0
Tuesday 26 Jan 2021 15:30

گلوبل یمن ڈے آف ایکشن

گلوبل یمن ڈے آف ایکشن
تحریر: سید اسد عباس

یمن پر لگ بھگ گذشتہ چھے برس سے ایک ایسی جنگ مسلط ہے، جس کا تذکرہ ذرائع ابلاغ میں کہیں نہیں ملتا۔ اس جنگ کے ساتھ ساتھ یمن گذشتہ تقریباً 6 برس سے محاصرے میں ہے۔ ایک رائی کا دانہ بھی نہ یمن میں داخل ہوسکتا ہے، نہ یہاں سے نکل سکتا ہے۔ شمال اور مشرق کی جانب خشکی ہے اور جنوب اور مغرب کی جانب سمندر، جہاں خلیجی ریاستوں اور ان کے مغربی اتحادیوں کے بحری بیڑے موجود ہیں۔ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے اعداد و شمار کے مطابق اس جنگ کے نتیجے میں اب تک یمن میں تقریباً اڑھائی لاکھ افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں، مہاجرین کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے۔ یمنی جو جنگ سے قبل ہی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے تھے، انہیں اقوام متحدہ کے مطابق 2021ء میں انسانی مدد کی ضرورت پڑے گی۔

یہ جنگ یمن پر سعودیہ نے 25 مارچ 2015ء میں اس وقت مسلط کی، جب ایک عوامی تحریک نے عبد الرب منصور الہادی کی ناکام حکومت کا خاتمہ کیا۔ عبد الرب منصور الہادی کو علی عبد اللہ صالح کے اقتدار کے خاتمے کے بعد دو سال کے لیے صدر مقرر کیا گیا تھا اور ان کے ذمہ تھا کہ وہ ملک میں شفاف انتخابات کروائیں گے۔ عبد الرب منصور الہادی اپنی مدت کے خاتمے تک اپنی ذمہ داریوں پر عمل نہ کرسکے۔ اس کے برعکس انھوں نے علی عبد اللہ صالح کی مانند عوام کو زیر تسلط رکھنے کے لیے اپنی کوششیں تیز کر دیں۔ جس کے مقابل عوام ایک مرتبہ پھر میدان عمل میں اترے اور عبد الرب منصور الہادی کی حکومت کا خاتمہ کر دیا۔

 اس تحریک میں یمن کی حوثی تحریک انصار اللہ اور دیگر اتحادی گروہوں کا اہم کردار تھا۔ عبد الرب منصور الہادی یمن سے فرار کرکے سعودیہ چلا گیا اور سعودیہ نے عبد الرب کی حکومت کے بچاؤکے لیے یمن پر حملے کا آغاز کر دیا۔ جس میں عرب امارات اور قطر اس کے اتحادی تھے، مغربی ممالک میں امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، اٹلی، کینیڈا اور سپین اس جنگ کا عملاً حصہ ہیں۔ اطلاعات کے مطابق اسرائیل بھی مختلف موارد میں سعودیہ کو مدد فراہم کر رہا ہے۔ ان مغربی ممالک کا اسلحہ اور جنگی ساز و سامان سعودیہ اور امارات کے زیر استعمال میں ہے۔ یمن میں کلسٹر بمبوں سے لے کر فاسفورس بمبوں تک مختلف ہتھیار شہری آبادیوں میں استعمال کیے گئے ہیں۔ کہا جا سکتا ہے کہ یمن ان مغربی ہتھیاروں کی انسانوں پر استعمال کی لیبارٹی ہے۔

اس جنگ میں سعودیہ اور امارات کے طیاروں نے بازاروں، جنازوں، شادی کی تقریبات، سٹیڈیمز، خوراک کے ذخائر، پلوں، بجلی کے مراکز، پانی کے ریزوائرز، ٹرانسپورٹ کے مراکز، ہسپتالوں اور طبی مراکز سمیت ہر اس مقام پر گولہ باری کی ہے، جہاں کسی انسان کے موجود ہونے کی توقع کی جاسکتی ہے۔ ان حملوں کے نتیجے میں ہزاروں انسان قتل ہوئے اور زخمیوں کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے۔ مغربی ممالک میں یمن جنگ کے کرداروں بالخصوص سعودیہ اور امارات کو اسلحہ فراہم کرنے والوں کے خلاف اکثر آواز بلند ہوتی رہی، تاہم یہ آواز کبھی بھی اتنی موثر نہ تھی کہ ان ممالک کو اسلحہ کی ترسیل اور فروخت سے روکا جاسکے یا اس پر کوئی پابندی عائد کی جاسکے۔

الٹا امریکہ نے یمن کی جنگ کے اہم کردار حوثی تحریک کو بین الاقوامی دہشتگرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کر دیا، جس کے سبب ان پر مزید سخت پابندیاں لاگو ہوسکتی تھیں نیز یمن کے جنگ زدہ علاقے میں امدادی تنظیموں کے لیے مدد کرنا مشکل ہوسکتا تھا۔ یہی سبب ہے کہ یمن کے جنگ زدہ علاقے میں امداد کرنے والی 22 تنظیموں نے امریکی حکومت سے اپیل کی ہے کہ ان پابندیوں پر نظرثانی کی جائے، ورنہ یمن میں قحط کی صورتحال پیدا ہونے کے امکانات موجود ہیں۔ امریکہ میں نومنتخب بائیڈن حکومت نے 26 فروری تک اس پابندی کو کالعدم قرار دیا ہے، جس کے سبب اب یہ امدادی تنظیمیں یمن میں اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھ سکتی ہیں۔ جو بائیڈن نے اپنی انتخابی مہم میں وعدہ کیا تھا کہ وہ یمن جنگ میں سعودیہ کی مدد کو ترک کرے گا۔

کل یعنی 25 جنوری 2021ء کو دنیا بھر میں یمن جنگ کے خاتمے کے حوالے سے ’’گلوبل یمن ڈے آف ایکشن‘‘ منایا گیا، جس میں تقریباً 620 تنظیموں نے شرکت کی۔ کرونا کے سبب دنیا بھر میں اس کمپین کے پروگرام ورچوئل رکھے گئے، جس میں میٹنگز، ورچوئل ریلیاں، مذاکرے، مباحثے شامل ہیں۔ یمن میں 25 جنوری یعنی کل متعدد شہروں میں ان حملوں اور محاصروں کے خلاف عظیم الشان ریلیاں منعقد ہوئیں۔ اس عالمی کمپین کے تحت جو مطالبات سامنے لائے گئے میں: یمن پر بیرونی جارحیت کا خاتمہ، سعودیہ اور امارات کی فوجی اور جنگی مدد کا خاتمہ، یمن کے محاصرے کا خاتمہ اور تمام زمینی و بحری گزرگاہوں کو کھولنا، یمنی شہریوں کے لیے امداد کو وسعت دینے جیسے مطالبات شامل ہیں۔

 ان مطالبات پر دستخط کرنے والی تنظیموں میں برطانیہ، امریکا، کینیڈا، جرمنی، پولینڈ، چلی، فرانس، بنگلہ دیش، آئرلینڈ، بھارت، سپین، سوئٹزرلینڈ، اٹلی، فن لینڈ، یونان سمیت کئی ایک عالمی تنظیمیں شامل ہیں۔ دستخط کرنے والی ان تنظیموں کی تعداد 21 جنوری تک 309 تھی۔ جن میں اکثر انسانی حقوق اور جنگ مخالف تنظیمیں ہیں۔ ان میں زیادہ تعداد امریکی اور برطانوی تنظیموں کی ہے۔ جس سے واضح طور پر اندازہ ہو رہا ہے کہ مغربی معاشرے میں یمن جنگ کے حوالے سے کافی شعور پایا جاتا ہے اور وہ لوگ اپنی حکومتوں سے ہی اس جنگ میں متحارب یعنی سعودیہ اور عرب امارات کی امداد کو ترک کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ یہ وہ صورتحال ہے، جس میں اب مغربی ممالک کے لیے سعودیہ اور عرب امارات کو اب آزادانہ مدد فراہم کرنا ممکن نہیں رہا ہے۔ امریکہ کے ایوان نمائندگان میں بھی اس حوالے سے بحث ہوچکی ہے اور کئی ایک اہم سیاسی شخصیات نے سعودیہ پر پابندیاں لگانے اور اس جنگ کو بند کرنے میں اپنا کردار ادا کرنے کے حوالے سے بات کی گئی ہے۔

سوال یہ ہے کہ اس ظلم و زیادتی پر مسلم عوام کہاں کھڑے ہیں، ’’گلوبل یمن ڈے آف ایکشن‘‘، ’’یوم القدس‘‘ کی مانند ایک مغربی تحریک ہے، جس میں بہت کم مسلمان ممالک کی تنظیموں نے شرکت کی ہے۔ فقط بنگلہ دیش اور یمن کی تنظیمیں اس کمپین کا حصہ بنی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان ممالک بھی ہوش کے ناخن لیں۔ سعودیہ کی جارحیت پوری دنیا میں مسلمانوں کی سبکی کا باعث بن رہی ہے اور اس مسئلہ کے حوالے سے مسلمانوں کی خاموشی بھی تشویشناک ہے۔ سعودیہ کو قطر پر پابندیاں لگا کر اچھی طرح سے اندازہ ہوچکا ہوگا کہ ہر کام دھونس اور دھمکی کے ذریعے ممکن نہیں ہے۔ دولت اور سرمایہ اپنی جگہ، اسے اگر اس ریاست کو اپنی مذہبی اہمیت کا اندازہ ہوتا تو اس کا کردار ایک جارح کے بجائے ایک مصالحت کار کا ہوتا۔ تاہم سعودیہ کو عزت کا یہ منصب راس نہ آیا اور اس نے ذلت کو قبول کیا۔ اب بھی وقت ہے کہ سعودیہ اپنی جارحیت کو ترک کرے اور مسلم امہ کو کسی اور صدمہ سے دوچار ہونے سے بچائے، اس سے قبل کے کافی دیر ہوچکی ہو۔
خبر کا کوڈ : 912487
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش