0
Wednesday 3 Feb 2021 09:12

یمن پر سعودی جارحیت کے حقائق(1)

یمن پر سعودی جارحیت کے حقائق(1)
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس

حجاز کی مقدس سرزمین پر قابض آل سعود نے خادمین الحرمین کے روپ میں ایک غریب عرب ملک یمن کو گذشتہ پانچ سالوں سے جس انداز سے اپنی جارحیت کا نشانہ بنا رکھا ہے، اس کی ماضی میں مثال ڈھونڈنا مشکل ہے۔ آل سعود کو ابھی تک مطلوبہ اہداف حاصل نہیں ہوئے، لیکن ظلم و بربریت کا نہ رکنے والا سلسلہ جاری ہے۔ گذشتہ چند سالوں سے یمن پر ایک غیر مساوی جنگ کے نتیجے میں زمین، فضا اور سمندر سے میزائلوں، گولوں اور بمباری کا سلسلہ جاری ہے۔ ان حملوں میں سب سے زیادہ نقصان کم سن بچوں کا ہو رہا ہے۔ چاہے سمندر سے میزائل داغا جائے یا فضا سے رہائشی گھروں پر بمباری کی جائے، ان گھروں سے بچوں کی چیخیں بلند ہوتی ہیں۔ حملے اور تباہی کے بعد تباہ شدہ ملبے کے نتیجے سے معصوم بچوں کی آہیں اور فریادیں انسانی قلب و روح کو تڑپا کر رکھ دیتی ہیں۔ ملبے کے نیچے دبے متعدد بچے موت کی وادی میں جا رہے ہیں، لیکن انسانی حقوق کے عالمی اداروں کو گویا سانپ سونگھ گیا ہے۔ آج یمن میں کوئی نوجوان گھر میں نظر نہیں آتا، یا تو بمباری اور حملوں میں مارا جا چکا ہے، یا باپ اور مجاہدین کے ساتھ میدان جنگ میں مصروف جنگ ہے۔ یمن کی گلیوں اور محلوں میں موت رقص کر رہی ہے۔ نہ غذا ہے، نہ میڈیسن، نہ علاج، نہ معالجہ، نہ گیس، نہ بجلی، نہ پانی اوپر سے وبائوں نے یمنی شہریوں کی زندگی کو اجیرن کر دیا ہے۔

آج کی جدید ٹیکنالوجی اور میڈیا کے دور میں جہاں انسانی حقوق کے بلند بانگ نعرے لگائے جا رہے ہیں، وہاں یمن کے ان مظلوموں کی آواز اور معصوم بچوں کی چیخ و پکار کہیں سنائی نہیں دیتی۔ یمن کی نہتی خواتین اور بچوں کی صدائے استغاثہ یمن کے اندر ہی کیوں دب جاتی ہے۔ مظلوموں کی صدائے احتجاج اور گریہ و آہ زاری میں اقوام متحدہ کہاں غائب ہے۔ امریکہ کے مخالف ممالک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے خود ساختہ الزامات پر تو اقوام متحدہ کے اجلاسوں پر اجلاس منعقد ہوتے ہیں، لیکن یمن کا نام آتے ہی اقوام متحدہ خاموش تماشائی بن جاتی ہے۔ چودہ جنوری 2011ء یمن میں ایک داخلی انقلاب شروع ہوا، یمن کے عوام نے علی عبداللہ صالح کی ڈکٹیٹر شپ کے خلاف علم احتجاج بلند کیا۔ عبداللہ صالح عوامی احتجاج کی اس لہر کے سامنے نہ ٹھہر سکے اور جنوری 2012ء میں یمن سے فرار کر گئے اور ان کے فرار کے فوراً بعد فروری 2012ء میں انتخابات منعقد ہوئے اور عبدوبہ منصور یاری صدر منتخب ہوگئے، منصور ہادی نے برطانیہ اور مصر کے اداروں سے تعلیم حاصل کی تھی اور وہ علی عبداللہ کے نائب تھے۔

یمنی عوام کی 60 فیصد آبادی نے انتخابات میں شرکت کی اور منصور ہادی کو صدر منتخب کیا۔ منصور ہادی نے جب زمام حکومت سنبھالی تو یمنی عوام کا اصل مطالبہ جمہوریت اور بدعنوانی کا خاتمہ تھا، لیکن منصور ہادی نے عوام کی رائے پر توجہ دینے کی بجائے غیر جمہوری اور آمرانہ راستے کو اختیار کیا اور اپنی باگ ڈور سعودی عرب کے ہاتھ میں دے دی۔ یمنی عوام کو منصور ہادی کا طرز حکومت پسند نہ آیا اور عوام ایک بار پھر سڑکوں پر آگئے۔ منصور ہادی کے مقابلے میں جس تنظیم نے اعتراضات و مطالبات کا پرچم بلند کیا، وہ عوامی تحریک انصار اللہ تھی۔ عوامی تحریک نے زور پکڑا اور جنوری 2015ء میں ایوان صدر کا گھیرائو کرکے صدر ہائوس پر قبضہ کر لیا۔ منصور ہادی صدارت سے استعفیٰ دے کر عدن شہر کی طرف فرار کر گیا۔ کچھ عرصے بعد اس نے اعلان کیا کہ وہ استعفیٰ واپس لے رہا ہے اور یمن کا حقیقی صدر و سربراہ وہ خود ہے۔ منصور ہادی نے عدن شہر کو اپنا عارضی دارالحکومت قرار دے کر اپنے آپ کو یمن کا صدر کہلوانا شروع کر دیا۔

دوسری طرف سعودی عرب جو عرصے سے یمن کی حکومت اور اس کے قدرتی وسائل پر نطریں گاڑھے ہوئے تھا، اس نے موقع سے فائدہ اٹھانے کا ارادہ کیا۔ سعودی عرب کی خواہش تھی کہ وہ اس افراتفری میں خلیج عدن اور باب المندب پر اپنا تسلط قائم کرکے اپنی دیرینہ خواہش کو پورا کرسکتا ہے۔ آل سعود اور اس کے اتحادی شروع دن سے انصاراللہ کے بارے میں خوش فہمی کا شکار تھے کہ وہ جب چاہیں گے انصاراللہ یعنی حوثیوں کو شکست دے کر اپنے مذموم اہداف حاصل کر لیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب کے وزیر دفاع نے زمینی حقائق کو نظرانداز کرکے نہایت گستاخانہ انداز میں یمنی علاقے حضر موت اور الممرہ کو سعودی عرب کا باقاعدہ حصہ قرار دینے کا اعلان کر دیا۔ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں نے 25 مارچ 2015ء کے دن "طوفان قاطعیت" کے نام سے فوجی آپریشن کا اعلان کرکے یمن پر باقاعدہ جارحیت کا آغاز کر دیا۔ آل سعود نے بظاہر یہ اعلان کیا کہ وہ مفرور اور مستعفی صدر منصور ہادی کی حمایت میں یمن پر حملہ آور ہو رہی ہے۔

منصور ہادی اس وقت سعودی عرب میں پناہ گزین تھا اور سعودی عرب نے یمن کے نہتے شہریوں پر وسیع حملوں کا آغاز کر دیا۔ اب جبکہ اس جارحیت کو چھ سال ہونے کو ہیں، سعودی عرب تمام تر عالمی قوانین کو پامال کرتے ہوئے نہتے یمنی شہریوں پر وحشیانہ حملے جاری رکھے ہوئے ہے۔ عام شہریوں کا قتل عام، انفراسٹرکچر کی تباہی، القاعدہ کی حمایت، سعودی حملوں کا واضح نتیجہ ہے۔ یمن کے تعلیمی ادارے، صحت عامہ کے مراکز سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کے حملوں میں تباہ و برباد ہو رہے ہیں۔ دوسری طرف سعودی اتحاد کے اس غریب عرب ملک کا اس طرح محاصرہ کر رکھا ہے کہ باہر سے غذا اور روزمرہ کی اشیاء حتی میڈیسن تک اندر لے جانے کی اجازت نہیں۔ انسان دوستانہ امداد کی فراہمی کے راستے کو بھی مسدود کر دیا گیا ہے۔ سعودی اتحاد امریکہ، برطانیہ، فرانس، اسرائیل اور متحدہ عرب سمیت چند دیگر عرب ممالک پر مشتمل ہے اور اس غریب ملک کے خلاف گذشتہ چند سالوں سے حملے پر حملے کر رہا ہے۔

موصولہ رپورٹوں کے مطابق گذشتہ چند برسوں میں حملوں کی وجہ سے یمن میں صورت حال ناگفتہ بہ ہے۔ یمن کی وزارت صحت کے مطابق ہزاروں یمنی شہری ان حملوں کا نشانہ بن کر جاں بحق یا زخمی ہوچکے ہیں۔ زخمیوں کی حالت بھی بدتر ہے۔ شہروں اور دیہاتوں میں وبائی امراض پھیل چکی ہیں۔ لیکن کوئی عالمی ادارہ سعودی اتحاد کی بمباری کو روکنے کے لیے عملی اقدامات نہیں کر رہا، ہر طرف خاموشی کا دور دورہ ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے حال ہی میں اپنے ایک بیان میں صرف یہ کہنے پر اکتفا کیا ہے کہ یمن میں انسانی المیے کے وقوع پذیر ہونے کا امکان ہے۔ سعودی عرب اور اس کے اتحادی اقوام متحدہ اور بعض انسانی حقوق کی تنظیموں طرف سے ارسال کردہ انسان دوستانہ امداد کو بھی یمنی بندرگاہ تک نہیں پہنچنے دیتے۔ تلاشی سمیت دوسرے بہانوں سے کئی کئی مہینے تک امدادی سامان کو کھلے سمندر میں روک دیا جاتا ہے اور انہیں یمنی بندرگاہوں پر لنگرانداز ہونے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق انسان دوستانہ امداد پر مبنی بحری جہازوں کو باقاعدہ طاقت کے زور پر روک لیا جاتا ہے اور باقاعدہ ڈرایا دھمکایا جاتا ہے، جنگی جرم قرار دیا جاتا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے بیانات میں کئی بار یمن پر سعودی اتحاد کے حملوں کو جارحیت قرار دے کر یمنیوں کی نسل کشی سے تعبیر کیا ہے۔ آپ عالمی اداروں سے مطالبہ کرچکے ہیں کہ سعودی اتحاد کی اس جارحیت کا علمی اداروں میں جائزہ لیا جائے اور عالمی سطح پر اس کی فوری تحقیقات ہونی چاہیئں۔ آپ فرماتے ہیں کہ بچوں کا قتل عام، رہائشی گھروں کی تباہی، انفراسٹریچر کی بربادی اور قدرتی ذخائر کو ملیا میٹ کرنا ایک بہت بڑا گھنائونا جرم ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی یمن کی دلیر اور نہتے عوام کی کامیابی کے بارے میں پرامید ہیں اور فرماتے ہیں کہ سعودی عرب کی جارحیت کو شکست ہوگی اور سعودی عرب کی یمن میں ناگ رگڑی جائے گی۔ اس وقت یمن میں غذائی قلت، صحت عامہ کی سہولیات کا فقدان، وبائِی امراض اور دیگر مشکلات نے یمنی عوام بالخصوص کم سن بچوں کو اپنے نشانے پر رکھا ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسف نے اپنے ایک بیان مین کہا ہے کہ طول تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ اس ادارے کے امدادی سامان سے لدے جہاز کو کسی ملک میں لینڈ کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ اس وقت یمن میں بیس لاکھ بچے غذائی قلت کا شکار ہیں اور ہر لحظے یمنی بچوں کے دما اور دیگر بیماریوں میں مبتلا ہونے کا خطرہ ہے۔ کئی بچے اس وجہ سے موت کے منہ مین جا چکے ہیں اور ہزاروں موت کے دھانے پر کھڑے ہیں۔

یونیسف کے علاقائی ڈائریکٹر خیرت کامالارسی کی رپورٹ کے مطابق صرف ایک مہینہ میں 70 ہزار یمنی افراد کے وبائوں میں مبتلا ہونے کی رپورٹ موصول ہوئی ہے، جن میں سے 60 ہلاک ہوچکے ہیں اور اس وبا کی بدولت اگلے دو ہفتوں میں مرنے والوں کی تعداد 130 تک پہنچ جائے گی۔ یونیسف کے مشرق وسطیٰ کے اس نمائندے نے یمن کے ایک بچے کھچے ہسپتال کا دورہ کرنے کے بعد کہا ہے کہ میں نے اس ہسپتال میں کئی بچوں کو جان کنی کی حالت میں دیکھا ہے کہ وہ دوائوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر موت کے گھاٹ اتر رہے تھے۔ میں نے ایک نوائیدہ بچے کو اپنی آںکھوں سے دیکھا ہے، جس کا کل وزن ایک کلوگرام سے بھی کم تھا اور وہ موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا تھا۔ بہت سے بچے پیدائش کے فوراً بعد ہلاک ہو جاتے ہیں۔ یمن کی یہ جنگ حقیقت میں بچوں کے خلاف جنگ ہے۔ یمن کے غریب عوام عالمی اداروں کی خاموشی کے باوجود سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کے گھنائونے اور وحشیانہ مظالم کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں اور ذلت کو برداشت کرنے کی بجائے مقابلے کو ترجیح دے رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 914016
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش