1
Saturday 20 Feb 2021 18:50

عراق میں امریکہ کی فوجی موجودگی اور بدامنی میں اضافہ

عراق میں امریکہ کی فوجی موجودگی اور بدامنی میں اضافہ
تحریر: مجتبی شاہ سونی
 
اگرچہ 2017ء میں عراق میں تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کے خاتمے کا باقاعدہ اعلان کر دیا گیا تھا لیکن اب بھی داعش سے وابستہ خفیہ دہشت گردانہ نیٹ ورکس بغداد، صلاح الدین، کرکوک، الانبار اور دیالہ میں سرگرم عمل ہیں۔ گذشتہ تین برس میں عراق کے اکثر حصوں میں کافی حد تک امن و امان قائم ہو چکا ہے۔ سکیورٹی ہائی الرٹ کے باوجود داعش سے وابستہ دہشت گرد عناصر 21 جنوری 2021ء کے دن بغداد میں ایک بڑی دہشت گردانہ کاروائی انجام دینے میں کامیاب ہو گئے جس کے نتیجے میں 35 عام شہری جاں بحق جبکہ 100 سے زیادہ زخمی ہو گئے تھے۔ مزید برآں، داعش عراق کے شمالی اور مغربی حصوں میں مزید خودکش بم دھماکے کرنے میں بھی کامیاب رہی ہے۔
 
داعش سمیت مختلف دہشت گرد گروہوں کی جانب سے حالیہ کچھ مہینوں کے دوران خودکش دھماکوں کا سلسلہ ظاہر کرتا ہے کہ اس ملک میں داعش کو دوبارہ زندہ کرنے کی سازش جاری ہے۔ اس بارے میں عراق کے تجزیہ کار سعد الحدیثی نے کہا کہ عراق میں تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کا دوبارہ سرگرم عمل ہو جانا محض اتفاق نہیں بلکہ ایک طے شدہ منصوبے کا نتیجہ ہے۔ لہذا عراق کے سکیورٹی ادارے شام کے سرحدی علاقوں میں داعش کی سرگرمیوں پر خصوصی توجہ دے رہے تھے اور اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کر رہے تھے۔ یاد رہے 2014ء سے 2017ء تک تکفیری دہشت گرد گروہ داعش نے عراق کے انفرااسٹرکچر کو شدید نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ وسیع پیمانے پر عام شہریوں کا قتل عام بھی جاری رکھا ہوا تھا۔
 
عراق کی پارلیمنٹ کی سکیورٹی اور دفاع کمیٹی کے رکن کریم علیوی نے ملک میں داعش دوبارہ زندہ ہو جانے کے خطرے کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ بغداد میں دو خودکش بم دھماکوں کے بعد عراقی عوام اور سیاسی رہنماوں میں بہت زیادہ پریشانی پائی جاتی ہے۔ اسی طرح عراقی پارلیمنٹ میں القوی العراقیہ الائنس کے رکن انتصار الجبوری نے کہا کہ دہشت گرد گروہ داعش کی دوبارہ سرگرمیاں عراق کی قومی سلامتی اور عراقی شہریوں کیلئے سنجیدہ خطرہ ہیں۔ عراقی پارلیمنٹ کے اسپیکر سلیم الجبوری نے بھی اس بارے میں کہا کہ داعش کا قلع قمع صرف فوجی اقدامات سے ممکن نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ انٹیلی جنس آپریشنز بھی انجام پانے چاہئیں۔
 
عراق میں امریکہ نے 2003ء سے اپنے فوجی تعینات کر رکھے ہیں۔ اس ملک میں امریکہ کا سب سے بڑا فوجی اڈہ بغداد کے مغرب میں صوبہ الانبار میں واقع ہے جو "عین الاسد" کے نام سے مشہور ہے۔ اسی طرح امریکہ نے بغداد میں اپنے سفارت خانے میں بھی بڑے پیمانے پر فوجی اور میزائل ڈیفنس سسٹم نصب کر رکھا ہے۔ گذشتہ برس بغداد ایئرپورٹ کے قریب سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کی امریکہ کے ہاتھوں ٹارگٹ کلنگ کے بعد عراقی پارلیمنٹ نے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے بھاری اکثریت سے ایک بل منظور کیا تھا جس میں امریکہ سے جلد از جلد عراق سے فوجی انخلاء کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ امریکی حکومت نے بھی اعلان کیا تھا کہ وہ عراق میں اپنے فوجیوں کی تعداد کم کر کے 500 کر دے گی۔
 
عراقی حکام اور عوام نے مختلف مواقع پر ملک سے امریکی فوجیوں کے انخلاء پر زور دیا ہے اور پارلیمنٹ کے منظور شدہ بل کو عملی جامہ پہنانے کا مطالبہ کیا ہے۔ عراق کے وزیراعظم مصطفی الکاظمی نے آرمی کی تشکیل کی سو سالہ سالگرہ کے موقع پر اپنے پیغام میں اسٹریٹجک مذاکرات کے تحت ملک سے امریکہ کے فوجی انخلاء کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: "ہم نے پہلے دن سے ہی امریکہ کے فوجی انخلاء کی خاطر اسٹریٹجک مذاکرات شروع کرنے کی کوشش کی ہے۔" امریکہ کی جانب سے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی قدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی اور حشد الشعبی کے نائب کمانڈر ابو مہدی المہندس کی ٹارگٹ کلنگ کے بعد عراق کی تمام قومی جماعتیں ملک سے امریکہ کے فوجی انخلاء کے مطالبے پر متحد ہو گئی ہیں۔
 
حالیہ دہشت گردانہ اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ عراق کے خلاف ایک انتہائی خطرناک اور گہری سازش انجام پا رہی ہے۔ یہ سازش سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی مالی امداد کے بل بوتے پر امریکہ اور اسرائیل نے تیار کی ہے۔ اس سازش کا مقصد عراق میں بدامنی پھیلا کر سکیورٹی عدم استحکام اور انارکی پیدا کرنا ہے۔ کیونکہ عراقی پارلیمنٹ کے منظور شدہ بل میں امریکہ کو فوجی انخلاء کیلئے ایک سال کی مہلت دی گئی تھی اور وہ پوری ہو چکی ہے لہذا عراقی حکومت پر دباو ہے کہ وہ جلد از جلد امریکہ کا فوجی انخلاء یقینی بنائے۔ لہذا امریکہ عراق میں اپنی فوجی موجودگی برقرار رکھنے کیلئے ایک مناسب بہانے کے پیچھے ہے اور یہ بہانہ داعش کے دوبارہ سرگرم عمل ہونے سے زیادہ بہتر کیا ہو سکتا ہے؟
خبر کا کوڈ : 917387
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش