0
Sunday 21 Feb 2021 23:30

علی سدپارہ، عزم و ہمت کا استعارہ

علی سدپارہ، عزم و ہمت کا استعارہ
تحریر: محمد سجاد شاکری
msshakri1984@gmail.com

یوں تو قومی ہیرو محمد علی سدپارہ کے بارے میں بہت کچھ لکھا اور بولا گیا ہے لیکن جو کچھ لکھا اور بولا گیا ہے، وہ ان کی کرشماتی شخصیت، بظاہر ناممکن کو ممکن بنانے والی صلاحیتوں، عمر بھر کی محرومیوں اور  ملک و ملت کے لئے ان کی خدمات کے بارے میں ہے۔ لیکن راقم آج دنیائے کوہ پیمائی کے اس بے تاج بادشاہ کی زندگی سے نئی نسل کے لئے قابل عمل جس سبق کو بیان کرنا چاہتا ہے، وہ کے ٹو کے دامن میں سونے والی اس شخصیت کا کے ٹو جیسا بلند و بالا اور مضبوط عزم و ہمت ہے۔ ایک طائرانہ نظر اقوام کی تاریخ پر لگائی جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ پہاڑ جیسا بلند عزم و ہمت ہی ہے جس نے عظیم قوموں اور شخصیات کو ترقی اور کامیابی کے زینے چڑھائے ہیں۔ آج ہم بھی اپنے اندر علی سدپارہ کی طرح مشکلات سے ٹکرانے کا حوصلہ پیدا کریں تو کامیابیاں ہمارے قدم چومیں گی۔

علی کی طرح ہم بھی اپنے اندر آسمانوں کو چھونے والی ہمت پیدا کریں تو خوشحالی ہمارا طواف کرے گی۔ سدپارہ کی طرح تن من دھن کی بازی لگا کر اپنے ہدف کی طرف بڑھنے کی تڑپ اپنے اندر پیدا کریں تو سرخروئی ہمارے گلے لگ جائے گی، کیونکہ فطرت کا قانون اور اللہ کی سنت یہی ہے کہ سعی و کوشش کے سمندر میں غوطہ زنی ہی انسان کو کامیابی کے لعل و جواہر کا مالک بناتی ہے۔ عزم و ہمت کے ریگستان میں آبلہ پائی ہی انسان کو کامرانی کے نخلستانوں تک پہنچا دیتی ہے اور جوش و جذبے کی چوٹیوں کو سر کرکے ہی علی سدپارہ کی طرح انسان فتح کا جھنڈہ گاڑ سکتا ہے۔ یہ وہ سب باتیں ہیں جو علی سدپارہ عمر بھر بظاہر ناممکن نظر آنے والی مہم جوئیوں کو ممکن بناتے ہوئے ہمیں سمجھا گئے ہیں۔

علی سدپارہ اپنی قوم کے جوانوں، طالب علموں، سماجی حلقوں، معاشی طبقوں اور سیاسی و مذہبی قیادت الغرض شعبہ ہائے زندگی کے ہر طبقے کو یہ بات سمجھا گئے ہیں کہ وسائل و امکانات کی عدم دستیابی، حکومتی حلقوں کی بے توجہی،  رکاوٹوں کی کثرت اور سماج پر حاکم غلامانہ سوچ کی حوصلہ شکنی کے باوجود بھی انسان اپنی خدادادی صلاحیتوں، محدود وسائل، فلک بوس چوٹیوں کو چھوتے عزم و ہمت اور ہمیشہ اپنے رب کی ذات پر توکل کرکے ہر ناممکن کو ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے ہمیں خاص طور پر گلگت بلتستان کے عوام کو یہ بات سمجھا دی کہ ہماری تعلیمی محرومیاں، معاشی زبوں حالی، صحت کے وسائل کا فقدان، انفرااسٹریکچر کی بدحالی اور سیاسی محرومیاں الغرض ہماری تمام محرومیوں کی بنیادی وجہ ہمارے اندر انفرادی اور اجتماعی دونوں سطح پر مہم جوئی کے جذبے، بلند حوصلے اور مشکلات سے ٹکرانے کی ہمت و شجاعت کا فقدان ہے۔

ہمارے نوجوان بہت ساری خداداد صلاحیتوں، صحت مند زندگی اور متحرک و فعال ذہن و فکر رکھنے کے باوجود ناکام کیوں ہیں۔۔۔؟ کیونکہ ان کے اندر علی سدپارہ جیسا حوصلہ، اپنے ہدف کا تعین، ہدف سے جنون کی حد تک عشق اور مشکلات کو پیچھے چھوڑنے کا عزم نہیں ہے۔ ہمارے بچے تعلیمی چوٹیاں کیوں سر نہیں کرسکتے۔۔۔۔؟ کیونکہ ان کے اندر علی سدپارہ کی طرح وسائل کی کمی، رکاوٹوں کی بھرمار اور حوصلہ شکنیوں کو پسِ پشت ڈال کر اپنی ذات اور ربّ کی ذات پر اعتماد کا سلیقہ نہیں ہے۔ ہم معاشی طور پر بدحالی کا شکار کیوں ہیں۔۔۔۔؟ کیونکہ ہم علی سدپارہ کی مانند بدحالیوں اور محرومیوں کے مارے اپنی قسمت کو رونے کے بجائے ’’اِنَّ مَعَ الۡعُسۡرِ یُسۡرًا‘‘ کے فارمولے پر عمل کرنے سے قاصر ہیں۔

آزادی کی ستر دہائیاں گزرنے کے باوجود آج تک کیوں ہم سیاسی خود مختاری سے محروم ہیں۔۔۔۔؟ کیونکہ ہم علی سدپارہ کی طرح دنیا سے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے کے عادی نہیں ہیں۔ ہمارے سیاستدان اور سیاسی ورکرز ابھی بھی سیاسی بلوغت سے محروم ہیں۔ اگر ہمارے سیاسی و مذہبی قائدین علی سدپارہ جیسا عزم و ہمت اپنے اندر پیدا کریں تو وہ ہر محرومی سے اپنی قوم کو نجات دلا سکتے ہیں۔ ہمارا معاشرہ روز بروز فردی اور سماجی بڑے سے بڑے جرائم اور برائیوں کی دَلدل میں کیوں پھنستا جا رہا ہے۔۔۔۔؟ کیونکہ ہم فقط معاشرے کی برائی کا رونا روتے رہنے کے بجائے علی سدپارہ کی طرح حوصلہ کرکے ایک آئیڈیل معاشرے کی طرف بڑھنے کی کوشش اور اس کے لئے پلاننگ نہیں کرتے۔

علی سدپارہ نے دنیا کی آٹھ بلند ترین چوٹیوں پر امام حسینؑ کا پرچم گاڑ کر ہمارے مذہبی طبقے کو ایک طرح سے چیلنج کیا ہے کہ میں نے اپنے شعبے کے لحاظ سے دنیا کی بلند ترین چوٹیوں پر بھی دین و مذہب کا پرچم گاڑ کر دنیا کی ہر چیز پر اسلام کی سربلندی کا اعلان کیا ہے، اب دیکھتے ہیں کہ آپ جو مذہبی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، وہ اپنے معاشرے میں دینی اقدار کو زندہ کرکے کس قدر دین و مذہب کا نام روشن کرتے ہیں۔۔۔۔!؟ محمد علی سدپارہ ہم سب کو زندگی کے ہر فیلڈ میں کامیابی کا راز سمجھاتے ہوئے اقبال کا فلسفۂ خودی اور امام خمینیؒ کا فلسفہ ’’ما می توانیم‘‘، ’’ہم کرسکتے ہیں‘‘ سمجھاتے ہوئے عزم و ہمت کا استعارہ بن کرکے ٹو کے دامن میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سوگیا اور اقبال کی زبانی ہم سب کو کے ٹو کے دامن سے یہ آخری پیغام بھیجا کہ
زىارت گاہِ اہل عزم و ہمت ہے لحد مىرى
 کہ خاکِ راہ کو مىں نے بتاىا رازِ الوندی
خبر کا کوڈ : 917627
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش