QR CodeQR Code

یمن پر سعودی جارحیت کے حقائق(5)

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے خصوصی نمائندہ برای یمن کا دورہ ایران

10 Feb 2021 10:03

اسلام ٹائمز: اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے خصوصی نمائندہ کے دورہ ایران میں گریفین نے ایران سے بحران یمن کے خاتمے میں تعاون کی اپیل کی ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کو اسوقت مغربی ایشیاء میں خطے کی ایک بڑی طاقت سمجھا جاتا ہے۔ دوسری طرف اس نے یمن کی قومی سالویشن حکومت کو بھی سرکاری طور پر تسلیم کر رکھا ہے۔ اسکے علاوہ جنگ یمن میں سب سے زیادہ سرگرم عوامی جماعت انصار اللہ سے بھی ایران کے قریبی تعلقات ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایران کے وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے نمائندے کو اس بات کا یقین دلایا ہے کہ ایران یمن جنگ کے خاتمے اور اس بحران کے حل کیلئے اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔


تحریر: ڈاکٹر راشد عباس

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے یمن کے امور مِیں خصوصی نمائندے نے اپنے دورہ ایران مین اسلامی جمہوریہ ایران کے اعلیٰ حکام سے یمن کے بحران سے متعلق بات چیت کی ہے۔ مارتھین گریفیتں نے ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف، نائب وزیر خارجہ عباس عراقچی اور قومی سلامتی سلامتی کونسل کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل سعید ایروانی سے الگ الگ ملاقاتیں کیں۔ ان ملاقاتوں میں یمن میں مسلط جنگ کے خاتمے اور انصار اللہ پر عائد مختلف پابندیوں کے خاتمے کے موضوع کو زیربحث لایا گیا۔ یمن پر سعودی جارحیت کو چھ سال مکمل ہونے کو ہیں، اقوام متحدہ کے مطابق یمن میں بدترین انسانی المیہ رونما ہوچکا ہے۔ یہاں تک کہ امریکہ کے نئے وزیر خارجہ انتونی بلینکن نے بھی یمن میں انسانی المیہ کی وقوع پذیر ہونے کو تسلیم کرتے ہوئے جنگ بندی کی بات کی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے خصوصی نمائندے نے بھی مختلف ملاقاتوں میں جنگ بندی کو پہلی ترجیح قرار دیا ہے۔

یمن پر مسلط شدہ جنگ میں اقوام متحدہ کا بھی بنیادی کردار رہا ہے، لیکن بدقسمتی سے عالمی ادارہ اپنا غیر جانبدارانہ کردار ادا کرنے میں ناکام رہا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے یمن کے لیے اپنا خصوصی نمائندہ ضرور مقرر کیا، لیکن سعودی عرب کے کھلم کھلا مظالم کے باوجود اس کے خلاف کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا، یہاں تک کہ سعودی عرب کو بچوں کے حقوق پامال کرنے والے مملکوں کی فہرست میں بھی شامل نہیں کیا گیا۔ یمن پر جاری جارحیت میں امریکہ نے کھل کر سعودی عرب کا ساتھ دیا اور اقوام متحدہ اس میں کسی قسم کی رکاوٹ پیدا نہ کرسکی، یہی وجہ ہے کہ ایران کی قومی سلامتی کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے خصوصی نمائندے سے اس حوالے سے شکوہ کیا کہ اس عالمی ادارے نے یمن کے بحران کے حل نیز یمن میں سعودی عرب کے ہاتھوں یمنی شہریوں کی نسل کشی کے خاتمے کے لیے کوئی سنجیدہ اور موثر اقدام انجام نہیں دیا۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے خصوصی نمائندہ کے دورہ ایران میں گریفین نے ایران سے بحران یمن کے خاتمے میں تعاون کی اپیل کی ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کو اس وقت مغربی ایشیاء میں خطے کی ایک بڑی طاقت سمجھا جاتا ہے۔ دوسری طرف اس نے یمن کی قومی سالویشن حکومت کو بھی سرکاری طور پر تسلیم کر رکھا ہے۔ اس کے علاوہ جنگ یمن میں سب سے زیادہ سرگرم عوامی جماعت انصار اللہ سے بھی ایران کے قریبی تعلقات ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایران کے وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے نمائندے کو اس بات کا یقین دلایا ہے کہ ایران یمن جنگ کے خاتمے اور اس بحران کے حل کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔ ان ملاقاتوں میں اس جانب بھی توجہ مبذول کرائی گئی ہے کہ امریکہ اس جنگ کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات انجام دے۔ امریکہ کی نئی انتظامیہ نے سعودی عرب کو ہتھیار فراہم نہ کرنے کے علاوہ کچھ اور اقدامات کا بھی اعلان کیا ہے، لیکن ایران کی قومی سلامتی کونسل کے ڈپٹی سیکرٹری سعید ایروانی کے بقول جنگ یمن کے
حوالے سے امریکہ کی طرف سے ذرائع ابلاغ میں بیان دینا کافی نہیں بلکہ امریکہ انتظامیہ کو عملی اقدامات انجام دینا ہوں گے، تاکہ سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی غلطیوں کا ازالہ ہوسکے۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے خصوصی نمائندے کے دورہ ایران پر مختلف تبصرے آرہے ہیں۔ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ مارتھین فریفتین نئی امریکی انتظامیہ کا یمن کے حوالے سے خصوصی پیغام لے کر آئے ہیں، تاہم ایران کی وزارت خارجہ کا یہ کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کے اس خصوصی نمائندے کا دورہ پہلے سے طے تھا اور اس کا موجودہ صورتحال سے کوئی تعلق نہیں، البتہ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ ایک ایسے عالم میں جب امریکہ کی نئی انتظامیہ کی طرف سے جنگ یمن کی کھلم کھلا مخالفت ہو رہی ہے، اقوام متحدہ اس موقع سے فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ اقوام متحدہ تو ماضی میں بڑی عالمی طاقتوں بالخصوص امریکہ کی کنیز رہی ہے اور عالمی سیاست پر نگاہ رکھنے والے تجزیہ کاروں کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کا فلسفہ وجود ہی بڑی طاقتوں کے مفادات کا دفاع ہے۔ یمن میں جنگ بندی کے حوالے سے اقوام متحدہ کی پہلی کوششیں زیادہ کامیاب نہیں رہیں، کیونکہ یہ عالمی ادارہ غیر جانبداری کا مظاہرہ نہیں کر رہا تھا۔ یمن جنگ بندی کے کویت میں ہونے والے مذاکرات ہوں یا سویڈن میں طے پانے والا جنگ بندی کا معاہدہ ہو، اس پر اقوام متحدہ کے عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔

سویڈن میں انجام پانے والے معاہدے میں سعودی عرب نے جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط کیے تھے، 18 دسمبر 2018ء میں الحدیدہ کے علاقے میں جنگ بندی کا معاہدہ انجام پایا تھا، لیکن اس وقت سے لے کر آج تک کوئی دن ایسا نہیں گزرا، جس دن جارح سعودی اتحاد نے الحدیدہ کے علاقوں پر سعودی لڑاکا طیاروں اور ڈرونز نے وحشیانہ حملے نہ کیے ہوں۔ یمن کی عوامی تحریک انصاراللہ بارہا اعلان کرچکی ہے کہ سعودی اتحاد سویڈن کے شہر اسٹاک ہوم میں ہونے والے معاہدہ کی مسلسل خلاف ورزی کا مرتکب ہو رہا ہے۔ سعودی اتحاد کے ان حملوں اور معاہدے کی خلاف ورزی پر یمن کی اعلیٰ سیاسی کونسل کے مشیر محمد طاہر انعم نے اقوام متحدہ کے رویئے پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ مارٹین گریفتین یمن کے عوام کے مفاد میں کام نہیں کر رہے بلکہ ان کی تمام سرگرمیاں یمن پر جارحیت کرنے والوں کے حق میں انجام پا رہی ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے خصوصی نمائندے کا دورہ ایران چاہے امریکہ کے اشارے پر ہو یا حالات کا تقاضا، اس عالمی ادارے کو اپنا غیر جانبدارانہ کردار ادا کرنا چاہیئے۔ یو این او کو عالمی معیارات بالخصوص انسانی حقوق کی پامالی اور تاریخ کے بدترین انسانی المیہ کو مزید طولانی ہونے سے روکنے کے لیے عملی اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔ شاید اس طرح اقوام متحدہ کے یمن کے حوالے سے کردار کا ازالہ ہوسکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تمام شد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


خبر کا کوڈ: 915411

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/915411/یمن-پر-سعودی-جارحیت-کے-حقائق-5

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org