QR CodeQR Code

امریکا سے بیت المقدس تک فیصلہ کن نیا سال

18 Jan 2021 03:00

اسلام ٹائمز: اسرائیل، امریکی حکومت میں اسکے کمی کمین اور عرب ممالک کے خائن حکمران ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں کہ کسی بھی فالس فلیگ آپریشن کو بہانہ بنا کر امریکا ایران پر حملہ کر دے یا جنگ چھیڑ دے۔ بیس جنوری 2021ء کی دوپہر جب تک ڈونلڈ ٹرمپ صدر ہے، تب تک وہ اسی ایجنڈا پر کام کر رہے ہیں۔ تب تک یہ نہ بھی ہوسکے، تب بھی یہ نکتہ یاد رہے کہ مسلمان اور عرب ممالک کیلئے پورا سال 2021ء ہی اہم اور فیصلہ کن سال ہے۔ اسوقت عرب اور مسلمان عوام پر زیادہ تر غیر نمائندہ موروثی شاہ و شیوخ یا پھر ڈکٹیٹر مسلط ہیں اور انکا عالم اسلام و عرب پر مسلط ہونے کا اصلی عامل بھی امریکی زایونسٹ مغربی بلاک ہی ہے۔ اس لیے امت اسلامی و عرب کو اپنے واحد مشترکہ دشمن زایونسٹ بلاک سے خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔


تحریر: محمد سلمان مہدی

سال 2021ء دنیا کے مسلمان اکثریتی اور عرب اکثریتی ممالک کے لیے فیصلہ کن سال سمجھا جا رہا ہے۔ یوں تو پوری دنیا ہی پر چند استثناء کے ساتھ امریکی حکومت کا رعب و دبدبہ حاوی رہتا ہے لیکن مغربی ایشیاء یا مشرق وسطیٰ کے عرب مسلمان ممالک کے حکمرانوں کی اکثریت تو امریکا کی مرضی کے بغیر ہلتے تک نہیں۔ اب ان عرب حکمرانوں کا کیا بنے گا کہ جنہوں نے امریکی حکومت کی ڈکٹیشن پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا۔ انہیں تو ٹرمپ ہی کے اس عبرتناک انجام سے نوشتہ دیوار نظر آجانا چاہیئے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی چار سالہ صدارتی معیاد کے درمیانی عرصے میں امریکی حکومت نے اسرائیل کے کمی کمین کی حیثیت سے خدمات انجام دے کر بین الاقوامی تعلقات کی نئی سیاسی تاریخ رقم کی ہے۔ ان خدمات کے بعد بھی ٹرمپ کو دوسرے صدارتی الیکشن میں ہروا دیا گیا، جس سے دنیا کے سامنے یہ تلخ حقیقت ایک اور مرتبہ کھل کر سامنے آئی کہ جیوش زایونسٹ لابی، یہودی سرمایہ دار اور سرمایہ کار کسی کے دوست نہیں۔ ان کی منافقانہ دوستی محض ناجائز نسل پرستانہ مفادات تک محدود ہوتی ہے، یہ حقیقت ان کے کام نکل جانے پر آشکارا ہوتی ہے۔

اس وقت امریکی ذرائع ابلاغ جس ایک ہائی پروفائل شخصیت کو مرکزی ولن بنائے ہوئے ہے، اس کا نام ڈونلڈ ٹرمپ ہے۔ کہنے کی حد تک وہ بیس جنوری کی دوپہر تک امریکا کا صدر ہے، لیکن اب وہ صدر ہوتے ہوئے بھی ذلیل و خوار ہے۔ امریکی اداروں کی سروے رپورٹس کہتی ہیں کہ امریکی شہریوں کی اکثریت ٹرمپ کو فوری طور پر صدارت سے برطرف کرنے کے حق میں رائے دے رہے ہیں۔ ایوان نمائندگان کے اراکین کی اکثریت نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مواخذے کے حق میں رائے دی ہے۔ یہ پہلا صدر ہے جس کو دو مرتبہ مواخذے کی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا۔ فراڈیہ یہودی داماد اور اس کی جیوش لابی بھی ٹرمپ کو بچانے نہیں آئے۔ لیکن بات اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ اس پوری صورتحال کو ایک اور زاویئے سے دیکھیں تو امریکی صدارتی الیکشن 2020ء پورے کا پورا فراڈ الیکشن ثابت ہوا۔ پوسٹل ووٹ کے ذریعے بدترین دھاندلی کی گئی۔ خود امریکی صدر نے الیکشن میں دھاندلی کا الزام لگایا ہے۔ یعنی جوزف بائیڈن کا صدر بننا ایک دھاندلی زدہ صدارتی الیکشن کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔ اس کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ بیس جنوری 2021ء کو جوزف بائیڈن کی صدارتی معیاد شروع ہونے کے بعد جو امریکی حکومت ہوگی، وہ ایک غیر شفاف، غیر آزادنہ الیکشن کی پیداوار کہلائے گی۔

یعنی یہ کہ امریکی فراڈ جمہوریت اور فراڈ الیکشن کو بے نقاب کرتے ہوئے سال 2021ء نے آغاز کیا ہے۔ اب امریکا پر لازم ہے کہ دیگر ممالک کو جمہوریت اور الیکشن پر لیکچر دینے کی بجائے اپنے اندر کی خامیوں کو دور کرنے پر توجہ دے۔ اگر جوزف بائیڈن کی حکومت اور ڈیموکریٹک پارٹی کے حامی کہیں کہ ٹرمپ جھوٹا ہے تو بھی یہ جھوٹا امریکی نظام ہی کے تحت صدر بنا تھا۔ کیا صدر ٹرمپ کو امریکی عوام نے ووٹ نہیں دیئے تھے۔ کیا ٹرمپ امریک آئین و قانون و سیاسی نظام کے تحت صدر نہیں بنا تھا!؟ اب اگر ٹرمپ کو جھوٹا کہیں، فسادی کہیں، فتنہ گر کہیں تو بھی اس کو منصب صدارت تک پہنچانے والے بھی اس کے جرائم سے بری الذمہ نہیں ہیں۔ اگر جوزف بائیڈن اور امریکی جمہوریت فراڈ نہیں ہیں تو مقبوضہ فلسطین و بیت المقدس پر اسرائیلی غیر قانونی دعویٰ کو صدر ٹرمپ حکومت نے جب رسمی طور قبول کرلیا تھا، تب ٹرمپ کا مواخذہ کیوں نہ کیا!؟ عراق میں امریکی افواج کی غیر قانونی موجودگی اور عراقی آئینی و قانونی اداروں کی اہم شخصیات کے خلاف ٹرمپ حکومت کے اقدامات، ان سب پر ٹرمپ کا مواخذہ کیوں نہیں کیا گیا!؟ شام کے مقبوضہ علاقے جولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی قبضے کو ٹرمپ حکومت نے تسلیم کر لیا تو امریکی مقننہ نے کیوں مواخذہ نہیں کیا!؟

نیا سال بیک وقت کئی تلخ حقائق کو آشکارا کرتے ہوئے شروع ہوا ہے۔ ان میں سرفہرست امریکی فراڈ جمہوریت کے اصلی چہرے کا بے نقاب ہونا ہے۔ امریکا آج بھی سفید نسل پرستوں کی ریاست ہے۔ یہ آج بھی جیوش زایونسٹ یہودی نسل پرستوں کا کمی کمین ہے۔ امریکی حکومت کا زور فقط سیاہ فام امریکیوں، مظلوم فلسطینیوں اور ان کے حامیوں پر ہی چلتا ہے۔ واشنگٹن ڈی سی دنیا کے مظلوم و مستضعف انسانوں کا کبھی بھی ہمدرد و مددگار نہیں رہا۔ وائٹ ہاؤس، کیپٹل ہل، لینگے، پنسلوینیا میں قائم امریکی مقتدر اداروں نے انسانوں کو جانوروں سے بدتر بنا کر رکھنے کی فرعونی پالیسی پر عمل کیا۔ ان ایوانوں کی وجہ سے عرب اسلامی دنیا میں ظلم و تشدد ہوا۔ نمائندہ حکومتیں قائم نہ ہوسکیں۔ عوامی مسائل حل نہ کیے جاسکے۔ امریکا نے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین، ہر جگہ جمہوریت کو اسرائیلی یہودی مفاد پر قربان کر دیا۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت کے دور میں بہت تیزی سے یہ کام کیا گیا اور یہ مکافات عمل ہے کہ آج کیپٹل ہل بھی محفوظ نہیں رہا۔ تاریخ نے یہ ذمے داری امریکا کے مظلوم عوام کے کاندھوں پر رکھ دی ہے کہ وہ نسل پرستانہ سیاست کو امریکا میں جڑ سے اکھاڑ دیں۔ انہیں یونائٹڈ اسٹیٹس آف امریکا کو جیوش لابی اور سرمایہ دار کیپٹلسٹ لابی دونوں کے شر سے نجات دلانے کے لیے قائدانہ کردار اداکرنا ہوگا۔ بنیادی طور پر یہ ان کی اپنی آزادی اور ان کے ملک کی آزادی کا معاملہ ہے اور انہیں اپنی آزادی کی جنگ خود لڑنا ہوگی۔

اسی طرح مقبوضہ بیت المقدس سمیت مقبوضہ فلسطین کی آزادی کی جنگ بھی نئے سال میں داخل ہوچکی ہے۔ لبنان و شام کے مقبوضہ علاقوں کو اسرائیل کے غیر قانونی قبضے سے آزاد کرانے کی جنگ بھی سال 2021ء میں داخل ہوچکی ہے اور یہ جنگ ان تین ملکوں کے غیرت مند فرزندوں کو ایک دوسرے کا فطری اتحادی بناتی ہے۔ خاص طور پر حماس کی قیادت پر لازم ہے کہ اسرائیل کے دوست عرب حکمرانوں سے اعلانیہ دوری اختیار کرے۔ سعودی عرب ایک شکست خوردہ امریکی اسرائیلی اتحادی ملک ہے۔ یہ اسرائیل کے مفاد میں عرب مسلمان ممالک پر اتحادیوں کی مدد سے براہ راست جنگیں مسلط کرنے یا پراکسی دہشت گردوں کے ذریعے تباہی پھیلانے کی ایک بدترین تاریخ رکھتا ہے۔ اس پر کوئی عرب، کوئی مسلمان اعتماد نہیں کرسکتا۔ یہی حال امارات و بحرین و دیگر شاہ و شیوخ کا ہے۔ ان پر انحصار کی وجہ سے اسرائیل آج محفوظ ہے جبکہ بیت المقدس بھی فلسطینیوں کے ہاتھ سے مکمل طور پر جاچکا ہے۔ حالانکہ برائے نام بھی بیت المقدس کو فلسطینی ریاست کا دارالحکومت بنانے والی بات اب ریکارڈ پر نہیں آرہی اور اس کا سبب سعودی و اماراتی شاہ و شیوخ کی خیانت ہے۔

پاکستان تا الجزائر مسلمان و عرب ممالک کو بلیک میل کیا جا رہا ہے۔ ہر مسلمان حکومت پر دباؤ ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرلو، ورنہ تباہ و برباد کر دیئے جاؤگے۔ ہر ملک کو ایران اور اس کے حامیوں پر عائد امریکی اقتصادی پابندیوں جیسی سختی سے ڈرایا جا رہا ہے۔ اب کون ایران کی طرح ڈٹ کر جواب دیتا ہے اور کون ڈھیر ہوتا ہے، اس کا فیصلہ ہونا ہے۔ سخت ترین پابندیوں کی دھمکیوں کا سامنا ہے۔ اس لیے سال 2021ء ایک فیصلہ کن سال ہے۔ اسرائیل، امریکی حکومت میں اس کے کمی کمین اور عرب ممالک کے خائن حکمران ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں کہ کسی بھی فالس فلیگ آپریشن کو بہانہ بنا کر امریکا ایران پر حملہ کر دے یا جنگ چھیڑ دے۔ بیس جنوری 2021ء کی دوپہر جب تک ڈونلڈ ٹرمپ صدر ہے، تب تک وہ اسی ایجنڈا پر کام کر رہے ہیں۔ تب تک یہ نہ بھی ہوسکے، تب بھی یہ نکتہ یاد رہے کہ مسلمان اور عرب ممالک کے لیے پورا سال 2021ء ہی اہم اور فیصلہ کن سال ہے۔ اس وقت عرب اور مسلمان عوام پر زیادہ تر غیر نمائندہ موروثی شاہ و شیوخ یا پھر ڈکٹیٹر مسلط ہیں اور ان کا عالم اسلام و عرب پر مسلط ہونے کا اصلی عامل بھی امریکی زایونسٹ مغربی بلاک ہی ہے۔ اس لیے امت اسلامی و عرب کو اپنے واحد مشترکہ دشمن زایونسٹ بلاک سے خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔ ہر وہ موقف جو اسرائیل کو تسلیم کرے یا اس اصلی خطرے سے توجہ ہٹانے پر مبنی ہو، اسے مسترد کرکے مقبوضہ بیت المقدس سمیت فلسطین کی مکمل آزادی کے سنگل پوائنٹ ایجنڈا پر متحد ہو جائیں۔ اس ایشو کو دیگر سارے ایشو پر فوقیت دیں اور غیر قانونی ناجائز قبضہ گروپ اسرائیل اور اس کے حامیوں کی ہر سازش کو ناکام بنائیں۔


خبر کا کوڈ: 910812

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/910812/امریکا-سے-بیت-المقدس-تک-فیصلہ-کن-نیا-سال

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org