QR CodeQR Code

حضرت علی (ع) اور اصول پسندی

25 Feb 2021 04:06

اسلام ٹائمز: حضرت عثمان کے بعد مسلمانوں نے امام علی کی بیعت کی۔ جس میں پچھلے تین خلفاء کے برخلاف مدینے میں موجود تمام مسلمانوں نے شرکت کی اور حضرت علیؑ کی بعنوان خلیفہ بیعت کی۔ شروع میں حضرت عثمان کیخلاف اعتراضات کرنیوالے مدینہ کے انصار و مہاجرین اور مصر کے باسیوں اور مہاجرین کے ایک گروہ نے آپکی حمایت کی، پھر کچھ مدت کے بعد تمام بڑے بڑے قبائل کے سرداروں کی حمایت حاصل ہوئی۔ آپکی خلافت اسلام کے نظام سیاسی کے استحکام اور لوگوں کے سماجی اور معاشی حالات کی بہتری کا سنگ بنیاد قرار پائی۔


تحریر: محمد حسن جمالی

تیرہ رجب المرجب کا دن مسلمانوں کے لئے عظیم دن ہے، اس دن خانہ کعبہ کے اندر اس عظیم شخصیت کی ولادت ہوئی، جو رسول اکرم (ص) کے بعد کائنات میں سب سے افضل اور اعلم تھی۔ علم، تقویٰ، عبادت، عدل و انصاف، شجاعت، سخاوت اور دیگر تمام کمالات و فضائل انسانی میں اس کی کوئی نظیر نہیں تھی۔ میری طرف سے تمام عاشقان علی ابن ابی طالب کو یوم مولود کعبہ کی مناسبت سے مبارک باد۔ رسول خدا (ص) نے خدا کے حکم سے اپنے بعد امت مسلمہ کی رہبری، ہدایت، پیشوائی اور امامت کے لئے آپ کو ہی معین فرمایا اور متعدد مواقع پر مسلمانوں کو اس حقیقت سے باخبر کیا۔ بدون تردید اگر مسلمانوں نے دل و جان سے رسول اللہ کے حکم کا احترام کیا ہوتا، آپ کے فرمان پر من و عن عمل کیا ہوتا اور امامت کے سلسلے میں آپ کے ارشادات و تاکیدات کے سامنے سرتسلیم خم کرچکے ہوتے تو آج دنیا میں مسلمان سرخرو رہتے۔

وہ عظیم طاقت کے مالک بنتے اور عزت و کرامت سے لبریز زندگی ان کے شامل حال رہتی۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ رسول خدا (ص) کی رحلت کے بعد بعض مغرض اور خواہشات نفسانی کے اسیر نام نہاد مسلمانوں نے آنحضرت (ص) کے فرامین و ارشادات کو فراموشی کے سپرد کر دیا۔ علی ابن ابی طالب (ع) کی امامت کو تسلیم کرنے سے انکار کیا، یوں انہوں نے اپنے مادی مفادات کے حصول کے لئے حضرت علی علیہ السلام کو یکسر نظرانداز کرکے اپنی پسند اور مرضی سے کسی اور کو منصب امامت پر لاکر بٹھا دیا اور اس کی بیعت پر کمزور مسلمانوں کو لالچ اور خوف کے ذریعے مجبور کیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ ضال و اضل کا حقیقی قرار پائے۔ انہوں نے امیر المومنین سے منہ موڑ کر اپنی مرضی سے امامت کے لئے موزون شخص کا انتخاب کرکے انسانیت کی تقدیر ساز اور مایہ سعادت کے حامل حساس امامت کے مسئلے کو دنیوی مسئلہ قرار دے کر اس کی اہمیت گھٹا دی۔ در حالیکہ نصوص قرآنی کے مطابق امامت کا مسئلہ خدائی و الہیٰ ہے، قرآن کریم میں اس کی بڑی اہمیت و عظمت بیان ہوئی ہے۔

دوسری طرف سے انہوں نے اپنے اس غلط اقدام کے ذریعے عقلاء عالم کے ہاں واضح و آشکار اصول (فاضل و فضول میں سے فاضل کو مفضول پر تقدم حاصل ہے) کی کھلی مخالفت کی ہے۔ انہوں نے اپنے اس گھناونے عمل اور قبیح حرکت کے ذریعے قیامت تک آنے والے انسانوں تک یہ پیغام پہنچا دیا ہے کہ جب انسان کی عقل پر خواہشات نفسانی کا عنصر غالب آجائے، دنیوی و مادی مفادات کے حصول کے لالچ کی دلدل میں انسان پھنس جائے اور رحمان کو چھوڑ کر شیطان کی اطاعت کر جائے تو اس کے لئے عقل و شرع کے احکامات کی مخالفت کرنا پانی پینے کی طرح آسان ہو جاتا ہے! ایسے افراد کے ہاں دنیا میں لاکھ جتن کرکے زر، زن اور زمین حاصل کرنے والے کامیاب لوگ ہوتے ہیں۔ احکام الہیٰ کی پاسداری کرتے ہوئے ناجائز طریقوں سے مال و دولت سمیٹنے سے خودداری کرنے والے ان کے ہاں احمق شمار ہوتے ہیں، کیونکہ ان کی منطق یہ ہوتی ہے کہ مال دنیا نقد ہے اور احکام خدا کی پاسداری کے نتیجے میں ملنے والا اجر، ثواب و جنت ادھار۔ نقد کو چھوڑ کر ادھار کو ترجیح دینا بے وقوفی کی نشانی ہے!

امیر المئومنین کی امامت کی مخالفت کے اسباب و علل کا عمیق تجزیہ و تحلیل کیا جائے تو سرفہرست یہ نظر آئے گا کہ آپ (ع) عقلی، شرعی اور انسانی اصولوں پر کاربند تھے۔ آپ کی مخالفت کرنے والوں کو یقین تھا کہ علی کی امامت کو تسلیم کرنے کی صورت میں ہمارے لئے ناجائز طریقے سے مفادات کا حصول ممکن نہیں رہے گا۔ آپ (ع) نے اپنی درخشان زندگی کے تمام ادوار میں اصول پسندی کو اپنی پہچان بنائے رکھا، یہاں تک کہ اپنے مختصر دور خلافت میں لوگوں کی بے تحاشا مخالفتوں کے باوجود آپ نے سختی سے اس کی رعایت کی۔ آپ کا پورا ھم و غم یہ رہا کہ اسلامی معاشرے سے غلط امتیازات کو دفنا دیا جائے، طاقت، دولت اور معاشرتی منصبوں کی تقسیم فقط اسلامی معیاروں کے مطابق ہو۔ اگر کوئی اس حوالے سے غلطی کا مظاہرہ کرتا، خواہ وہ اپنا قریبی ہی کیوں نہ ہو، آپ فوراً اسے عتاب فرماتے۔

چنانچہ جب اپنے بھائی عقیل نے اقتصادی بدحالی سے تنگ آکر بیت المال سے مالی تعاون کی آپ سے درخواست کی تو آپ نے نہ فقط اس کی مدد نہیں کی بلکہ اس کی سختی سے سرزنش بھی کی گئی۔ اسی طرح تحریفات، انحرافات اور بے جا توقعات کے خلاف آپ کے دو ٹوک اصولی موقف نے دو طرح کے لوگوں کو اپنا دشمن بنا دیا۔ ایک وہ جو آپ کے موقف کو برداشت نہیں کرتے تھے اور دوسرے وہ جو اسے سمجھ نہیں پا رہے تھے اور وہ غلط فہمیوں کا شکار تھے۔ آج بہت سارے لوگ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ حضرت علی (ع) اگر پیغمبر اکرم (ص) کا حقیقی خلیفہ تھے تو انہوں نے اس منصب کے چھننے پر اپنی شجاعت کا مظاہرہ کیوں نہیں کیا؟ انہوں نے پچیس سال پر محیط لمبا عرصہ خاموش رہ کر گوشہ نشینی کیوں اختیار کی۔؟

اس کا جواب یہ ہے کہ خاموشی اور گوشہ نشینی اختیار کرنے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ آپ نے اس حوالے سے کوئی فعالیت انجام نہ دی ہو، بلکہ آپ متحرک رہے ہیں، اپنے فرائض پر بھرپور عمل کرتے رہے ہیں اور لوگوں کی ہدایت کرتے رہے ہیں۔ اس حوالے سے کبھی بھی آپ نے سستی یا غفلت کا مظاہرہ نہیں فرمایا۔ البتہ اتحاد مسلمین کی حفاظت سمیت اسلامی اہم اصولوں کی پاسداری کی خاطر آپ نے خلافت سے چشم پوشی کی۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ خلیفہ اول کو سقیفہ میں تشکیل پانے والی کمیٹی نے رسول خدا کے فرامین سے منہ موڑ کر اپنے انتخاب سے خلیفہ بنایا۔ اس کے بعد خلیفہ اول نے مرنے سے پہلے ایک وصیت نامہ لکھ کر حضرت عمر کو اپنا جانشین معرفی کر دیا۔ یوں اس نے خود اپنے ہاتھوں سقیفہ میں انجام پانے والی بیعت کو قانونی شمار نہیں کیا بلکہ خلیفہ انتخاب کرنے کا ایک طریقہ معرفی کیا کہ موجودہ خلیفہ اپنے بعد والے خلیفہ کو انتخاب کرکے جائے۔

اسی وجہ سے حضرت عمر کے اس طریقے سے انتخاب پر بعض بزرگ صحابہ نے اپنی ناراضگی اور نگرانی کا اظہار کیا، لیکن دوسروں نے آنکھ بند کرکے چپکے سے اسے تسلیم کر لیا۔ اگر تعصب کی عینک اتار کر غور کیا جائے تو آج بھی حضرت علی کو چوتھا خلیفہ ماننے والوں کے پاس اس سوال کا کوئی قانع کنندہ جواب نہیں کہ خلافت کا مسئلہ انتصابی ہے یا انتخابی، اگر انتخابی ہے تو خلیفہ اول نے خلیفہ دوم کو شوریٰ کے انتخاب پر موکول کرنے کے بجائے خود نے معین کیوں کیا؟ حضرت عمر کے دس سالہ دورہ خلافت (۱۳-۲۳ق) کے دوران اسلامی حکومت کا دائرہ کار تیزی سے پھیلا۔ انہوں نے بیت المال کی تقسیم میں اسلام میں سبقت، غزوہ میں شرکت، پیغمبر اکرم سے قرابت اور خاندانی حسب و نسب کو ملاک قرار دیا، جو سراسر اسلامی احکام کے خلاف تھا۔

حضرت عمر نے اپنی موت سے پہلے چھ افراد پر مشتمل ایک شوریٰ (کمیٹی) تشکیل دی، جس میں امام علی (ع) اور عثمان بھی شامل تھے۔ اس کمیٹی کی یہ ذمہ داری تھی کہ تین دن کے اندر اپنے درمیان سے کسی کو بعنوان خلیفہ انتخاب کیا جائے، لیکن اس میں ایک انوکھی شرط رکھی گئی تھی، جس کے مطابق آخری فیصلہ کرنے کا حق عبد الرحمن بن عوف کو دیا، جو حقیقت میں امام علیؑ کو انتخاب ہونے سے بچانے کی سازش تھی۔ یوں اقرباء پروری اور ذاتی دشمنی کی بنا پر عثمان کو اس شرط پر خلیفہ منتخب کیا گیا کہ وہ کتاب خدا، سنت پیغمبرؐ اور شیخین (ابوبکر اور عمر) کی سیرت پر عمل پیرا ہوگا۔

حضرت عثمان کے بعد مسلمانوں نے امام علی کی بیعت کی۔ جس میں پچھلے تین خلفاء کے برخلاف مدینے میں موجود تمام مسلمانوں نے شرکت کی اور حضرت علیؑ کی بعنوان خلیفہ بیعت کی۔ شروع میں حضرت عثمان کے خلاف اعتراضات کرنے والے مدینہ کے انصار و مہاجرین اور مصر کے باسیوں اور مہاجرین کے ایک گروہ نے آپ کی حمایت کی، پھر کچھ مدت کے بعد تمام بڑے بڑے قبائل کے سرداروں کی حمایت حاصل ہوئی۔ آپ کی خلافت اسلام کے نظام سیاسی کے استحکام اور لوگوں کے سماجی اور معاشی حالات کی بہتری کا سنگ بنیاد قرار پائی۔ خلافت ظاہرہ پر جلوہ افروز ہونے کے بعد آپ نے پہلا قدم عثمان کے زمانے میں غیر قانونی اور غیر شرعی طور پر منصوب ہونے والے حکومتی عہدہ داروں کو معزول کرکے ان کی جگہ لائق اور فرض شناس عہدہ داروں کو مقرر کرنے اور لوگوں کے ضائع شدہ حقوق کو پلٹانے کے ذریعے اٹھایا، جبکہ یہ بیت المال اور پوری امت اسلامی کا حصہ تھے۔


خبر کا کوڈ: 918238

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/918238/حضرت-علی-ع-اور-اصول-پسندی

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org