0
Saturday 23 Jan 2021 14:12

جمہوریت کا سفر اور امن و تعلیم

جمہوریت کا سفر اور امن و تعلیم
تحریر: سید اظہار مہدی بخاری
izharbukhari5@hotmail.com

علمی حلقوں میں اگرچہ ”جمہوریت“ اور ”جمہوری نظام“ کے حوالے سے مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔ دنیا بھر کے اسلامی و غیر اسلامی اور مذہبی و غیر مذہبی ممالک میں جمہوریت کی مختلف اشکال موجود ہیں، مختلف تجربات کے ذریعے جمہوریت کے نفاذ کی مثالیں موجود ہیں۔ مختلف افکار کے تحت معاشرہ سازی میں کوششیں کی جا رہی ہیں، لیکن دنیا کے اکثر معاشروں نے انسانوں کی عافیت اور تحفظ جمہوری نظام میں محسوس کیا ہے۔ اہل ِمذہب کے ہاں جمہوریت کی تشریح اور جمہوری نظام کی تشکیل کے حوالے سے علمی سطح پر اگرچہ مختلف آراء صدیوں سے چلی آرہی ہیں، بالخصوص اہل ِاسلام کے بعض طبقات اس حوالے سے خاص نکتہ نظر رکھتے ہیں، لیکن ماضی حال مستقبل اس حقیقت پر شاہد ہے کہ اہل ِاسلام کی جید اور معتبر سیاسی قیادت اور عوام کے حقوق بذریعہ پارلیمان حاصل کرنے پر یقین رکھنے والے اکابرین نے ہمیشہ جمہوریت کو زینہ، ذریعہ، وسیلہ اور بہترین راستہ سمجھا ہے۔

سیرت ِنبوی ؐمیں شوریٰ کی شکل میں مشاورت کا عمل اور نص ِقرآنی کے بعد جمہور کی رائے کو مقدم رکھنا تو اسلام کے روشن حقائق میں سے ہے، مگر خلافت ِراشدہ کے چاروں ادوار شورائیت کے نظام اور جمہور کی آراء کی تکریم کرنے کے عملی دلائل، شواہد اور ثبوت فراہم کرتے ہیں۔ شورائیت کی نفی اور جمہوری اندازِ انتخاب کی مخالفت نے خلافت کو ملوکیت میں بدلا، جس پر امتِ مسلمہ کا اجماع قائم ہوا اور خلافت ِراشدہ ایک خاص دور تک پہنچ کر ختم تصور کی اور تسلیم کی گئی۔ تاریخِ اسلام میں بادشاہت، ملوکیت اور لشکر کشی کی صورت میں طاقت کے ذریعے غلبہ حاصل کرنے کے مزاج نے خلافت، جمہوریت اور شورائیت کا نظام بحال نہیں ہونے یا پنپنے نہیں دیا۔ انیسویں صدی تک یہ سلسلہ عروج پر رہا، لیکن ہزار ہا زخم کھانے اور کشت و خون کے دریا عبور کرنے کے بعد دینی و اسلامی قیادت نے جب اپنے اپنے معاشروں پر نظر کی تو انہیں زمین کے کسی خطے میں اسلامی نظام کی وہ شکل نظر نہیں آئی، جس کا تجربہ عہد ِنبوی ؐاور عہد ِخلفائے راشدین میں کیا گیا تھا۔

دینی قیادت نے اگرچہ معاشروں کو اسلامی تعلیمات کے ذریعے تبدیل کرنے کا سلسلہ جاری رکھا، لیکن سیاسی اور حکومتی معاملات میں معاشروں کو اسلامی طرز پر لانے میں مجموعی طور پر کامیاب نہیں ہوئے۔ دینی بالخصوص اسلامی سیاسی قیادت کے سامنے سوشلزم، کیمونزم، کیپیٹلزم، فوجی آمریت، خاندانی اور بادشاہی نظام سمیت کئی ایک سیاسی و حکومتی و عوامی نظام ہائے موجود تھے، مگر دنیا کی دینی سیاسی قیادت کی غالب ترین اکثریت نے خالصتاً اسلامی نظام کی عدم موجودگی یا عدم نفاذ کی صورت میں جس نظام کو اسلام سے قریب ترین اور اہل ِاسلام کے لیے قابل ِقبول سمجھا، وہ صرف اور صرف جمہوریت ہے۔ ایران، ترکی، مصر، ملائشیا وغیرہ کی مثالیں اگرچہ دی جاسکتی ہیں، لیکن یہ تمام کسی عسکری کوشش، کسی نبوی ؐ خلیفے، کسی جہادی نظریئے یا تلوار کے زور پر نہیں بلکہ جمہوریت کی اپنی اپنی تعبیر و تشریح کے قائم ہونے والی حکومتوں کی شکل میں سامنے آئیں اور زمانے کے ساتھ ساتھ ان نظاموں میں تبدیلیاں اور اتار چڑھاؤ بھی خود جمہور کی آراء کے نتیجے میں وقوع پذیر ہو رہا ہے۔

دنیا بھر میں اسلامی قیادت نے اسلامی تعلیمات کے فروغ اور اسلامی احکام کے نفاذ کے لیے جمہوریت ہی کو جب واحد راستہ قرار دے کر اپنایا تو برصغیر پاک و ہند بھی اس حوالے سے ممتاز حیثیت اختیار کر گیا۔ قیام ِپاکستان سے قبل دینی سیاسی طبقات کا مختلف نکتہ نظر رکھنا تاریخ کا حصہ ہے، لیکن تقسیم کے فوراً بعد دونوں ممالک میں موجود دینی سیاسی قیادت نے یہ حقیقت باور کرلی کہ اب جمہوری و پارلیمانی طریقہ ہی واحد راستہ ہے، جس کے ذریعے ہم معاشروں کو راہ ِراست پر رکھ سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاک و ہند کی دینی قیادت نے عملی، سیاسی اور جمہوری جدوجہد میں خود کو شامل کیا اور کسی جہادی، عسکری یا ناممکن و نام نہاد انقلابی جدوجہد کی بجائے جمہوری، آئینی اور پارلیمانی جدوجہد کے ذریعے اسلامی تعلیمات کے اظہار و تحفظ و نفاذ کے لیے مساعی شروع کر دیں۔ اس دوران دینی سیاسی جماعتیں ہر سیاسی و جمہوری مرحلے میں کہیں شامل اور کہیں پیش پیش رہیں۔ پاکستان کی پہلی آمریت سے لے کر دورِ حاضر میں پی ڈی ایم تک ہر مرحلہ اس بات کا بین ثبوت فراہم کر رہا ہے کہ دینی سیاسی قیادت نہ صرف جمہوریت پر کامل یقین رکھتی ہے بلکہ اس کے تحفظ کا ذمہ بھی اٹھائے ہوئے ہے۔

یہ حقیقت بھی اظہر من الشمس ہے کہ صدیوں سے اہل ِاسلام کے اندر ہی شدت پسندانہ افکار نے امت کی اجتماعیت کو بے پناہ زخم دیئے ہیں۔ خلفاء راشدہ کے زمانے کے خوارج اور باغی بھی اُس زمانے کی جمہوری و سیاسی و پارلیمانی اور عوامی نظام کے نہ صرف خلاف تھے بلکہ طاقت و تلوار کے زور پر خلافت کے ان نظاموں کو تہہ و بالا کرنا چاہتے تھے۔ اسی طرح ماضی قریب و حالیہ دور میں اسلامی جمہوری نظام کو کمزور یا برباد کرنے کے لیے اور داعشی افکار مسلط کرنے کے خواب سجائے طبقات بھی طاقت و تلوار، عسکریت پسندی، انتہاء پسندی، دہشت گردی، خودکش کارروائیوں، انسانوں کو ذبح اور تہہ تیغ کرنے کے عمل کے ذریعے کوشاں ہیں اور معاشرے کے ہر طبقے میں موجود بعض ناسور شکل لوگ ایسے اسلام دشمنوں اور امن مخالفوں کو نہ صرف ہیرو بنا کر پیش کرتے ہیں بلکہ ان کے نکتہ نظر سے علمی اور اصولی اختلاف رکھنے والوں کو کبھی مرتد، کبھی کافر، کبھی امریکی ایجنٹ اور کبھی اسلام دشمن کے فتووں سے نوازتے ہیں۔

یہی رویہ ان دنوں بعض فرقہ پرست لکھاریوں، فتویٰ فروش شرپسندوں اور اسلامی جمہوریت کی جگہ داعش مزاج نظاموں کے خواہشمند لوگوں کی طرف سے ایک پرامن اور تعلیمی و تربیتی اعزازات کی حامل غیر سرکاری تنظیم ”ادارہ امن و تعلیم“ Peace and Education Foundation کے ساتھ برتا جا رہا ہے، حالانکہ یہ شاید نہیں بلکہ یقیناً واحد تنظیم ہے، جس نے پاکستان کی تاریخ میں دینی مدارس، دینی طلباء اور دینی جماعتوں کے اندر تعلیمی انقلاب لانے کے لیے اپنے وسائل بروئے کار لائے ہیں۔ بعض مقامات پر اس ادارے نے اس سطح اور نوعیت کی خدمات انجام دی ہیں، جو حکومتیں بھی تمام تر وسائل اور طاقت و قانون کے باوجود انجام نہیں دے سکیں۔ انہی خدمات کا اعتراف کئی بار حکومتی اور ریاستی نمائندگان نے ببانگِ دہل کیا ہے۔

پاکستانی دینی مدارس میں لاکھوں طلباء زیر ِتعلیم ہیں، تمام مسالک کے ان طلباء کی سرپرستی و نمائندگی ہر مسلک کا وفاق المدارس کیا کرتا ہے، لیکن یہ تنظیم منفرد اعزاز رکھتی ہے کہ ان پانچوں وفاق ہائے مدارس کے ساتھ مشترکہ کاوشوں کے ذریعے جہاں دینی طلباء کو جدید تعلیمی نصاب اپنانے، انتہاء پسندی سے دور کرنے، دہشت گردی کو جہاد سے الگ کرنے اور ان طلباء کو یونیورسٹی طلباء کے برابر لانے میں استعداد پیدا کی ہے، وہاں بیرونی دنیا بالخصوص امریکی و یورپی معاشروں میں دینی طبقات اور دینی مدارس کے طلباء کے حوالے سے پائی جانے والی ہزاروں غلط فہمیوں کو دور کرنے میں اپنا لازوال کردار ادا کیا۔ دینی مدارس کے ہزاروں طلباء کو باہمی مسلکی نفرتوں سے دور کرکے باہمی محبت کے سفر شروع کرانے کا جہاد بھی اسی تنظیم کے حصے میں آیا۔

علماء، وکلاء، صحافیوں، مدارس و یونیورسٹیوں کے طلباء، دینی جماعتوں کے عہدیداران و کارکنان، مختلف کھیلوں کے کھلاڑیوں، شعراء، ادیبوں، سیاسی جماعتوں قائدین و کارکنان اور صوبائی و قومی اسمبلی کے ممبران غرض یہ کہ معاشرے کے تقریباً ہر طبقے کے خواص و عوام نے ادارہ امن و تعلیم کے پلیٹ فارم سے امن کا پیغام پھیلایا۔ دہشت گردی و انتہاء پسندی کے خلاف معاشرے میں ذہن سازی اسی تنظیم کے ذریعے ہوئی۔ اب ان دنوں یہی ادارہ مذکورہ بالا تمام طبقات بالخصوص علماء، دینی مدارس اور یونیورسٹیز کے طلباء کو جمہوریت اور جمہوری نظام و جمہوری اقدار کے تحفظ کے لیے تیار کر رہا ہے، تاکہ پاکستانی معاشرے میں انتہاء پسندانہ طبقاتی تقسیم کا خاتمہ اور آمریت سمیت تمام غیر جمہوری رویوں کی حوصلہ شکنی کی جاسکے۔ مگر دہشت گردی کے پروردہ، انتہاء پسندی کے رسیا، مذہبی منافرت کے دلدادہ، عسکریت پسندی کے پروموٹرز، جہاد کے نام پر داعش مزاجی کو پروان چڑھانے والے اور جمہوریت میں رہتے ہوئے جمہوریت کو فرعونی، طاغوتی، افلاطونی اور شیطانی نظام قرار دینے والے شرپسندوں کو کہیں بھی قرار نہیں ہے، وہ آئے روز ادارہ امن و تعلیم اور اس جیسے رفاحی اور فلاحی اداروں کی فعالیت کو داغدار کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔

ہم نے پاکستان میں ملی یکجہتی کونسل اور متحدہ مجلس عمل کے فورم کے توسط سے پاکستان میں اتحاد بین المسلمین اور وحدت ِامت کے نہ صرف مظاہرے دیکھے ہیں بلکہ عملاً ان کاوشوں اور جدجہد کا حصہ رہے ہیں اور حصہ ہیں۔ ہم بلامبالغہ کہہ سکتے ہیں کہ جس طرح مذکورہ بالا دونوں اتحادوں نے پاکستانی مسلمانوں کو وحدت کے تحائف دیئے اور دہشت گردی و انتہاء پسندی سے نفرت کرنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ بعینہ پیس اینڈ ایجوکیشن فاؤنڈیشن نے بھی انہی خدمات کو تسلسل کے ساتھ انجام دیا ہے۔ آج اس ادارے کے ساتھ مولانا فضل الرحمن، مولانا شاہ احمد نورانی، قاضی حسین احمد، علامہ سید ساجد علی نقوی، مولانا سمیع الحق، پروفیسر ساجد میر سے وابستہ اور قاری حنیف جالندھری، مفتی منیب الرحمن، علامہ سید ریاض حسین نجفی، مولانا عبدالمالک اور مولانا یسٰین ظفر صاحب سے متعلقہ لوگ اس ادارے کے ساتھ خدمات انجام دے رہے ہیں، تاکہ خالصتاً دینی طبقات اور دینی سیاسی طبقات کے ساتھ تعلق رکھنے والے تمام معاملات پر ہم آہنگی اور یک جہتی کے ساتھ کام کیا جا سکے۔

ان دینی بزرگان اور قائدین نے پاکستان میں اتحاد بین المسلمین کے قیام، وحدت و اخوت کے فروغ، دہشت گردی و انتہاء پسندی سے نفرت، فرقہ وارانہ اور داعشانہ ذہنیت رکھنے والے مٹھی بھر شرارتیوں کی حوصلہ شکنی، لوگوں میں برداشت، رواداری، حوصلہ اور احترام پیدا کرنے کی تحریک اور پاکستانی آئین کے تحت پاکستان میں صحیح اور اسلامی جموریت کے نفاذ کے لیے جن خطوط پر کام جاری رکھا ہوا ہے۔ ادارہ امن و تعلیم نے بھی انہی خطوط کو مشعل راہ بنایا ہے اور انہی افکار سے استفادہ کرکے امن، تعلیم اور جمہوریت کا سفر جاری رکھا ہوا ہے۔ یہ خدمات فرقہ پرستوں اور نفرت کے بیوپاریوں کے لیے قابل ِہضم نہیں ہیں، اس لئے وہ سوشل اور پرنٹ میڈیا پر الٹیاں کر رہے ہیں۔ لیکن ان الٹیوں کی بدبو جلد دور ہو جائے گی اور پاکستانی معاشرہ امن، تعلیم اور جمہوریت کی خوشبو سے معطر ہو جائے گا۔
خبر کا کوڈ : 911902
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش