QR CodeQR Code

کمزور ہوتی امریکی جمہوریت اور اسکی برآمد

18 Feb 2021 16:48

اسلام ٹائمز: امریکی نظام کا یہ نقص خود امریکہ کیلئے بھی بڑا نقصاندہ ثابت ہوا ہے، اختیارات کے بے لگام استعمال نے امریکہ کو اتنا پیچھے دھکیل دیا کہ آج چین کی یورپی یونین کو برآمدات امریکہ سے بڑھ گئی ہیں۔ یہاں ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ اس نظام کے برآمد کرنے میں کیوں دلچسپی رکھتا ہے؟ جو وہ خود امریکہ میں ماڈل صورت میں قائم نہیں کرسکا۔ اسے آج بھی معاشی عدم مساوات، معاشرتی تفریق، دنیا میں بدامنی اور افراتفری کا ذمہ دار خیال کیا جاتا ہے۔ دنیا بھر کا خون چوس کر وسائل اکٹھے کرنے کے باوجود امریکی صدر اسے کمزور جمہوریت کا نام دیتا ہے تو وہ کیوں بضد ہے کہ ہم اسے دنیا بھر میں برآمد کرینگے۔


تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

چند سال پہلے کی بات ہے کہ علمی تحقیقی ادارے البصیرہ نے اسلام آباد میں امت مسلمہ کے مسائل اور ان کے حل کے لیے ایک نشست کا اہتمام کیا۔ اس نشست میں اہل علم نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا، جس میں تعلیم سے لے کر کرپشن تک سب مسائل پر تفصیلی اظہار خیال کیا گیا۔ پروگرام کے آخر میں معروف کشمیری رہنماء مرحوم خواجہ شجاع عباس صاحب کی باری آئی، انہوں نے انتہائی مختصر بات کی اور کہا کہ امت پر حاکم نظام کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم ابھی تک یہ طے نہیں کرسکے کہ ہمارے نظام میں انتقال اقتدار کیسے ہوگا؟ یعنی مسلم ممالک میں اکثر جگہوں پر یہی جھگڑے ہیں اور اسی وجہ سے عدم استحکام ہے۔ کچھ لوگ اقتدار سے چمٹ کر بیٹھے ہوئے اور اترنے کا نام نہیں لیتے، ایسے میں کچھ قوتیں ان کے مقابل آتی ہیں اور یوں افراتفری اور غیروں کو اپنے پتے کھیلنے کا موقع مل جاتا ہے۔ انہوں نے شائد دو منٹ میں اپنی بات مکمل کی جو انتہائی مختصر وقت تھا۔

مجھے یاد ہے کہ ثاقت اکبر صاحب نے ان کے خطاب پر حاشیہ لگایا تھا کہ بڑے سکالرز بڑے مسائل پر ہی بات کرتے ہیں اور چھوٹے مسائل میں نہیں الجھتے۔ اس وقت یہ بات آئی گئی ہوگئی، مگر میں نے اس پر بہت سوچا، واقعاً یہ ہمارا بہت بڑا مسئلہ ہے اور اکثر جگہوں پر تبدیلی اقتدار تسلیم شدہ مسئلہ نہیں ہے۔ ایک جماعت اسی فیصد ووٹ حاصل کر لیتی ہے، پھر بھی افراتفری کا ماحول ہی رہتا ہے۔ آج امریکی نظام کو دیکھتا ہوں تو وہ بھی تیسری دنیا کے غیر مستحکم معاشروں کی طرح پسماندگی کا شکار اور مسائل کی زد میں نظر آتا ہے۔ امریکہ میں انتخابات ہوتے ہیں اور عہدہ صدارت پر موجود شخص انہیں تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے۔ جب نتائج تسلیم کرنے کے سوا چارہ نہیں رہتا تو کہتا ہے کہ میں اقتدار منتقل نہیں کروں گا۔ جب اقتدار کی منتقلی کے ریاستی ادارے حرکت میں آتے ہیں تو عوامی حملوں کا خوف قائم کر دیا جاتا ہے اور بظاہر پورے نظام کو  چیلنج کیا جاتا ہے۔

پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ ریاست کی علامت عمارات پر کیپیٹل ہلز میں حملہ کر دیا جاتا ہے، جس میں پانچ افراد ہلاک ہو جاتے ہیں اور امریکی سینیٹ میں سفید فام انتہاء پسند دندناتے پھرتے ہیں۔ یہ اس حد تک آگے بڑھ جاتے ہیں کہ ایک سینیٹر اور سابق امریکی نائب صدر بمشکل ان سے بچ پاتے ہیں۔ یہ امریکی ریاست کی بین الاقوامی تضحیک تھی اور اس نظام کے کھوکھلے پن کا  اظہار تھا، جسے پوری دنیا نے لائیو دیکھا۔ یہ سب اس بات کا عملی اظہار تھا کہ پرامن انتقال اقتدار کی روایت  زیر سوال ہے اور اب امریکی نظام اس کی صلاحیت اگر کھو نہیں چکا تو کمزور ضرور کر چکا ہے۔ اس حملے میں ڈونلڈ ٹرمپ کے ملوث ہونے اور شہ دینے کی بات ہوئی، جس پر ان کے خلاف سینیٹ میں مقدمہ چلایا گیا، اگرچہ وہ دس ووٹ کم ملنے کی وجہ سے مقدمے سے بچ گئے، مگر یہ مقدمہ کئی پیغام چھوڑ گیا۔

پانچ دن تک مسلسل بحث کے بعد جب صدر ٹرمپ کو بری کیا گیا تو امریکہ کے موجودہ صدر جو بائیڈن نے کہا کہ امریکی جمہوریت ابھی کمزور ہے۔ میرے خیال میں اعتراف یہ ہونا چاہیئے تھا کہ امریکی نظام بوسیدہ ہوچکا ہے اور یہ انصاف فراہم کرنے کی صلاحیت سے عاری ہے۔ ایسا نظام جو اس بات کی صلاحیت نہیں رکھتا کہ اپنے ایک طاقتور صدر کا مواخذہ کرسکے اور اس سے بازپرس کرسکے کہ ایسا کیوں ہوا؟ کہ ان کی تقریر کے بعد ہوئے حملے میں پانچ افراد مارے گئے۔ اس کو تو چھوڑیں، امریکی صدر نے پراوڈ بوائے نامی گروپ کی مذمت کرنے سے بھی انکار کر دیا تھا، جو نسلی امتیاز پر یقین رکھتا ہے اور افریقن امریکنز کے خلاف نفرت انگیز رویئے رکھتا ہے۔ کچھ امریکی ماہرین نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ امریکی صدر کے اختیارات بہت زیادہ ہوتے ہیں،  اس لیے وہ الیکشن ہارنے کے بعد تک بھی بہت کچھ کرسکتا ہے۔

ان اختیارات کو ریویو کرنا بہت ضروری ہے کہ کہیں ایسے حالات میں امریکی صدر کوئی ایسا اقدام کرنے کا حکم نہ دے دے، جو امریکی ریاست اور دنیا کے لیے خطرناک ہو۔ اگر امریکی نظام کا مطالعہ کیا جائے تو امریکی صدر ریاست کے اوپر ریاست ہوتا ہے، وہ ہر چیز کو ویٹو کرسکتا ہے اور اسے ہر چیز سے تحفظ بھی حاصل ہوتا ہے۔ ایک الیکشن ہارا ہوا شخص بدلے میں آکر کچھ بھی کرسکتا ہے۔ اتفاق کی بات ہے کہ  سیاستدان ایسا کہتے اور کرتے رہتے ہیں۔ خود امریکی صدر ٹرمپ نے اپنے جیتنے والے الیکشن سے پہلے کہا تھا کہ ڈیموکریٹس ایران پر حملہ کرسکتے ہیں، تاکہ الیکشن جیت سکیں۔ اب ایک ملک پر حملہ صرف اپنے سیاسی مقاصد کے لیے بہت بڑا ظلم ہے اور امریکی نظام میں بہت بڑا نقص ہے۔ اسی طرح دنیا کی بڑی طاقتوں نے ملکر سالوں مذاکرات کے بعد ایک معاہدہ کیا اور امریکی صدر نے اسے تہس نہس کر دیا۔

اب اس کے فیصلے کے سامنے اقوام متحدہ بھی بھیگی بلی بنی ہوئی ہے اور کچھ نہ کرسکی۔ امریکی نظام کا یہ نقص خود امریکہ کے لیے بھی بڑا نقصان دہ ثابت ہوا ہے، اختیارات کے بے لگام استعمال نے امریکہ کو اتنا پیچھے دھکیل دیا کہ آج چین کی یورپی یونین کو برآمدات امریکہ سے بڑھ گئی ہیں۔ یہاں ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ اس نظام کے برآمد کرنے میں کیوں دلچسپی رکھتا ہے؟ جو وہ خود امریکہ میں ماڈل صورت میں قائم نہیں کرسکا۔ اسے آج بھی معاشی عدم مساوات، معاشرتی تفریق، دنیا میں بدامنی اور افراتفری کا ذمہ دار خیال کیا جاتا ہے۔ دنیا بھر کا خون چوس کر وسائل اکٹھے کرنے کے باوجود امریکی صدر اسے کمزور جمہوریت کا نام دیتا ہے تو وہ کیوں بضد ہے کہ ہم اسے دنیا بھر میں برآمد کریں گے۔


خبر کا کوڈ: 916994

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/916994/کمزور-ہوتی-امریکی-جمہوریت-اور-اسکی-برا-مد

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org