1
Wednesday 27 Jan 2021 00:18

نئی امریکی حکومت کا عراق اور شام میں داعش کے کارڈ سے کھیل

نئی امریکی حکومت کا عراق اور شام میں داعش کے کارڈ سے کھیل
تحریر: علی احمدی
 
تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کا بانی اور موجد سمجھے جانے والے ڈیموکریٹ حکمرانوں نے ایک بار پھر وائٹ ہاوس کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔ دوسری طرف خطے میں داعش کی بڑھتی ہوئی سرگرمیاں ظاہر کرتی ہیں کہ واشنگٹن ایک بار پھر خطے میں مداخلت پر مبنی اپنی سرگرمیوں کی نئی لہر کا آغاز کرنے والا ہے۔ شام کی نیوز ایجنسی سانا نے ایک باخبر فوجی ذریعے کے بقول رپورٹ دی ہے کہ گذشتہ روز دیرالزور سے تدمور جانے والی ہائی وے پر المحہ الشولاء نامی علاقے میں شام کے فوجیوں کو لے جانے والی بس پر دہشت گردانہ حملہ ہوا ہے۔ یہ حملہ ایسے دہشت گرد گروہ نے انجام دیا ہے جس کا اصلی ٹھکانہ التنف علاقے میں امریکی فوجی اڈہ جانا جاتا ہے۔ التنف کا علاقہ شام، عراق اور اردن کی مشترکہ سرحد پر واقع ہے۔
 
شام کے اس باخبر فوجی ذریعے نے مزید کہا کہ اگرچہ ابھی تک حملہ ور افراد کی شناخت نہیں ہو سکی لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان کا تعلق تکفیری دہشت گرد گروہ داعش سے تھا۔ سانا نیوز ایجنسی نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ یہ حملہ ایسے وقت انجام پایا ہے جب بعض میڈیا ذرائع کے بقول امریکہ تکفیری دہشت گرد گروہ داعش سے وابستہ سینکڑوں دہشت گرد عناصر کو عراق سے التنف میں واقع اپنے فوجی اڈے منتقل کر چکا ہے۔ دوسری طرف لبنان کے اخبار "الاخبار" نے بھی شام اور عراق میں داعش کی بڑھتی ہوئی دہشت گردانہ سرگرمیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ داعش کے حملے زیادہ تر حمص اور حماہ کے صحرائی علاقوں، صوبہ دیرالزور کے مغربی اور جنوبی علاقوں، صوبہ رقہ کے مشرقی حصوں، السویداء صحرا اور التنف علاقے میں انجام پاتے ہیں۔
 
ڈیلی الاخبار کے مطابق یہ وہ علاقے ہیں جہاں شام میں موجود امریکی فوجیوں کا کنٹرول برقرار ہے۔ شام آرمی کے ایک باخبر ذریعے نے الاخبار سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا: "تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کے پوشیدہ گروپس نے حالیہ کچھ عرصے سے دو علاقوں کو اپنی دہشت گردانہ سرگرمیوں کا مرکز بنا رکھا ہے۔ ایک صحرائے حمص، صحرائے دیرالزور اور عراق سے ملحقہ صحرا پر مشتمل تکون اور دوسرا حماہ، رقہ اور دیرالزور کے درمیان واقع صحرائی علاقہ۔" اس باخبر ذریعے نے مزید وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ ہم نے داعش سے وابستہ بعض دہشت گرد عناصر کی آمدورفت پر نظر رکھی ہوئی ہے جس کے نتیجے میں ہمیں معلوم ہوا ہے کہ یہ دہشت گرد اپنی کاروائیوں کا آغاز التنف علاقے میں واقع امریکی فوجی اڈے کے آس پاس سے کرتے ہیں۔
 
شام کے ایک اور اعلی سطحی فوجی ذمہ دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ امریکہ داعش سے وابستہ دہشت گرد عناصر کے سہولت کار کا کردار ادا کرنے میں مصروف ہے۔ امریکہ کے اس اقدام کا مقصد خطے میں بدامنی اور عدم استحکام پیدا کر کے شام کے صحرائی علاقوں میں شام آرمی کے خلاف تھکا دینے والی جنگ جاری رکھنا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ شام کے مشرقی حصوں سے دمشق اور حمص کا رابطہ مکمل طور پر کاٹ دینا چاہتا ہے۔ اس مقصد کیلئے امریکہ اپنی اتحادی کرد فورسز کی جیلوں میں قید داعش کے دہشت گردوں کو استعمال کر رہا ہے۔ امریکہ ان دہشت گردوں کو عراق سے التنف کے علاقے میں منتقل کر چکا ہے جہاں سے وہ مذکورہ بالا علاقوں میں شام آرمی کے خلاف دہشت گردانہ اقدامات انجام دے رہے ہیں۔
 
دوسری طرف عراق میں بھی کچھ سال وقفے کے بعد ایک بار پھر داعش کی دہشت گردانہ کاروائیوں میں تیزی دیکھی گئی ہے۔ گذشتہ ہفتے بغداد کے الطیران چوک میں دو خودکش دھماکے ہوئے جن میں دسیوں عام شہری شہید اور بڑی تعداد میں زخمی ہو گئے۔ اس ہفتے اتوار کی رات بھی صوبہ صلاح الدین کے شہر تکریت کے جنوب میں تکفیری دہشت گردوں نے عوامی رضاکار فورس حشد الشعبی کے ایک کانوائے پر گھات لگا کر حملہ کر دیا جس کے نتیجے میں دس رضاکار شہید اور گیارہ زخمی ہو گئے۔ حشد الشعبی کے ایک اعلی سطحی عہدیدار کریم الشبکی نے العربی الجدید سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ حالیہ دہشت گردانہ حملوں میں ایسے تکفیری دہشت گرد عناصر ملوث ہیں جنہیں شام سے عراق لایا گیا ہے۔ مزید برآں، امریکہ کے فوجی قافلوں پر مشکوک حملے بھی جاری ہیں۔ یہ حملے مشکوک اس لئے ہیں کہ ان میں کوئی جانی نقصان نہیں ہو رہا۔
 
عراقی پارلیمنٹ کی سکیورٹی اور دفاع کمیٹی کے رکن کریم علیوی نے کہا: "امریکہ عراق میں اپنے فوجیوں کی موجودگی یقینی بنانے کیلئے اس ملک کو آگ لگانے کیلئے بھی تیار ہے۔" سیاسی تجزیہ کار اور ماہرین کا خیال ہے کہ جس طرح سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بظاہر عراق سے فوجی انخلا کا اعلان کر کے اور اندر کھاتے اپنے فوجی عراق سے شام منتقل کرنے کے ذریعے خود کو امن پسند ظاہر کرتے تھے اسی طرح ڈیموکریٹ حکمران بھی بہت جلد مختلف بہانوں سے خطے میں مزید فوجی بھیجنے کا آغاز کر دیں گے۔ یہ بہانہ ڈونلڈ ٹرمپ کی پیدا کردہ مشکلات پر قابو پانا ہو سکتا ہے یا شام اور عراق میں داعش کی بڑھتی ہوئی سرگرمیاں بھی ہو سکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 912574
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش