QR CodeQR Code

لائن آف کنٹرول پر سیز فائر پر تازہ اتفاق

7 Mar 2021 20:23

اسلام ٹائمز: آرپار سرحدوں پر مکین لوگوں نے اس معاہدے کو خوش آئند اور خوشگوار کہا ہے، کیونکہ ہر صورت میں ان سرحدات پر گولہ باری سے یہی لوگ نشانہ بنتے ہیں اور انکے جان و مال کا زیاں روزمرہ کی بات ہوچکی تھی۔ انہوں نے یقینی طور پر اطمینان اور راحت کی سانس لی ہوگی اور اسکے ساتھ ہی آر پار امن اور امان کی خواہش رکھنے والوں نے بھی اس معاہدے کو سراہا ہے، لیکن ان سب باتوں کے باوجود اس معاہدے کی عمر کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جاسکتی، کیونکہ بنیادی طور پر "کشمیر" کا ناسور اپنی جگہ پر موجود ہے، جسکو ایڈریس کئے بغیر شاید اس برصغیر میں امن کا دیرپا خواب نہیں دیکھا جاسکتا ہے۔


رپورٹ: جے اے رضوی

22 فروری کو بھارت پاکستان کی افواج کے ڈائریکٹر جنرلز آف ملٹری آپریشنز نے ہاٹ لائن پر بات چیت کی، جس کے بعد دونوں طرف سے 2003ء کے سیز فائر معاہدے پر جلد سے جلد عمل درآمد کرنے کا اعادہ کیا گیا۔ ایک طرف جہاں جموں و کشمیر کی مین اسٹریم و آزادی پسند سیاسی جماعتوں کی جانب سے اس کا خیرمقدم کیا گیا ہے، وہیں دوسری طرف لائن آف کنٹرول کے دونوں اطراف کی عام عوام کے دلوں میں امید کی ایک کرن جاگی ہے، کیونکہ اس معاہدہ کے طفیل اب یہ امید پیدا ہوگئی ہے کہ کم از کم بھارت و پاک سرحدوں پر سکون لوٹ آئے گا اور سرحدی آبادی کو طویل عرصہ بعد چین سے سونے کا موقعہ میسر آئے گا۔ سرحدی آبادی اب کئی برسوں سے توپ کی رسد بن چکی تھی اور آئے روز کی گولہ باری سے سرحدی آبادی کا جینا دوبھر ہوچکا تھا۔ گذشتہ دو ایک برسوں کے دوران جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کے معاملات کے سارے پرانے ریکارڈ ٹوٹ چکے تھے اور اب ایسا لگ رہا تھا کہ آمنے سامنے نہ سہی، لیکن سرحدوں پر سرد جنگ چل رہی ہے، جس کی رفتار مدہم ہی سہی لیکن یہ جنگ دونوں جانب نہتے عوام کو نگل رہی تھی۔

ایک زمانہ ایسا تھا کہ جب سرحدوں پر سیز فائر معاہدہ کی خلاف ورزی کا ایک بھی واقعہ پیش نہیں آتا تھا۔ 26 نومبر 2003ء کو سیز فائر معاہدہ عمل میں آیا تو اس کے بعد مسلسل تین برسوں تک سرحدوں پر بندوقیں خاموش رہیں اور 2004ء، 2005ء اور 2006ء میں ایک بھی خلاف ورزی کا واقعہ پیش نہ آیا۔ یہ وہ دور تھا جب واجپائی اور مشرف کے درمیان مذاکراتی عمل اپنی انتہاء پر تھا۔ بھارت و پاکستان کے تعلقات میں کشیدگی کا گراف جوں جوں بڑھتا گیا، سرحدی کشیدگی بھی بڑھتی گئی اور 2014ء میں سرحدی سیز فائر خلاف ورزیوں کی تعداد 583 اور 2015ء میں 405 تک پہنچ گئی۔ 2014ء کے بعد سے سرحدیں عملی طور آگ برسا رہی ہیں اور آہنی گولہ باری ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ 2016ء میں سرحدی گولہ باری کے 500 سے زیادہ واقعات پیش آئے جبکہ 2017ء میں یہ تعداد 971 تک پہنچ گئی اور 2018ء میں کشیدگی کی اُس وقت حد ہی ہوگئی جب یہ تعداد 3 ہزار تک پہنچ گئی۔ 2019ء میں اس میں مزید اضافہ ہوا ہے اور مرکزی وزارت دفاع و داخلہ کے مطابق سال رفتہ میں اس معاہدے کی خلاف ورزیوں کے 3200 سے زائد واقعات ریکارڈ کئے گئے ہیں۔

جہاں تک سال رفتہ کا تعلق ہے تو ایسی خلاف ورزیوں کے سارے سابقہ ریکارڈ ٹوٹ گئے اور اب تو کسی ایک مخصوص سیکٹر میں ہی سرحدی گولہ باری نہیں ہوتی تھی بلکہ کشمیر سے جموں صوبہ تک بین الاقوامی سرحد اور لائن آف کنٹرول پر بیک وقت کئی محاذ کھول دیئے جاتے تھے، جہاں دونوں طرف کی افواج زمین دوز بنکروں میں گولے داغ کر شہری آبادی کا ناک میں دم کئے ہوتی تھیں۔ صورتحال کی سنگینی کا یہ عالم تھا کہ 2003ء کے سیز فائر معاہدہ کے بعد 2020ء کو اس معاہدہ کی خلاف ورزیوں کے لئے سب سے بدترین سال قرار دیا گیا، جس دوران سیز فائر معاہدہ کی خلاف ورزیوں کے واقعات میں تین گنا اضافہ ہوا جبکہ گذشتہ تین برسوں کے دوران اس میں مجموعی طور 6 گنا اضافہ ہوا ہے۔ بھارتی پارلیمنٹ میں وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ 2019ء میں ایل او سی پر 3479 جبکہ سال 2020ء میں 5133 مرتبہ سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزی کی گئی۔ یہ پچھلی دو دہائیوں میں ریکارڈ اضافہ تھا۔ ایل او سی پر گولہ باری کے دوران ہمیشہ جو دلچسپ مرحلہ دیکھنے کو ملتا ہے، وہ یہ کہ دونوں ایک دوسرے کو پہل کے لئے مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔

ڈی جی لیول کی ہاٹ ٹاک پہلے بھی کئی بار ہوتی رہی ہیں لیکن کچھ عرصہ بعد دونوں اطراف سے لائن آف کنٹرول پر گولہ باری شروع ہو جاتی ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ جموں و کشمیر ایشو کا اصل حل دونوں ممالک کے مابین سیاسی مذاکرات کا فقدان ہے۔ سرحد پر گولہ باری کئی بار اتنی شدت اختیار کر جاتی ہے کہ دونوں طرف ملٹری نقصانات کے علاوہ سویلین نقصان بھی بھاری تعداد میں ہوتا ہے، یہاں تک کہ گھروں کے گھر اجڑ جاتے ہیں۔ مال مویشی، املاک اور سویلین بھی اس کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان پہلے بھی ایسے عزم کا اعادہ کیا جاتا رہا ہے، لیکن کوئی نہ کوئی ایسی وجہ آڑے آجاتی ہے، جو اس سلسلے کو آگے نہیں بڑھنے دیتی۔ 2013ء میں پاکستان میں انتخابات کے بعد نئی حکومت بنی۔ اس کے بعد ڈی جی ایم اوز کی "ون ٹو ون" ملاقات ہوئی۔ اسکو بڑا خوش آئند بھی سمجھا گیا لیکن چونکہ اگلے 2014ء میں بھارت میں نئے الیکشنز ہوئے، جس سے حکومت بدلی اور اب تک حالات معمول پر نہیں آئے۔

مودی حکومت کا پاکستان کے تئیں جارحانہ رویہ، بالاکوٹ حملہ اور اس کے بعد پلوامہ حملہ، بھارت کی طرف سے سرجیکل اسٹرائیک اور نئی دہلی کی طرف سے جموں و کشمیر کی خصوصی پوزیشن ختم کرنا وہ عناصر تھے، جن سے دونوں ملکوں کی تلخیوں میں اضافہ ہی ہوتا چلا گیا۔ حالیہ ہاٹ ٹاک کو اس لئے خوش آئند اور امید کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے، کیونکہ جموں و کشمیر سے خصوصی پوزیشن کے خاتمے کے بعد امن کی طرف بھارت اور پاکستان کا یہ پہلا قدم ہے۔ 5 اگست 2019ء کے بعد سے دونوں ممالک کے مابین تلخی شدید بڑھی تھی، یہاں تک پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ دفعہ 370 کی بحالی تک مودی حکومت سے بات چیت نہیں ہوسکتی۔ دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد الحاق ہندوستان کی حامی سیاسی جماعتیں بھی آن بورڈ نہیں لی گئیں، انہیں بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیلا گیا۔ ڈیڑھ سال تک جموں و کشمیر میں انٹرنیٹ سروسز معطل رہیں۔

مذکورہ حالیہ ٹاک اس لئے توجہ کا مرکز بن گئی ہے کیونکہ 5 اگست 2019ء کے بعد دونوں ممالک کی طرف سے یہ پہلا خوشگوار اعلان ہے۔ بھارت اور پاکستان جب بھی مذاکرات کی میز پر آنے کی بات کرتے ہیں تو سرحد کے دونوں طرف جموں و کشمیر کی عوام اس پر بڑی دلچسپی سے کان دھرتے ہیں کہ شاید کوئی بات بنتی نظر آئے۔ جموں و کشمیر کی سیاسی قیادت و عوام نے ہمیشہ ہند پاک مذاکرات کا خیر مقدم کیا ہے، یہاں تک کہ مختلف سیاسی قیادت (مین اسٹریم و علیحدگی) میں کتنے ہی اختلافات کیوں نہ ہوں، لیکن بھارت پاک مذاکرات کے سب حامی ہیں۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان یہ اعلان ایک ایسے وقت میں ہوا ہے، جب کچھ دن پہلے لائن آف ایکچول کنٹرول پر بھی بھارت اور چین اپنی فوجیں واپس لینے پر متفق ہوگئے ہیں۔ دونوں ممالک کی افواج کی طرف سے اس اعلان کو کسی بڑی پیشرفت سے تشبیہ دینا فی الحال بعید از قیاس ہوگا، کیونکہ یہ دونوں ممالک کی "آرمی ٹو آرمی" ٹاک ہے۔ پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف بھی کسی قسم کی بیک ڈور ڈپلومیسی کے دعوؤں کو رد کرچکے ہیں۔

وقتی طور پر ایل او سی پر بسنے والے غریب عوام کو اس سے راحت ضرور ملے گی اور وہ چین کی سانس ضرور لیں گے، کیونکہ بھارت و پاک کی اس کشیدگی کا خمیازہ آر پار جموں و کشمیر کی عوام کو ہی بھگتنا پڑ رہا تھا اور ایل او سی کے دونوں جانب عام لوگ اس بھارت و پاکستان کشیدگی میں توپ کی رسد بن رہے تھے اور یوں اگر کسی کو امن کی سب سے زیادہ ضرورت تھی تو وہ کشمیری عوام ہی تھے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ کشمیری عوام نے ہی اس تازہ معاہدہ کا سب سے خیرمقدم کیا ہے، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس معاہدہ کا سب سے زیادہ فائدہ ہی کشمیری عوام کو ہی ملے گا۔ تاہم مسئلہ کشمیر کے کسی پائیدار حل کے لئے دونوں ممالک کے مابین سیاسی ڈائیلاگ کا شروع کیا جانا نہایت ہی اہم ہے۔ ایل او سی پر مستقل فائر بندی تبھی ممکن ہوسکے گی، جب تینوں فریقین مل بیٹھ کر اس سیاسی مسئلے کا کوئی سیاسی حل تلاش کریں گے۔

امید کی جانی چاہیئے کہ یہ معاہدہ دیر پا ثابت ہوگا اور اس معاہدہ کے طفیل دو طرفہ تعلقات کو معمول پر لانے کا ایک سلسلہ چل پڑے گا، جس سے یقینی طور پر اعتماد سازی کی فضاء قائم ہوسکتی ہے، جس کے ثمرات دونوں جانب کروڑوں عوام کو یقینی طور پر ملیں گے، جو اب برسہا برس سے امن کے متلاشی ہیں۔ ادھر سرینگر میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے لیفٹینینٹ جنرل بی ایس راجو نے کہا ہے کہ ہم جنگ بندی کو یقینی بنانے کے لئے بہترین اور سخت کوششیں کریں گے اور کسی بھی جلد بازی کا مظاہرہ نہیں کریں گے۔ انہوں نے یہ بھی اشارہ دیا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان ہاٹ لائن موجود ہے اور اس پر رابطہ برقرا رکھا جائے گا اور یہ بھی امید ظاہر کی کہ پاکستان کے فوجی افسران بھی اس سے کامیاب بنانے کی کوششیں کریں گے۔ آگے انہوں نے اس معاہدے سے متعلق امید ظاہر کی کہ اس سے جنگوؤں کی کشمیر آمد رک جائے گی اور اس طرح سے ہم دراندازی سے محفوظ ہوجائیں گے۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ سرنگوں کے ذریعے ہتھیار اور جنگجوؤں کو روکا جائے گا۔

ان سب باتوں سے یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں کہ بات چیت تفصیل کے ساتھ اور ہر پہلو کو مدنظر رکھ کی گئی ہے اور دونوں ممالک کی طرف سے بیک ڈور چینل میں موجود نمائندوں نے ایک اچھا خاصا لائحہ عمل بھی ترتیب دیا ہے، جس پر آر پار کی افواج نے ہری جھنڈی دکھائی ہے اور دونوں ممالک اتفاق کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس سے یہاں تک پہنچانے میں کافی وقت لگا ہوگا۔ بہرحال آرپار سرحدوں پر مکین لوگوں نے اس معاہدے کو خوش آئند اور خوشگوار کہا ہے، کیونکہ ہر صورت میں ان سرحدات پر گولہ باری سے یہی لوگ نشانہ بنتے ہیں اور ان کے جان و مال کا زیاں روز مرہ کی بات ہوچکی تھی۔ انہوں نے یقینی طور پر اطمینان اور راحت کی سانس لی ہوگی اور اس کے ساتھ ہی آر پار امن اور امان کی خواہش رکھنے والوں نے بھی اس معاہدے کو سراہا ہے، لیکن ان سب باتوں کے باوجود اس معاہدے کی عمر کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جاسکتی، کیونکہ بنیادی طور پر "کشمیر" کا ناسور اپنی جگہ پر موجود ہے، جس کو ایڈریس کئے بغیر شاید اس برصغیر میں امن کا دیرپا خواب نہیں دیکھا جاسکتا ہے۔


خبر کا کوڈ: 918580

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/918580/لائن-ا-ف-کنٹرول-پر-سیز-فائر-تازہ-اتفاق

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org