1
Saturday 13 Feb 2021 21:51

یمن، سعودی عرب اور القاعدہ کا مشترکہ محاذ

یمن، سعودی عرب اور القاعدہ کا مشترکہ محاذ
تحریر: فاطمہ صالحی
 
یمن کے خلاف سعودی عرب کی سربراہی میں عرب اتحاد کی جارحیت چھٹے سال میں داخل ہو چکی ہے جبکہ یمن کی مسلح افواج، عوام اور انصاراللہ کی مزاحمت جاری ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ یمن میں فوج اور عوام رضاکار فورس کی کامیابیوں کا سلسلہ جاری ہے اور وہ روز بروز مارب شہر کے مختلف محاذوں پر پیشقدمی میں مصروف ہیں۔ دوسری طرف سعودی عرب کی سربراہی میں جارح عرب محاذ مارب کے محاذ پر یمن آرمی اور انصاراللہ کی پیشقدمی روکنے کیلئے ہاتھ پاوں مارنے میں مصروف ہے۔ مغربی طاقتوں کا حمایت یافتہ جارح عرب اتحاد مارب کے محاذ پر یمن آرمی کی پیشقدمی روکنے کیلئے نت نئے ہتھکنڈے اختیار کرنے پر مجبور ہو گیا ہے جن میں سے ایک تکفیری دہشت گرد گروہ القاعدہ کے ساتھ اتحاد تشکیل دینا ہے۔
 
میڈیا ذرائع کی رپورٹس کے مطابق یمن کی مسلح افواج اور عوامی رضاکار فورسز مارب شہر کی مغربی جانب سے پیشقدمی کرتے ہوئے شہر کے انتہائی قریب پہنچ چکی ہیں اور شہر کا قریبی ترین محاذ قرار پانے والے علاقے "صرواح" پر مکمل کنٹرول حاصل کر چکی ہیں۔ یمن آرمی اور عوامی رضاکار فورسز نے صرواح کے علاقے "الطلعہ الحمراء" میں سعودی عرب کی سربراہی میں جارح عرب اتحاد کی فورسز کا مکمل محاصرہ کر کے انہیں اپنے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے مارب شہر کی جانب پیشقدمی شروع کر دی ہے اور پہلی چیک پوسٹ پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔ یہ چیک پوسٹ سعودی عرب کے حمایت یافتہ مقامی مسلح گروہوں کے زیر کنٹرول تھی۔
 
تازہ ترین رپورٹس کے مطابق صرواح کے محاذ پر سعودی اتحاد کا بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہوا ہے اور مارب شہر میں موجود اسپتال زخمیوں اور لاشوں سے بھر جانے کے بعد اب دیگر زخمیوں اور لاشوں کو صوبہ شبوہ کے اسپتالوں میں منتقل کیا جا رہا ہے۔ یمن آرمی اور عوامی رضاکار فورسز کی تیز پیشقدمی نے سعودی اتحاد کو شدید بوکھلاہٹ کا شکار کر دیا ہے جس کے نتیجے میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات مارب شہر کے مغربی حصوں پر وحشیانہ انداز میں بمباری کرنے میں مصروف ہیں۔ ان فضائی حملوں کا مقصد یمن آرمی کی تیزی سے جاری پیشقدمی کو روکنا ہے۔ سعودی سربراہی میں عرب اتحاد نے فضائی حملوں کے علاوہ یمن آرمی کی پیشقدمی روکنے کیلئے ایک اور حربہ بھی استعمال کیا ہے جو القاعدہ سے وابستہ عناصر سے مدد حاصل کرنے پر مشتمل ہے۔
 
سعودی اتحاد نے القاعدہ سے وابستہ یہ تکفیری دہشت گرد عناصر یمن کے مختلف صوبوں سے اکٹھے کئے ہیں جن میں المہرہ، حضر موت، شبوہ اور ابین کے صوبے شامل ہیں۔ یہ صوبے تکفیری دہشت گرد عناصر کا گڑھ تصور کئے جاتے ہیں۔ سعودی اتحاد تکفیری اور سلفی دہشت گردوں کو ان صوبوں سے اکٹھا کر کے مارب کے محاذ پر لایا ہے تاکہ یمن آرمی اور انصاراللہ کی پیشقدمی کا مقابلہ کر سکے۔ سعودی فوجی سربراہان کی جانب سے مارب میں اپنے حمایت یافتہ مقامی مسلح عناصر کے ساتھ خط و کتابت سے ظاہر ہوتا ہے کہ القاعدہ سے وابستہ ان تکفیری دہشت گرد عناصر کی ٹریننگ کا کام گذشتہ کئی ماہ سے شروع کر دیا گیا تھا۔ ان تکفیری اور سلفی دہشت گردوں کی فوجی ٹریننگ افریقی ملک اریتھرے میں متحدہ عرب امارات کے فوجی افسران کی زیر نگرانی انجام پائی ہے۔
 
اسی طرح بعض موصولہ رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مارب شہر میں سرگرم عمل القاعدہ کے دہشت گرد حتی محاذ جنگ پر بھی اپنا پرچم استعمال کر رہے ہیں۔ دوسری طرف یمن میں القاعدہ کے معروف سربراہ خالد باطرفی نے بھی حال ہی میں ایک ویڈیو پیغام جاری کیا ہے جس میں القاعدہ سے وابستہ دہشت گرد عناصر کو مارب کے محاذ پر سرگرم ہو جانے کی دعوت دی گئی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کچھ عرصہ قبل اقوام متحدہ نے یمن کے مشرقی ساحل پر واقع صوبہ المہرہ سے خالد باطرفی کو گرفتار کئے جانے کا اعلان کیا تھا۔ مارب کے محاذ پر یمن آرمی اور انصاراللہ کی تیزی سے جاری پیشقدمی اور انہیں حاصل ہونے والی مسلسل کامیابیوں کے باعث امریکہ سمیت دیگر مغربی طاقتوں نے یمن میں جنگ بندی کے قیام پر زور دینا شروع کر دیا ہے۔
 
یمن کیلئے امریکہ کے نئے ایلچی ٹیم لینڈر کنگ نے اپنے علاقائی دورے کا آغاز سعودی عرب سے کیا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ریاض میں کنگ کی سفارتی سرگرمیوں کا مرکز مارب شہر میں یمن آرمی کی پیشقدمی کو روکنا اور مارب شہر پر سعودی عرب کے قبضے کو برقرار رکھنا ہو گا۔ مارب شہر یمن کے شمال مشرق میں سعودی عرب کے زیر قبضہ آخری ٹھکانہ تصور کیا جاتا ہے۔ کنگ کے سعودی عرب دورے سے پہلے امریکی وزارت خارجہ یمن میں جنگ بندی پر زور دے چکی تھی۔ دوسری طرف یمن آرمی اور انصاراللہ مارب پر قبضہ کرنے کیلئے بھرپور کاروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ یمن آرمی نے مارب اور الجوف پر سعودی اتحاد کے بڑھتے فضائی حملوں کے جواب میں سعودی عرب میں واقع ابہا فوجی ہوائی اڈے کو ڈرون حملوں کا نشانہ بنایا ہے۔
خبر کا کوڈ : 916100
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش