0
Tuesday 26 Jan 2021 15:57

ریحانِ عزاء کی رخصتی

ریحانِ عزاء کی رخصتی
تحریر: توقیر کھرل

زبان میں لکنت تھی مگر کلام میں بے نظیر روانی اور فصاحت تھی۔ مرثیہ گو شاعر ڈاکٹر ریحان اعظمی 26 جنوری کی غمناک صبح کو دنیا سرائے سے کُوچ کر گئے۔ وہ مرثیہ نگاری سے پہلے شوبز سے وابستہ تھے، پھر انہوں نے غزل اور گیت کو چھوڑ کر خود کو صرف مرثیہ نگاری تک محدود کر لیا تھا۔ جیسے لکھنو کے معروف مرثیہ گو شاعر میر انیس نے غزل کو ترک کرکے صرف مرثیہ گوئی میں اپنا لوہا منوایا تھا۔ ڈاکٹر ریحان اعظمی نے بھی میر انیس کی طرح مرثیہ نگاری کو ایک نئی جہت دی اور ایک نسل میں عزاداری کو شاعری کی صنف مرثیہ سے رائج کیا۔ تاریخ کی ورق گردانی کی جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ابتدا میں مرثیہ نگاری ادبی صنف نہ تھی، اس لئے بگڑے شاعر کو "مرثیہ گو" کہا جاتا تھا اور اب تو مقبول صنف ہی نہیں بلکہ ادب کا قیمتی سرمایہ بن چکا ہے۔

مرثیہ میں یہ عظمت و وقار میر انیس اور مرزا دبیر کے دم سے ہی ہے۔ ریحان اعظمی نے انیس کے نقش قدم پہ چلتے ہوئے مرثیہ میں ان عناصر کو شامل کیا، جن کی ابتداء انیس نے کی تھی۔ مرثیہ میں ایسے کردار و واقعات کو شامل کیا گیا، جو محسوسات انسانی کو زیادہ متاثر کرتے تھے، جیسا کہ بہن کا بھائی کی محبت میں قربان ہونا۔
نہ ملے گا تجھے شبیر سا بھائی زینب
ڈھونڈنے جائے گر، ساری خدائی زینب

کمسن جوانوں کا حق کے لئے جہاد کرنا:
خواب یہ زینب کا تھا ماموں پہ ہوں گے فدا گود کے پالے میرے
خواب یہ سچا ہوا سر میرا اونچا رہا، سر کو شاہ پہ فدا عون و محمد میرے


 اکبر جیسے جوان کا باپ کے سامنے برچھی کا پھل کھانا اور بھائی کی بہن سے محبت:
بھیا مجھے بھول نہ جانا سر پہ اگر سہرا سجانا
 دودھ پیتے بچوں کے گلے پہ تیر کا لگنا:
زخمی گلا ہے اور پیاس کی شدت، ہوتی تو ہوگی ماں کی ضرورت
تو جو پکارے دل کے سہارے، میں دوڑی آئوں آ مرے اصغر
دودھ پلاوں آمرے اصغر تجھ کو جو پائوں اے مرے اصغر

مرثیہ نگاری میں ایسے واقعات کو شامل کیا گیا، جن سے نفسیاتی اور انسانی پہلو زیادہ نمایاں ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ مرثیہ خوانی میں ہر مذہب و ملت کے افراد کو روحانی اور اخلاقی کیفیت محسوس ہوتی ہے۔

ندیم سرور کا 90 کی دہائی میں ایک نوحہ "نہ رو زینب نہ رو" معروف ہوا، یہ عالمگیر شہرت یافتہ نوحہ بھی ڈاکٹر ریحان اعظمی قلم سے تخلیق پایا تھا۔ یہ ایک ایسا کلام تھا جو ہر اردو جاننے والے اور ہر مذہب اور مسلک کے فرد کو یاد رہا۔ آج بھی اگر اردو جاننے والے سے کسی نوحہ کو سننے یا مشہور نوحہ کا ذکر کریں تو مذکورہ نوحہ ہی سرفہرست ہے۔ ندیم سرور کہتے ہیں کہ لوگ مجھ سے صرف ریحان اعظمی کا لکھا ہوا نوحہ ہی سننا چاہتے ہیں اور میں شاید اب کسی اور کا کلام پڑھ کر اطمینان بھی محسوس نہیں کرتا ہوں۔

ڈاکٹر ریحان اعظمی نے 13 سال کی عمر میں نوحہ نگاری کا آغاز کر دیا تھا، اس سے قبل وہ صرف گیت اور غزلیں لکھا کرتے تھے، پھر کراچی کی تنظیم الحسینی سے وابستہ ہوگئے تھے اور نوحے لکھنے لگے۔ 1986ء میں انہوں نے ندیم سرور کے لئے دو نوحے لکھ کر دیئے "ہائے عباس زینب سکینہ" اور دوسرا "اک لعل علی کا تھا اور اک علی کی لاڈلی۔" یہ دونوں نوحے کیسٹ میں آئے اور مقبول عام ہوگئے۔ یوں ندیم سرور اور ریحان اعظمی کا نام ایک ہوگیا۔ اس کے بعد اردو نوحہ دنیا میں جہاں بھی سنا جاتا، اس میں ندیم سرور کی آواز اور یحان اعظمی کا کلام شامل ہوتا تھا، رفتہ رفتہ ایسے ایسے کلام لکھے گئے، جو ندیم سرور کی وجہ شہرت بن گئے۔

مرحوم علامہ طالب جوہری بیان کرتے تھے کہ میں اکثر حیران ہوتا کہ ہر نوحہ خواں آخر ریحان اعظمی کا لکھا ہوا کیوں پڑھنا چاہتا ہے اور وہ ہر ایک نوحہ خاں کی ڈیمانڈ کیسے پوری کر دیتے ہیں تو میں نے انہیں نجف اشرف میں باب العلم سے علم کی خیرات مانگتے دیکھا تو مجھے میرے سوال کا جواب مل گیا اور میں نے ریحان سے کہا اب معلوم ہوگیا کہ تمہیں یہ خزانہ کہاں سے ملتا ہے۔۔۔ نوحہ، سوز خوانی اور منقبت کے عظیم استاد سبط جعفر شہید، مرحوم ریحان اعظمی کے دوست اور استاد تھے، وہ ریحان اعظمی کے بارے بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنی زندگی میں اتنا تیز اور اتنا زیادہ کلام کہنے والا شاعر نہ دیکھا ہے نہ سنا ہے۔

ڈاکٹر ریحان اعظمی کی زبان میں لکنت تھی، مگر ان کی مرثیہ گوئی اور مرثیہ نگاری میں حیران کن روانی تھی کہ ایک بار علامہ حسن ظفر نقوی نے کہا کیا کوئی کمپیوٹر اس کے ذہن میں نصب ہے، جو چلے جاتا ہے کیا کہ کوئی بھی موضوع ہو، جیسا بھی ماحول ہو، کسی کی شان ہو، ریحان اعظمی کو مہلت درکار نہیں ہوتی، وہ مرثیہ لکھنے کے لئے کسی خاص کیفیت، روشنی، تنہائی کے محتاج نہیں ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر ریحان اعظمی ہم میں نہیں رہے، مگر وہ اپنے پُر اثر کلام کے باعث ہمیشہ زندہ رہیں گے اور ان کے لکھے ہوئے مرثیے تا قیامت اپنی خوشبو جہاں میں پھیلاتے رہیں گے۔
خبر کا کوڈ : 912491
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش