1
Thursday 25 Feb 2021 14:37

عراق میں نیٹو فورسز کی تعداد میں اضافہ اور پس پردہ حقائق

عراق میں نیٹو فورسز کی تعداد میں اضافہ اور پس پردہ حقائق
تحریر: احمد کاظم زادہ
 
حالیہ چند دنوں میں عراق میں بہت اہم اور قابل غور واقعات رونما ہوئے ہیں جن میں سے ایک مغربی فوجی اتحاد نیٹو کی جانب سے اس ملک میں اپنے فوجیوں کی تعداد میں خاطرخواہ اضافہ کرنے کا فیصلہ ہے۔ مزید اہم اور قابل غور نکتہ یہ ہے کہ ان نیٹو فورسز کی بڑی تعداد امریکی فوجیوں پر مشتمل ہو گی اور یوں اب امریکہ عراق میں اپنی فوجی موجودگی نیٹو کے سائے تلے برقرار رکھنے کا ارادہ کر چکا ہے۔ گذشتہ کچھ ماہ سے عراق میں امریکی سفارت خانے، اس کے فوجی اڈوں اور فوجی قافلوں پر حملے انجام پا رہے ہیں جن کا الزام امریکہ عراق میں ایران کے حمایت یافتہ مسلح گروہوں پر عائد کرتا آیا ہے۔ امریکہ کی مراد عراق میں آیت اللہ سیستانی کے حکم پر داعش کے خلاف تشکیل پانے والی عوامی رضاکار فورس حشد الشعبی ہے۔
 
دوسری طرف حشد الشعبی کے اعلی سطحی عہدیداروں نے بارہا اس الزام کی تردید کرتے ہوئے ان اقدامات کو خود امریکہ کی اپنی سازش قرار دیا ہے۔ اب حشد الشعبی کے رہنماوں کا یہ دعوی درست ثابت ہو رہا ہے۔ امریکہ درحقیقت ان حملوں کو بہانہ بنا کر اس ملک میں نیٹو فورسز کی موجودگی کا زمینہ ہموار کر رہا ہے۔ یاد رہے گذشتہ برس عراق میں امریکی حکمرانوں کے ہاتھوں داعش کے خلاف برسرپیکار سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی قدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی اور حشد الشعبی کے نائب سربراہ ابو مہدی المہندس کی ٹارگٹ کلنگ کے بعد عراقی پارلیمنٹ نے بھاری اکثریت سے ایک بل منظور کیا تھا جس میں امریکہ سے جلد از جلد عراق سے مکمل فوجی انخلاء کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
 
نیٹو کی مرکزی کمان نے اعلان کیا ہے کہ وہ عراق میں موجود اپنی فورسز جن کی تعداد اس وقت 500 ہے، بڑھا کر 4000 کرنا چاہتا ہے۔ یعنی نیٹو فورسز کی تعداد 8 گنا بڑھ جائے گی۔ دوسری طرف امریکہ میں حال ہی میں برسراقتدار آنے والی جو بائیڈن حکومت نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ نیٹو کی اس تعداد کا تین چوتھائی حصہ امریکی فوجیوں کی صورت میں فراہم کرے گی۔ لہذا یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ امریکہ عراق سے نہ صرف فوجی انخلاء کا ارادہ نہیں رکھتا بلکہ نیٹو اتحاد کی صورت میں اپنے فوجیوں کی تعداد مزید بڑھانے کے درپے ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ حکومت کے دوران عراق سے امریکی فوجیوں کا انخلاء شروع ہو چکا تھا اور 2000 امریکی فوجی عراق سے نکل گئے تھے لیکن اب گویا نیٹو فورسز کے روپ میں مزید 3000 امریکی فوجی عراق بھیجے جا رہے ہیں۔
 
جو بائیڈن اس نئی حکمت عملی کے تحت دو مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ایک عراق میں اپنی فوجی موجودگی کو یقینی بنانا جبکہ دوسرا عراق میں اپنے فوجیوں کے اخراجات بھی نیٹو کی گردن پر ڈالنا ہے۔ یوں امریکہ کو دو فائدے حاصل ہو جائیں گے اور عراق میں اس کی فوجی موجودگی برقرار رہنے کے ساتھ ساتھ ان فوجیوں کے اخراجات کی ذمہ داری بھی نیٹو پر پڑ جائے گی۔ دوسری طرف العربیہ سمیت سعودی عرب کے سرکاری چینلز نے حال ہی میں عراق کے سابق ڈکٹیٹر صدام حسین کی بیٹی رغد صدام کا انٹرویو شائع کیا ہے۔ اس انٹرویو کے فوراً بعد مصطفی الکاظمی کی سربراہی میں عراقی حکومت کے دو وزیر یعنی وزیر داخلہ اور وزیر خارجہ نے غیر متوقع طور پر سعودی عرب کا دورہ کیا ہے۔
 
سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ سعودی عرب نئے امریکی صدر جو بائیڈن کو یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ اگر اس نے سعودی عرب کے اندر اور باہر سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان کے خلاف سرگرمیاں جاری رکھیں تو عراق میں ایک بار پھر بڑے پیمانے پر بدامنی پھیلا کر عراقی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش شروع ہو جائے گی۔ البتہ سعودی عرب نے اس سلسلے میں عملی اقدامات کا بھی آغاز کر دیا ہے اور جو بائیڈن کی تقریب حلف برداری کے دن عراق میں انجام پانے والے خودکش بم دھماکے اسی کا ایک حصہ تھے۔ عراق کے سکیورٹی ذرائع نے اعلان کیا ہے کہ ان خودکش دھماکوں میں سعودی شہری ملوث تھے۔ ان دھماکوں میں ایک سو سے زائد عراقی شہری جاں بحق اور زخمی ہو گئے تھے۔
 
حقیقت یہ ہے کہ تکفیری دہشت گرد عناصر اور صدام حکومت کے بچے کھچے بعث پارٹی سے وابستہ گروہ عراق میں بدامنی اور دہشت گردی پھیلانے کیلئے سعودی عرب کے پاس دو بڑے ہتھکنڈوں کی صورت میں موجود ہیں۔ لہذا سعودی حکمران انہی ہتھکنڈوں کے ذریعے عراقی حکومت سمیت دیگر علاقائی اور عالمی طاقتوں کو بلیک میل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ماضی کا جائزہ لینے سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ سعودی حکمرانوں نے عراق سمیت پورے خطے میں اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے دہشت گردی کو ایک اہم ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کیا ہے۔ عراق، شام، لبنان، افغانستان، پاکستان، ایران اور دیگر ممالک میں سر اٹھانے والی تکفیری دہشت گردی اور سعودی حکمرانوں کی جانب سے اس کی مالی پشت پناہی اس بات کا واضح ثبوت ہے۔ دوسری طرف عراق میں نیٹو فورسز کے روپ میں صہیونی عناصر کے سرگرم عمل ہونے کا خطرہ بھی پایا جاتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 918296
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش