1
0
Saturday 20 Feb 2021 18:53

کراچی والے گڑھا ٹیکس، کھڑا پانی ٹیکس، کُھلا گٹر ٹیکس اور کوڑا ٹیکس کے انتظار میں

کراچی والے گڑھا ٹیکس، کھڑا پانی ٹیکس، کُھلا گٹر ٹیکس اور کوڑا ٹیکس کے انتظار میں
رپورٹ: ایم رضا

خبر پڑھی کہ حکومتِ سندھ نے کراچی سے مزید ٹیکس جمع کرنے کے منصوبے پر غور کرنا شروع کردیا ہے، جس کے لئے وزیرِ بلدیات ناصر حسین شاہ کی سربراہی میں کمیٹی قائم کردی ہے۔ ناصر حسین شاہ کمیٹی کے سربراہ ہیں، امید ہے اب تک بشمول ناصر صاحب پوری کمیٹی غور کرنا شروع کرچکی ہوگی اور پورا یقین ہے کہ یہ غور کراچی والوں کو غیر سمجھ کر کیا جارہا ہوگا۔ ہم کمیٹی کے سربراہ ناصر حسین شاہ صاحب کو پہلے ہی آگاہ کردیں کہ آپ اس دُھن میں ہیں کہ کس پر ٹیکس لگائیں ناصر کون پرایا ہے، مگر نئے ٹیکس لگنے کا اعلان سُن کر کراچی والے واویلا کریں گے اور آپ سے عرض کریں گے۔

ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصر
گرانی بال کھولے سو رہی ہے


لیکن آپ اس واویلے پر ذرا غور مت کیجیے گا، بلکہ جواب دیجئے گا، ہم ایک زور کا ٹیکس لگاکر اس مہنگائی کو جگادیتے ہیں، اب خوش! یہ خبر پڑھ کر کہ کراچی پر نئے ٹیکس لگانے کے لئے پوری کی پوری کمیٹی بشمول ناصر حسین شاہ غور کر رہی ہے، ہم نے سوچا اتنے فعال وزیر اور اتنے سارے لوگوں کو غور پر لگا دیا گیا ہے، حالانکہ کراچی والوں پر ٹیکس لگانے، انہیں چونا لگانے، تڑی لگانے، دھکا لگانے اور دیوار سے لگانے کے لئے کسی غور کی کیا ضرورت ہے۔ بلاوجہ اتنے سارے افراد کو غور کرنے پر لگادیا۔ ہم ناصر صاحب اور ان کی کمیٹی سے گزارش کرتے ہیں کہ آپ غور کرکے خود کو نہ تھکائیں، یہ کام ہم کئے دیتے ہیں اور تجویز کردیتے ہیں کہ کراچی والوں پر کون کون سے نئے ٹیکس عائد کئے جائیں۔

گڑھا ٹیکس
کراچی والے سڑکوں پر پڑنے والے گڑھوں پر سفر کرکے کھانا ہضم کرتے ہیں اور اس سہولت کا ایک روپیہ بھی نہیں دیتے۔ حکومت فی الفور شہریوں پر گڑھا ٹیکس لگاکر وصولی شروع کردے۔ حکومت کی جانب سے فراہم کردہ گڑھوں کی سہولت کے باعث حادثات ہوتے، لوگ زخمی اور گاڑیاں خراب ہوتی ہیں، جس سے لامحالہ ڈاکٹروں اور میکینکوں کا فائدہ ہوتا ہے، چنانچہ ڈاکٹروں اور میکینکوں پر الگ سے گڑھا کمائی ٹیکس بھی عائد کیا جائے۔

کھڑا پانی ٹیکس
کراچی والے بھی عجیب ہیں، روتے رہتے ہیں کہ پانی آ نہیں رہا اور جب پانی یہ کہتے ہوئے کہ لو میں آگیا، کیا حکم ہے میرے آقا کہتا سڑکوں پر گلیوں میں آکر کھڑا ہوجائے، تو روتے ہیں کہ پانی جا نہیں رہا۔ پانی طلب کرکے اسے استعمال نہ کرنا بلکہ الٹا شاکی ہوجانا اہلِ کراچی کا وہ جرم ہے جس کی انہیں سزا ملنی چاہیئے۔ یہ تو حکومت کی مہربانی ہے کہ وہ اس جرم کی سزا دینے کے بجائے ہر بار طلبِ آب پر رسدِ آب کا اہتمام کردیتی ہے۔ آخر شہریوں کی حکومت سے یہ زیادتی کب تک؟ صوبائی حکومت کھڑے پانی پر اتنا بڑا ٹیکس لگائے کہ لوگوں کے دل بیٹھ جائیں۔

کوڑا ٹیکس
صوبائی حکومت نے کسر نفسی سے کام لیتے ہوئے یہ راز کسی کو نہیں بتایا کہ گلی گلی کوڑا جمع کرنا درحقیقت ٹیکس جمع کرنے کی مشق ہے، جس سے یہ دکھانا بھی مقصود ہے کہ جو حکومت کچھ نہ کرکے اتنا کوڑا جمع کرسکتی ہے، وہ کچھ کرکے کتنا سارا ٹیکس جمع کرلے گی! کوڑے کے ان ڈھیروں سے شہری مستفید بھی ہوتے ہیں۔ پھر ان ڈھیروں کو دیکھ کر حکومت کے بارے میں شہری جو کچھ کہتے ہیں وہ ہتک عزت کے زمرے میں آتا ہے۔ اگر حکومت مدعی بن کر شہریوں کے خلاف عدالت سے رجوع کرلے تو اس مد میں اربوں روپے وصول کرسکتی ہے۔ چلیے یوں نہیں تو یوں سہی۔ حکومت شہریوں سے کوڑا ٹیکس وصول کرے، کچرے کو قابلِ استعمال بنانے کا اس سے اچھا نسخہ کوئی اور نہیں ہوسکتا۔

کُھلا گٹر ٹیکس
حکومتِ سندھ جب سب چھپاتے ہیں وہ ہم دکھاتے ہیں کے نعرے پر یقین رکھتی ہے۔ پورے فخر سے اپنی نمائش کرتا کوڑا اور حکومت کی اس شفاف پالیسی پر حیرت سے منہ کھولے گٹر اسی سرکاری کُھلے پَن کے آئینہ دار ہیں۔ اس شفاف پالیسی کے علاوہ گٹر کھلے ہونے کا سبب کراچی والوں سے حکومت کی محبت بھی ہے۔ حکمراں سوچتے ہیں کہ کراچی میں نہ کوئی دریا بہتا ہے، نہ چشمے نہ کوئی نہر، کم از کم یہاں گٹر ہی بہتے رہیں، شہری کچھ تو بہتا دیکھیں۔ حکومت کی جانب سے گلی گلی مہیا کی جانے والی اس تفریح پر ٹیکس لگنا چاہیئے۔ بعض شہری گٹر میں گر کر اس بہاﺅ کو روکنے کا سبب بن جاتے ہیں، اس لئے حکومت گٹر میں گرنے پر بھاری ٹیکس لگائے۔

بلدیہ ٹیکس
کراچی میں بلدیہ عظمیٰ سے نچلی سطح تک کئی بلدیاتی ادارے ہیں، اس بلدیہ کو صوبائی حکومت نے اختیارات نچوڑنے کے لئے اتنے بَل دیئے ہیں کہ اس کے سارے کَس بل نکل گئے ہیں۔ حکومتِ سندھ صرف اس خیال سے کہ شہریوں کو تسلی رہے کہ ان کے پاس ایک بلدیہ ہے، اس ادارے کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے۔ بھئی حکومت یہ بوجھ کیوں اٹھائے، تو فی الفور شہریوں پر بلدیہ ٹیکس عائد کردیا جائے۔ شہری چاہے اس پر کتنے ہی بل کھائیں اور ان کے ماتھے پر بَل پڑتے ہیں تو پڑتے رہیں، لیکن ٹیکس لگاکر بلدیہ کو انہی کے بل پر چلایا جائے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ کراچی والوں کے لئے اتنے ٹیکس کافی ہوں گے۔ یہ تو ہم اکیلے کے غور کردہ محصولات ہیں، سوچیے جب پوری کی پوری کمیٹی غور کرے گی تو کتنے مزید ٹیکس سامنے آئیں گے، جنہیں دیکھ کر کراچی کے شہری کہیں جا چھپیں گے، اور شہر کو ویران دیکھ کر سائیں ناصر حسین شاہ کہہ اٹھیں گے شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 917202
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

اکبر علی
Pakistan
واقعاً یہ کراچی کے ساتھ ظلم ہے، جس شہر سے پورے ملک کیلئے ٹیکس جمع کیا جاتا ہے، بدلے میں اس کو صرف دلاسے ہی ملتے ہیں، لیکن قابل افسوس امر یہ ہے کہ اس شہر کی جماعتیں بھی اس شہر پر ہونے والے ظلم پر خاموش تماشائی ہیں۔
ہماری پیشکش