرہ نہیں لگایا۔

بلتستان کے حق پرست جوانوں کو سابق فورس کمانڈر گلگت بلتستان جنرل احسان محمود نے خصوصی ہیلی کاپٹر کے ذریعے سیاچن کا دورہ کرایا۔ ان کے ساتھ طویل بیٹھک لگائی، ان کی بات سنی گئی، اُنہوں ان سب کو گلے لگایا۔ اُنہوں عوام سے وعدہ کیا تھا کہ سکردو کرگل روڈ کو کھولا جائے گا۔ لیکن فراق اور جمال جیسے لوگوں کو دراصل کرگل سکردو روڈ کھولنے سے خوف ہے، تاکہ منقسم لداخ کے لوگ ایک دوسرے سے مل نہ پائیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج بلتستان سے دشمنی رکھنے والے اس آڑ میں بلتستان کے خلاف لب کشائی کر رہے ہیں، جو کہ دراصل افواج پاکستان سے محبت میں نہیں بلکہ موقع ملنے پر موقع کو گین کرنا ہے۔ لہذا ریاست کو اس قسم کے دوست نما دشمنوں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے، جو محاذ آرائی کی سیاست کو ہوا دیکر دشمن عناصر کو پروپیگنڈے کا موقع فراہم کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 910362
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش