0
Monday 15 Feb 2021 12:20

انقلاب اسلامی کی کامیابیاں، سید علی مرتضیٰ زیدی کی تقریر سے اقتباس

انقلاب اسلامی کی کامیابیاں، سید علی مرتضیٰ زیدی کی تقریر سے اقتباس
ترتیب و تنظیم: سعید علی پٹھان

 انقلاب اسلامی ایران کو 42 برس ہوچکے ہیں، اس انقلاب کے کیا اثرات ہیں اور ہم کس طرح دیکھیں۔ کیوں ہمارا کوئی حصہ بھی نہیں، پھر بھی کامیابیوں کو کیوں دیکھنا چاہتے ہیں۔ کبھی کبھی ہم سونے کو لوہا اور لوہے کو سونا سمجھتے ہیں۔ ہم میں سے کتنے لوگ سمجھتے ہیں کہ ہماری اس 70 برس کی زندگی پر ابدی زندگی کا فیصلہ ہوگا؟ کس کو قدر ہے۔ یہاں کی زندگی سے ابدی زندگی کا تعین ہونا ہے، وہ ایک لاکھ سال کی زندگی نہیں ہے، ایک لاکھ چھوٹا نمبر ہے۔ ابدی زندگی لامحدود زندگی ہے، جس کا اختتام نہیں ہے۔ اس کا شعور کتنے لوگوں کو ہے؟ اگر تھوڑے لوگوں کو بھی علم ہوتا تو دنیا جنت ہوتی۔ اس لئے یہ ہوتا ہے کہ ہاتھ میں سونا ہو تو ہم سمجھتے ہیں لوہا ہے۔ انبیاء کی مثال مقامات مقدسہ ہیں، یہ زمین کے کتنے حصے پر ہیں۔ کربلا کی زمین کتنے رقبے پر ہے، زیادہ سے زیادہ دس ایکڑ پر۔ دنیا کے لاکھوں ایکڑ ہیں مگر مقامات مقدسہ کی حیثیت کتنی ہے۔؟

عرش خدا اس کی مٹی کے صدقہ میں لرز جاتا ہے۔ مرا ہوا بندہ اس مٹی کے صدقہ میں زندہ ہو جاتا ہے۔ دنیا کو قدر کا پتہ ہے۔ ہمارے انبیاء اور ائمہ کی دور والوں یا نزدیک والوں نے قدر کی تھی؟ ہمارے ملک میں تو پہلے مرنا پڑتا ہے، پھر لوگ احترام کرتے ہیں۔ پہلے مارتے ہیں، پھر احترام کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سورہ حجرات میں فرماتا ہے کہ
نبی کے دروازے پر کھڑے ہوکر الٹی سیدھی آوازوں سے مت چلائو، تمہارے اعمال برباد ہو جائیں گے، تم کو پتہ بھی نہیں چلے گا۔ کیوں قدر نہیں کی، کیوں اللہ کی نعمتوں کا شکر نہیں کیا تو عذاب شدید ہوگا۔ دنیا نے کہا کہ مقدسات تباہ کر دو اور نتیجہ دے دو۔ تم نے اگر ناقے کو ہاتھ لگایا تو تین دن سے زیادہ نہیں رہو گے۔ اے اللہ تم اشرف المخلوقات کو دھمکی دے رہا ہے، اس اونٹنی کی خاطر۔ خدا کہتا ہے کہ مجھے یہ غرض نہیں ہے کہ وہ کون ہے۔ مجھے یہ غرض ہے کہ میں نے بھیجی ہے۔ میری بھیجی ہوئی اونٹنی کو ہاتھ لگایا تو تمہاری ساری اشرفیت کو ختم کر دوں گا۔

صفا و مروہ میں مٹی اور پتھر کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ خانہ کعبہ میں حجر اسود کے سامنے سب کو جھکا دیا، میرا ہے۔ اگر کسی کا انساب اللہ سے ہے اور آپ نے بے احترامی کی تو آپ نے گھڑا کھود دیا۔ ایک دفعہ پتہ چل جائے کہ انقلاب اللہ کی طرف سے تھا یا نہیں تھا؟ اگر پتہ چل گیا کہ یہ خدا کی نعمت تھی اور کوئی اگیا اس سے لڑنے پر تو اس کا کام ختم، اس کو سزا اٹھانی پڑے گی۔ اس خاطر یہ اہم ہے۔ ایک ایک چیز اہم ہے۔ منبر بن گیا، اس میں شباہت ہے، پھر اس کا احترام واجب ہے۔ فرانس، امریکا، چین اور روس میں بھی انقلاب آئے۔ ایک بار کام کرتا ہے شہرت کیلئے، ایک بار کام کرتا ہے طاقت کیلئے، میراتھن میں دوڑتا ہے انعام ملا۔ ایک ماں دوڑی اس کا ذکر قرآن میں آگیا۔ اللہ کیلئے آئے، اس کے نظام کی ہدایت کیلئے آئے۔

اللہ کی حجت کیلئے کچھ کرنا ہے تو پھر اللہ کہتا ہے یہ میرا ہے، حتیٰ اللہ کرنے والے کو بھی کہتا ہے کہ یہ تیرا نہیں، میرا ہے اور اس کام کیلئے بصیرت چاہیئے۔ ہم مالک نہیں ہیں، ہم کسی بھی چیز کے مالک نہیں ہیں۔ اگر کوئی کام واقعی اللہ کیلئے ہو تو وہ اللہ کا کام ہو جاتا ہے۔ ماں باپ کو ہم نے سلیکٹ کیا تھا؟ ان کی ذمہ داری ہمارے اوپر ہے یا نہیں. جنت جہنم بھی لرز جائے۔ والدین کی بے احترامی کی، ماں کی دعا سے عرش لرز جاتا ہے۔ تم نے نہیں چنا تھا مگر بھیجے ہوئے میرے ہیں۔ تم ان کے رحم کو پہچانو، تو میرا رحم نازل ہوگا۔ خدا رحیم ہے، زمین پر اس رحیمیت کی مثال ماں باپ ہیں۔ اگر کسی نے ماں باپ کا خیال نہیں رکھا تو اس نے اللہ کی صفت رحمانیت سے برائت کا اظہار کیا۔ میرے مظہر رحمانیت کو تم نے جھٹلایا ہے۔ اس خاطر واضح ہے کہ اللہ کی نعمت سے غفلت نہ کریں، اس کا اثر بہت مشکل ہوتا یے۔

ایک سادہ سی بات ہے، اگر نبی کہے کہ شب اول رجب اہم ہے، جمعہ کا دن خوبصورت ہے تو ائمہ کے اقوال حقیقت کے مظہر ہوتے ہیں۔ شب ماہ رجب اہم ہے۔ ہمارے علماء جذباتی باتیں کرتے ہیں، وہ خدا قبول نہیں کرتا۔ حضرت نوح نے کہا کہ یہ میرے اہل میں سے ہے۔ اللہ پاک نے کہا کہ ایسا نہیں ہے۔ ایک ایک بات پر گرفت ہے۔ خدا کے نظام میں عمل صرف ہاتھ سے نہیں ہے۔ دیکھا، سوچا اور سنا یہ بھی عمل ہے۔ ایک ایک بات کا حساب ہے۔ اگر ہم نے کسی معلوم چیز کے بارے میں کہا کہ معلوم نہیں ہے تو اس بندہ کی وفات کے بعد وہ کسی کی خواب میں آیا کہ اس ایک معلوم نہیں کہنے کیوجہ سے تکلیف میں ہوں۔ ایک ایک لفظ کا حساب دینا ہے۔

یہ انقلاب نور کا طاقتور اسٹور ہے۔ نور کا ذخیرہ ہے، یہ امام خمینی نے ایسے ہی نہیں کہا۔ جتنا نور کے۔ شہید باقر الصدر نے کہا تھا کہ "ذُوبُوا فی الخمینی کما ذاب ھُو فی الاسلام" خمینی میں اس طرح جذب ہو جاٶ، جس طرح وہ اسلام میں جذب ہوچکے ہیں۔ امام خمینی میں ایسے پگھل جائو جیسے وہ اسلام میں پگھل گئے۔ امام حسین علیہ السلام نے فرمایا کربلا کے معرکہ سے دو درس لیں، عزت اور آزادی۔ بے عزتی قبول نہ کریں۔ میں تمہارے ہاتھ میں ذلت کا ہاتھ نہیں دوں گا۔ نہ میں غلاموں کی طرح بھاگوں گا۔ موت کو سعادت کے سوا کچھ نہیں سمجھتا اور تم جیسے پستوں کیساتھ زندگی گزارنے کو ذلت سمجھتا ہوں۔ انقلاب اسلامی نے پیغام دیا کہ عزت حاصل کرو، ذلت میں مت مرو۔ 42 سال بعد دنیا کی پابندیاں اور 8 سالہ جنگ، اب ان کی طاقت اس سطح تک ہے کہ تیل ٹینکر میں ڈال کر امریکا کے ناک کے نیچے وینزویلا تک لے کر جاتے ہیں، امریکا کی جرات نہیں کہ ان کا ٹینکر روکے۔

ان کا مقابلہ اپنے ساتھ کرتا ہوں تو شرم آتی ہے۔ ہم تو 1965ء کی جنگ میں ساتویں بحری بیڑے کے انتظار میں ہیں۔ ایئر کرافٹ کیریئر ٹیکنالوجی کا پیک ہے۔ یہ پانی کا جھاز ہے، جس پر رن وے بنا ہوا ہے اور جس پر سو کے قریب جھاز کھڑے ہوسکتے ہیں۔ ایک میزائل سے اس کا کام پورا۔ ساڑھے چار ہزار ارب گئے اور ساتھ میں ہزاروں فوجی بھی گیے، جب امریکا ایران سے نبرد آزما ہوتا ہے تو میزائل حملہ کے ڈر کیوجہ سے کہیں شفٹ کر دیتا ہے۔ شہید باقر النمر کہتے تھے کہ سعودی حکمران کہتے ہیں کہ ایران اژدھے کا سر ہے۔ اگر یہ اژدھے کا سر ہے جائو کچل کر دکھائو۔ تاریخ کامل ابن اثیر کی روایت ہے کہ حضرت سلمان فارسی نبی اکرم کے پاس آئے۔ نبی اکرم نے عربوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ایک وقت آئیگا کہ تمہارے ہاں سے علم اڑ جائیگا اور علم اس کی قوم کے پاس ہوگا، پوری دنیا ان کو علم حاصل کرنے سے روکے گی، مگر یہ حاصل کرکے رہیں گے، چاہے علم ثریا ستارے پر رکھا ہوا ہو۔

میزائل ٹیکنالوجی، ایٹمی ٹیکنالوجی، سیٹلائٹ ٹیکنالوجی، نینو ٹیکنالوجی، روبوٹکس نہیں لینے دیں گے۔ جہنم میں گئی ساری دنیا انہوں نے حاصل کر لیا۔ ہم لوگوں نے ظلم کیا۔ نالائق حکمرانوں نے کہاں سے کہاں پہنچایا۔ بہت افسوس ہوتا ہے پاکستان پر، 1960ء کی دہائی میں پاکستان اور سائوتھ کوریا ساتھ تھے، ہم کہتے تھے کہ پاکستان سائوتھ کوریا کو ہرائیگا۔ پاکستان آگے جائیگا 1990ء میں اس وقت پاکستان کی جی ڈی پی ایک ہزار ڈالر اور سائوتھ کوریا کی جی ڈی پی 24 ہزار ڈالر تھی۔ 24 گنا کا فرق ہے۔ 90 کے عشرے میں بیڑا غرق ہوگیا، 30 برس میں بیڑا غرق ہوگیا۔ اسلامی دنیا میں ہم نے سب سے پہلے ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل کی تھی۔ امریکا کی عدالت میں بدبخت لائیر آکر کہتا ہے کہ پاکستانی ڈالروں کے لئے اپنی ماں کو بیچ دے گا، یہ ہم نے بے عزتی کیوں کروائی۔

ہم میں اور ان میں کمی تھی حسینیت کی۔ جو باتیں اللہ کی بندگی اور علم عرفان کی پڑھتے تھے، وہ ہیڈ آف اسٹیٹ کہنے لگا۔ ہدف تزکیہ نفس اور قربتہ الا للہ ہے۔ انبیاء کا ہدف تزکیہ نفس ہے۔ پوری دنیا کے لوگ تزکیہ نفس کریں۔ رہبر کی کوئی تقریر تزکیہ نفس کے بغیر نہیں ہوتی۔ انہوں نے علم سیاست کے میدان میں اہم چیزیں رکھیں۔
گائوں دیہات کے لوگ علم عرفان لینے لگے۔ بندہ خدا س ل م ا ن ی اس مقام پر پہنچ گئے۔ 50 برس دعا سلامتی، دعا کمیل کا پتہ نہیں تھا۔ دعائے ندبہ پہلی بار 1984ء میں پڑھی۔ اس انقلاب نے بڑے بڑے نام سکھائے۔ اللہ کی بندگی کو عملی طور پر پیش کیا۔ اب اللہ پر توکل نظر آرہا ہے۔ چیلنجز اب بھی ہیں اور امام زمانہ آئیں گے تو دنیا جنت بنے گی۔ قاسم سلمانی نے کہا اگر خدا کا قرب چاہیئے تو اس سید کا ساتھ دیں۔ یہ حساس معاملہ ہے، یہ اللہ نبی اور آئمہ کی نشانی بن گئے ہیں۔

سید علی خامنہ رہبر بننے سے پہلے آٹھ برس ملک کے صدر رہے۔ 32 برس سے ایران کے رہبر ہیں۔ اگر کوئی بندہ 32 سال کوئی کام کرے تو کتنا ماہر ہوگا۔ اگر یہ سب خدا کیلئے ہے تو معنویت کہاں پہنچ گئی ہے۔ حدیث ہے کہ اگر ایک بندہ ہدایت پا جائے تو زمین و آسمان کی ان تمام چیزوں سے بہتر ہے، جن پر سورج چمکتا ہے۔ خانہ کعبہ پر ابرہا نے حملہ کیا اور اس کی فوج نبی اکرم کے دادا حضرت عبدالمطلب کے اونٹ لے گئی۔ حضرت عبدالمطلب ابرہا سے ملے اور کہا کہ میرے اونٹ تمہارے فوجی چھین کر لے آئے ہیں۔ ابرہا نے کہا کہ اونٹ لینے آئے ہو؟ میں نے سمجھا کہ تم خانہ کعبہ کیلئے امان لو گے۔ مکہ کے لوگوں کیلئے امان لینے آئے ہو۔ حضرت عبدالمطلب نے کہا  کہ میں اونٹوں کا مالک ہوں، وہ لینے آیا ہوں اس گھر کا مالک خود اس کی حفاظت کرے گا۔ اگر خدا کیلئے کر رہے ہو تو خود خدا سنبھال لے گا۔
 
امام حسین (ع) کا غم مستقل ہے، اس کا موازنہ ہی نہیں ہوسکتا۔ ہمیں دنیا میں جو غم ملے، ان میں ایک غم امام خمینی کی وفات تھی اور دوسرا میرے بیٹے کی جدائی تھی۔ اس وقت کچھ طے نہیں تھا کہ امام خمینی کا جانشین کون ہوگا۔ خداوند نے شہداء کے خون، قربانیوں اور خلوص کے صدقے میں اس انقلاب کو جاری رکھا۔ ہم اونٹوں کے مالک ہیں۔ میں گاڑی کا مالک ہوں، کہوں گا کہ اس کو پارک کرو، خیال رکھو کوئی نقصان نہ ہپہنچائے۔ میں اس کی پرواہ نہیں کر رہا کہ وہاں کیا ہوگا۔ اس کا اپنا رب ہے۔ آپ اس کی پرواہ کرو کہ ہم اس سے بے وفائی نہ کریں۔ ہم کو اس سوال کا جواب دینا ہوگا۔ ان تمام باتوں کے بعد ہماری ذمہ داری کیا ہے، پہلی بار کوئی کام ہماری آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہو اور ہم کہیں کہ "سانوں کی" مجھے کیا۔ یہ کفران نعمت کی بڑی شکل ہے۔ پانی کا نلکہ بہہ رہا ہے اور ہم دیکھتے رہیں۔ اس کا بھی جواب دینا ہے۔ اللہ کی نعمت بہتی رہے اور تم تماشہ دیکھتے رہے، کہو مجھے کیا؟ اللہ گردن سے پکڑ لے گا۔

"كُلُّكُمْ رَاعٍ وَ كُلُّكُمْ مَسْؤُوْلٌ" تم میں سے ہر آدمی ذمہ دار ہے۔ امر بالمعروف کا کم سے کم درجہ قلب سے تھا۔ واجب ہے امر بالمعروف۔ فلسطین، کشمیر میں مظلوم  مرے، یہ ہمارا مسئلہ اور ذمہ داری ہے۔ امام علی علیہ السلام کا فرمان ہے کہ
"کونا للظّالم خصماً و للمظلوم عوناً" ظالم کے دشمن بن جائو اور مظلوم کے مددگار۔ اگر کوئی کہے کہ ایران نینیو ٹیکنالوجی میں آگے آگیا تو ہمیں کیا ملے گا۔ اگر اسلام کا پرچم بلند ہوگا تو تم کو کچھ ملے گا یا نہیں۔ اللھم انصر اسلام و اہل، اللهم انصر جیوش المسلمین و عساکر الموحدین فی مشارق الارض و مغاربها۔ تم تو پاکستان میں رہ رہے تھے اور مشارق و مغارب میں اسلام کی فتح کے نعرے کیوں لگا رہے تھے۔ جو کرسکتے ہو کرو۔ اینٹ کھسکانے کے برابر کرسکتے کرو۔ کل شاید خدا اس پر سوال کر لے۔ ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ اپنی توانائیوں کو بھرپور استعمال کریں۔ دین، مسلمانوں کی عزت کا سبب بنیں۔ جوان اپنا وقت ضائع نہ کریں۔ تم نے اپنے ٹیلنٹ کو استعمال نہیں کیا۔ کیوں تم نے زندگی ضائع کی۔ ہم پاکستان میں مسلمانوں ہونے کے ناطے مضبوط ہونگے تو اسلام کی طاقت میں اضافہ ہوگا۔ اگر ہم پاکستان کے اندر اپنے پائوں پر کھڑے ہوں اور استعماری طاقتوں کے آگے سر جھکانا چھوڑ دیں تو اسلام کی عزت بڑھے گی۔

لبنان نے ہم پر حجت تمام کر دی۔ انہوں نے کافروں کو کیسا لرزایا۔ انہوں نے اپنے انسانوں کو شعور دیا کہ ہدف کیا ہے۔ شادی پر نام و نمود اور دکھانے پر خرچ کرتے ہیں۔ لبنان کا ایک جوان معرکے میں گیا، اس کی ٹانگ ضائع ہوگئی تو اس کی شادی ہونی تھی، وہ اپاہج ہوگیا۔ اب لڑکی سے پوچھا گیا کہ اس سے شادی کرو گی۔ مومنہ نے کہا جو شادی تین مہینے بعد ہونی تھی، وہ اب کروں گی، تاکہ اس کی تیمارداری کروں۔ میں نے اس کو مجاہد ہونے کیوجہ سے چنا تھا، میں اس سے ہی شادی کرونگی۔ اپنی صلاحیتوں کو پہچانیں۔ منصوبہ بنائیں، اپنی زندگی کو ضائع مت کریں۔ ہماری زندگی کا مقصد ہونا چاہیئے۔ ہماری زندگی کا اثر ہونا چاہیئے۔ ٹوٹی پھوٹی زندگی گزار کر چلے جائیں، جس کا کوئی فائدہ نہ ہو، اس کو اہلبیت پسند نہیں کرتے۔ رجب کی دعائوں میں شہادت مانگی گئی ہے، تاکہ زندگی کا نتیجہ نکلے۔ بے ہدف ضائع نہ ہوں۔ انقلاب نے زندگیوں کو مقصدیت دی۔
خبر کا کوڈ : 916546
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش