1
Saturday 27 Feb 2021 21:19

جو بائیڈن داعش اور تل ابیب کے شانہ بشانہ

جو بائیڈن داعش اور تل ابیب کے شانہ بشانہ
تحریر: ڈاکٹر سید رضا میر طاہر
 
شام اور عراق میں جب تکفیری دہشت گرد گروہ داعش نے جنم لیا اور اس کی دہشت گردانہ سرگرمیاں عروج تک جا پہنچیں تو امریکہ نے انتہائی درجہ منافقت اختیار کرتے ہوئے داعش کے خاتمے کیلئے بین الاقوامی فوجی اتحاد تشکیل دینے کا اعلان کر دیا۔ منافقت کا لفظ اس لئے استعمال کیا گیا ہے کہ خود اعلی سطحی امریکی حکومتی عہدیداروں کے واضح اعترافات کی روشنی میں تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کی تشکیل میں امریکہ نے ہی بنیادی کردار ادا کیا تھا۔ اور جب یہ گروہ وسیع علاقوں پر قابض ہو کر بیگناہ انسانوں کے قتل عام میں مصروف ہو گیا تو امریکہ نے خود ہی دہشت گردی کے خلاف جنگ کا علمبردار بن کے داعش کے خلاف فوجی اتحاد تشکیل دینے کا اعلان کر دیا۔
 
2014ء میں امریکہ نے داعش کے خاتمے کے بہانے اپنی فوجیں شام میں داخل کر دیں۔ جب 2018ء میں شام آرمی اور سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس فورس کی مرکزیت میں تشکیل پانے والی عوامی رضاکار فورس نے اس ملک سے داعش کے قبضے کا خاتمہ کر دیا تو شام حکومت نے امریکہ کو اپنے ملک سے فوجیں واپس بلا لینے کا مطالبہ کر دیا۔ شام حکومت کے اس قانونی مطالبے کے باوجود امریکہ نے اب تک شام میں غیر قانونی طور پر اپنی فوجی موجودگی برقرار رکھی ہوئی ہے۔ امریکہ نے نہ صرف شام سے فوجی انخلاء انجام نہیں دیا بلکہ تکفیری دہشت گروہ داعش کی ایئرفورس کا کردار ادا کیا ہے۔ اب تک امریکہ متعدد بار داعش کے خلاف سرگرم شام آرمی اور عوامی رضاکار فورسز کو ہوائی حملوں کا نشانہ بنا چکا ہے۔
 
جو بائیڈن نے اپنی صدارتی مہم کے دوران شام اور عراق سے متعلق ٹرمپ پالیسی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور توقع کی جا رہی تھی کہ وہ برسراقتدار آ کر کچھ حد تک عاقلانہ رویہ اختیار کریں گے۔ لیکن جمعرات 25 فروری کے روز جو بائیڈن حکومت کے ابتدائی ایام میں ہی امریکہ نے شام میں ایک بار پھر تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کے خلاف برسرپیکار عوامی رضاکار فورس کے ٹھکانوں کو ہوائی حملوں کا نشانہ بنا ڈالا ہے۔ امریکی وزارت دفاع پینٹاگون کی جانب سے جاری کردہ بیانیے کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن کے براہ راست حکم پر شام کے مشرقی حصے میں اسلامی مزاحمتی فورسز کے ٹھکانوں کو ہوائی حملوں کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
 
پینٹاگون کے جاری کردہ بیانیے میں کہا گیا ہے: "امریکی مسلح افواج نے صدر جو بائیڈن کے حکم پر جمعرات (25 فروری) کی سہ پہر شام کے مشرقی حصے میں ایران کے حمایت یافتہ گروہوں کے زیر استعمال ٹھکانوں کو چند ہوائی حملوں کا نشانہ بنایا ہے۔" بیانیے میں مزید کہا گیا: "امریکی صدر جو بائیڈن امریکی اور اس کی اتحادی فورسز کی حفاظت کیلئے اقدامات انجام دیں گے۔ ساتھ ہی ہمارا یہ اقدام ایک سوچا سمجھا ردعمل تھا جس کا مقصد شام کے مشرقی حصے اور عراق میں موجود تناو کی شدت میں کمی لانا تھا۔" یوں محسوس ہوتا ہے کہ جو بائیڈن کے براہ راست حکم پر انجام پانے والے اس اقدام کے درج ذیل اہداف و مقاصد تھے:
 
1)۔ واشنگٹن کا خیال ہے کہ اس اقدام کے ذریعے اس نے عراق میں اپنے فوجی اڈوں خاص طور پر اربیل ایئرپورٹ پر انجام پانے والے حملوں کا موثر جواب دے دیا ہے۔ عراق میں اپنے فوجی مراکز پر حملوں کے بعد امریکہ نے ان کا الزام ایران کے حمایت یافتہ گروہوں پر عائد کیا تھا اور شدید ردعمل کی دھمکی دی تھی۔ دوسری طرف ایران نے واضح الفاظ میں اربیل ایئرپورٹ پر ہونے والے حملے کی مذمت کی تھی اور اسے ایک ایسا مشکوک اقدام انجام دیا تھا جو امریکہ نے خود ہی عراق میں اپنی فوجی موجودگی برقرار رکھنے کیلئے انجام دیا ہے۔ دوسری طرف امریکہ عراق میں بھی داعش کی مدد میں مصروف ہے۔ عراق کے اعلی سطحی سکیورٹی عہدیدار موید العلی کا کہنا ہے کہ امریکی فوج اپنے ڈرون طیاروں سے حاصل شدہ معلومات داعش سے وابستہ تکفیری عناصر کو فراہم کر رہی ہے۔
 
2)۔ اس فضائی حملے سے امریکہ کا دوسرا مقصد اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کی حمایت کا اعلان کرنا اور اسلامی مزاحمت سے وابستہ فورسز کو شام سے مکمل طور پر نکل جانے پر مجبور کرنا ہے۔ تل ابیب گذشتہ ایک عرصے سے شام کے مختلف حصوں میں اسلامی مزاحمت سے وابستہ فورسز کے ٹھکانوں کو ہوائی حملوں کا نشانہ بناتا آیا ہے۔ اس وقت بعض حلقوں کی جانب سے بنجمن نیتن یاہو اور جو بائیڈن میں اختلافات پائے جانے کا تصور پیش کرنے کے باوجود امریکی حکومت نے اس ہوائی حملے سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ماضی کی طرح اب بھی غاصب صہیونی رژیم کی قومی سلامتی اور مفادات امریکہ کی پہلی ترجیح ہیں۔ اس وقت جو بائیڈن مکمل طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کے نقش قدم پر گامزن ہیں۔
خبر کا کوڈ : 918741
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش