0
Tuesday 16 Feb 2021 23:30

پاکستان کا سیاسی منظر نامہ، الزامات اور خدشات کے گہرے بادل

پاکستان کا سیاسی منظر نامہ، الزامات اور خدشات کے گہرے بادل
تحریر: ارشاد حسین ناصر

پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت کو برسر اقتدار آئے پونے تین سال ہوچکے ہیں، کیسے کیسے خواب تھے جو ان ٹائیگرز کے آنے سے پہلے عمران خان کی صلاحیتوں کو بیان کرتے ہوئے عوام کو جلسوں میں ناچنے پر مجبور کر دیتے تھے، مگر اتنا عرصہ گذر جانے کے بعد بدقسمتی سے ابھی تک عوام کو کسی بھی قسم کا کوئی معمولی سا ریلیف بھی نہیں دیا گیا۔ مہنگائی اپنے بام عروج پر ہے، قیمتوں پر کسی بھی قسم کا کوئی کنٹرول نہیں، روز مرہ کے استعمال کی اشیاء حتیٰ سبزیاں خریدنا محال ہو چلا ہے، ادرک ایک ہزار کلو اور ٹماٹر و آلو سو سے اوپر جا چکے ہیں، جبکہ چینی نے بھی سو کا ہندسہ کراس کیا ہے۔ حکومت نے چینی درآمد کی تھی، اس کے باوجود چینی کا بحران سامنے آیا، اب جب کرشنگ سیزن چل رہا ہے، ابھی بھی چینی کی قیمت مسلسل بڑھ رہی ہے۔ چینی اور گندم کا سکینڈل آیا تو اس پر کمیشن بن گئے، تحقیقاتی کمیشن میں بعض اہم حکومتی لوگوں سمیت بہت سے نامور لوگ مافیاز کی شکل میں بے نقاب ہوچکے ہیں، اس کے باجود ان پر ہاتھ نہیں ڈالا گیا۔

دوسری طرف حکومت کی تمام تر نالائقیوں اور سکینڈلز کے باوجود اپوزیشن کسی بڑی عوامی تحریک کو چلانے میں کامیاب دکھائی نہیں دی، بلکہ بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق اس حوالے سے عوام کو اپوزیشن سے بھی مایوسی ہوئی ہے، جو کہ اس ملک کی بدقسمتی کہی جا سکتی ہے۔ اگرچہ اپوزیشن نے اپنے اتحاد پی ڈی ایم کے ذریعے جلسے اور ریلیاں نکالی ہیں اور مارچ کے آخر میں اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا اعلان بھی کیا ہے مگر عوام کو اپوزیشن سے مایوسی ہی ملی ہے، جس کی کئی ایک وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ان میں اپوزیشن جماعتوں کی باہمی مفادات کے حصول کی سیاست بھی ہے، جو سب کے سامنے ہے کہ بہت سے معاملات طے کرنے اور اعلان کرنے کے باوجود اپوزیشن نے اپنے قدم پیچھے کو ہٹائے ہیں، جس سے ان کا اعتماد بہرحال خراب ہونا فطری ہے۔

جیسے استعفوں کی بات کی گئی تھی مگر ابھی تک ایسا کوئی ارادہ نظر نہیں آتا بلکہ انہی اسمبلیوں جنہیں وہ جعلی کہتے ہیں، ان سے ووٹ لیکر سینیٹ میں اپنے اراکین پہنچانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ سینیٹ کے انتخابات کا وقت قریب آتے آتے اس سے متعلق سیکنڈلز بھی کھل رہے ہیں، پہلے اوپن بیلٹ کے حوالے سے صدارتی آرڈیننس جاری کرنے اور سپریم کورٹ کو اس کے ذریعے پریشرائز کرنے کے الزامات اور اب گذشتہ الیکشنز میں پی ٹی آئی اراکین صوبائی اسمبلی اور پاکستان پیپلز پارٹی کے بعض اراکین کی سینیٹ انتخابات میں اپنے ووٹوں کے عوض بھاری رقوم کم از کم تین کروڑ لینے کی ویڈیوز اب ٹی وی سکرینز پر بھی دیکھی گئی ہیں۔ یہ ایک انتہائی گھٹیا اور تکلیف دہ عمل ہے، جو کسی بھی طرح جمہوری قوتوں کیلئے نیک فال نہیں، مگر کیا کیا جائے کہ ایسی چھانگا مانگا سیاست کی بنیاد میاں نواز شریف کے کھاتے میں ڈالی جاتی ہے۔

ان ویڈیوز میں اگرچہ حکمران جماعت کے نمائندگان کی تعداد سب سے زیادہ ہے مگر پی ٹی آئی کا یہ موقف بھی ہے کہ ہم اسی کو روکنے کیلئے یہ آرڈیننس لائے ہیں اور ہم نے تو اپنے نمائندگان کو نکال کر سزا دے چکے ہیں، دوسری جماعتیں نہیں چاہتیں۔ بہرحال منتخب قومی نمائندگان کے سر عام بکنے کی یہ ویڈیوز کلی طور پر جمہوری قوتوں کیلئے باعث شرمندگی ہیں، اب دیکھیں کہ آئندہ آنے والے سینیٹ الیکشن پر اس کے اثرات کیا ہونگے۔؟ پاکستان کی سیاست کے رنگ بہت ہی نرالے ہیں، جو ہمیں اس طرح کے لوگ دکھاتے رہتے ہیں۔ بیچاری عوام ایک ایک آنے کو ترس رہی ہے، ایک ایک نوالہ کیلئے مری جا رہی ہے، بھوک، ننگ اور افلاس کے بادل گہرے ہوتے جا رہے ہیں تو دوسری طرف قومی دولت کی لوٹ مار اور پھر نعرے احتساب کے، تبدیلی کے اور نا جانے کیسے کیسے دعوے اور وعدے۔ تین سال ہونے کو آئے ہیں، موجودہ حکمرانوں کے پاس بس ایک سال اور ہے، اس کے بعد اگلے الیکشن کی تیاری۔

مگر مسائل کے انبوہ، وعدوں کی گتھیاں سلجھائے نہیں سلجھ رہیں اور مایوسیوں کے خدشات، ایسے میں حکومتی معاملات اور کرپشن، چاہے حکمرانوں کی ہو یا اپوزیشن کی، اس سے کسی کو کیا دلچسپی اور کون نکلے ان مسائل کو لیکر باہر۔ لہذا راوی چین ہی چین لکھتا رہیگا اور ہم کولہو کے بیل کی طرح آنکھوں پہ پٹی باندھے چلتے رہینگے، اسی باسی نظام اور کرپٹ سیاستدانوں کی مارا ماری میں۔ اس وقت ملکی سیاست، صحافت اور سماج میں سینیٹ الیکشن کا دھوم دھڑکا ہے اور ہر ایک اس کھیل میں اپنا حصہ وصول کرنے بلکہ اپنے حصے سے زیادہ وصول کرنے کیلئے بھاگ دوڑ کر رہا ہے۔ ہمارے مستقبل کے سیاسی منظر نامہ میں سینیٹ کا یہ الیکشن بہت گہرا اثر ڈالے گا۔ دیکھیں کس کی چالیں کامیاب ہوتی ہے، کون سیاست کا گروگھنٹال بن کے چھاتا ہے۔

مسلم لیگ نون کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کی اصل قیادت یا تو بیرون ملک ہے یا پھر نیب کی عدالتوں کے فیصلوں کی روشنی میں جیلوں میں۔ ایک اچھی بات ہے کہ پی ڈی ایم نے اپنے امیدواران کو مشترکہ طور پر کھڑا کیا ہے، اب اصل بات یہ کہ جو جس پارٹی کا امیدوار ہے، اس کو اس پارٹی کے ووٹ بھی ملتے ہیں یا نہیں۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ ووٹ بک سکتے ہیں اور یہ دونوں طرف خدشات موجود ہیں۔ ویسے عجیب طرفہ تماشا ہے کہ یہاں سب ہی نام بانی پاکستان کا لیتے ہیں، نام ریاست مدینہ کا لیا جاتا ہے اور نام جمہوریت و تبدیلی کا لیا جاتا ہے مگر بدلتا صرف چہرہ ہے۔ ایک زمانے میں مرحوم اصغر خان کی پارٹی تحریک استقلال ہوا کرتی تھی، جس کا نعرہ تھا کہ چہرہ نہیں نظام کو بدلو، لوٹ گھسوٹ کے نظام کو بدلو۔ حقیقت میں چوہتر برسوں سے بیچارے عوام دھوکہ و فریب کا شکار چلے آ رہے ہیں۔ ہر چیز یہاں دو بلکہ کئی کئی نمبرز والی ہے۔ اصلی تو جب ہوگی جب بندے اصلی ہونگے، یہ بونے اور چھوٹے قد کے لوگ جب بڑے بڑے فیصلوں کی مسند پر بٹھائے جاتے رہینگے تو ملک کا یہی حال رہیگا۔

اس ملک کو حقیقی طور پر دیانتدار اور اعلیٰ ظرف باشعور قیادت کی ضرورت ہے، جو دور دور تک دکھائی نہیں دے رہی۔ خاندانی بادشاہتیں اور وراثتی نظام میں یونہی چکر کٹتے رہیں گے۔ ہاں ہم سمجھتے ہیں کہ اگر ملک کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں سیاست، ملکی نظام سیاست اور پارلیمانی نظام پر بات ہو، سیاسی قیادت وراثتی کے بجائے ملک کا مستقبل اور مڈل کلاس کے لوگ طلباء سیاست سے سامنے آئیں تو شائد بہتری کا کوئی منظر نظر آجائے، ملک میں طلباء سیاست کا ریکارڈ اگرچہ کچھ اچھا نہیں مگر دنیا کے رجحانات اور تجربوں پر عمل درآمد کیا جائے اور تعلیمی اداروں میں یونین سازی اور الیکشن کرائے جائیں، جو ہمارے یوتھ کو ایک تربیتی مرحلہ کے طور پر لازمی سمجھا جائے تو بہتری کی گنجائش نکل سکتی ہے۔ پاکستان کی تمام سیاسی و دینی طلباء تنظیموں کا مشترک مطالبہ بھی یہی ہے کہ ملک کے مستقبل کو بہتر بنانے کیلئے طلباء یونین اور طلباء الیکشن کو بحال کیا جائے۔
خبر کا کوڈ : 916667
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش