0
Saturday 20 Feb 2021 19:12

خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوگئیں

خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوگئیں
تحریر: سویرا بتول

آج سے دو روز قبل شہید ڈاکٹر حیدر علی کی برسی تھی۔ چند سال قبل بیس فروری کو لاہور میں مقیم عالمی شہرت یافتہ آئی اسپیشلسٹ ڈاکٹر حیدر علی اپنے بیٹے مرتضیٰ حیدر علی کے ہمراہ ایف سی کالج پل پر دہشت گردی کا نشانہ بنے، ان کی شہادت کی واحد وجہ ان کی شیعہ شناخت تھی۔ شہید ڈاکٹر حیدر علی اور ان کے بیٹے دونوں کا اہدافی قتل سپاہ صحابہ پاکستان کے ملک اسحاق گروپ کے لوگوں نےکیا، جو اپنی تنظیم کے لدھیانوی گروپ کے پنجاب کے صدر شمس معاویہ کے قتل میں بھی ملوث رہے ہیں۔ شیعہ ٹارگٹ کلنگ اور نسل کشی افسانہ نہیں حقیقت ہے، جس پر بہت کم قلم اٹھایا گیا۔ یہ بہت ہی المناک واقعہ تھا، جس سے متاثر ہو کر مسعود اشعر نے اپنا افسانہ "اس کا نام کیا تھا" لكھا جسے ایل یو بی پاک نے آن لائن کیا، سب سے پہلے وہ افسانہ آصف فرخی نے "دنيا زاد" میں شائع کیا۔

شہید ڈاکٹر حیدر علی نہ صرف ایک مسیحا بلکہ فرشتہ صفت انسان تھے۔ اُن کو بین الاقوامی طور پر سو بہترین ڈاکٹرز میں شمار کیا گیا۔ یہ اس ملک کا المیہ ہے کہ جو سوچنے والا ذہن رکھتا ہے، اُس کا خون اُتنا ہی سستا ہے اور اگر وہ عاشقِ اہل بیتؑ ہو تو یہ ناقابل معافی جرم ہے۔
عشقِ حیدرؑ خلد میں قیمت چکاؤں گا تیری
یہ جو میں نے جان دے دی ہے فقط بیعانہ تھا

ڈاکٹر حیدر علی کا بیٹا پس مرگ او لیول کے امتحان میں امتیازی نمبروں سے پاس ہوگیا تو یہ مرحلہ ایسے وقت میں آیا جب اِس کی سالگرہ بھی تھی تو ڈاکٹر حیدر علی کی بیوہ اور مرتضیٰ حیدر کی ماں فاطمہ حیدر علی نے اپنے بیٹے کی سالگرہ پر جو باتیں لکھیں پڑھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔

*آج بہت ہی جذباتی دن ہے کئی وجوہات سے۔ اصل میں گذشتہ چند دنوں سے ایسا ہی ہے۔ آج او لیول کے رزلٹ کا اعلان ہوا ہے۔ میں تمہارے کلاس فیلوز کے بارے میں سوچ رہی تھی کہ وہ اپنے نتائج کے منتظر ہوں گے۔ کئی دنوں سے میں خود کو سمجھا رہی تھی کہ اس بارے میں مت سوچوں اور جو ہوچکا ہے، اسے قبول کر لوں، ایسے قبول کر لوں جیسے تم اور تمہارے بابا کے چلے جانے کو قبول کرنے کی توقع رکھی تھی میں نے۔ لیکن یہ سب تو میرے دماغ میں سیلاب کی طرح چلا آتا، ایسے ہی ہوتی ہے ممتا ایسی ہی ہوتی ہے*؎
لے زندگی کا خمس علیؑ کے غلام سے
اے موت ضرور آ مگر احترام سے


ایک اور جگہ مرتضیٰ حیدر کی ماں کہتی ہیں: "میں نے جینا بند کر دیا تھا جس لمحے تم نے کیا اور میں درباره جینا بھی نہیں چاہتی، تب تک جب تک میں دوبارہ تم سے مل نہ لوں، ایک دن یہ صرف تمہارا چلے جانے کا نقصان نہیں تھا، جس نے مجھے توڑ کر رکھ دیا۔ میرا دکھ اس پرندے کی طرح ہے، جو اپنے گھونسلے کے بکھر جانے پر بے چین ہوتا اور لفظوں سے بیان نہ ہونے والے دکھ کا شکار ہوتا ہے. ہمارا خاندان تو نہیں ہے نا اب، کیونکہ میرے پاس بولنے کو کچھ ہوتا ہی نہیں، جب تمہاری بہن مجھ سے پوچھتی ہے کہ ہمارا گھر اس کے دوستوں جیسا کیوں نہیں ہے۔؟ ایسی کوئی وضاحت نہیں مجھے نظر آتی جو مطمئن کرسکے۔"

یہ الفاظ نقل کرنا آسان نہیں۔ یہ سوچ کر ہی کلیجہ منہ کو آتا ہے کہ اُس ماں پر کیا گزری ہوگی، جس کے شوہر اور بیٹے کو صرف اہلِ بیتؑ کا محب ہونے کی بنا پر ابدی نیند سلایا گیا۔ آج بھی اُس ماں کی آنکھیں منتظر ہوں گی کہ بس کہیں سے اُس کا لخت جگر آجائے۔ اُس ممتا کی ماری کو سکون مل جائے۔ ہمارے شہداء اتنے مظلوم ہیں کہ ہم سوائے اُن کی برسی کے کبھی اُنکا تذکرہ نہیں کرتے۔ اُن کے جانے کے بعد اُن کے اہلِ خانہ کس حال میں زندگی بسر کر رہے ہیں، ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں۔ نجانے اِن دہشت گردوں، قاتلوں اور بھتہ خوروں کا راج کب ختم ہوگا؟ مزید کتنے مسیحا، دانشور اور مفکر فقط اہلِ بیت اطہار علیہ السلام سے مودت رکھنے کی بناء پہ موت کے گھاٹ اتارے جائیں گے۔؟ نجانے خون کی یہ ہولی کب ختم ہوگی، مزید کتنے لاشے اٹھانے ہیں؟؟
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغ مصطفوی سے شرار بولہبی
کسے خبر تھی کہ لے کے چراغ مصطفوی
جہاں آگ لگاتے پھرے گی بو لہبی
خبر کا کوڈ : 917441
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش