1
3
Friday 29 Jan 2021 22:30

زینبیون ہی سچے پاکستانی ہیں

زینبیون ہی سچے پاکستانی ہیں
تحریر: سویرا بتول

اگر انسانی تاریخ پر نگاہ ڈالی جائے تو ازل سے حق و باطل کو ایک دوسرے کے مدمقابل دیکھا جا سکتا ہے۔ حضرت آدمؑ ہوں یا شیطان، ہابیل ہو یا قابیل، موسیؑ ہوں یا فرعون، ابراہیمؑ ہوں یا نمرود، حسینؑ ہوں یا یزید فقط دو ہی کردار نظر آتے ہیں۔ اگر سن ہجری کے عوام بابصیرت ہوتے تو کبھی بھی سبط ِ پیامبرؑ سرزمین ِ کربلا پر تشنہ لب ذبح نہ کیے جاتے۔ مگر سوال یہ ہے کہ حق کی پہچان کیسے کی جائے؟ اگر جاننا چاہتے ہو کہ حق کدھر ہے تو دیکھو کہ باطل کے تیروں کا رُخ کس سمت ہے۔ آج تمام دنیا دیکھ لے کہ تمام سامراجی طاقتوں کا رخ کس سمت ہے، اِس سے حق کو بخوبی پہچانا جا سکتا ہے۔

زینبیون جو نہ صرف مکتبِ تشیع بلکہ اہلِ بیت اطہار سے مودت رکھنے والے ہر باضمیر انسان کا فخر ہیں، پر آئے روز بے بنیاد الزامات کی بوچھاڑ کی جاتی ہے۔ کبھی یہ کہا جانا کہ یہ ملک کے لئے سکیورٹی تھریٹ ہیں یا فلاں پروجیکٹ کے لیے خطرہ ہیں، جبکہ اس کے برعکس آج تک زینبیون کو نہ صرف پاکستان میں بلکہ کسی بھی ملک میں کالعدم قرار نہیں دیا گیا۔ حتی کہ اقوام متحدہ نے بھی کالعدم قرار نہیں دیا، پھر انہیں دہشتگرد کیوں کہا گیا؟ ہم نے ہزاروں لاشے اٹھائے ہیں، اگر ریاستی دہشتگردی کے خلاف بر سرِ احتجاج آئیں تو بلیک میلر کہا جاتا ہے اور اگر اپنے مقدسات کا دفاع کریں تو دہشتگرد قرار دیا جاتا ہے۔ حقیقت میں زینبیون نہ صرف محبین وطن ہیں بلکہ محافظین وطن بھی ہیں اور یہ گروہ کسی بھی طرح ملکی سالمیت کے لیے خطرہ نہیں۔

مگر آج تک یہ نہ سوچا گیا کہ دسیوں سال سے خونخوار داعش کا وہ پودا جو امریکہ سے لیکر عرب ریالوں، عجم ٹیکنالوجیز اور اسلحہ کے ساتھ لیس ہو کر کئی سالوں سے جہاد کے نام پہ بڑا کیا گیا، جس کے ہاتھ ہزاروں مسلمانوں کے خون سے رنگین ہوئے اور وہ وحشی درندے جو عرصہ دراز سے انسانیت کا قتلِ عام کر رہے ہیں، خون کی ندیاں بہا رہے ہیں اور سرِعام دندناتے پھر رہے ہیں، وہ آج تک اتنی عظیم تعداد اور عظیم وسائل کے باوجود نہ تو کسی اسٹیٹ کے لیے سکیورٹی تھریٹ بنے اور نہ ہی آج تک کسی کو اِن سے کوئی خطرہ محسوس ہوا۔؟

داعش حرم سیدہ زینب سلام علیہا کے پانچ سو میٹر قریب تک آچکی تھی۔ گھمسان کی جنگ ہوئی، حرم کے اطراف کی جگہیں تباہ کی گئیں۔ حرم کی دیواروں پر گولے لگے، اس صورتحال میں جب آپ کی غیرت و حمیت پر حملہ کیا جا رہا ہو تو ایسی صورت میں جان کی پرواہ نہیں کی جاتی۔ اسی نظریہ کے تحت مدافعین حرم نے قربانی پیش کی۔ انہیں خراجِ عقیدت پیش کیا جانا چاہیئے کہ انہوں نے اسلام کی حرمت اور تقدس کی حفاظت کی۔ یہ مدافعین حرم ہی تھے، جو صہیونیت کے خلاف سیسہ پلائی دیوار کی طرح ڈٹے رہے، جنہوں نے آمرلی کا محاصرہ توڑ کر نبل و الزہراء، فوعہ و کفریا، دیر الزور اور حلب، فلوجہ، بلد و موصل کو آزاد کروا کر وہاں کے بچوں کے لبوں پہ مسکراہٹ سجائی۔

آج کی کرب و بلا کے محافظ باکردار ہیں زینبیون
عزمِ حسینی، عزمِ خمینی کی للکار ہیں زینبیون 
تکفیریت بھاگ رہی ہے ہم مختار ہیں زینبیون 
زینبؑ کے روضے پہ شہادت کو تیار ہیں زینبیون

زینبیون وہ حسینی جوان تھے، جو مثلِ شہنشاہِ وفاؑ اپنے وعدے کو وفا کر گئے اور کیا خوب اپنے وعدے کی لاج رکھی کہ اے بنتِ علیؑ! ہم آپ کو دوبارہ اسیر نہ ہونے دیں گے۔ کسی دشمن کو ہرگز اجازت نہ دیں گے کہ وہ ایک دفعہ پھر آپ سلام علیہا کے خیام کی طرف بڑھے۔ ایک دفعہ پھر آپؑ کے خیمے کو آگ لگائے اور خانوادہ عصمت و طہارت کو بے ردا کرے۔ یہ کربلائی شعار تھا، وہ مٹھی بھر عشاق اپنے وعدوں کو وفا کر گئے اور ہم اتنی بھی اخلاقی جرات نہیں رکھتے کہ اُنکے حق میں دو لفظ بول سکیں۔
خبر کا کوڈ : 913136
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Syed Hassan
Iran, Islamic Republic of
Great
ہماری پیشکش