0
Tuesday 16 Feb 2021 08:40

ایٹمی توانائی کے عالمی ادارے سے ایران کا احتجاج

ایٹمی توانائی کے عالمی ادارے سے ایران کا احتجاج
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس

ایٹمی توانائی کے عالمی ادارے آئی اے ای اے کی طرف سے ایران کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں بعض اطلاعات کو غیر متعلقہ افراد اور اداروں تک پہنچانے کی وجہ سے ایران اور اس عالمی ادارے کے درمیان تعلقات مختلف چیلنجوں کا شکار رہے ہیں۔ آئی اے ای اے میں ایران کے نمائندے کاظم غریب آبادی نے اتوار کے دن اس عالمی ادارے کے نام ایک مراسلہ ارسال کیا ہے، جس میں ایران کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں خفیہ اطلاعات غیر متعلقہ افراد تک پہنچانے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اس خط میں آئی اے ای اے کو اپنی قانونی ذمہ داریوں کی یاد دہانی کراتے ہوئے کہا گیا ہے کہ آئی اے ای اے کی طرف سے ایران کے بارے میں جو رپورٹ نشر کی جاتی ہے، وہ انداز اور طریقہ کار صحیح نہیں ہے، اسی طرح عالمی ادارے کا بورڈ آف گورنر جو فیصلہ کرتا ہے، اسے ایران کو اعتماد میں لیے بغیر ویب سائٹوں اور غیر متعلقہ افراد تک پہنچا دیا جاتا ہے۔

کاظم غریب آبادی نے مزید کہا ہے کہ ایران کے ایٹمی پروگرام اور تنصیبات کے معائنے کی بعض رپورٹس آئی اے ای اے کے سابقہ ملازمین اور معائنہ کاروں کو بھی بھیج دی جاتی ہیں۔ جو کسی بھی طرح قانونی اور درست اقدام نہیں۔ ایران کے ایٹمی پروگرام اور تنصیبات کے معائنے کی بعض رپورٹس سلامتی کونسل کے سیکرٹریٹ میں براہ راست بھیج دی جاتی ہیں، حالانکہ ان میں بعض رپورٹس صرف آئی اے ای اے کے سیکرٹریٹ تک محدود رہنی چاہیئں۔ آئی اے ای اے کے آئین کی شق نمبر سات میں اس بات پر تاکید کی گئی ہے کہ آئی اے ای اے کے کسی رکن ملک کی تجارتی اور صنعتی معلومات کو اس ادارے کے علاوہ کہیں نہیں بھیجا جائے گا اور ان خفیہ معلومات کا تحفظ آئی اے ای اے کی ذمہ داری ہوگا۔

اسلامی جمہوریہ ایران نے اس سے پہلے بھی 2010ء میں جب اس کے ایٹمی سائنسدانوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا تو اس وقت بھی ایران نے آئی اے ای اے کی رپورٹ میں ایرانی سائنس دانوں کے ناموں کی اشاعت پر سخت اعتراض کیا تھا۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ ایٹمی توانائی کے عالمی دارے پر بعض ممالک کی طرف سے سیاسی دبائو مرجود ہے، جس کی وجہ سے اس ادارے کی بعض خفیہ معلومات کو غاصب اسرائیل کے خفیہ اداروں کے سپرد کیا جاتا ہے۔ آئی اے ای اے کی ان کمزوریوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ایران نے کچھ اقدامات انجام دیئے ہیں اور ایران کی مجلس شوریٰ اسلامی (پارلیمنٹ) نے ایٹمی تنصیبات کے معائنے کے حوالے سے معائنہ کاروں کے لیے کچھ محدودیت اور پابندیاں تجویز کی ہیں۔ ایران کی پارلیمنٹ نے اقتصادی پابندیوں کے خاتمے کے لیے اسٹریٹجک اقدامات کے نام سے قانون سازی کی ہے۔ تاکہ آئی اے ای اے کے معائنہ کاروں کے روپ میں جاسوسی کی سرگرمیوں کو روکا جا سکے۔

ایران کی پارلیمنٹ مین قومی سلامتی اور خارجہ سیاست کے سربراہ مجتبیٰ ذوالنوری نے کچھ عرصہ قبل اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ایٹمی توانائی کے عالمی ادارے کے بعض معائنہ کار مغرب کے جاسوس ہیں اور ایران کے ایٹمی پروگرام کی خفیہ اطلاعات دشمن کے خفیہ اداروں کو پہنچاتے ہیں۔ ایران کے ایٹمی سائنسدانوں کے قتل اور آئی اے ای اے کی طرف سے ایران کے ایٹمی پروگرام کے بارے خفیہ اطلاعات کو غیر پیشہ وارانہ انداز سے منتشر کرنے میں گہرا تعلق ہے اور اس حوالے سے آئی اے ای اے کو بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یاد رہے کہ گذشتہ ایک  عشرے میں ایران کے ایٹمی سائنسدان من جملہ مسعود علی مجیدی، مجید شہریاری، مصطفیٰ احمدی روشن، داریوش رضائی نژاد خفیہ معلومات کے لیک ہونے اور ان سائنس دانوں کے نام منظرعام پر آنے کی وجہ سے صہیونی دہشت گردی کا شکار ہوئے۔

گذشتہ سال 27 نومبر کے دن بھی ایران کے ایک اہم ایٹمی اور دفاعی سائنس دان محسن فخری زادہ کو تہران کے نواحی علاقے میں دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا۔ اس تناظر میں ایران کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ پوری شدت سے ایٹمی توانائی کے عالمی ادارے کو انتباہ دے کہ وہ اپنی رپورٹوں اور دیگر دستاویزات میں ایران کے ایٹمی پروگرام کی خفیہ معلومات غیر متعلقہ افراد اور اداروں سے محفوظ و دور رکھے اور بلاشبہ آئی اے ای اے کی قانونی اور پیشہ وارانہ ذمہ داری ہے کہ وہ ایران سمیت تمام ممالک کے ایٹمی پروگرام کی خفیہ معلومات کو غیر متعلقہ عناصر کی دسترس سے محفوظ رکھنے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرے۔

ایٹمی توانائی کے عالمی ادارے کی کارگردگی بھی دیگر عالمی اداروں سے مختلف نہیں ہے، اس ادارے کے معائنہ کاروں نے ایرانی ایٹمی تنصیبات کی خفیہ معلومات جہاں نہیں بھیجنی چاہیں تھیں، وہاں بھیجیں۔ ایران کے ایٹمی سائنسدانوں کے ناموں کو برملا کرکے انہیں دشمن کے لیے آسان ٹارگٹ میں تبدیل کر دیا۔ معائنہ کاروں کے ذریعے ایران کی ایٹمی تنصیبات میں کمپیوٹر وائرس داخل کیے گئے، ایٹمی پیشرفت کو روکنے کے لیے متعدد ہتھکنڈے استعمال کیے گئے، یہاں تک کہ ایران کو کئی بار مجبور ہو کر آئی اے ای اے کے بورڈ آف گورنر میں شکوے شکایات کرنی پڑیں۔ آئی اے ای اے کے جتنے سربراہ گزرے ہیں، وہ خلوتوں میں ایران کے ایٹمی پروگراموں کو پرامن اور انحراف سے عاری قرار دیتے ہیں، لیکن جب امریکہ کا دبائو بڑھتا ہے تو کوئی نہ کوئی ایسی شق فائنل رپورٹ میں شامل کر دیتے ہیں، جس سے ایران کی ایٹمی سرگرمیوں کو مشکوک قرار دے دیا جاتا ہے۔

دوسری طرف غاصب اسرائیل کے ایٹمی پروگرام پر نہ کوئی عالمی ادارہ بولتا ہے، نہ عالمی تنظیم۔ یہ بات ہر کسی کو معلوم ہے کہ اسرائیل کے پاس بڑی تعداد میں ایٹمی وار ہیڈ موجود ہیں، لیکن اسرائیل کے فوجی اور جنگی ایٹمی پروگرام پر کوئی سوال نہیں اٹھاتا۔ عالمی اداروں کو بنا کر یوں تو دنیا کے مسائل کو عالمی اداروں میں حل کرنے کی کوشش کی گئی ہے، لیکن اس کے پیچھے چھپا سامراجی نظام ان عالمی اداروں کو بھی جنگل کے قانون اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے قانون کو لاگو کرنے میں مصروف رہتا ہے۔ بقول شاعر
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا


وقت گزرنے کے ساتھ بہت سے عالمی اداروں کے حقائق کھل کر سامنے آ رہے ہیں۔ اقوام متحدہ ہو، سلامتی کونسل ہو یا ایٹمی توانائی کا عالمی ادارہ، مخصوص مقاصد کے لیے تخلیق کیا گیا تھا اور اس کے پیچھے خفیہ مقاصد و اہداف اتنی آسانی سے سامنے نہیں آتے، لیکن جونہی سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف بالواسطہ یا بلاواسطہ کوئی اقدام علاقائی یا عالمی سطح پر سامنے آتا ہے تو ان اداروں کی حقیقت بھی آشکار ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ انسانی حقوق کے عالمی اداروں کی ماضِی کی کارکردگی اس بات کی شاہد ہے کہ ان عالمی اداروں نے انسانی حقوق کے نام پر سامراجی طاقتوں کو کبھی کٹہرے میں کھڑا نہیں کیا جبکہ دوسری طرف اگر کوئی سامراج دشمن ملک معمولی سی خلاف ورزی کا مرتکب ہو جائے تو شوروغل کرکے زمین و آسمان ملا دیئے جاتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 916518
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش