QR CodeQR Code

حزب اللہ کے خلاف ایک اور سازش

19 Feb 2021 09:44

اسلام ٹائمز: سعد حریری کو ٹیکنو کریٹ حکومت کی تشکیل کا راستہ دکھانے والے سمجھتے ہیں کہ اس طرح حزب اللہ کی عوام میں مقبولیت میں کمی آئے گی اور وہ ختم ہو جائیگی نیز پھر اس سے کوئی بھی بات منوانا آسان ہو جائیگا۔ حزب اللہ کی مقبولیت اور ہر دلعزیزی کے پیچھے اسکے الہیٰ نظریات ہیں، جن پر حزب اللہ نے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ حزب اللہ کا سیاسی عمل اسکے نظریات کے تابع ہے، اس نے ماضی میں بھِی اور اب بھِی اسرائیل مخالف اپنے موقف کو کبھی نظرانداز نہیں کیا۔ اسقامت و مقاومت کے راستے پر چلنے کو اپنا نصب العین قرار دیا ہے، وہ حکومتوں میں شامل ہوئی تو اسکو اپنا ہم و غم نہِیں بنایا بلکہ بعض اوقات سیاسی میدان میں وزارتیں اور عہدے نہ لیکر اپنے موقف کو آگے بڑھایا۔


تحریر: ڈاکٹر راشد عباس

لبنان میں جب سے استقامت و مقاومت کا بلاک مضبوط ہوا اور حزب اللہ ایک مضبوط سیاسی جماعت کے طور پر لبنان کے سیاسی دھارے میں شامل ہوئی ہے، حزب اللہ اور لبنان کے خلاف سازشوں میں اضافہ ہوگیا۔ لبنان اگرچہ ہمیشہ سے سامراجی سازشوں کا شکار رہا اور اس کی بنیادی وجہ بھی اس کا اسرائیل کا ہمسایہ ہونا ہے۔ لبنان میں جب شامی فورسز موجود تھیں تو اس وقت امریکہ اور دیگر ممالک کی کوشش یہ تھی کہ کسی نہ کسی طریقے سے شامی فورسز کو لبنان سے نکال دیا جائے۔ اس ہدف کی تکمیل کے لیے لبنان کے وزیراعظم رفیق حریری کو قربانی کا بکرا بنایا گیا اور انہیں ایک دھماکہ میں مروا دیا گیا۔ رفیق حریری کے قتل کے بعد لبنان میں ہمیشہ سیاسی عدم استحکام رہا۔ مثال کے طور پر یا تو انتخابات بروقت نہ ہو پائے اور اگر انتخابات منعقد ہوگئے تو حکومت کی تشکیل کے راستے میں روڑے اٹکائے گئے۔ گذشتہ چند عشروں میں حکومتیں آتی جاتی رہیں لیکن سیاسی استحکام لبنان کے نصیب میں نہ آسکا۔

4 اگست 2020ء کے ہولناک دھماکے نے ایک بار پھر لبنانی سیاست کو مختلف چیلنجوں سے دوچار کر دیا۔ یہ دھماکے لبنانی وزیراعظم کے استعفیٰ اور بیرونی طاقتوں بالخصوص فرانس کی کھلم کھلا مداخلت کا سبب بنے۔ وزیراعظم حسن وہاب کے استعفیٰ کے بعد سیاسی خلا کا پیدا ہونا فطری امر تھا، لہذا لبنان مین ایک بار پھر وزیراعظم کے منصب کے لیے جنگ تیز ہوگئی۔ سعد حریری پر پارلیمنٹ متفق ہوئی، لیکن سعد حریری کے لیے بھی نئی کابینہ کی تشکیل آسان امر نہ تھا، لہذا اس نے بیرونی اشاروں پر ہاتھ پائوں مارنے شروع کر دیئے۔ لبنان کے سابق وزیراعظم اور لبنان کی موجودہ کابینہ کی تشکیل کے لیے سرگرم سعد حریری مختلف ممالک کے دورے کر رہے ہیں اور ان کے ان دوروں پر لبنان کے مختلف حلقوں کی طرف سے کڑی تنقید کی جا رہی ہے۔ سعد حریری نے دسمبر 2020ء سے اپنے بیرونی دورہ جات کا آغاز کیا ہے، وہ پہلے متحدہ عرب امارات کے دورے پر گئے اور پھر جنوری 2021ء میں انھوں نے ترکی کا دورہ کیا۔ فروری کے مہینے میں انھوں نے قطر اور مصر کا دورہ بھی کیا۔

سعد حریری ایسے حالات میں مختلف ممالک کے دورے کر رہے ہیں کہ وہ ابھی باقاعدہ اور آئینی لحاظ سے وزیراعظم قرار نہیں دیئے جا سکے، البتہ انہیں کابینہ کی تشکیل کا اختیار دیا گیا ہے، جب تک وہ اپنی کابینہ کی تشکیل مکمل نہیں کریں گے، وہ وزیراعظم کا منصب اختیار نہیں کرسکتے۔ بعض تجزیہ کاروں کا یہ کہنا ہےکہ ان کے دوروں کا مقصد اپنی کابینہ کے افراد کے لیے ان ممالک سے مشورہ کرنا ہے، جس سے ان کے مخالفین یہ کہہ رہے ہیں کہ سعد حریری لبنان کے داخلی مسئلے یعنی کابینہ کی تشکیل کو ایک بین الاقوامی مسئلہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حزب اللہ کے سربراہ نے اپنے منگل کی تقریر میں سعد حریری کے ان اقدامات پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان اقدامات سے لبنان کا سیاسی بحران مزید پیچیدہ ہو جائے گا۔ سید حسن نصراللہ نے لبنان کی کابینہ کے بین الاقوامی بنانے کو جنگ کی دعوت سے تعبیر کیا ہے۔ سید حسن نصراللہ نے اس بات پر تاکید کی ہے کہ ہمیں ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ بعض گروہ بیرونی ممالک کی مدد سے اپنی طاقت و قوت کا اظہار کر رہے ہیں اور یہ نئے انداز کا بیرنی قبضہ ہے، جو لبنان کے اقتدار اعلیٰ کے خلاف ہے۔

سعد حریری سے اکتوبر 2020ء میں کابینہ کی تشکیل کا کہا گیا تھا، اب جبکہ چار ماہ ہونے کو ہیں، نئی کابینہ کی تشکیل کے سلسلے میں کوئی پیشرفت نظر نہیں آ رہی بلکہ کابینہ کی تشکیل کا مسئلہ مزید تاخیر کا شکار ہوسکتا ہے۔ المستقبل دھڑے کے سربراہ سعد حریری بعض عرب ممالک اور ترکی کی مدد سے نئی کابینہ تشکیل دینا چاہتے ہیں۔ سعد حریری اپنے دوروں سے ایک طرف عرب ممالک اور ترکی کے سربراہوں سے لبنان کے صدر میشل عون پر دبائو بڑھانا چاہتے ہیں اور دوسری طرف وہ ان ممالک سے مالی امداد لے کر لبنان کے اندر اپنی سیاسی مقبولیت اور اپنی جماعت کو مضبوط بنانے کے خواہش مند ہیں۔ قطر نے لبنان میں ثالثی کا کردار ادا کرنے کی حامی بھری ہے۔ قطر اس سے پہلے بھی 2008ء میں لبنان کے داخلی گرہوں میں کشیدگی ختم کرانے میں اپنا کردار ادا کرچکا ہے۔

لبنان میں نئی کابینہ کی تشکیل کے بارے میں دو طرح کی آراء پائی جاتی ہیں۔ سعد حریری اور ان کے حامی ٹینکو کریٹ افراد پر مشتمل کابینہ کی تشکیل کے خواہشمند ہیں، جس میں کسی سیاسی جماعت اور گروہ کا کوٹہ اور نمائندگی موجود نہ ہو۔ دوسری طرف حزب اللہ اور لبنان کے صدر میشل عون ٹیکنوکریٹ حکومت کے مخالف ہیں، کیونکہ اس سے عوام میں سیاسی گروہوں اور جماعتوں کی سیاسی حیثیت ختم ہو کر رہ جائے گی۔ حزب اللہ کا بھی یہی کہنا ہے کہ بیرونی اشاروں پر ٹیکنوکریٹ حکومت بنا کر حزب اللہ اور استقامت کے بلاک کو سیاسی دھارے سے باہر نکالنے کی سازش ہے۔ امریکہ، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور غاصب اسرائیل عرصے سے اس موقع کی تلاش میں ہیں کہ لبنان میں استقامت کے بلاک کی عوامی مقبولیت کو کم کریں۔ سعد حریری کے بیرونی دورے اسی ہدف کی تکمیل کے لیے ہیں، لیکن صدر میشل عون، حزب اللہ اور ٹیکنوکریٹ کابینہ کے مخالف دھڑے اپنے موقف پر ڈٹے ہوئِے ہیں اور وہ لبنان کے اقتدار اعلی کو کمزور نہیں ہونے دیں گے۔

حقیقت یہ ہے کہ لبنان میں حزب اللہ کو کئی محاذوں پر مشغول کیا جا رہا ہے۔ داخلی حوالے سے حزب اللہ کو تخریبی کارروائیوں میں ملوث کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ فوجی میدان میں غاصب اسرائیل کی طرف سے مسلسل فوجی اقدامات کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اقتصادی حوالے سے حزب اللہ پر دبائو بڑھانے کے لیے الٹے سیدھے الزامات عائد کیے جاتے ہیں۔ حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کی سازشیں تو کبھی تھمی نہیں۔ فرانس ہو، امریکہ ہو یا علاقے کی رجعت پسند طاقتیں وہ عرصے سے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں کہ لبنان میں کسی نہ کسی ہتھکنڈے سے حزب اللہ کو غیر مسلح کر دیا جائے، تاکہ لبنان کے مخلص قومی ادارے من جملہ لبنانی پولیس اس حقیقت کو اچھی طرح جانتی ہے کہ حزب اللہ لبنان کی سلامتی کی ضامن ہے اور حزب اللہ کا غیر مسلح ہونا خود لبنان کی ارضی سالمیت اور اقتدار اعلیٰ کے لیے نقصان دہ ہے۔

حزب اللہ کے خلاف حالیہ ہتھکنڈہ اور سعد حریری کے ذریعے ٹیکنوکریٹ حکومت کا قیام بھی مقاومت و استقامت کے دھڑے کو کمزور کرنا ہے، تاکہ کابینہ اور پارلیمنٹ کے بعض اراکین کے ذریعے مستقبل قریب میں حزب اللہ کو سیاسی پابندیوں میں اسیر کر دیا  جائے۔ سعد حریری کو ٹیکنو کریٹ حکومت کی تشکیل کا راستہ دکھانے والے سمجھتے ہیں کہ اس طرح حزب اللہ کی عوام میں مقبولیت میں کمی آئے گی اور وہ ختم ہو جائے گی نیز پھر اس سے کوئی بھی بات منوانا آسان ہو جائے گا۔ حزب اللہ کی مقبولیت اور ہر دلعزیزی کے پیچھے اس کے الہیٰ نظریات ہیں، جن پر حزب اللہ نے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ حزب اللہ کا سیاسی عمل اس کے نظریات کے تابع ہے، اس نے ماضی میں بھِی اور اب بھِی اسرائیل مخالف اپنے موقف کو کبھی نظرانداز نہیں کیا۔ اسقامت و مقاومت کے راستے پر چلنے کو اپنا نصب العین قرار دیا ہے، وہ حکومتوں میں شامل ہوئی تو اس کو اپنا ہم و غم نہِیں بنایا بلکہ بعض اوقات سیاسی میدان میں وزارتیں اور عہدے نہ لے کر اپنے موقف کو آگے بڑھایا۔

حزب اللہ کی سیاسی و عسکری جدوجہد اس بات کی عکاس ہے کہ صرف سیاسی عمل میں شرکت سے کسی جماعت کا تشخص قائم نہیں رہتا بلکہ جو جماعتیں اور تنظمیں اپنے نظریات اور امنگوں کو سامنے رکھتی ہیں، وہ اپنا حقیقی تشخص قائم رکھنے میں کامیاب ہوتی ہیں۔ سیاسی دھارے میں بغیر نظریاتی پختگی کے زیادہ دیر نہیں چلا جا سکتا۔ حزب اللہ جب تک اپنے الہیٰ نظریات پر قائم اور اپنے فداکار مخلص کارکنوں کو اعتماد میں لے کر آگے چلے گی، کامیابیاں اس کے قدم چومتی رہیں گی اور ٹیکنو کریٹ حکومت کیا امریکہ، اسرائیل، سعودی عرب اور خطے کے دیگر ممالک مل کر بھی اسلامی مقاومت کا کچھ نہِیں بگاڑ سکیں گے۔۔ ان شاء اللہ۔


خبر کا کوڈ: 917100

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/917100/حزب-اللہ-کے-خلاف-ایک-اور-سازش

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org