0
Tuesday 9 Feb 2021 15:42
دعائیں بے ثمر ہونے لگیں برفاب موسم میں

قومی ہیرو محمد علی سد پارہ کو خراج تحسین

قومی ہیرو محمد علی سد پارہ کو خراج تحسین
تحریر: ارشاد حسین ناصر

پاکستان کے شمالی علاقوں کی سرزمین گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے عظیم قومی ہیرو محمد علی سد پارہ کی سرمائی مہم (k2winter2021) میں دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو  (8,611 m) سر کرنے کی مہم کے دوران گم شدگی کے بعد پوری دنیا میں ان کیلئے دعائیں و مناجات ہو رہی ہیں۔ ہر ایک انہیں اپنے اپنے انداز میں خراج عقیدت پیش کر رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر بلاشبہ لاکھوں لوگوں نے اپنی پوسٹس، پروفائل پکچرز اور درد بھرے جملات نیز شاعروں نے اپنے عظیم کلام کے ذریعے انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ان کی جدائی اور گم شدگی پر اپنی قلبی کیفیات کا اظہار کیا ہے۔ اس میں ہر طبقہء فکر، مکتب، مذہب اور علاقے کے لوگ شامل ہیں جبکہ پاکستان کے سیاستدانوں، حکمرانوں، فورسز کے لوگوں اور سماجی تنظیموں کے اعلیٰ عہدیداروں نے بھی اس حوالے سے اپنی تشویش اور کیفیت کا اظہار کیا ہے، جو ایک بہت ہی مثبت بات ہے جبکہ بعض منفی اور متعصب لوگوں نے اپنے خبث باطن کا اظہار بھی کیا ہے اور بے سر و پا سوالات اٹھانے کی ناکام کوشش کی ہے، جس کا جواب انہیں مل رہا ہے، البتہ ایسے ناخلف لوگوں کی تعداد محدودے چند کہی جا سکتی ہے۔ جہلاء کا یہ گروہ اگر با اختیار ہو جائے تو عوام کا جینا ناممکن ہو جائے۔

بہرحال حقیقت یہی ہے کہ ہمارے اس قومی ہیرو کیساتھ ہر ایک کو ہمدردی اور محبت ہے، ہر ایک اس پاک سرزمین کے فرزند کے دکھ کو محسوس کر رہا ہے اور اپنے اپنے انداز میں اظہار محبت فرما رہا ہے۔ لوگوں نے انہیں کہساروں کا بیٹا کہا ہے، لوگ انہیں بلندیوں کو چھونے والا کہہ رہے ہیں۔ لوگ انہیں جراءت و بہادری اور جدوجہد کا استعارہ کہہ رہے ہیں، لوگ ان کے بارے کہہ رہے ہیں کہ وہ پہاڑوں کا بیٹا تھا، پہاڑوں میں گم ہوگیا۔ لوگ انہیں کہہ رہے ہیں کہ جس کا نام ہی محمد علی ہو، وہی ایسی جراءت کرسکتا ہے۔ لوگ انہیں ایک بار پھر اپنے سامنے جیتا جاگتا دیکھنا چاہتے ہیں، لوگ کہہ رہے ہیں کہ باری تعالیٰ معجزوں کا انتظار ہے، معجزہ دکھا دے۔ لوگ کہہ رہے ہیں کہ اسے پہاڑوں سے محبت تھی، وہ ان میں جا کر گم ہوگیا ہے۔

اس کا بیٹا ساجد سد پارہ جو اس ٹیم کا حصہ تھا اور 8200 میٹر بلندی پر اس کی آکسیجن ختم ہوئی اور طبیعت کچھ خراب ہو گئی تو والد محمد علی سد پارہ نے اسے ایک آکسیجن سلنڈر جو ایمرجنسی صورتحال کیلئے ان کے پاس تھا دیا، چونکہ وہ خود تو بغیر آکسیجن کے منزل کو پانے کیلئے جا رہے تھے، ساجد سد پارہ اس مقام سے اپنے والد اور ان کی ٹیم کو بلندی کی طرف جاتے، موت کی وادی کہے جانے والے مقام پہ مجبوراً واپسی کا سفر اختیار کرتے ہیں اور پھر ایک دن بعد بذریعہ ہیلی کاپٹر آرام کرنے کے بعد والد کو تلاش کرنے ریسکیو آپریشن کیلئے نکل پڑتے ہیں اور یہ ٹویٹ کرتے ہیں۔۔۔ "تم لوٹ آئو، پہاڑوں کی قسم، تم لوٹ آئو، پوری قوم تمہارا انتظار کر رہی ہے۔" آرمی اور دیگر اداروں کی مدد سے یہ آپریشن جاری ہے، قوم دعائیں مانگ رہی ہے، ہر ایک کسی بڑی خبر کے انتظار میں ہے۔۔

ایسے میں معروف شاعر جناب یاسر علی نامی نے اس مرد مردان و کہساران کو یوں خراج تحسین پیش کیا:
دے گا خود گواہی یہ آسمان ہمت کی
لکھ رہے ہو تم ایسی داستان ہمت کی
عزم و حوصلے کا اک استعارہ تم بھی ہو
ذات اک تمہاری ہے ترجمان ہمت کی

کسی نے جناب راحت اندوہوی کا یہ شعر علی سد پارہ کی نظر کیا ہے:
ٹکٹکی باندھ لی ہے آنکھوں نے
راستے واپسی کے دیکھتے ہیں

ایک تازہ تر قطعہ محمد علی سدپارہ کے نام کیا ہے، شاعر کا نام معلوم نہیں:
لوٹ آئینگے مسافر، ہم سبھی سجدے میں ہیں
مصطفیٰ کا نام لیکر ہر کلی سجدے میں ہے
فاتح ِکے ٹو کے ہاتھوں میں علم عباس کا
ہر بلندی پہ محمد اور علی سجدے میں ہیں


بلتستان سے تعلق رکھنے والے شاعر شمس بلتستانی جو مشہد میں مقیم ہیں، انہوں نے یہ قطعہ نذر کیا ہے:
قسم خدا کی یہ نسلوں کو حوصلہ دے گی
جو داستاں مرے نقشِ قدم نے لکھی ہے
ترانہ کیوں نہ ہمارا پڑھیں جہاں والے
انوکھے عزم کی تاریخ ہم نے لکھی ہے

ایک اور آزاد نظم میں بہترین انداز میں خراج عقیدت پیش کیا گیا ہے۔
محمد علی سد پارہ
چلو اک اور رقص رائیگانی دفن کرتے ہیں
پہاڑوں میں محبت کی کہانی دفن کرتے ہیں
یہ خیمے موت کے بکھرے ہوئے ہیں برف زاروں میں
انہی میں خامشی سے زندگانی دفن کرتے ہیں
پہاڑوں پر اترتے برف کے طوفان میں اپنی
سوادِ عشق میں لپٹی جوانی دفن کرتے ہیں
ہمیں تو آسماں کو چوم کر واپس پلٹنا تھا
مگر اب خواہشوں کی راجدھانی دفن کرتے ہیں
دعائیں بے ثمر ہونے لگیں برفاب موسم میں
سو اب جاں سوز اشکوں کی روانی دفن کرتے ہیں


محمد علی سد پارہ اور ان کے دو دیگر ساتھی جن کا نام جان سونیری (47) آئیس لینڈ سے اور دوسرے ساتھی پبلو مہر (33) چلی سے ہیں۔ پوری دنیا ان کیلئے دست بہ دعا ہے۔ وقت کے گذرنے کیساتھ دل بھی ڈوبتا جا رہا ہے، ماہرین کے مطابق اتنی بلندی پر کسی انسان کا اتنے وقت تک زندہ رہنا ممکن نہیں، مگر اس کائنات کے خالق و مالک کی قدر و طاقت کے سامنے سب ہیچ ہے، لہذا امید کا مرکز اسی کی ذات کریم ہے، وہ اپنے پیاروں کے صدقے معجزاتی خبر دے۔ یہی آرزو ہے، یہی امید اور یہی اس وقت کی تڑپ۔۔۔ محمد علی سد پارہ اور اس کے ساتھی پہاڑوں کو چیرنے کا حوصلہ رکھتے تھے، وہ انہی سے مانوس تھے، برف پوش بلندیاں ان کا مسکن تھیں، تیز برفیلی ہوائیں ان کا ماتھا چومتی تھیں، اسے بیماری اور محتاجی میں گھٹ گھٹ کے مرنا قبول نہیں تھا، خدا کرے کہ وہ زندہ لوٹ آئے کہیں سے، محمد علی سد پارہ اور ان کے ساتھیوں کی جراءت و بہادری کو سلام۔
The missing climbers were Muhammad Ali Sadpara, a 45-year-old from Pakistan; John Snorri, 47, from Iceland; and Juan Pablo Mohr, a 33-year-old Chilean
خبر کا کوڈ : 915262
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش