0
Thursday 25 Feb 2021 12:41

جدید اسلامی تہذیب، نظریہ اور خدوخال(2)

جدید اسلامی تہذیب، نظریہ اور خدوخال(2)
تحریر: سید اسد عباس

گذشتہ تحریر میں ہم نے تہذیب کی تعریف، قدیم اور موجودہ تہذیبوں اور ان کے محور کا ایک جائزہ پیش کیا۔ ہم نے جانا کہ مغربی تہذیب کا محور مادی ترقی ہے، جس کے لیے ان کے پاس قانون بھی ہے اور اخلاقیات بھی، لیکن اس قانون اور اخلاقیات کی بنیاد یا فلسفہ خدا پرستی نہیں بلکہ مادی ترقی کا حصول ہے۔ خدا پرستی کی بنیاد پر تہذیب کی تشکیل کی بنیاد پہلے نبی کی آمد کے ساتھ ہی رکھ دی گئی تھی، تمام انبیاء اسی تہذیب کے پرچارک رہے۔ اس تہذیب نے مختلف ثقافتوں میں مختلف شکلیں اختیار کیں، تاہم تہذیب کا بنیادی عنصر خدا پرستی اور ایک عادلانہ معاشرے کا قیام ہی رہا۔ اس تہذیب کی جامع شکل رسالت ماب ؐ کے زمانے میں دیکھنے میں آئی، جب عبادات، اخلاقیات، قوانین کے ساتھ ساتھ نافذہ کا قیام بھی عمل میں آیا۔ اسلامی تہذیب کے تحت فتوحات کا سلسلہ شروع ہوا اور ملکوں کے ملک مسلمانوں کے زیر تسلط آتے گئے۔ روم اور فارس کی حکومتوں کا خاتمہ ہوا اور اسلام ایک مقتدر قوت کے طور پر سامنے آیا۔

مسلمانوں کے اس اقتدار کا خاتمہ سلطنت عثمانیہ کے ساتھ ہوا اور اس کے بعد مغربی تہذیب ایک مقتدر قوت کے طور پر ہمارے سامنے ظاہر ہوئی۔ حال ہی میں انقلاب اسلامی ایران کے روحانی پیشوا نے انقلاب اسلامی کے دوسرے مرحلے میں ایک جدید اسلامی تہذیب کی تشکیل کا عندیہ دیا ہے۔ جدید اسلامی تہذیب سے کیا مراد ہے، یہ ہم سید علی خامنہ ای کے اقوال سے ہی سمجھیں گے۔ تاہم ایک چیز بدیہی ہے کہ یہ تہذیب مغربی مادہ پرست تہذیب کے مقابل خدا پرست تہذیب ہے، جس کا بنیادی محور مادی ترقی کے بجائے انسان کی ہر دو جہتوں یعنی مادی اور معنوی ترقی سے عبارت ہے اور اس کا فلسفہ یکتا پرستی پر مبنی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ مغرب کی مادہ پرست تہذیب نے انسان کو معنوی طور پر نہایت کھوکھلا کر دیا ہے، اس تہذیب کے قوانین اور اخلاقیات میں موجود اچھائیاں کھوکھلی ہیں۔ اگر مادی فائدہ نہ ہو تو مغربی تہذیب کا انسان ایک وحشی درندے سے کم نہیں۔ انسانی حقوق، خواتین کی آزادی، بچوں کے حقوق، اقوام کے حقوق، قیدیوں کے حقوق، جانوروں کے حقوق سب کا ہدف مادی منفعت ہے۔ اگر مادی منفعت نہیں تو یہ سب باتیں بے معنی ہو جاتی ہیں اور ان حقوق کے چمپئیں ہلاکو، چنگیز اور دنیا میں بربریت کی دیگر مثالوں سے کسی طور کم نہیں رہتے۔ ہیرو شیما، ویتنام، افغانستان، عراق، لیبیا، شام، یمن، صومالیہ، فلسطین، کشمیر غرضیکہ دسیوں مثالیں اسی مغربی تہذیب کی بربریت  کے شاہکار ہیں۔

اقوام عالم مادہ پرست تہذیب کی دو انتہاوں یعنی سرمایہ داری نظام اور اشتراکیت کو جھیل چکے ہیں۔ اپنے بنیادی فلسفہ کے سبب ہر دو نے انسانی معاشرے کو تکلیف اور کرب کے سوا کچھ نہیں دیا۔ اشتراکیت نے انسان سے ملکیت کا حق چھین کر ریاست کو مضبوط کیا تو سرمایہ دارانہ نظام نے فرد کو مضبوط کرکے طبقاتی تقسیم کو رواج دیا، جس سے انسانی معاشرے سرمایہ کی بنیاد پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئے۔ امریکہ، یورپ اور مغربی تہذیب کے دیگر مراکز میں یہ تقسیم اب کھل کر سامنے آچکی ہے۔ ننانوے فیصد عوام کے وسائل پر ایک فیصد اشرافیہ کا قبضہ اسی تہذیب کا شاخسانہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ انسانیت کے پاس موجودہ کھوکھلے اور یک جہتی نظام سے نکلنے کی کیا سبیل ہے؟ کیا دنیا میں موجود تہذیبوں میں سے کسی تہذیب کے پاس وہ سرمایہ اور علمی بنیادیں ہیں، جو انسان کی مشکلات کا ایک جامع حل پیش کرسکیں۔ کیا کوئی ایسا نظام موجود ہے، جو انسان کی مادی اور معنوی بہبود کا خیال رکھے اور یہ عمل ایک اعتدال کے ساتھ انجام دیا جائے۔ اس سوال کا جواب فقط ’’اسلام‘‘ ہے۔

اسلام یعنی آدم سے خاتم تک انسانوں کی ہدایت کے لیے بھیجا گیا دین۔ یہ وضاحت اس لیے ضروری تھی کہ اسلام سے کوئی شخص عیسائیت، یہودیت کے مقابل ایک مذہب نہ سمجھے۔ اس اسلام سے مراد وہ آفاقی تعلیمات ہیں، جو اللہ نے اپنے پیغمبروں کے ذریعے انسانوں کو دیں، تاکہ ایک عادلانہ اور منصفانہ معاشرہ تشکیل پا سکے۔ رہبر انقلاب اسلامی سید علی خامنہ ای کا کہنا ہے کہ عالم اسلام کی ذمہ داری ہے کہ وہ دنیا میں ایک نئی روح پھونکے، جیسا کہ ختمی مرتبت ؐ نے کیا، تاکہ ایک نیا ماحول تشکیل دیا جائے اور نئی راہیں کھلیں۔ ہم اس نئے تصور کو ’’جدید اسلامی تہذیب‘‘ کا نام دیتے ہیں۔ ہمیں انسانوں کے لیے اس نئی تہذیب کی تگ و دو کرنی ہے۔ یہ تصور اس تصور سے بالکل مختلف ہے، جو آج کی طاقتیں انسان کے بارے میں رکھتی ہیں۔ اس سے مراد زمینوں کو فتح کرنا نہیں ہے۔ اس سے مراد اقوام کے حقوق غصب کرنا نہیں ہے۔ اس سے مراد کسی پر عقائد اور ثقافت کو مسلط کرنا نہیں ہے بلکہ اس سے مراد اقوام کو ایک الہیٰ تحفہ پیش کرنا ہے، تاکہ وہ اپنے ارادے اور اختیار سے درست راہ کا انتخاب کریں۔

آج عالمی طاقتیں اقوام کو جس راہ پر لے آئی ہیں، وہ غلط اور بھٹکا ہوا راستہ ہے۔ یورپ کے لوگوں نے مسلمانوں کے علم اور فلسفہ کو استعمال کرتے ہوئے ایک نئی تہذیب کی بنیاد رکھی، جو کہ مادی تھی۔ عیسوی کلینڈر کے سولھویں اور سترویں صدی میں اس نئی تہذیب کی تشکیل کا آغاز ہوا۔ ایک جانب یورپی اقوام نوآبادیاتی نظام کے ذریعے اقوام کو فتح کرنے اور ان کے وسائل کو لوٹنے کی جانب متوجہ ہوئیں اور دوسری جانب اندرونی طور پر انھوں نے علم، صنعت اور تجربہ کے ذریعے اپنے آپ کو اندرونی طور پر مضبوط کیا۔ یوں یہ تہذیب انسانی معاشرے پر تسلط میں کامیاب ہوئی۔ یہی ہے جو یورپی اقوام نے گذشتہ چار یا پانچ صدیوں میں کیا ہے۔ ان کی پیش کردہ تہذیب نے دنیا کو ٹیکنالوجی، رفتار، آسائش کے خوبصورت مظاہر پیش کیے، تاہم یہ لوگوں کو خوشی اور انصاف مہیا نہ کر پائے۔ اس کے برعکس اس تہذیب نے انصاف کے سر پر وار کیا، اقوام کو محکوم کیا، کچھ اقوام کو پسماندہ رکھا اور کچھ کو غلام۔

اس تہذیب میں خود اپنے اندر تناقضات تھے۔ اخلاقیات اور معنویت کے لحاظ سے یہ معاشرے کھوکھلے ہوگئے۔ مغربی اقوام آج ان مسائل سے دوچار ہیں۔ بہت سے مغربی سیاستدانوں نے مجھے کہا کہ ان کی دنیا خالی اور کھوکھلی ہے اور وہ اسے محسوس کر رہے ہیں۔ وہ درست محسوس کر رہے ہیں، اس تہذیب کا ایک خوشنما ظاہر ہے لیکن اس کی حقیقت انسانیت کے لیے نہایت خطرناک ہے۔ آج مغربی تہذیب کے تناقضات ظاہر ہو رہے ہیں، ان کا اظہار یورپ، امریکا اور ان کے زیر تسلط علاقوں میں مختلف شکلوں میں ہو رہا ہے۔ اب ہماری باری ہے، اسلام کی باری ہے۔ "وَتِلْكَ الْأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ" (یہ زمانے کے نشیب و فراز ہیں، جنھیں ہم اقوام کے مابین گردش دیتے ہیں۔ آل عمران: 114) آج مسلمانوں کی باری ہے کہ وہ اپنے ارادے سے ایک نئی اسلامی تہذیب کی بنیاد رکھیں۔ جیسا کہ کل یورپ نے مسلمانوں کے علم اور حکمت سے استفادہ کرتے ہوئے ایسا کیا، ہم بھی موجودہ زمانے کے علم سے استفادہ کر رہے ہیں۔ ہم موجودہ دور کے آلات کا استعمال کر رہے ہیں، تاکہ ایک نئی اسلامی تہذیب کی بنیاد رکھیں۔(29 دسمبر 2015ء)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 918288
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش