0
Saturday 27 Feb 2021 13:33

دو عیدوں کا مسئلہ حل ہوگیا؟

دو عیدوں کا مسئلہ حل ہوگیا؟
رپورٹ: سید عدیل زیدی

ملک میں عرصہ دراز سے رویت ہلال کے مسئلہ چلا آرہا ہے، جس کی وجہ سے ایک ہی ملک میں رہنے والے لوگ ایک ہی تہوار (عید) مختلف ایام میں مناتے ہیں اور اسی طرح رمضان المبارک کے موقع پر بھی روزوں کی ترتیب میں فرق رہتا ہے۔ اس مسئلہ کی بنیاد پشاور کی معروف مسجد قاسم علی خان ہے، جہاں سے لگ بھگ ہمیشہ سے ہی ایک دن پہلے عید اور اسی طرح ایک دن پہلے روزے کا اعلان کیا جاتا ہے، یہ خود ساختہ اور نجی رویت ہلال کمیٹی مفتی شہاب الدین پوپلزئی کی قیادت میں قائم ہے۔ نہ صرف پشاور بلکہ خیبر پختونخوا کے تمام اضلاع کے عوام کی غالب اکثریت مفتی پوپلزئی صاحب کے فیصلہ پر لبیک کہتی ہے۔ واضح رہے کہ رویت ہلال سے ہٹ کر دیگر معاملات میں پوپلزئی صاحب کا سارا سال کوئی اہم کردار دیکھنے کو نہیں ملتا اور نہ ہی دیگر مذہبی معاملات میں انہیں کوئی اہمیت حاصل ہے۔ مسجد قاسم علی خان کی انتظامیہ کا ہمیشہ سے موقف رہا ہے کہ ہمارے پاس شہادتیں آتی ہیں اسی بنیاد پر رویت ہلال کا اعلان کیا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ مذکورہ مسجد میں چاند دیکھنے کیلئے کوئی خاطر خواہ انتظامات کئے جاتے ہیں اور نہ ہی کسی جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کیا جاتا ہے۔

مسجد قاسم علی خان میں شہادتوں کا نوے فیصد دارومدار ٹیلی فون پر ہوتا ہے، کوئی بھی شخص اپنا نام اور علاقہ بتاتا ہے اور چاند دیکھنے کی گواہی دے سکتا ہے۔ اس نجی رویت ہلال کمیٹی کیوجہ سے ملک میں رویت ہلال کا مسئلہ چلا آرہا ہے، ملک بھر میں جب روزہ ہوتا ہے تو خیبر پختونخوا میں عید، اور جب یہاں روزہ ہوتا ہے تو ملک بھر میں ایک روز بعد ہوتا ہے۔ مفتی شہاب الدین کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ وہ جب بھی رویت کے بارے میں اجلاس سجا کر بیٹھیں تو چاند چڑھا کر ہی اٹھتے ہیں۔ اس مسئلہ کو حل کرنے کی کچھ کوشش عوامی نیشنل پارٹی کی صوبائی حکومت کے دور میں کی گئی اور پھر پی ٹی آئی کے وزراء نے بھی اپنا تھوڑا بہت حصہ ڈالا، تاہم دونوں حکومتیں ناکام رہیں۔ سابق چئیرمین مرکزی رویت ہلال کمیٹی مفتی منیب الرحمان کا موقف اس حوالے سے اٹل اور سخت تھا، ان کا کہنا تھا کہ ریاست کے اندر ریاست نہیں بنائی جاسکتی۔ جب ایک سرکاری کمیٹی میں مختلف مسالک کے نمائندہ علمائے کرام موجود ہیں اور اس کمیٹی کی شاخیں لگ بھگ تمام اضلاع میں موجود ہیں، تو کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ ’’ڈیڑھ انچ کی مسجد‘‘ بناکر بیٹھ جائے اور شرعی معاملات میں مداخلت کرے۔ 

مفتی منیب الرحمان کو ایک طویل عرصہ تک رویت ہلال کمیٹی کی قیادت کرنے کے بعد ہٹاکر مولاناعبد الخبیر آذاد کو یہ ذمہ داری سونپی گئی، انہوں نے اعلان کیا کہ انکی کوشش ہوگی کہ ملک میں ایک ہی دن روزہ اور ایک ہی دن عید ہو۔ یہی عزم لئے مولانا عبدالخبیر آزاد گذشتہ دنوں پشاور پہنچے، جہاں انہوں نے پشاور کے علماء کرام سے ملاقاتیں کر کے ان کو اعتماد میں لیا۔ اپنے دورہ پشاور کے دوران انہوں نے وزیراعلیٰ محمود خان اور دیگر سیاسی شخصیات سے بھی ملاقات کیں۔ ان ملاقاتوں میں سب سے اہم بیٹھک وہ تھی جب مولانا خود پشاور کی تاریخی مسجد قاسم علی خان میں مفتی شہاب الدین پوپلزئی سے ہوئی۔ مفتی شہاب الدین اور ان کے ہم خیال حلقے دھیرے دھیرے مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے بجائے سابق چئیرمین مفتی منیب الرحمان کے خلاف یہ تاثر قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے کہ وہ خیبر پختونخوا سے آنے والی شہادتوں کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ اس مسئلہ کی حساسیت کو سمجھتے ہوئے مولاناعبد الخبیر عازم پشاور ہوئے اور مفتی شہاب الدین سمیت تمام ملاقاتوں میں انہوں نے اس امر کی یقین دہانی کرائی کہ اب سے خیبر پختونخوا سے آنے والی شہادتوں کو بھی قبول کیا جائے گا۔

مولانا عبدالخبیر نے مختلف ملاقاتوں میں کہا کہ موجودہ حالات میں یکجہتی ملک کی اہم ضرورت ہے، اتفاق و اتحاد سے دشمن کی سازشوں کو ناکام بنائیں گے۔ انہوں نے پشاور میں یہ پیغام بھی دیا کہ وہ سندھ، پنجاب کے بعد بلوچستان کا بھی دورہ کریں گے، جہاں علمائے کرام کے ساتھ مشاورت کا عمل مکمل کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ رویت کا فیصلہ اگرچہ شرعی شہادتوں کی روشنی میں ہوگا لیکن ساتھ ہی محکمہ موسمیات اور جدید ٹیکنالوجی سے بھی استفادہ کیا جائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ جو ذمہ داری حکومت نے دی ہے اس کو بہتر انداز میں نبھانے کی کوشش کریں گے۔ دورہ پشاور کے دوران ان کی خاص طور پر مفتی شہاب الدین سے ملاقات کو زیادہ اہمیت دی گئی، جس میں دونوں حضرات نے عیدین اور روزے کی رویت کے بارے میں بات چیت کی۔ مولانا عبد الخبیر نے کافی حوصلہ افزاء باتیں کیں لیکن اس کے باوجود یہ گمان کرنا کہ آئندہ سے صوبے میں یہ اختلاف ختم ہو جائے گا اس کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ اگر خیبر پختونخوا کی شہادتوں کی بات کی جائے تو پشاور میں قلعہ بالا حصار جیسے اونچے مقام پر ضلعی رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس ہوتا ہے، جس میں علمائے کرام سمیت محکمہ موسمیات و دیگر اداروں کے نمائندے بھی موجود ہوتے ہیں۔ 

اس ضلعی کمیٹی کی حیثیت بھی سرکاری ہوتی ہے، اگر خیبر پختونخوا سے شہادتیں آتی ہیں تو یہ ضلعی کمیٹی اپنی مرکزی کمیٹی کو آگاہ کرنے کی پابند ہے اور اپنی ذیلی کمیٹی کی سفارشات کو اہمیت دینا مرکزی کمیٹی کا اختیار ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ اگر مولانا عبدالخبیر مسجد قاسم علی خان کی نجی کمیٹی کی شہادتوں کو قبول کر رہے ہیں تو وہاں چند کلومیٹر دور بیٹھی انکی ضلعی رویت ہلال کمیٹی کی کیا اہمیت رہ جائے گی۔؟ مفتی پوپلزئی تو ہمیشہ چاند چڑھا کر ہی اٹھتے ہیں، اگر انکی شہادتوں کو قبول کیا جائے گا تو کیا پھر ملک بھر میں مفتی پوپلزئی صاحب کی شہادت پر عید اور روزے ہونگے۔؟ کیا مولانا عبدالخبیر کی یہ ’’فراخدلی‘‘ ریاستی رٹ کو تسلیم نہ کرنے والوں کی حوصلہ افزائی اور شرعی معاملات میں مداخلت تصور نہیں ہوگی۔؟ مولانا عبدالخبیر کا پشاور جانا اور مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کرنا انتہائی خوش آئند اقدام ہے، تاہم اس معاملہ کی حساسیت کو پرکھے بغیر یہ اعلان کردینا کہ ’’آئندہ خیبر پختونخوا سے آنے والی شہادتوں کو بھی قبول کیا جائے گا،‘‘ شائد فی الوقت مناسب نہیں۔ اس حوالے سے بعض مقامات پر ’’نرم‘‘ اور بعض مقامات پر ’’سخت‘‘ فیصلے کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ شرعی فیصلے شریعت کے مطابق ہوں، نہ کہ کسی فرد واحد کی خواہش پر۔
خبر کا کوڈ : 918018
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش