1
Sunday 24 Jan 2021 21:14

داعش کی رگوں میں بائیڈن کا نیا خون

داعش کی رگوں میں بائیڈن کا نیا خون
تحریر: ہادی محمدی

جمعہ 22 جنوری کی صبح عراق کے دارالحکومت بغداد کا ایک بازار مسلسل دو خودکش دھماکوں سے گونج اٹھا۔ کافی عرصے بعد ان خودکش دھماکوں سے داعش کی دہشت گردانہ سرگرمیوں کے عروج کے زمانے کی یاد تازہ ہو گئی۔ ان دھماکوں میں 32 عراقی شہری شہید جبکہ 110 سے زیادہ دیگر افراد زخمی ہو گئے۔ ان دہشت گردانہ خودکش دھماکوں نے پورے ملک میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑا دی اور عوام اور حکومتی ذمہ داروں نے اس کی شدید مذمت کی۔ کچھ ہی گھنٹوں بعد عراقی وزیراعظم مصطفی الکاظمی نے پانچ اعلی سطحی فوجی اور سکیورٹی عہدیداران کو ان کے عہدوں سے معزول کر کے نئے افراد کا تقرر کر دیا۔ عراق کے دارالحکومت میں تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کی جانب سے دہشت گردانہ سرگرمیوں کا دوبارہ آغاز پس پردہ اہم حقائق کی جانب نشاندہی کرتا نظر آتا ہے۔

عراقی وزیراعظم کی جانب سے معزول کئے گئے اعلی سطحی فوجی اور سکیورٹی عہدیداروں میں انٹیلی جنس امور میں وزیر داخلہ کے مشیر، وزارت داخلہ کے انٹیلی جنس اور اینٹی ٹیروریزم شعبے کے سربراہ، بغداد میں فوجی آپریشنز کے کمانڈر، بغداد میں پولیس کے سربراہ اور بغداد میں انٹیلی جنس اور سکیورٹی امور کے سربراہ شامل تھے۔ یہ تمام عہدیداران سیاسی اور سکیورٹی امور میں سرگرم کارکنان اور میڈیا کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنائے گئے تھے۔ ان تبدیلیوں میں ایسے افراد مندرجہ بالا عہدوں پر مقرر کئے گئے ہیں جو عراقی وزیراعظم مصطفی الکاظمی کے قریبی افراد سمجھے جاتے ہیں۔ یاد رہے عراقی وزیراعظم کے قریبی افراد میں سے زیادہ تر یا تو سابق بعث پارٹی سے وابستہ ہیں، یا سیکولر سوچ کے حامل ہیں یا امریکی سفارتخانے سے وابستہ ہیں۔

وزارت داخلہ کے انٹیلی جنس اور اینٹی ٹیروریزم کے سابق سربراہ ابو علی البصری جنہیں معزول کر دیا گیا ہے کا شمار ایسے افراد میں ہوتا ہے جو داعش کے خلاف جنگ میں عظیم کارنامے انجام دے چکے ہیں اور درخشان تاریخ کے حامل ہیں۔ ابو علی البصری نے داعش کے خلاف جنگ میں انتہائی اہم کردار ادا کیا تھا اور عوامی رضاکار فورس حشد الشعبی کے شانہ بشانہ تکفیری دہشت گردی کے خاتمے کیلئے بھرپور سرگرمیاں انجام دی تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ امریکی صہیونی سعودی شیطانی مثلث کی پیداوار تکفیری دہشت گرد گروہ داعش بہت جلد نابودی کا شکار ہو گیا تھا۔ حالیہ دہشت گردانہ اقدامات کے بعد عراقی وزیراعظم مصطفی الکاظمی کی جانب سے اہم فوجی اور سکیورٹی عہدیداروں کی برطرفی نے چند اہم سوالات کو جنم دیا ہے؟

سب سے پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سعودی پشت پناہی کے حامل وہابی تکفیری دہشت گرد عناصر کی دہشت گردانہ کاروائیوں کا عراقی وزیراعظم مصطفی الکاظمی کی جانب سے اعلی سطحی فوجی اور سکیورٹی عہدوں پر تبدیلیوں سے کیا تعلق قائم ہے؟ کیا یہ دو واقعات پہلے سے کسی منصوبہ بندی کے تحت انجام پائے ہیں۔ کیا امریکہ اور اس کے اتحادی ایک طرف ان دہشت گردانہ اقدامات کے ذریعے اربیل کے جیل یا دریائے فرات کے مشرق میں داعش کو دوبارہ زندہ کرنے کی یاد تازہ کرنا چاہتے ہیں اور دوسری طرف انقلابی سوچ کے حامل امریکہ مخالف عہدیداران کو ان کے عہدوں سے معزول کر کے عراق کے انٹیلی جنس، فوجی اور پولیس اداروں میں اپنے مطلوبہ افراد اوپر لانے کے درپے ہیں؟ اور یوں عراق میں اپنے مکمل قبضے اور مداخلت کا راستہ ہموار کرنا چاہتے ہیں؟

ایک اور اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا غاصب صہیونی رژیم اور آل سعود رژیم اپنے زیر سایہ تکفیری دہشت گرد عناصر کے ذریعے بغداد میں یہ دو خودکش دھماکے کروا کر نئے امریکی صدر جو بائیڈن کو کوئی اہم پیغام پہنچانا چاہتے ہیں؟ کیونکہ اسرائیلی اور سعودی حکمران خطے سے متعلق جو بائیڈن کی ممکنہ پالیسیوں سے زیادہ خوش نہیں ہیں۔ کیا سعودی اور اسرائیلی حکمران نئے امریکی صدر کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ عراق میں بڑے پیمانے پر بدامنی پھیلا کر عراق سے امریکہ کے فوجی انخلاء کو ملتوی کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں اور یوں نئے امریکی صدر سے کوئی بڑی ڈیل کرنے کے درپے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو عراقی وزیراعظم مصطفی الکاظمی کا اقدام ایک طرح سے سعودی اور اسرائیلی حکمرانوں کی سہولت کاری پر مبنی محسوس ہوتا ہے۔

عراقی وزیراعظم مصطفی الکاظمی نے برسراقتدار آنے کے بعد گذشتہ دس ماہ میں عراقی پارلیمنٹ کی جانب سے امریکہ کے فوجی انخلاء پر مبنی منظور ہونے والے بل کو پس پشت ڈالا ہے اور اب تک کروڑوں عراقی شہریوں کی جانب سے امریکہ کو نکال باہر کرنے کے مطالبے سے بھی چشم پوشی اختیار کی ہے۔ گذشتہ دو دنوں سے عراقی میڈیا میں اس قسم کی قیاس آرائیاں بہت زیادہ دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ امریکہ میں برسراقتدار آنے والے ڈیموکریٹس چونکہ خود القاعدہ، داعش اور تکفیری اور وہابی دہشت گردی کے بانی اور موجد تھے لہذا اب وہ اس جن کو دوبارہ بوتل سے باہر نکال کر ایک بار پھر عراقی حکمرانوں کو بلیک میل کرنے کی پالیسی اختیار کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 912137
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش