0
Sunday 7 Mar 2021 20:32

چیئرمین سینیٹ کا انتخاب عمران خان کیلئے کتنا اہم؟

چیئرمین سینیٹ کا انتخاب عمران خان کیلئے کتنا اہم؟
رپورٹ: ایم رضا

جیسا کہ اپوزیشن نے یوسف رضا گیلانی کو چیئرمین سینیٹ کا امیدوار نامزد کرنے کا بھی اصولی فیصلہ کرلیا ہے اور پی ڈی ایم کی جماعتوں کو ایوانِ بالا میں اکثریت بھی حاصل ہے۔ اگرچہ یہ اکثریت پہلی جتنی نہیں لیکن عددی اعتبار سے پھر بھی اپوزیشن حکومتی اتحاد سے آگے ہے۔ مگر یہاں حکومت نے حکمتِ عملی تبدیل کرتے ہوئے اپوزیشن کو ٹف ٹائم دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ یعنی اب کی بار بھی حکومت نے اس منصب کے لئے صادق سنجرانی کو ہی نامزد کیا ہے۔ صادق سنجرانی کس قدر مضبوط اور اثر و رسوخ والی شخصیت ہیں، اس کا اندازہ 2019ء کو ہونے والے انتخابات سے ہی لگا لینا چاہیئے، جب اپوزیشن کے 14 سینیٹرز ان کی جھولی میں آکر گرے تھے۔ اگست 2019ء کو سینیٹ میں 64 ممبران کی اکثریت رکھنے والی اپوزیشن نے چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدمِ اعتماد تحریک پیش کی۔ پہلے مرحلے میں 64 ارکان نے تحریک کے حق میں کھڑے ہوکر ووٹ بھی کیا لیکن جب وہ 64 ووٹرز پولنگ بوتھ میں گئے تو ان میں سے 50 ہی وفادار ثابت ہوئے، جبکہ 14 سینیٹرز نے اندر ہی اندر اپنا سودا کرلیا۔

وزیرِاعظم عمران خان نے 26 سینیٹرز پر مشتمل اپنی سب سے بڑی پارٹی کو چھوڑ کر 12 نشستیں رکھنے والی بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کو چیئرمین کے عہدے کی پیشکش کرکے کیا اپنی ہی جماعت پر عدمِ اعتماد کا اظہار نہیں کر دیا ہے؟ یا پھر وہ ایک بار پھر وہی کھیل کھیلنے کی کوشش کر رہے ہیں، جو اس سے پہلے انہوں نے آصف علی زرداری سے ہاتھ ملا کر صادق سنجرانی کو مشترکہ امیدوار نامزد کرکے کھیلا تھا؟ صادق سنجرانی کو اس عہدے پر نامزد کرنے کے کچھ اسباب اور بھی ہیں۔ ایک تو سینیٹ کے ایوان میں حکومتی اتحاد کے پاس اکثریت نہیں، یعنی ان کے پاس کل 43 نشستیں ہیں۔ جن میں سے 26 تحریک انصاف کے پاس، 12 بلوچستان عوامی پارٹی کے پاس، 3 متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے پاس، مسلم لیگ (ق) کے پاس ایک سیٹ ہے جبکہ ایک آزاد امیدوار بھی ہے۔

دوسری طرف اپوزیشن اتحاد کے پاس کل ملا کر لگ بھگ 53 سینیٹرز ہیں۔ اگر تحریک انصاف اور حکومتی اتحاد کی اکثریت ہوتی تو شاید عمران خان صاحب کبھی بھی اس عہدے کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ اب حکومت نے سینیٹ چیئرمین کے انتخاب کے معاملے پر مکمل ٹاسک صادق سنجرانی اور ان کے ساتھیوں کو سونپ دیا ہے۔ خان صاحب کو بہت حد تک یہ امید ہے کہ سنجرانی صاحب ماضی کی طرح اس بار بھی کچھ کمال کر جائیں گے۔ اگر اپوزیشن کی بات کریں تو ان کے لئے یہ حفیظ شیخ کو شکست دینے سے بہت بڑا ٹاسک ہے۔ 12 مارچ کے اس معرکے میں اپوزیشن کے لئے اپنی صفوں میں اتحاد لازمی ہے، اگر ماضی کی طرح گڑبڑ ہوئی تو یہاں حکومت بدلہ لے سکتی ہے۔

اب کچھ بات کرتے ہیں وزیرِاعظم کے قوم سے خطاب، اعتماد کے ووٹ اور الیکشن کمیشن کے خلاف جاری کی گئی چارج شیٹ پر۔ اگرچہ انہوں نے اپنے گذشتہ خطاب میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ اس شکست سے ان کو بہت زیادہ فرق نہیں پڑا، لیکن باڈی لینگویج کچھ اور ہی پیغام دے رہی تھی۔ الیکشن کمیشن کے حوالے سے انہوں نے جو کچھ کہا، اس پر ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ کسی وزیرِاعظم نے الیکشن کمیشن کے خلاف اس طرح چارج شیٹ پیش کی ہو۔ لیکن یہ ایک طرفہ معاملہ نہیں ہے بلکہ الیکشن کمیشن نے بھی وزیرِاعظم کے اس بیان کا سخت جواب دیا ہے۔ مجھے ذاتی طور پر وزیرِاعظم کے اس خطاب میں تضادات نظر آئے۔ مثال کے طور پر ایک طرف وزیرِاعظم آئین اور قانون کی حکمرانی اور اداروں کی تکریم کی بات کرتے ہیں، لیکن دوسری طرف وہ ان اداروں پر الزام عائد کر رہے ہیں، جو قانون کے دائرے میں رہ کر کام کر رہے ہیں۔

جہاں تک اوپن بیلٹنگ کا معاملہ ہے تو الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ میں اپنا مؤقف واضح کر دیا تھا، جسے ملک کی سب سے بڑی عدالت نے احترام کے ساتھ ناصرف قبول کیا لیکن یہ بات تسلیم بھی کی کہ انتخابات کو شفاف بنانے کا ذمہ وار الیکشن کمیشن ہی ہے۔ ماضی میں ہم نے یہ تو دیکھا ہے کہ الیکشن کمیشن پر اپوزیشن جماعتیں ہر طرح کا الزام لگاتی آئی ہیں لیکن جب وزیرِاعظم خود ایسا کریں گے تو ادارے کے اعتماد کو کس قدر نقصان پہنچے گا، یہ سمجھنا زیادہ مشکل نہیں ہے۔ ممکن ہے وزیرِاعظم ڈسکہ کے ضمنی انتخابات میں الیکشن کمیشن کے فیصلے پر بھی غصہ ہوں، لیکن بات پھر بھی وہی ہے کہ اگر وہ یہ باتیں قوم سے خطاب کے دوران نہ کرتے، تو ہی بہتر تھا۔ اگر اس خطاب کے دیگر پہلوؤں پر بات کی جائے تو زیادہ تر باتیں وہی تھیں، جو وہ پہلے دن سے کرتے آرہے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس مشکل ترین دور میں لوگوں کو شاید اب اچھے خطاب سے زیادہ ریلیف اور عملی اقدامات کی ضرورت ہے، جو یقینی طور پر اس تقریر میں نہیں تھا۔

یہاں یہ سوال اٹھایا جاسکتا ہے کہ کیا کسی بھی وزیرِاعظم کو ایسا جارحانہ انداز اختیار کرنا چاہیئے؟ کیا تمام معاملات تحمل سے عوام کے سامنے رکھ کر اپنی بات میں وزن نہیں پیدا کیا جا سکتا؟ پھر شاید صرف خطاب ہی جذباتی نہیں تھا بلکہ اعتماد کا ووٹ لینے کا فیصلہ بھی جذباتی پن ظاہر کر رہا تھا۔ بہرحال اب عمران خان قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرچکے ہیں اور دوبارہ اپنی ساکھ بحال کرنے میں کامیاب ہوئے، جو حفیظ شیخ کی ہار کی صورت میں خراب ہوئی تھی۔ اعتماد کے ووٹ کے بعد اب سب سے اہم مرحلہ چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کا ہے، دیکھنا یہ ہے کہ پی ٹی آئی اراکین اور اتحادی اعتماد کے ووٹ کی طرح عمران خان کا ساتھ دیں گے یا پھر حفیظ شیخ والی تاریخ دوبارہ دوہرائی جائے گی۔
خبر کا کوڈ : 918166
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش