0
Friday 26 Feb 2021 09:42

FATF استعمار کا آلہ کار استحصالی ادارہ

FATF استعمار کا آلہ کار استحصالی ادارہ
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

پاکستان ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے FATF کے شکنجے میں ہے۔ آخری بار FATF نے کل ستائیس پوائنٹس بتائے اور ان پر عملدرآمد کے لیے ایک عدد ایکشن پلان بھی دیا۔ جن میں سے تین پر عمل درآمد نہیں ہوا، چھ پر عمل درآمد ہوا ہے مگر وہ قابل اطمنان سطح سے نیچے ہے اور باقی پوائنٹس پر پاکستان نے بہت اچھا کام کیا ہے۔ جن تین پوائنٹس پر کام نہیں نہیں ہوا، ان میں دہشتگردی کی مالی معاونت، اقوام متحدہ کی پابندیوں کے نفاذ میں رکاوٹیں اور منی لانڈرنگ جیسے نکات شامل ہیں۔ پاکستان کو  جون 2018ء میں گرے لسٹ میں ڈالا گیا تھا۔ پاکستان ایکشن آف  پلان پر مسلسل عمل درآمد کر رہا ہے۔ FATF کی اپنی رپورٹ کے مطابق پاکستان نوے فیصد عمل درآمد کرچکا ہے، مگر اس کے باوجود اسے گرے لسٹ میں ہی رکھا گیا ہے۔ حماد اظہر صاحب کی چند ٹویٹس سامنے آئی ہیں، جس میں وہ اس بات کو اپنی بڑی کامیابی قرار دے رہے ہیں کہ FATF نے ہماری کارکردگی کو بہت سراہا ہے۔ جی آپ کی کارکردگی کو بہت سراہا گیا ہے، اسی لیے پاکستان گرے لسٹ میں ہی پڑا ہوا ہے، پاکستان کو گرے لسٹ میں چوتھی بار ایکسٹنش ملی ہے۔

پاکستان کو 2008ء سے مختلف اوقات میں گرے لسٹ میں رکھا گیا، ایک تھنک ٹینک  کی رپورٹ کے مطابق اس سے پاکستان کو  براہ راست 38 ارب ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے۔ صرف 2019ء میں پاکستان کو دس ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ FATF کی گرے لسٹ نے ڈائریکٹ انویسمنٹ کو روک رکھا ہے اور سرمایہ کار گرے لسٹ میں پاکستان کا نام دیکھتے ہیں، سرمایہ کاری سے ہاتھ روک لیتے ہیں۔ تھنک ٹینک کے مطابق 2017ء تا 2018ء میں پاکستان گرے لسٹ میں نہیں تھا، یہ سال پاکستانی اکانومی کے لیے بہترین سالوں میں سے تھا، جس میں سرمایہ کاری آئی اور ملک کی جی ڈی پی گروتھ بہت بڑھی۔ اس رپورٹ کے مطابق گرے لسٹ کی وجہ سے نہ صرف بیرونی سرمایہ کاری نہیں آتی بلکہ لوکل سرمایہ کار بھی سرمایہ کاری سے ہاتھ کھینچ لیتا ہے، جس سے ملک کی ترقی کی رفتار کا پہیہ آہستہ ہونے لگتا ہے۔

گرے لسٹ میں ڈالنے کی یہ کارروائی ہمارے دیرینہ دوست، جس کے بحری بیڑے کا ہم ڈھاکہ میں بھی انتظار کرتے رہے تھے، یعنی ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی محبت کا نتیجہ ہے۔ جس نے جون 2018ء میں دہشتگردوں کی مالی معاونت اور منی لانڈرنگ کے الزامات لگا کر پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈالنے کی تحریک چلائی اور اس کو ہمیشہ کی طرح برطانیہ، جرمنی اور فرانس کی حمایت حاصل تھی۔ اربوں ڈالر کا نقصان، معیشت میں مسلسل گراوٹ، سرمایہ کاری کا فقدان اور اس کے نتیجے میں آنے والی بیروزگاری کے طوفان کا اصل ذمہ دار امریکہ ہے، جس کی وجہ سے آج ہم  دنیا کی عدالت کے کٹہرے میں کھڑے ہوئے ہیں۔ ہمارے منسٹر جاتے ہیں اور پرلے درجے کے متعصب اور پہلے سے ذہن بنا کر آنے والوں کو وضاحتیں پیش کرتے ہیں، جو  مسلسل ہماری قومی تذلیل کر رہے ہیں۔

یہ بات تسلیم کی جاتی ہے کہ جو پلان آف ایکشن پاکستان کو دیا گیا، یہ FATF کی تاریخ کا سب سے سخت پلان آف ایکشن تھا۔ اس سخت ترین پلان آف ایکشن پر بھی نوے فیصد ان کے اپنے مطابق عمل درآمد ہوچکا ہے لیکن پھر بھی ہم گرے لسٹ میں ہیں۔ جن پیمانوں پر پاکستان کو پرکھا گیا اور پرکھا جا رہا ہے، کیا انہی پیمانوں پر اسرائیل، بھارت بلکہ خود امریکہ کو پرکھا جا سکتا ہے؟ شام میں تمام دہشتگرد تنظیموں کی ڈوریں کہاں سے ہلائی جا رہی ہیں؟ عراق میں داعش کو وسائل کن ممالک نے فراہم کیے؟ عالمی عدالت انصاف کا ایک چھوٹا سا فیصلہ آیا، جس میں غزہ میں اسرائیل کے جرائم کو عالمی عدالت انصاف کے دائرہ کار میں شامل کیا گیا، اس پر وہ چلا رہا ہے اور خود عالمی عدالت انصاف کی حیثیت کو ہی چیلنج کر رہا ہے۔ دنیا  کا نظام شفاف نہیں ہے۔ اب پاکستان کے صاحبان فکر یہ لکھ رہے ہیں کہ اگر فیصلہ میرٹ پر ہوتا تو پاکستان گرے لسٹ سے نکل جاتا۔ جی اگر فیصلے میرٹ پر ہی ہوتے تو پاکستان کو لسٹ میں ڈالا ہی کیوں جاتا۔؟ انڈیا، اسرائیل اور امریکہ کیا اس لسٹ سے باہر ہوتے۔؟

اقوام متحدہ، عالمی عدالت انصاف، انسانی حقوق کے عالمی ادارے یہ سب کے سب امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی کٹھ پتلیاں ہیں۔ جب مغرب نے کسی ملک کو دباو میں لانا ہوتا ہے تو وہ انہی کو استعمال کرتا ہے۔ سوڈان میں فوجی آمریت تھی، بڑی پابندیاں لگی ہوئی تھیں مگر جیسے ہی انہوں نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اشارہ دیا، فوری طور پر ہر چیز صاف و شفاف ہوگئی۔ امریکہ افغانستان میں پھنسا ہوا ہے، اسے پاکستان کو دباو میں رکھنا ہے، تاکہ وہ اس سے اپنی مرضی کے مطابق کام لے سکے۔ اس لیے ہمارے سر پر FATF کی تلوار لٹکتی رہے گی۔ جیسے جیسے افغانستان میں  اپنے مقاصد حاصل کرتے جائیں گے، ایسے ایسے FATF کا خطرہ بھی کم ہوتا جائے گا۔

اگر وہ افغانستان میں مزید پھنس گئے تو اپنی ناکامی و نااہلی کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے میں دیر نہیں لگائیں گے اور نئے الزامات کی فہرست کے ساتھ بلیک لسٹ کی فائل راتوں رات تیار ہو جائے گی اور دیکھتے ہیں دیکھتے ایمرجنسی میٹنگ بلا کر ہی فیصلہ کر لیا جائے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد بنایا گیا ورڈ آرڈر اپنی مدت پوری کرچکا ہے، اس نے انسانیت پر بہت زیادہ مظالم ڈھائے ہیں۔ اس لیے اب ضروری ہوگیا ہے کہ دنیا کی پسی ہوئی اقوام باہم متحد ہو کر اس استحصالی نظام کو تبدیل کرنے کی کوشش کریں۔ اگر سب ملکر جدوجہد نہیں کریں گے تو یہ نظام اسی طرح ان سب کا استحصال کرتا رہے گا اور  غریب ممالک کے اربوں ڈالر ہر سال ہڑپ ہوتے رہیں گے۔ عوام حکومت کو اور حکومت حالات کو قصور وار ٹھہراتی رہی گی۔
خبر کا کوڈ : 918454
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش