QR CodeQR Code

فرانس میں اسلام دشمنی اور پاکستان کا رسپانس

21 Feb 2021 12:03

اسلام ٹائمز: یورپ اور مغربی ممالک کی موجودہ صورتحال اور صدر عارف علوی کا خطاب بالکل برمحل ہے، کیونکہ تعصب ایک انسان دشمن رویہ ہے، جو بعد ازاں انسان کشی کا سبب بنتا ہے اور اس طرح تعصب کا حامل معاشرہ انتشار کا شکار ہو جاتا ہے۔ لیکن یورپ سمیت مغرب میں اسلاموفوبیا کی وجوہات صرف اسلام دشمنی تک منحصر نہیں بلکہ خودغرضی، بے حسی اور مفاد پرستی بھی ایسے رویوں کو جنم دینے والے اہم عوامل ہیں۔


رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ

فرانس کو یورپ اور پھر دنیا میں جمہوریت کی جنم بھومی سمجھا جاتا ہے۔ سیکولرازم کے نام پر جمہوری طرز حکومت کو انسانی لبادے میں پیش کیا گیا اور پہنچنوایا گیا ہے۔ لیکن آئے روز ترقی یافتہ ممالک میں رائج لبرل ازم اپنا غیر انسانی روپ دکھاتا رہتا ہے۔ بالخصوص اسلام دشمنی کا شکار ممالک کی ریاستی طاقت کا پہلا ہدف اسلامی اور بنیادی انسانی اقدار ہیں۔ فرانسیسی پارلیمان نے حال ہی میں اسلام کی تعلیم و تبلیغ کے خلاف قانون کو منظور کیا، جس کے مطابق مساجد اور مدارس کی نگرانی میں اضافہ کیا جائے گا، سخت مذہبی نظریات کی روک تھام اور بچوں کو مرکزی تعلیمی اداروں کے علاوہ کسی بھی ذریعے سے تعلیم دینے پر پابندی عاید کی جا سکے گی۔ ایوان بالا یعنی سینیٹ میں اس قانون پر 30 مارچ سے بحث ہو گی، قومی اسمبلی میں اس قانون کے حق میں 347 اور مخالفت میں151 ووٹ آئے جبکہ 65 ارکان نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔

یہ پہلی بار نہیں، بلکہ مغرب کی انبیائے کرام اور توحید و آخرت پر ایمان رکھنے والوں سے دشمنی اب پروپیگنڈے سے بڑھ کر ریاستی اور حکومتی سطح پر جاری ہے۔ یورپ کے دوسرے ممالک کی طرح فرانس میں حکومتی سطح پر جبر و تشدد کے ذریعے مسلمانوں میں ارتداد کی مہم چلائی جا رہی ہے۔ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ مسلمانوں میں مقتدر طبقہ حق و باطل کی اس کش مکش کے وجود سے انکار کرتا ہے لیکن اسلام کے خلاف نفرت کی لہر کو آگے بڑھانے میں عالمی ذرائع ابلاغ پیش پیش ہیں، جس کی وجہ سے حکومتوں کے لیے ممکن ہو گیا ہے کہ وہ جابرانہ اور استبدادی قانون سازی بھی کر سکیں۔ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم کی وجہ یورپی اور مغربی ملکوں میں مسلمانوں کی آبادی میں اضافے کا خوف ہے۔

چاہے کمزور ہی سہی لیکن پاکستان وزیراعظم اور صدر مملکت کی جانب سے اسلاموفوبیا کے بارے میں کئی مواقع پر یورپ کو پیغام دیا گیا ہے کہ اسلام دشمنی پہ مبنی شدت پسندی نہ خود یورپ بلکہ عالمی امن اور بین الاقوامی تعلقات کیلیے سنگین خطرہ ہے، اس پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔ گذشتہ دنوں اسلام آباد میں خطاب کرتے ہوئے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ہے کہ فرانس کی حکومت اور قیادت انتشار اور تعصب کو جنم دینے والے اقدامات کی بجائے عوام کو متحد رکھنے والے اقدامات کرے، کیونکہ ایسا نہ کرنے سے جو نقصان ہوگا وہ برسوں پر محیط ہوگا، انسانیت کو مذموم مقاصد کی تکمیل کی بجائے مسجد اور گرجا گھروں کے پیغام کیلئے استعمال کرنا چاہئیے، کیونکہ حضرت محمدۖ اور حضرت عیسی علیہ السلام نے لوگوں کے درمیان عداوت نہیں بلکہ امن کا پیغام دیا ہے۔

صدر مملکت نے کہا کہ فرانس کی حکومت اور قیادت مسلمانوں کو گھیرے میں لینے والے طرزعمل اور قوانین سے گریز کرے، آزادی اظہار رائے کی آڑ میں مقدس شخصیات کی توہین کے سدباب کے لیے جامع بین الاقوامی اقدامات اور لائحہ عمل کی ضرورت ہے، ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے تمام اقلیتوں سمیت ہم سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ عالمی کانفرنس کے اختتامی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے صدر مملکت نے بین المذاہب ہم آہنگی اور پرامن بقائے باہمی کے بارے میں اسلامی تاریخ سے متعدد حوالے دیے اور کہا کہ پیغمبر اسلام ﷺ اور خلفائے راشدین کے ادوار بین المذاہب ہم آہنگی کے حوالے سے مثالی ادوار کی حیثیت رکھتے ہیں، اسلام میں اقلیتوں کے حقوق کا مکمل احاطہ کیاگیا ہے۔ صدرمملکت نے برصغیر پاک وہند میں رہنے والے اقلیتی مسلمانوں کی تاریخی جدوجہد پر بھی روشنی ڈالی۔

انہوں نے کہا کہ قیام پاکستان کے بعد بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح کے اقلیتوں کے بارے میں فرمودات ہمارے لیے مشعل راہ ہیں، پاکستان کا آئین ملک میں رہنے والی تمام اقلیتوں کے حقوق کا ضامن ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 20، 21، 25 اور آرٹیکل 27 اقلیتوں کے حقوق کو مکمل تحفظ فراہم کررہاہے، اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ اور بین المذاہب وبین الثقافتی ہم آہنگی کے لیے ہم اپنی جدوجہد اور کوششیں جاری رکھیں گے، مینارٹیز کمیشن اور کئی کمیٹیوں کی سطح پرکام ہورہا ہے۔ صدر مملکت نے کہا کہ بھارت میں اکثریت کے حق میں اور اقلیتوں کے خلاف قوانین تبدیل کیے جارہے ہیں جس سے صورتحال خراب ہورہی ہے، یہ ایک خطرناک رحجان ہے اور اس سے اقلیتوں کے قتل عام کی طرف رحجان قائم ہوسکتاہے، بھارت کی پارلیمان میں مسلمانوں کی صرف 2 فیصد نمائندگی ہے۔

صدر مملکت نے کہا کہ بھارت میں اقلیتوں کے خلاف اقدامات اور قوانین کو منفی اندازمیں تبدیل کرنے سے جو صورتحال پیداہوگی اس سے پاکستان پر بھی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ صدر مملکت نے آزادی اظہار رائے کی آڑ میں مقدس شخصیات کی توہین کے سدباب کے لیے جامع بین الاقوامی اقدامات اور لائحہ عمل کی ضرورت پر زور دیا اور کہاکہ وزیراعظم نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اس حوالے سے واضح پیغام دیا ہے کہ ناموس رسالت کے معاملے پر کوئی سمجھوتا نہیں ہوسکتا۔ فرانس کی حکومت اور قیادت پر زور دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ مسلمانوں کو گھیرے میں لینے والے طرزعمل اور قوانین سے گریز کرے کیونکہ اس طرح کے اقدامات سے نفرت اور تصادم کی شکل میں خطرناک نتایج سامنے آسکتے ہیں۔ فرانس کو چاہیے کہ وہ انتشار اور تعصب کو جنم لینے والے اقدامات کے بجائے عوام کو متحد رکھنے والے اقدامات کرے کیونکہ ایسا نہ کرنے سے جو نقصان ہوگا وہ برسوں پر محیط ہوگا۔

صدر عارف علوی نے کہاکہ فرانس میں ہونے والی قانون سازی اقوام متحدہ کے چارٹر اور یورپی معاشرے میں سماجی ہم آہنگی کی روح کے منافی ہے۔ انہوں نے کہاکہ پورے مذہب کو لیبل کرنا اور پوری کمیونٹی کے خلاف معاندانہ اقدامات سے آنے والے برسوں میں خطرناک تنائج سامنے آسکتے ہیں۔ صدر مملکت نے کانفرنس کے منتظمین اور شرکا کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ حکومت بین الاقومی کانفرنس کے دوران مرتب کی جانے والی سفارشات اور تجاویز کا سنجیدگی سے جائزہ لے۔ یورپ اور مغربی ممالک کی موجودہ صورتحال اور صدر عارف علوی کا خطاب بالکل برمحل ہے، کیونکہ تعصب ایک انسان دشمن رویہ ہے، جو بعد ازاں انسان کشی کا سبب بنتا ہے اور اس طرح تعصب کا حامل معاشرہ انتشار کا شکار ہو جاتا ہے۔ لیکن یورپ سمیت مغرب میں اسلاموفوبیا کی وجوہات صرف اسلام دشمنی تک منحصر نہیں بلکہ خودغرضی، بے حسی اور مفاد پرستی بھی ایسے رویوں کو جنم دینے والے اہم عوامل ہیں۔

 


خبر کا کوڈ: 917496

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/917496/فرانس-میں-اسلام-دشمنی-اور-پاکستان-کا-رسپانس

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org