0
Saturday 13 Feb 2021 15:52

سینیٹ انتخابات میں شو آف ہینڈ کا جھگڑا اور اراکین کی خریداری

سینیٹ انتخابات میں شو آف ہینڈ کا جھگڑا اور اراکین کی خریداری
رپورٹ: ایم رضا

گیارہ مارچ 2021ء کو چھ سالہ مدت پوری کرنے کے بعد ریٹائرڈ ہونے والے 65 فیصد سینیٹرز کا تعلق اپوزیشن جماعتوں سے ہے، جس کے بعد بڑی اپوزیشن جماعتوں مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے ارکان میں خاصی کمی واقع ہو جائے گی، تاہم دوسرا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف اکثریت حاصل نہیں کرسکے گی بلکہ وہ اتحادی جماعتوں کو ساتھ ملا کر بھی مشکلات میں گھری رہے گی۔ مجموعی طور پر 104 ارکان کے ایوان بالا سے ریٹائرڈ ہونے والے 34 ارکان کا تعلق اپوزیشن جماعتوں سے ہے جبکہ 18 کا تعلق حکمران جماعت یا اس کے اتحادیوں سے ہے۔ واضح رہے کہ مسلم لیگ نون کے سینیٹر اسحاق ڈار نے حلف نہیں اٹھایا تھا، وہ لندن میں خود ساختہ جلا وطنی کے دن گزار رہے ہیں۔ مسلم لیگ نون کے اس وقت 30 سینیٹرز ہیں، جن میں سے 17 سینیٹرز ریٹائرڈ ہوں گے۔

پیپلز پارٹی کے 21 سینیٹرز میں سے آٹھ ریٹائرڈ ہوں گے۔ تحریک انصاف کے 14 میں سے سات، بلوچستان عوامی پارٹی کے نو میں سے تین، ایم کیو ایم کے پانچ میں سے چار، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے چار میں سے دو سینیٹر ریٹائرڈ ہوں گے۔ اسی طرح نیشنل پارٹی کے بھی چار میں سے دو ریٹائرڈ ہوں گے۔ پختون خوا ملی عوامی پارٹی کے بھی چار میں سے دو ریٹائر ہو جائیں گے۔ جماعت اسلامی کے دو سینیٹرز ہیں، جن میں سے ایک ریٹائرڈ ہوگا۔ عوامی نیشنل پارٹی کا ایک ہی سینیٹر تھا، وہ بھی مارچ میں ریٹائرڈ ہو جائے گا۔ بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل گروپ کا بھی ایک ہی سینیٹر تھا، جو ریٹائرڈ ہو جائے گا۔ پاکستان مسلم لیگ فنکشنل کا ایک سینیٹر ہے لیکن اس کی ریٹائرمنٹ نہیں ہوگی۔ سینیٹ میں سے سات ارکان آزاد تھے، ان میں سے چار ریٹائرڈ ہوں گے۔

تحریک انصاف پہلی بار 2015ء میں ایوان بالا میں داخل ہوئی تھی۔ اس کے ریٹائرڈ ہونے والے سینیٹرز میں سے زیادہ تر خیبر پختون خوا سے جیت کر آئے تھے۔ مارچ کے انتخابات کے بعد قوی امکان ہے کہ خیبر پختون خواہ اور پنجاب میں عددی برتری حاصل ہونے کے سبب وہ سینیٹ میں سب سے بڑی جماعت بن کر اُبھرے گی، تاہم اسے مجموعی طور پر اکثریت حاصل نہیں ہوگی۔ سینیٹ انتخابات میں سب سے زیادہ خسارہ مسلم لیگ نون کو اُٹھانا پڑے گا۔ جماعتوں کی عددی قوت کے اعتبار سے انتخابی نتائج سامنے آئے تو مسلم لیگ نون اپوزیشن پارٹیوں میں پیپلز پارٹی سے نیچے کھڑی ہوگی۔

چونکہ پیپلز پارٹی کی سندھ میں حکومت ہے، اس لئے وہ سندھ سے اپنے زیادہ سینیٹرز منتخب کروا لے گی، یوں وہ اپوزیشن جماعتوں میں سب سے آگے ہوگی اور  ممکن ہے کہ اگلا اپوزیشن لیڈر اسی کا ہو۔ مارچ کے سینیٹ انتخابات کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ مارچ کے بعد سینیٹ کا ادارہ 100 ارکان پر مشتمل ہوگا کیونکہ قبائلی علاقہ جات کے صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم ہونے کے بعد وہاں کی چار سیٹیوں پر انتخاب نہیں ہوگا۔ ان علاقوں سے منتخب ہونے والے باقی چار سینیٹرز 2024ء میں ریٹائرڈ ہوں گے۔

شو آف ہینڈ کا تنازعہ
یوں محسوس ہوتا ہے کہ سینیٹ انتخابات کے حوالے سے تحریک انصاف، مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی نے خفیہ حکمت عملی ترتیب دے رکھی ہے اور اپنے پتے چھپا کر رکھے ہوئے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کو کئی ماہ قبل اطلاعات مل چکی تھیں کہ ان کے بعض ارکان پارٹی پالیسی کے مطابق ووٹ نہیں دیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ سینیٹ انتخابات کے لئے ریٹ لگنا شروع ہوگئے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ انہیں معلوم ہے کہ کون سا سیاسی لیڈر پیسے لگا رہا ہے۔ واضح رہے کہ وزیراعظم کے مطابق گذشتہ سینیٹ انتخابات میں تحریک انصاف کے 20 ارکان اسمبلی میں سے ہر ایک کو پچاس ملین روپے دیئے گئے تھے۔ اب کی بار وزیراعظم عمران خان نے اپنے ارکان اسمبلی کو قابو میں رکھنے کے لئے ترقیاتی فنڈ  کے نام پر اپنے ہر منتخب رکن اسمبلی کو پچاس، پچاس کروڑ روپے دیئے ہیں۔ حالانکہ وہ ماضی میں ارکان اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز دینے کی روایت کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا تحریک انصاف کے پچاس کروڑ روپے لے کر رکن اسمبلی پارٹی پالیسی کے مطابق ہی ووٹ دے گا؟ کوئی بھی اس سوال کا جواب یقین کے ساتھ "ہاں" میں نہیں دے سکتا۔ سینیٹ انتخابات میں چونکہ خفیہ ووٹنگ ہوتی ہے، اس لئے کس نے غداری کی، اس کا پتہ تب چلتا ہے، جب قیامت گزر چکی ہوتی ہے۔ اپنے ارکان کی مشکوک وفاداری کی بو محسوس کرتے ہوئے وزیراعظم نے گذشتہ برس نومبر ہی میں کہہ دیا تھا کہ وہ سینیٹ انتخابات میں خفیہ رائے شماری کے بجائے شو آف ہینڈ کا طریقہ اختیار کرنے کے لئے آئینی ترمیم لائیں گے۔ ایسی کوئی بھی ترمیم لانے کے لئے حکومت کو دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہوتی ہے، جو پی ٹی آئی  کے پاس نہیں ہے، نتیجتاً حکومت نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا کہ وہ اسے شو آف ہینڈ کے ذریعے انتخابات کرانے کی اجازت دے۔ حکومتی مؤقف ہے کہ سینیٹ انتخابات پیسہ کا کھیل بن چکے ہیں، اس لئے شو آف ہینڈ کے ذریعے وہ اس کھیل کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔

عدالت عظمیٰ نے ابھی اس معاملے پر اپنی حتمی رائے ظاہر نہیں کی تھی کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے شو آف ہینڈ کے طریقے کے لئے صدارتی آرڈی ننس جاری کر دیا، تاہم اسے سپریم کورٹ کی رائے سے مشروط کیا۔ الیکشن ترمیمی آرڈیننس 2021ء میں پاکستان کے الیکشن ایکٹ 2017ء کی سینیٹ الیکشن کے حوالے سے تین شقوں 81، 122 اور 185 میں ترمیم کی گئی ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ اگر سپریم کورٹ کی رائے اس حق میں ہوگی تو قوانین میں تبدیلی کے ساتھ اوپن ووٹنگ کرائی جائے گی۔ آرڈیننس کے مطابق اوپن ووٹنگ کی صورت میں سیاسی جماعتوں کا سربراہ یا نمائندہ ووٹ دیکھنے کی درخواست کرسکے گا۔ اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم نے اسے غیر آئینی قرار دیتے ہوئے آئین پر حملہ قرار دیا اور کہا کہ یہ سپریم کورٹ پر اثرانداز ہونے کی کوشش ہے۔

دوسری طرف سپریم کورٹ کی طرف سے جو ریمارکس آئے ہیں، انھیں پڑھ کر حکومتی ذمہ داران کو دل ڈوبتے محسوس ہوتے ہیں۔ مثلاً چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس گلزار احمد نے صدارتی آرڈی ننس کے متعلق کہا کہ لگتا ہے آرڈیننس مفروضاتی اصول پر مبنی ہے جبکہ جسٹس عمر عطا بندیال نے شو آف ہینڈ کے معاملے پر پوچھا کہ آرٹیکل 226 کے تحت وزیراعظم اور وزراء سمیت دیگر انتخابات کا طریقہ کار خفیہ کیوں رکھا گیا ہے؟‘‘ خفیہ رائے دہی کے حامیوں کے دل بھی دھڑک رہے ہیں، انہیں بھی یقین نہیں کہ سپریم کورٹ اپنی رائے کا وزن اس کے پلڑے میں ڈالے گی یا نہیں۔

اپوزیشن جماعتیں شو آف ہینڈز کی مخالفت کر رہی ہیں، کیونکہ ان کے مطابق آئینی ترمیم کے بغیر سینیٹ انتخابات کا طریقہ کار تبدیل نہیں ہوسکتا۔ مسلم لیگ نون کی رہنماء مریم نواز شریف کہتی ہیں کہ ایم این ایز اور ایم پی ایز کی جانب سے ساتھ چھوڑنے پر حکمرانوں کو سینیٹ الیکشن میں شو آف ہینڈز یاد آگیا۔ حکمرانوں نے سینیٹ الیکشن میں خود ووٹ توڑے بھی اور خریدے بھی، انہیں خود ووٹ توڑنے اور خریدنے کے وقت اوپن بیلٹ کیوں یاد نہیں آیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کو شک ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون دونوں ہی تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی کو قابو میں کرنے کے لئے کوشش کر رہے ہیں۔ اگر حکمران جماعت کا شک درست ہے، ایسے میں سینیٹ انتخابات ایک دلچسپ کھیل ثابت ہوں گے، پھر مارچ کے بعد ایوان بالا کا منظرنامہ حکمران جماعت کے لئے کسی بھی اعتبار سے خوش کن نہیں ہوگا۔

اگر ارکان اسمبلی نے پارٹی پالیسی کے مطابق ہی ووٹ کاسٹ کیا تو ممکنہ طور پر چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ تحریک انصاف اور کسی اتحادی جماعت کا ہوگا، لیکن حکمران جماعت کو سینیٹ سے قوانین منظور کرانے میں کافی مشکلات کا سامنا رہے گا، وہ کھینچ تان کر اکثریت حاصل کرے گی، ایسے میں سینیٹ میں چھوٹی جماعتوں کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہو جائے گی، آزاد ارکان بھی اپنی حیثیت سے خوب فائدہ اٹھائیں گے۔ تحریک انصاف کو ایک، ایک ووٹ کی ضرورت ہوگی، جو اسے کافی بھاری قیمت سے حاصل کرنا ہوگا، اس صورت حال سے بچنے کے لئے ایک واحد راستہ یہ ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کے ارکان کو فارورڈ بلاک کے نام پر قابو کیا جائے، کیا ایسا ممکن ہوگا؟ یہ بھی ایک دلچسپ سوال ہے۔

ریٹائرڈ ہونیوالی نمایاں شخصیات
مسلم لیگ نون کے رہنماء اور اپوزیشن لیڈر (سینیٹ) راجہ ظفرالحق، ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا (پیپلز پارٹی)، جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق، مسلم لیگ نون کے پارلیمانی لیڈر مشاہد اللہ خان، وزیر اطلاعات و نشریات شبلی فراز، سابق وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید (مسلم لیگ نون)، پیپلز پارٹی کی پارلیمانی لیڈر شیری رحمان، سابق وزیر داخلہ رحمان ملک (پیپلز پارٹی)، سابق وزیر قانون فاروق ایچ نائیک (پیپلز پارٹی)۔ ایم کیو ایم کی خوش بخت شجاعت، میاں عتیق شیخ، بیرسٹر محمد علی سیف اور نگہت مرزا بھی ریٹائرڈ ہونے والوں میں شامل ہیں۔ پختون خوا ملی عوامی پارٹی کے عثمان کاکڑ، جمعیت علمائے اسلام کے مولانا عطاالرحمن (مولانا فضل الرحمن کے بھائی) اور مولانا عبدالغفور حیدری کی مدت بھی پوری ہو رہی ہے۔

دیگر ریٹائر ہونے والوں میں مسلم لیگ نون کے آغا شہباز درانی، عائشہ رضا فاروق، چوہدری تنویر خان، اسد اشرف، غوث محمد نیازی، کلثوم پروین، ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل صلاح الدین ترمذی، ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل عبدالقیوم، جاوید عباسی، نجمہ حمید، پروفیسر ساجد میر، راحلیہ مگسی، سلیم ضیاء اور سردار یعقوب خان ناصر، پیپلز پارٹی کی سسی پلیجو، اسلام الدین شیخ، گیان چند، یوسف بادینی، تحریک انصاف کے ریٹائرڈ بریگیڈیئر جان کینتھ ولیمز، لیاقت ترکئی، ثمینہ سعید اور ذیشان خانزادہ، ایم کیو ایم کی نگہت مرزا، بلوچستان عوامی پارٹی کے سرفراز بگٹی، منظور احمد اور خالد بزنجو، پختونخوا ملی عوامی پارٹی کی گل بشریٰ، نیشنل پارٹی کے اشوک کمار اور میر کبیر شاہی، بلوچستان نیشل پارٹی (مینگل) کے ڈاکٹر جہانزیب جمال دینی جبکہ آزاد ارکان میں اورنگزیب خان، مومن خان آفریدی، سجاد حسین طوری اور تاج محمد آفریدی شامل ہیں۔
خبر کا کوڈ : 915878
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش